کوہستانِ نمک – کھیوڑہ

کوہستان نمک (کھیوڑہ) کی سترہ منزلہ اور 120؍کلومیٹر لمبی کان سطح سمندر سے نو سو فٹ بلند ہے۔ اس میں دنیا کا 80فیصد قدرتی نمک پایا جاتا ہے۔ یہ 260؍کلومیٹر لمبے اور 16؍کلومیٹر چوڑے پہاڑی سلسلے پر مشتمل ہے اور 327؍ق۔م پرانی ہے۔ صدیوں سے یہاں سے نمک کی پیداوار حاصل کی جارہی ہے۔ سکندراعظم کی فوج کے ایک جرنیل نے بھی اپنی سوانح عمری میں اس کا ذکر کیا ہے۔ سولہویں صدی میں اسپ خان نے مغل بادشاہ اکبر کو اس شرط پر نمک کے اس پہاڑ کی تفصیلات فراہم کیں کہ بادشاہ اُس کو انعام کے طور پر تمام کوہکنوں کے معاوضہ کے برابر رقم دے گا۔ ’’آئین اکبری‘‘ میں کھیوڑہ کا ذکر تفصیل سے آیا ہے۔ 1809ء میں یہ کان سکھوں کی عملداری میں چلی گئی اور مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اس پر کافی ٹیکس لگادیا۔ 1849ء میں انگریزوں نے پنجاب پر قبضہ کرلیا اور یہ کان اُن کے تصرف میں آگئی۔ اُس وقت نمک گھوڑوں ، گدھوں پر لاد کر دریا تک لایا جاتا تھا اور کشتی کے ذریعہ وہاں سے دریا کے پار بھیجا جاتا تھا۔ چونکہ کھیوڑہ کے چشمے بھی نمکین تھے اس لئے یہاں کی آبادی کو پینے کے لئے میٹھا پانی لکڑی کی ایک نالی کے ذریعہ مٹھاپتن سے 1853ء میں مہیا کیا گیا۔ 1856ء میں سڑک کے ذریعہ کھیوڑہ کو پنڈدادنخان سے ملادیا گیا۔ 1872ء میں پہلی دفعہ اس کان پر ماہر مائننگ انجینئر کا تقرر کیا گیا اور کان کنی کا کام سائنسی بنیادوں پر شروع کیا گیا۔ 1886ء میں دریائے جہلم پر پُل تعمیر کرکے کھیوڑہ کو ریل کے ذریعہ بقیہ ملک سے منسلک کردیا گیا۔ 1902ء میں کان کنوں کے لئے ایک ہسپتال تعمیر کیا گیا۔ 1918ء میں جانوروں کی بجائے سٹیم انجن کے ذریعہ کان سے نمک نکالنے کا کام شروع ہوا۔ 1924ء میں کان میں بجلی مہیا کرنے کے لئے جنریٹر نصب کئے گئے جو ڈیزل سے چلتے تھے۔ 1933ء میں سٹیم انجنوں کی جگہ الیکٹرک انجن متعارف کروائے گئے۔ 1971ء میں واپڈا نے کان میں بجلی فراہم کردی جس کے بعد جنریٹر صرف ایمرجنسی استعمال کے لئے استعمال ہونے لگے۔
اس کان کی سترہ منزلوں میں دن رات نمک کی کھدائی کا کام جاری رہتا ہے۔ اس کی 120؍کلومیٹر سے زائد لمبائی میں صرف تین کلومیٹر کا علاقہ سیاحوں کے لئے مختص ہے۔ اس مخصوص علاقہ میں مختلف رنگوں کے نمک سے تراشی گئی اینٹوں کی ایک خوبصورت مسجد ہے جس میں باقاعدہ صفیں بچھاکر نماز کا انتظام کیا گیا ہے۔ نمک کی دیواروں کے درمیان خلا رکھا گیا ہے جس میں بجلی کے بلب نصب ہیں۔ بلب روشن ہوں تو قدرت کے اس شاہکار کی بے ساختہ داد دینی پڑتی ہے۔
ایک جگہ رِستے ہوئے نمکین پانی نے جمع ہوکر سات فٹ اونچی ایک سفید خوبصورت پہاڑی بنادی ہے جو دُور سے برف کی پہاڑی معلوم ہوتی ہے۔ ایک بڑا کمرہ شیش محل کہلاتا ہے جس کی دیواریں صدفیصد ٹرانسپیرنٹ نمک سے بنائی گئی ہیں جو منشور کی طرح مختلف رنگ کی شعاعیں منعکس کرتا ہے۔ کان کے اندر ایک غار بھی ہے جو ایک میٹر چوڑی، چھ فٹ اونچی اور ایک سو فٹ لمبی ہے۔ اس غار کے اندر ایک درخت کے دبے ہوئے آثار ملتے ہیں جس کی خاصیت یہ ہے کہ اگر اسے آگ لگائیں تو لکڑی ربڑ کی طرح بُو دیتی ہے لیکن آگ نہیں پکڑتی۔ یہ غار بھی خالص ترین ٹرانسپیرنٹ نمک سے بنی ہے۔ یہاں اگر دیاسلائی جلائیں تو بہت زیادہ روشنی پیدا ہوتی ہے۔
کان میں کئی جگہ چشمے جاری ہیں جن کا پانی کان میں موجود چھوٹے بڑے گڑھوں میں جمع ہوکر اُنہیں تالاب کی شکل دیدیتا ہے۔ ایسے تالابوں کی تعداد اسّی کے قریب ہے۔ کان میں تازہ ہوا کی آمد اور پرانی ہوا کے اخراج کے لئے بارہ روشن دان ہیں جبکہ پانچ مرکزی دروازے بنائے گئے ہیں جنہیں ایمرجنسی میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔
یہ معلوماتی مضمون مکرم نعیم طاہر سون صاحب کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 19؍اگست 2000ء کی زینت ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں