اداریہ: پیغام رسانی

(مطبوعہ سہ ماہی اسماعیل جنوری تا مارچ 2013ء)

اداریہ: پیغام رسانی

پیارے بھائیو!

پیغام رسانی کا سلسلہ ازل سے جاری ہے اور آج بھی فون، فیکس، انٹرنیٹ اور دیگرایجادات کے باوجود ہم کسی نہ کسی وقت، کسی کا پیغام کسی دوسرے کو براہ راست پہنچانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ ایک پیغام کی افادیت اُسی حد تک ہوتی ہے جس حد تک وہ پیغام اپنی اصل صورت میں دوسروں تک پہنچ سکتا ہے۔ اور یہ بھی کہ پیغام کی افادیت کے پیش نظر اُسی قدر محتاط طرزعمل بھی اختیار کیا جاتا ہے۔ چنانچہ اس پہلو سے پیغام رساں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
اللہ تعالیٰ جب اپنے پیغمبروں کے ذریعے اپنا پیغام بنی نوع انسان تک پہنچاتا ہے تو تمام انبیاء یہ فرض اس قدر جانفشانی سے ادا کرتے ہیں کہ اس راستہ میں آنے والی ہر تکلیف کو نہایت صبر اور خندہ پیشانی سے برداشت کرتے ہوئے انتہائی جرأت کے ساتھ یہ فریضہ ادا کرتے چلے جاتے ہیں۔ چنانچہ اس سعی پیہم اور استقامت کے نتیجہ میں متقیوں کی ایک جماعت اُس نبی کو عطا کی جاتی ہے۔ مومنین کی یہ جماعت نہ صرف بے مثال اطاعت کی روح اپنے اندر رکھتی ہے بلکہ اس کا عمل بھی اپنے قول سے مطابقت رکھتا ہے۔ یعنی وہ جن اخلاق کا زبان سے پرچار کرتے ہیں، انہیں اپنی زندگیوں پر بھی نافذ کرکے دکھاتے ہیں۔ چنانچہ اُن مومنین کا تقویٰ اور عمل صالح خدا تعالیٰ کی رحمت کو جوش دلاتا ہے اور نبی کی وفات کے بعد متقیوں کی اس جماعت کو خلافت جیسا نہایت عظیم الشان انعام عطا کیا جاتا ہے۔ تاریخ اس امر پر گواہ ہے کہ جن قوموں کو آسمانی خلافت عطا کی گئی، اُن کی نہ صرف دینی بلکہ دنیاوی ترقیات کے لئے بھی غیرمعمولی راہنمائی میسر آتی رہی۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اس انعام کی حقدار وہی قومیں ٹھہرتی ہیں جو خدا تعالیٰ کے پیغام کو نہ صرف اپنی ذاتی زندگیوں میں عملی طور پر نافذ کرتی ہیں بلکہ اس پیغام کی وسیع تر اشاعت کے لئے بھی ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے تیار رہتی ہیں۔
ہم واقفین زندگی بھی اس عہد کے ساتھ میدانِ عمل میں داخل ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والے اسلام احمدیت کے پیغام کو نہ صرف ذاتی طور پر اپنی اخلاقی اور روحانی ترقیات کا ذریعہ بنائیں گے بلکہ خلیفۂ وقت کی راہنمائی میں، اطاعت کا لبادہ اوڑھے ہوئے، ایک اچھے پیغام رساں کے طور پر اس خوبصورت پیغام کی اشاعت کے لئے ہر قسم کی قربانی کے لئے ہمہ وقت تیار رہیں گے۔ پس ہمیں یہ پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ جس پیغام کی اشاعت اور ترویج کے لئے ہم نے اپنی زندگیوں کو پیش کیا ہے، کیا ہم اُس پیغام کو سمجھتے بھی ہیں یا نہیں؟ کیا ہم قرآن کریم کے اس پیغام کو سمجھنے کے لئے آنحضرت ﷺ کی سنّت مبارکہ پر غور کرتے ہیں؟ کیا ہم احادیث نبوی ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام کا مطالعہ کرتے ہیں؟ کیا ہم اس پیغام کی تبلیغ کا حق ادا کرنے کے لئے خلیفۂ وقت کے خطبات کو سنتے اور اُن پر غور کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟ کیا ہم واقعی خود کو ایک واقف زندگی بچے، ایک واقف زندگی نوجوان اور ایک واقف زندگی انسان کے طور پر محسوس کرسکتے ہیں اور اس احساس کی روشنی میں اپنے کردار پر فخر کرسکتے ہیں!۔
اللہ تعالیٰ ہمیں کامیاب پیغام رسانی کا ایک ذریعہ بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

محمود احمد ملک

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں