کام جو کرتے ہیں تیری راہ میں ، پاتے ہیں جزا

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک شعر کا مصرعہ ہے: ’’کام جو کرتے ہیں تیری راہ میں پاتے ہیں جزا‘‘۔ اس حوالہ سے مکرم ابن کریم صاحب کا ایک مضمون روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 20؍جون 2011ء میں شائع ہوا ہے جس میں چند خدّامِ دین کے ایسے واقعات شامل اشاعت ہیں جن کی دلی کیفیت کو قبول فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اُن کے دیگر کاموں میں آسانی پیدا فرمادی۔
مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ ایک رات قریباً ساڑھے نو بجے مجھے جماعتی طور پر حکم ملا کہ لیّہ پہنچوں ۔ فوری طور پر کار وغیرہ کا انتظام کرنے کی کوشش کی لیکن کوئی کوشش بارآور نہ ہوئی اور رات ساڑھے گیارہ بجے مَیں گھر سے کپڑے لے کر نکلا۔ پہلے فضل عمر ہسپتال پہنچ کر اعانت مریضان میں کچھ رقم دی۔ پھر بہشتی مقبرہ کے گیٹ پر کھڑا ہوکر دعا کرکے پلٹا ہی تھا کہ سرگودھا سے ایک بس فراٹے بھرتی ہوئی آئی اور مَیں اُس میں سوار ہوگیا۔ جھنگ سے ہوتے ہوئے صبح فجر کی نماز لیّہ پہنچ کر باجماعت پڑھائی اور لمحہ لمحہ

اِنِّیْ مُعِیْنٌ مَنْ اَرَادَ اِعَانَتَکَ

کا نظارہ کیا۔
حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے قبل از خلافت کا اپنا ایک واقعہ یوں بیان فرمایا ہے کہ جلسہ سالانہ کے دنوں میں امتحان ہورہے تھے۔ جلسہ کے آخری دن پیپر نہیں تھا تو ارادہ کیا کہ جلسہ میں شامل ہونا چاہئے۔ ربوہ پہنچ کر جلسہ سُنا۔ جلسہ کے بعد جب اڈّے پر پہنچا تو رش کی وجہ سے سیٹ نہیں مل رہی تھی۔ قاسم شاہ صاحب کو کہا کہ سائیکل پر چلتے ہیں ۔ واپس آکر سائیکل لیا اور اس پر فیصل آباد گئے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی تحریک سائیکل سفر کی وجہ سے کیونکہ سائیکل پر لمبے سفر کی عادت تھی اس لئے اس پر بجائے پریشان ہونے کے سائیکل کے ذریعہ فیصل آباد پہنچ گئے۔ جلسہ بھی سن لیا اور پیپر بھی دے دیا۔
ربوہ میں اپنے محلہ کے ایک زعیم خدام الاحمدیہ نے اپنا واقعہ یوں بیان کیا کہ گزشتہ جمعرات کو مَیں اپنے گاؤں زمین کے ایک ٹکڑا کی فرد ملکیت کے سلسلہ میں پٹواری سے ملنے ربوہ سے پندرہ بیس میل دُور گیا مگر پٹواری صاحب مجھ سے بھی آگے کئی میل دُور کسی کام سے گئے ہوئے تھے۔ مَیں نے سوچا کہ اگر اُن کا انتظار کروں یا اُن کے پیچھے جاؤں تو کل جمعہ کے وقت تک ربوہ پہنچ کر اپنی سیکورٹی کی ڈیوٹی ادا نہیں کرسکوں گا۔ اس لئے مَیں واپس آیا۔ جمعہ کی ڈیوٹی دینے کے بعد پٹواری صاحب کو اس غرض سے فون کیا کہ کیا مَیں ہفتہ کو اُن کے پاس آکر تصدیق کرواسکتا ہوں ۔ پٹواری صاحب نے کہا کہ وہ تو اس وقت قریبی شہر لالیاں میں ہیں ۔ مَیں نے پوچھا کہ مَیں اسی وقت وہاں آسکتا ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایک مریض کی عیادت کے لئے ایک گھنٹہ میں فضل عمر ہسپتال ربوہ آئیں گے اور مَیں بھی وہاں آجاؤں ۔ جب مَیں وہاں پہنچا تو چونکہ تصدیق کے لئے کالے قلم کی ضرورت ہوتی ہے جو وہاں میّسر نہیں تھا اس لئے مَیں بازار سے قلم لانے کے لئے اُٹھا تو پٹواری صاحب نے اپنی جیب سے دس روپے نکال کر زبردستی مجھے دیئے اور سختی سے کہا کہ آپ کا ایک روپیہ بھی خرچ نہیں ہونا چاہئے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں