کاؤنٹ لیوٹالسٹائی اور جماعت احمدیہ

عظیم روسی مصنف ٹالسٹائی اور اُس کی تصانیف کے بارہ میں قبل ازیں ہفت روزہ ’’الفضل انٹرنیشنل‘‘ یکم ستمبر 2000ء اور27؍اپریل 2001ء کے ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ میں مضامین شائع ہوچکے ہیں۔ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 20؍مارچ 2007ء میں ’’ٹالسٹائی اور جماعت احمدیہ‘‘ کے عنوان سے مکرم مرزا خلیل احمد قمر صاحب کا ایک تفصیلی مضمون شائع ہوا ہے۔
لیوٹالسٹائی نے مارکسی نظریات کو دنیا میں پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا لیکن آخرکار وہ اسلام سے متأثر ہوا۔ اُس نے سب سے پہلے عبداﷲ سہروردی کی تصنیف ’’منتخب احادیث‘‘ کا مطالعہ کیا تھا اور اس سے متأثر ہوکر مزید اسلامی لٹریچر کا مطالعہ کرکے وہ آنحضرتﷺ کی صداقت اور اسلام کی حقانیت کا معترف ہوا۔
لیوٹالسٹائی 28؍اگست 1828ء کو بولینا کے علاقہ باسانیا کے شہر میں ایک معمولی خاندان میں پیدا ہوا۔ اس کی ماں بچپن میں فوت ہوگئی اور ابھی نو سال کا تھا تو والد کا بھی انتقال ہوگیا۔ پھوپھی نے اُس کی پرورش کی۔ 1844ء میں وہ قازان یونیورسٹی میں مشرقی زبانوں کی تعلیم حاصل کرنے لگا مگر وہ اپنی تعلیم جاری نہ رکھ سکا اور 1851ء میں قفاسیا جاکر ایک ملٹری اکیڈمی میں داخل ہوگیا۔ 1854ء میں ترکوں کے خلاف جنگ میں اُس نے حصہ لیا جس میں روس کو شکست ہوئی اور 1856ء میں اُس نے فوج کو خیرباد کہہ دیا۔ 1857ء تا 1861ء کے دوران اُس نے جرمنی، برطانیہ، سوئٹزرلینڈ اور بیلجیم کی سیروسیاحت کی اور مفکروں، ادیبوں اور دانشوروں سے ملاقات کی۔ 1861ء میں اس نے روس کے ایک مشہور طبیب کی بیٹی سے شادی کی۔ پھر اُس کی متواتر کتب نے عوام میں ایک انقلاب پیدا کردیا۔ اِن کتب سے اُس کے بدلتے ہوئے مذہبی خیالات کی بھی عکاسی ہوتی ہے۔ 20؍ نومبر 1910ء کو اسٹافو کے ریلوے اسٹیشن کے ایک کمرہ میں اُس کی وفات ہوئی۔

Leo Tolstoy

لیو ٹالسٹائی نے ادب میں اتنی شہرت پائی کہ اس کی زندگی میں ہی برٹش انسائیکلو پیڈیا کی جلد 33 میں اُس کے حالات اور نظریات کی تفصیل شائع ہوگئی۔
حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے ٹالسٹائی کے مذہبی خیالات اور نظریات کا علم ہونے پر اُس کو حضرت مسیح موعودؑ کے دعویٰ کے بارہ میں 3؍اپریل 1903ء کو ایک خط لکھا کہ: میں نے آپ کے مذہبی خیالات پڑھے ہیں۔ مجھے بہت خوشی ہوئی ہے کہ یورپ اور امریکہ کے ممالک پر جو تاریکی تثلیث نے ڈال رکھی ہے ،اس کے درمیا ن کہیں کہیں خالص موتی بھی پائے جاتے ہیں جوکہ خدائے قادر ازلی ابدی ایک سچے معبو دکے جلال کے اظہار کے لئے جھک رہے ہیں۔ سچی خوشحالی اور دعا کے متعلق آپ کے خیالات بالکل ایسے ہیں جیسے کہ ایک مومن مسلمان کے ہونے چاہئیں۔میں آپ کے ساتھ ان باتوں میں بالکل متفق ہوں کہ عیسیٰ مسیحؑ ایک روحانی معلم تھا۔ (اس کے بعد قبر مسیح کا ذکر کیا اور پھر لکھا:) اس تحقیقات کا اشتہار حضرت مرزا غلام احمدصاحب نے کیا ہے جوکہ توحید الٰہی کے سب سے بڑھ کر محافظ ہیں اور جن کو خدائے قادر کی طرف سے مسیح موعود ہونے کا خطاب عطا کیا گیا ہے۔ … وہ سب جو اس مسیح پر ایمان لائیں گے خدا کی طرف سے برکتیں پائیں گے۔ پر جو کوئی انکار کرے گا اس پر غیور خدا کا غضب بھڑکے گا۔ میں آپ کو ایک علیحدہ پیکٹ میں خدا کے اس مقدّس بندے کی تصویر بمعہ یسوعؔ کی قبر کی تصویر کے روانہ کرتا ہوں۔ آپ کا جو اب آنے پر میں بخوشی اَور کتابیں آپ کو ارسال کروں گا۔
ٹالسٹائی کی طرف سے اس خط کا 5؍جون کا لکھا ہوا جواب یہ ملا: آپ کا خط بمعہ مرزا غلام احمد ؑصاحب کی تصویر اور میگزین ریویو آف ریلیجنز کے پرچے کے ملا۔ وفات عیسیٰ کے ثبوت اور اس کی قبر کی تحقیقات میں مشغول ہونا بالکل بے فائدہ کوشش ہے۔ہمیں معقول مذہبی تعلیم کی ضرورت ہے اور اگر مرزا احمد صاحب کوئی نیا معقول مسئلہ پیش کریں گے تو میں بڑ ی خوشی سے اس سے فائدہ اٹھانے کے لئے تیار ہوں۔ میگزین میں مجھے دو مضمون بہت ہی پسند آئے یعنی گناہ سے کس طرح نجات مل سکتی ہے۔ اور آئندہ زندگی کے مضامین خصوصاً دوسرا مضمون مجھے بہت پسند آیا۔ نہایت ہی شاندار اور صداقت سے بھرے ہوئے خیالات ان مضامین میں ظاہر کئے گئے ہیں…۔
حضرت مفتی صاحبؓ نے اُسے دوبارہ تفصیل سے لکھا کہ مسیح کی کیا ضرورت ہے اور قبر مسیح ناصری کا مشتہر کرنا کس واسطے ضروری ہے۔ آپؓ کے ساتھ اُس نے اتفاق کیا اور بہاء اﷲ اور بابی مذہب کے متعلق دریافت کیا جس کا مفصل جواب اسے لکھا گیا۔
ٹالسٹائی کو ریویو کا جنوری 1902ء کا شمارہ بھجوایا گیا تھا جس میں یہ مضمون شامل تھا : How to get rid of the bondage of sin.۔
اس کے علاوہ مارچ، اپریل اور جون تا ستمبر کے شمارے بھجوائے گئے تھے جن میں’’اسلامی اصول کی فلاسفی ‘‘کا انگریزی ترجمہ قسط وار شائع ہوا تھا۔ ٹالسٹائی نے یہ مضمون پڑھ کر لکھا:The ideas are very profound and very True۔
ٹالسٹائی کو’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ کتابی صورت میں نہیں ملی تھی کیونکہ اس کا انگریزی ترجمہ 1910ء میں لندن سے شائع ہوا تھا۔
مولانا ظفر علی خاں کے والد منشی سراج الدین صاحب بانی اخبار ’’زمیندار‘‘ نے حضرت مفتی صاحبؓ اور ٹالسٹائی کی خط و کتابت کا ذکر کرنے کے بعد لکھا:
’’قرآن شریف کی تعلیم تو ساری معقول ہے امید ہے کہ مرزا صاحب اس کی معقولیت کاؤنٹ کے ذہن نشین کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ اکثر مسلمان مرزا صاحب کے مکفر یا سخت مخالف ہیں مگر یہ عجیب کفر ہے کہ اشاعت اسلام بھی کررہا ہے‘‘۔ (اخبار زمیندار 16اگست 1906ء)
اسی طرح ایڈیٹر اخبار ’’سینٹینل‘‘ رانچی لکھتے ہیں: ’’قادیان کے نور وبرکت کی حدبندی کرنے کی ضرورت نہیں۔ تمام دنیااس کو براہ راست یا بالواسطہ جانتی ہے۔ کچھ عرصہ بیشتر یہ مقام زاویہ گمنامی میں پڑا ہوا تھا لیکن اکسٹھ سال پہلے ایک روحانی کیفیت اس تہذیب کے لحاظ سے پسماندہ جگہ میں ظاہر ہوئی۔ اس کا ظہور مرزا غلام احمد کے وجود میں ہوا۔ کائونٹ ٹالسٹائی روسی مفکر بھی ان لوگوں میں تھے جو آپ کے افکار عالیہ سے سیراب ہوئے۔انہوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ جو شخص قادیان سے کلام کررہا ہے وہ کوئی معمولی فانی انسان نہیں۔ فی الحقیقت دنیا کے تمام مفکرین نے جن کو آپ کی کتب اور تعلیم کے مطالعہ کا موقعہ ملا آپ میں معجزہ اور حقیقی راحت واطمینان پایا۔ آپ نے دنیا پر ظاہر کیا کہ وہ خلیج جو خالق اور مخلوق کے درمیان وسیع ہوگئی اس کو پاٹنا آپ کی زندگی اور بعثت کا مقصد ہے۔ (14جولائی 1951ء)
ٹا لسٹائی کے ایک ڈاکٹر دوست ڈی بی ماکو فینسکی نے چھ برس ٹالسٹائی کے ساتھ گزارے۔ اس کی کتاب ’’ٹالسٹائی کے ساتھ گزارے ماہ وسال‘‘ (1904ء تا 1910ء) کی چار جلدیں ہیں جو 1979ء میں ماسکو سے شائع ہوئی۔ اس میں ٹالسٹائی کے افکار ونظریات کا تفصیل کے ساتھ ذکر موجود ہے۔ اس کا نظریہ ہے کہ مذاہب میں زندگی کے صاف ستھرے راستے متعین کئے گئے ہیں مگر بُعد زمانہ اور لوگوں نے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے ان کی شکل کو بگاڑدیا ہے۔
فینسکی لکھتا ہے: ’’13؍مارچ 1909ء کو ٹالسٹائی نے اپنے دوستوں کو کہا کہ میں نے ایک ایسی ماں کا خط وصول کیا ہے جس کا کہنا ہے کہ ’’اس کے بچوں کا باپ مسلمان ہے اوروہ عیسائی ہے اس کے دو بیٹے ہیں ایک طالب علم ہے اور دوسرا فوجی آفیسر اور دونوں ہی دین اسلام میں داخل ہونے کے لئے بضد ہیں‘‘۔ اس مقام پر روسی ادیبہ اندر یافنا کہتی ہے کہ ’’ممکن ہے کہ اس کے دونوں بیٹے اس لئے مسلمان ہونا چاہتے ہوں تاکہ شرعی طور پر ایک سے زائد شادیاں کرسکیں ‘‘۔ ٹالسٹائی جواباً کہتا ہے کہ اس میں کیا حرج ہے، ہمارے معاشرہ میں بھی ایک سے زائد شادیاں کی جاتی ہیں۔… مجھ پر یہ بات ظاہر ہوچکی ہے کہ محمد (ﷺ) عیسائیت سے بہت بلند ہیں …وہ انسا ن کو الہٰ کا درجہ نہیں دیتے اپنے اور الہٰ کے درمیان فرق رکھتے ہیں۔ مسلمان خود کہتے ہیں کہ اس کلمہ میں نہ کوئی کجی ہے اور نہ کوئی ترش راز‘‘۔
صوفیہ نے سوال کیا کہ کونسا دین افضل ہے عیسائیت یا اسلام ؟ تو ٹالسٹائی کا جواب تھا : ’’میری حد تک یہ امر واضح ہے کہ اسلام افضل ہے ہر لحاظ سے‘‘۔
اس کے بعد ایک طویل خاموشی کے بعد ٹالسٹائی نے کہا: ’’جب ہم عیسا ئیت اور اسلام کا موازنہ کرتے ہیں تو اسلام کو عیسائیت سے بلند اور ترقی یافتہ دین پاتے ہیں …اسلام نے میری بہت مدد کی ہے۔ ‘‘
ٹالسٹائی نے عبداﷲ سہر وردی کی کتاب ’’منتخب احادیث‘‘ سے احادیث مبارکہ پر مشتمل ایک مجموعہ بھی ترتیب دیا تھا۔ یہ کتاب 1909ء میں بوسریندک ادارہ نے شائع کی تھی۔ اگرچہ ٹالسٹائی کی تمام کتب بار بار شائع ہوتی رہیں اور دنیا کی بیشتر زبانوں میں تراجم بھی ہوتے رہے مگر یہ مجموعہ احادیث دوبارہ شائع نہیں ہوا۔ یہ کتاب 2005ء میں ترکی زبان میں ترجمہ ہوکر استنبول سے شائع ہوئی ہے۔
روسی فالاریا بروہوفا کے مطابق ٹالسٹائی نے مذہب پر غورو فکر کے نتیجہ کے بعد آخری عمر میں اسلام قبول کرلیا تھا۔ اس بات کا ثبوت اس طرح بھی ملتا ہے کہ ٹالسٹائی نے اپنی موت سے قبل وصیت کی تھی کہ اسے ایک مسلمان کی مانند دفن کیا جائے جس کا ثبوت یہ ہے کہ ٹالسٹائی کی قبر پر عیسائی عقیدے کے مطابق صلیب نہیں لگائی گئی تھی۔
ٹالسٹائی کی وفات کے بعد روس کیمونزم کے غلبہ کی طرف بڑھ رہا تھا۔ ٹالسٹائی کے نظریات سے متاثر ہوکر روسی کسان ہڑتالیں کررہے تھے اس لئے ٹالسٹائی کے قبول اسلام کی خبر کو چھپانے کے لئے روسی حکومت نے بہت کوشش کی۔ اسی لئے بعد میں آنے وا لی حکومتوں نے بھی ٹالسٹائی کے قبول اسلام کو چھپانے میں ہی عافیت سمجھی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں