ٹیکناجی اور طب کا ادغام – جدید تحقیق کی روشنی میں

ٹیکناجی اور طب کا ادغام – جدید تحقیق کی روشنی میں
(محمود احمد ملک)

دنیابھر میں ہمہ وقت ہر علمی شعبے میں تحقیق کا سلسلہ جاری ہے- ذیل میں ایسی صرف چند رپورٹس پیش ہیں جن سے قارئین کو اندازہ ہوسکتا ہے کہ آئندہ چند سال کے بعد طب کے شعبے میں ٹیکنالوجی کی مدد سے جو ترقی کی منازل طے کرلی جائیں گی ان کے نتیجے میں مخلوق کی بہتری کے غیرمعمولی سامان ہوسکیں گے-

٭ کینیڈا کے ایک بائیوکیمیکل انجینئر نے آنکھوں کے لئے ایسے Contact Lenses تیار کئے ہیں جو جسم کے اندر، خون میں موجود، شوگر کی تبدیل ہوتی ہوئی سطح کی نشاندہی کرسکیں گے۔ چنانچہ ذیابیطس کے مریضوں کو اپنا خون نکالے بغیر ہی اپنی آنکھ کے لینز کا رنگ دیکھ کر، خون میں اپنی شوگر کی سطح معلوم ہوسکے گی۔ خون میں شوگر کی سطح میں کمی یا زیادتی سے اِن لینزز کا رنگ تبدیل ہوجائے گا کیونکہ اِن کی تیاری میں ایسے کیمیائی مادے استعمال کئے گئے ہیں جو آنکھوں کو نقصان پہنچائے بغیر آنسوؤں میں موجود گلوکوز کے ساتھ مل کر، لینز کا رنگ تبدیل کرسکیں گے۔
٭ ریڑھ کی ہڈی کے مریضوں کے لئے نینوٹیکنالوجی کے ذریعے علاج کو مستقبل میں ایک اہم پیش رفت کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کو طبّی مقاصد کے لئے استعمال کرنے سے متعلق تیار کی جانے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ریڑھ کی ہڈی پر چوٹ آنے کی صورت میں ہونے والے بیشتر قسم کے فالج کی علامات بھی اس کے ذریعے ختم کی جاسکتی ہیں۔ یہ رپورٹ واشنگٹن میں منعقد ہونے والے ایک فورم میں پیش کی گئی ہے۔ اس ٹیکنالوجی میں مادے کو ایٹم یا مالیکیول کی سطح پر استعمال کرکے مریض پر نتائج حاصل کئے جاتے ہیں۔ توقع ہے کہ بعض دیگر اعضاء اور مسلز میں ہونے والے نقصان کا ازالہ بھی اس ٹیکنالوجی کے ذریعہ بہت حد تک ممکن ہوسکے گا۔ مثلاً دل کے حملے یا فالج کی صورت میں دل کو پہنچنے والے نقصان کے علاوہ ہڈیوں اور دانتوں کے نقصان نیز ذیابیطس اور پارکنسن کی بیماری کی صورت میں نینوٹیکنالوجی سے علاج زیادہ بہتر نتائج پیدا کرے گا۔ اس علاج کے دوران ایسے مالیکیولز خاص طور پر پیدا کئے جائیں گے جنہیں نقصان پہنچنے والے اعضاء یا مسلز کی مرمّت کے لئے استعمال کیا جائے گا۔ کیونکہ بعض اعضاء اور مسلز کو اگر نقصان پہنچ جائے تو قدرتی طور پر اس کا کوئی علاج نہیں ہے تاہم اب نینوٹیکنالوجی کے ذریعے اس علاج کی صورت پیدا ہوجائے گی۔
٭ ایک تحقیق کے مطابق مینڈک کے انڈوں میں پائے جانے والے ایک مصنوعی مرکب سے دماغی رسولی کا علاج کیا جاسکتا ہے۔ برطانوی اور امریکی سائنسدانوں کے مطابق یہ مرکب Amphinase کہلاتا ہے اور دیکھا گیا ہے کہ یہ رسولی پر موجود چینی کی ایک تہہ کو پہچان کر اُس پر حملہ آور ہوتا ہے اور اسے مضبوتی سے پکڑ کر اُس میں داخل ہوکر اُسے ماردیتا ہے۔ مالیکیولر بیالوجی پیپر کے جرنل میں توقع کا اظہار کیا گیا ہے کہ یہ مرکب کئی قسم کے کینسرز کے علاج میں مفید ثابت ہوسکتا ہے۔ البتہ یونیورسٹی آف باتھ کے محققین کو یقین ہے کہ یہ مرکب دماغی رسولی کے لئے بہترین ہے جس کا علاج سرجری اور کیموتھراپی سے ہی ممکن ہوسکتا ہے۔ اس مرکب کو تیار کرنا بھی زیادہ مشکل نہیں ہے اور دماغی رسولی پر اس کے اثرات غیرمعملی دیکھے گئے ہیں جبکہ دیگر خلیات یا جسم کے دوسرے حصوں کے لئے یہ بے اثر دکھائی دیتا ہے۔
٭ امریکی ریاست کیلی فورنیا میں واقع ایک پرائیویٹ تحقیقی ادارے نے ایک سائنسی رسالے ’’سٹیم سیلز‘‘ میں اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ انہوں نے کلوننگ ٹیکنالوجی کے ذریعے پانچ انسانی ایمبریو تخلیق کرنے میںکامیابی حاصل کرلی ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق انہوں نے دو مردوں کی جِلد سے لئے جانے والے خُلیے انسانی بیضوں کے ساتھ بارآور کروائے۔ سائنسدانوں نے جینیاتی تجزیے سے اب معلوم کیا ہے کہ کم از کم تین خُلیے ہوبہو کلون ہیں جبکہ بقیہ دو خُلیوں کے جینیاتی مادے کی اتنی نشوونما نہیں ہوئی تھی کہ ان کا تفصیلی جائزہ لیا جاسکتا۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ ان کے ذریعے پارکنسن اور الزائمر نیز خون کی بیماری سِکل سیل انیمیا جیسی پیچیدہ بیماریوں کا علاج کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
٭ 2007ء میں طب کے شعبے میں نوبیل انعام حاصل کرنے والے تین امریکی سائنسدانوں نے جینیاتی تبدیلیوں سے چوہوں کی ایک خاص قسم کی نسل تیار کی تھی جس کی مدد سے جینیاتی تحقیق میں بہت آسانی ہوگئی ہے۔ ان مخصوص جینز کے حامل چوہوں کو ’’ناک آؤٹ چوہے ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اور پارکنسن بیماری کا علاج تلاش کرنے والے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اِن چوہوں کی بدولت اُن کی تحقیق میں نمایاں پیش رفت ممکن ہوسکی ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں