کولمبس سے پہلے امریکہ میں مسلمان

ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ نومبر و دسمبر 2002ء میں مکرم محمد زکریا ورک صاحب کے قلم سے ایک مضمون شامل اشاعت ہے جس میں امریکہ میں مسلمانوں کی آمد سے متعلق تاریخی شواہد بیان کئے گئے ہیں۔

شمالی امریکہ میں انسان آج سے دس ہزار سال قبل ایشیا سے نارتھ پول کے راستے پیدل سفر کرتے ہوئے داخل ہوا تھا۔ اگرچہ تاریخ نے امریکہ کی دریافت کا مکمل سہرا کولمبس کے سر باندھا ہے جب وہ 1492ء میں امریکہ پہنچا تھا لیکن تاریخی حقیقت یہ ہے کہ مسلمان صدیوں پہلے امریکہ پہنچ چکے تھے۔ کولمبس کے تین جہازوں پر مشتمل بحری بیڑہ میں بھی کئی مسلمان شامل تھے اور دو جہازوں کے کیپٹن بھی مسلمان تھے۔ چونکہ اُس وقت عربی کو بین الاقوامی زبان کا درجہ حاصل تھا اس لئے اُس کے بیڑہ میں ایک مترجم بھی شامل تھا۔
اموی خلیفہ عبدالرحمن ثالث (929ء- 961ء) کے عہد میں افریقہ کے مسلمان سپین سے بحری سفر کرتے ہوئے بحر ظلمات میں پہنچے تھے اور وہاں کے ایک اجنبی علاقہ سے بہت سا مال غنیمت لے کر واپس لَوٹے تھے۔ مشہور جغرافیہ دان المسعودی (871ء-957ء) نے ذکر کیا ہے کہ ایک مسلمان ابن سعیدالقرطبی نے 889ء میں ڈیلبا کی بندرگاہ سے بحراوقیانوس پار کرکے نامعلوم جگہ کا سفر کیا۔ تاریخ دان ابوبکر ابن عمر الگوتیہ نے بیان کیاہے کہ 999ء میں ابن فرخ آف غرناطہ نے اٹلانٹک کا سفر کیا اور کئی جزیروں پر پڑاؤ ڈالا۔
کولمبس نے اپنے پہلے سفر کے دوران کئی جزیروں پر پڑاؤ ڈالا جہاں کی زبان عربی سے ملتی جلتی تھی اور اُس نے ذکر کیا ہے کہ وہاں مسلمان قبیلہ بھی آباد ہے۔ ایک جزیرے پر اُس نے مسجد جیسی عمارت کی موجودگی کا بھی ذکر کیا اور یہ بھی کہ ایک جزیرہ پر عورتیں کپاس کے بنے ہوئے برقعوں سے اپنا سر منہ ڈھانپتی تھیں۔ چنانچہ کیوبا، میکسیکو، ٹیکساس اور نیواڈا ریاستوں میں مساجد کے آثار قدیمہ کے علاوہ پتھروں پر عربی رسم الخط میں تحریریں بھی دریافت ہوئی ہیں۔
کولمبس کے دوسرے سفر کے دوران ہیٹی کے باشندوں نے اُسے افریقن مسلمانوں کی چیزیں دکھائیں جو گنی سے آنے والے مسلمان وہاں لائے تھے۔ 31؍جولائی 1502ء کو اُس نے جمیکا کے قریب ایک جہاز میں چالیس کے قریب افراد دیکھے جن کی عورتوں نے اپنے چہرے مسلمان عورتوں کی طرح چھپائے ہوئے تھے۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے تاریخ دان لیو وائیمر نے 1920ء میں اپنی کتاب شائع کی جس میں بیان کیا کہ کولمبس اس بات سے آگاہ تھا کہ مغربی افریقہ سے مسلمان آکر کریبین (Carribean) کے جزائر کے علاوہ شمالی اور جنوبی امریکہ اور کینیڈا میں بھی آباد ہوئے تھے۔ یہ لوگ تجارت کی غرض سے وہاں آئے تھے نہ کہ فاتح بن کر۔
بہت سے تاریخ دانوں نے مختلف سیاحوں کے اٹلانٹک کے سفر کے حوالہ سے بیان کیا ہے کہ مسلمان بہت پہلے اُن جزائر میں پہنچ چکے تھے جہاں بعد میں دوسرے پہنچے خصوصاً عرب افریقن مسلمان جہاز رانوں نے بہت لمبے سفر کئے ۔
کولمبس نے اپنے تیسرے سفر کے دوران ٹرینیڈاڈ میں ایسے رومال دیکھے جنہیں گنّی، مراکش اور مغربی افریقہ کے مسلمان استعمال کرتے تھے اور وہاں سے یہ رومال سپین میں درآمد کئے جاتے تھے۔
1980ء میں ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر بیری فیل کی کتاب میں امریکہ کی تقریباً ہر ریاست سے ملنے والے تصاویر اور تحریروں کے نقش دیئے گئے ہیں جن میں عربی کے نقش و نگار اور خطاطی واضح ہے۔ حتیٰ کہ ریڈانڈین قبائل کے حروف تہجی کی عربی کے حروف کے ساتھ مماثلت حیرت انگیز ہے۔ اس کتاب میں تین ریاستوں میں اسلامی سکولوں کے آثار ملنے کا بھی ذکر ہے۔ کئی ریڈانڈین قبائل میں مسلمانوں کی اولادیں آج بھی پائی جاتی ہیں اور بعض قبائل میں نام بھی عربی سے ماخوذ ہیں۔ کئی الفاظ کا ماخذ عربی زبان ہے۔ 1787ء میں کیمبرج ، میساچوسٹس کے درمیان کھدائی کے دوران بہت سے پرانے سکّے دریافت ہوئے جن پر کوفی رسم الخط میں عربی تحریر ہے۔ڈاکٹر فیل کے مطابق یہ سکّے سکنڈے نیویا کے نورس مین امریکہ لائے تھے۔ ایک سکّہ 903ء میں سمرقند میں بنایا گیا اور اس کے اوپر کلمہ طیبہ کندہ ہے۔ یہ ڈنمارک میں دریافت ہوا تھا۔
امریکہ کے 484 شہروں اور کینیڈا کی 81 جگہوں، دریاؤں اور پہاڑوں کے نام کا ماخذ عربی اور اسلامی ہے۔ ان ناموں میں مکہ، مدینہ اور محمدؐ کے نام بھی شامل ہیں۔
کینیڈا کے اخبار ’’نیشنل پوسٹ‘‘ نے اپنی 5؍مارچ 2002ء کی اشاعت میں انکشاف کیا ہے کہ ایک مسلمان چینی جہاز راں اور ایڈمرل Xheng He نے کولمبس سے 72 سال پہلے امریکہ دریافت کرلیا تھا۔ یہ انکشاف اٹلی میں کی جانے والی چودہ سالہ تحقیق کا نتیجہ ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں