کھجور

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 4؍نومبر 2006ء میں کھجور کے بارہ میں مکرم محمد طاہر شیراز صاحب کا مضمون شائع ہوا ہے جسے کتاب ’’کھجور۔ذاتی مطالعہ، مشاہدات اور تجربات‘‘ از مکرم میاں محمد افضل صاحب سے استفادہ کرکے لکھا گیا ہے۔

کھجور واحد پھل ہے جس کے لئے دنیا کی ہر اہم زبان میں نام موجود ہے۔ قرآن مجید میں اسے نخل کہا گیا ہے۔ خشک کھجور کو عربی میں تَمۡرٌ اور تازہ پھل کو رطب کہتے ہیں۔ کھجور کاپھل پکا ہوا مگر سخت ہو تو اسے ڈوکا کہتے ہیں۔ اگر ڈوکے کو ایک خاص صورت میں ابال کر سکھا لیا جائے تو شکن دار کھجوریں حاصل ہوتی ہیں جو چھوہارا کہلاتی ہیں۔ خداتعالیٰ نے قرآن شریف میں متعدد بار کھجور کا ذکر کیا ہے۔
آنحضورﷺ نے مختلف بیماریوں کے لئے کھجور کا استعمال کیا ہے اور خوراک کے طور پر بھی آپ نے اسے بہت اہمیت دی ہے۔ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ جس گھر میں کھجور نہیں گویا کہ اس گھر میں کوئی کھانا نہیں۔ پھر مسلم کی روایت ہے کہ اس گھر کے مکین بھوکے نہیں رہ سکتے جس میں کھجور ہو۔
کھجور کی ایک قسم عجوہ ہے جس کے متعلق حضرت رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں: جس نے صبح کے وقت سات عجوہ کھجوریں کھالیں اسے نہ تو اس روز کوئی زہر نقصان دے سکتا ہے نہ کوئی دیوانگی اور فریب۔
حضرت ابن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ حضرت رسول کریم ﷺ کی خدمت میں کھجور کا گابھہ پیش کیا گیا اس پر آپؐ نے فرمایا ایک ایسا درخت ہے جس کی برکت مسلمان کی برکت کی طرح ہے۔… یہ کھجور کا پودا ہے جس کی برکت مسلمان کی برکت کی طرح ہے۔
اگر مومن کی خوبیوں پر غور کیا جائے تو پتہ لگتا ہے کہ وہ اکیلا رہنا پسند نہیں کرتا۔ قناعت پسند ہے۔ بسااوقات اپنی جان دے کر دوسروں کی جان بچاتا ہے۔ مخالفت کی آندھیوں کا بڑی پامردی کے ساتھ مقابلہ کرتا ہے۔ یہی خوبیاں کھجور میں بھی پائی جاتی ہیں۔
کھجورقناعت پسند پودا ہے۔ اس کے تنے کی چوڑائی جوانی کی عمر میں جتنی ہوجائے وہ آخر تک برقرار رہتی ہے۔ اگر اس کو خوراک حسب ضرورت نہ ملے تو اپنے تنے کو دبلا کرلیتا ہے اور میسر خوراک پر گزارا کرلیتا ہے۔ پھر اگر دوبارہ کھاد اور پانی وغیرہ مل جائے تو پہلے کی طرح موٹا ہوجاتا ہے۔
کھجور کا پودا طوفانی بگولوں کا مقابلہ انتہائی پامردی سے کرتا ہے۔ اس کے تنے میں خاص لچک ہوتی ہے جو تیز آندھی میں جھک کر پھر سیدھا ہوجاتا ہے۔ اس کے پتوں میں ہوا آسانی سے گزر جاتی ہے اور کسی قسم کی مزاحمت نہیں ہوتی۔
کھجور کا سر ہوتا ہے جس میں مغز ہے۔ مغز کو پھاڑ دیا جائے تو پودا مرجاتا ہے۔ کھجور انسان کی طرح سوشل بھی ہے۔ تنہا رہنا پسند نہیں کرتا۔ اگر کسی علاقہ میں کھجور کا اکیلا درخت ہو تو زیادہ امکان ہے وہ ختم ہوجائے گا لیکن اگر زیادہ پودے ہوں تو اس چیز کا کم امکان ہے۔ اگر کھجور کے پودے پہلے کسی جگہ ہوں تو یہ خوب پھلے پھولے گا۔ اسی بنا پر نخلستان کا لفظ صرف کھجوروں کے سلسلے میں استعمال ہوتاہے۔ نخلستان میں موجود کھجوروں کی جڑیں آپس میں مل جاتی ہیں اور یہ پودے نہ صرف اپنی بلکہ ایک دوسرے کی خوراک کا بھی خیال رکھتے ہیں۔
کھجور کے پودے کی ہر چیز قابل استعمال ہے اور قریباً آٹھ سو مقاصد کے لئے یہ استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً تنا کھوکھلا کرکے کنوؤں میں پانی کے پائپ کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ کھجور کے پتوں سے مضبوط رسیاں، ٹوکریاں، ٹوکرے، چٹائیاں اور کئی قسم کی پیٹیاں تیار کی جاتی ہیں۔ اس کی گٹھلیوں کو کچھ دنوں کے لئے پانی میں بھگو کر نرم کرکے انتہائی طاقتور گودا حاصل کیا جاتا ہے جو چارے کے طور پر مویشیوں کو کھلایا جاتا ہے جس سے دودھ گاڑھا ہوجاتا ہے۔
کھجور کی پانچ ہزار قسمیں پائی جاتی ہیں جن میں 455 صرف عراق میں پائی جاتی ہیں۔ وہاں نرکھجور کی پانچ خاص قسمیں ہیں۔ کھجور کے علاوہ اور کوئی پھل نہیں جس کی اتنی زیادہ قسمیں ہوں۔ دنیا بھر میں کھجور کے درختوں کی تعداد نوکروڑ ساٹھ لاکھ ہے۔ پاکستان میںمجموعی طور پرکھجور کی دو سو اقسام ہیں۔
کھجور کی جوانی چودہ پندرہ سال سے شروع ہوتی ہے۔ اس کی پختہ عمر چالیس سال ہے اور یہ سو سال تک بھرپور پھل دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ عام حالات میں کسی سال یہ پھل کا ناغہ نہیں کرتا۔ کھجورکے تنے کے اوپری حصہ میں اس کا سر ہوتا ہے جس میں جذب شدہ خوراک کا ذخیرہ رکھتا ہے اور بقدر ضرورت پودے کے دوسرے حصوں کو پہنچاتا ہے۔ اگر کوئی صحرا میں پیاس سے مرنے لگے تو وہ کھجور کے مغز سے پانی حاصل کرسکتا ہے۔ شدید دھوپ میں بھی مغز کا پانی عمل تبخیر میں تیزی سے حصہ نہیں لیتا اور محفوظ رہتا ہے۔ کھجور کا پودا اونٹ کی طرح اپنی ذخیرہ شدہ خوراک کے ذریعے لمبا عرصہ تک گزارا کرسکتا ہے۔ اگر اس کے پتے بھی جھاڑ دیئے جائیں جن سے خوراک بنتی ہے تب بھی کچھ عرصہ تک پھل آتا رہتا ہے۔
نباتات میں بھی زندگی کا شعور پایا جاتا ہے۔ لیکن یہ شعور کھجور میں باقی پودوں سے قدرے بڑھ کر ہوتا ہے۔ اس کو کبھی غصہ آتا ہے اور کبھی دکھ ہوتا ہے تو اس کا اظہار بھی کرتا ہے۔ اس کے تنے سے جب بچے الگ کردیئے جاتے ہیں تو کئی دنوں تک اس کی حالت سے پریشانی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ احتجاج کے طور پر یہ اس سال پھل نہیں لاتا۔ بعض کھجوروں کو اس قدر صدمہ ہوتا ہے کہ وہ بچے الگ کئے جانے کی وجہ سے دو سال متواتر پھل لانے سے انکار کردیتے ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں