احمدیہ ہوسٹل لاہور کی پاکیزہ یادیں

حضرت شیخ محمد احمد مظہر صاحب 1918ء سے 1921ء تک احمدیہ ہوسٹل لاہور میں قیام فرما رہے اور اس دوران انٹر کالجئیٹ ایسوسی ایشن کے سیکرٹری بھی رہے جس کے 80 ؍اراکین تھے۔ آپ کی بعض دلکش یادوں کا ذکر روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 9؍اکتوبر 1998ء میں کسی پرانی اشاعت سے منقول ہے۔
حضرت شیخ صاحب کا بیان ہے کہ اُس وقت ہوسٹل میں تقریباً 30 طلبہ مقیم تھے۔ محترم ملک غلام فرید صاحب نمازوں کی ایسی پابندی کرواتے تھے کہ صبح کی نماز میں اگر کوئی نہ اٹھتا تو ایسا بھی ہوا کہ چارپائی اوپر اور سونے والا نیچے ہوتا۔ چنانچہ اگلے دن پاؤں کی آہٹ سنتے ہی خوابیدہ ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھتا۔
ہوسٹل میں مشاعرہ اور بیت بازی بھی ہوا کرتی۔ پروفیسر عبدالقادر صاحب جو اُس وقت بڑے ذہین طالبعلم تھے انہوں نے حضرت مسیح موعودؑ کی نظم ’’اے خدا کے کارساز و عیب پوش و کردگار‘‘ پوری یاد کرلی تھی۔ اس نظم کے 423 ؍اشعار ہیں۔
ایک بار حضرت مصلح موعودؓ ہوسٹل میں تشریف لائے تو ایسوسی ایشن نے حضورؓ کی تقریر ہوسٹل میں کروانا چاہی۔ وقت کم تھا۔ اس لئے اشتہار چھاپے گئے اور عشاء کی نماز کے بعد طلبہ نے شہر کے مختلف حصے بانٹ لئے اور سائیکل پر اور پاپیادہ لئی کے برتن پکڑ کر نکل کھڑے ہوئے اور رات تین بجے تک شہر کے ہر کھمبے پر اشتہار چسپاں ہوچکے تھے۔ دعوتی کارڈ بھی تقسیم ہوئے اور اگلے روز حضورؓ کی تقریر ہوسٹل کے صحن میں نہایت کامیابی سے انجام پذیر ہوئی۔
1920ء میں پاؤنڈ کا نرخ گرا ہوا تھا اس لئے حضرت مصلح موعودؓ نے مسجد فضل لندن کے لئے تقریباً ایک لاکھ روپیہ کے پاؤنڈ خریدنے کا فیصلہ فرمایا اور اس رقم کو بڑی بڑی جماعتوں پر بانٹ دیا گیا۔ لاہور کے ذمہ غالباً اٹھارہ ہزار روپیہ آیا تھا۔ حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ قادیان سے ایک وفد لے کر اس رقم کی وصولی کے لئے لاہور آئے۔ حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ ہوسٹل کے وارڈن اور جماعت لاہور کے امیر تھے۔ انہوں نے خطبہ میں کوئی لمبی چوڑی تحریک نہیں کی بلکہ یہی فرمایا کہ اس رقم کو پورا کرنا جماعت کا فرض ہے اور بحیثیت امیر اس رقم کو پورا کر دینا میرا فرض ہے۔ مَیں نے دوستوں سے مشورہ کرنا شروع کیا کہ ہم ایسوسی ایشن کی طرف سے پانچ سو روپے پیش کریں۔ اتنے میں امیر صاحب کی آواز آئی کہ مسلم لیگ نے کالجوں کے مسلمان طلبہ سے دو ہزار روپیہ چندہ مانگا ہے، میں احمدی طلبہ سے دو ہزار روپیہ طلب کرتا ہوں۔ اس پر ہر طالبعلم نے انتہائی ایثار کا نمونہ دکھایا اور جو کچھ جس کے پاس تھا اُس نے دے دیا۔ چنانچہ دو ہزار سے زیادہ رقم جمع ہوگئی۔
مارچ 1921ء میں جب غیراحمدیوں نے قادیان میں جلسہ کرنا چاہا تو حفاظت مرکز کی خاطر امیر صاحب نے فرمایا کہ تمام احمدی طلبہ آج رات قادیان روانہ ہو جائیں۔ چونکہ یونیورسٹی کے امتحان قریب تھے اس لئے میں نے پوچھا کہ کیا امتحان دینے والے طلبہ بھی پابند ہیں۔ امیر صاحب نے برجستہ جواب دیا کہ اس دفعہ اُن کا امتحان قادیان میں ہی ہو جائے گا۔ چنانچہ امیر صاحب کے ہمراہ ہم سب رات 9 بجے روانہ ہوکر 12 بجے بٹالہ پہنچ گئے۔ کچھ طلبہ نے یکوں کی تلاش شروع کی تو کسی نے بتایا کہ امیر صاحب تو پیدل چلتے ہوئے ایک فرلانگ آگے نکل گئے ہیں۔ چنانچہ سب پیچھے چل پڑے اور صبح چار بجے قادیان پہنچ گئے۔ زوروں کی بھوک لگی ہوئی تھی۔ ایک دوکان کھلوائی تو صرف ڈیڑھ دو سیر چھوارے نکلے۔ وہ کھاکر لنگر کا رُخ کیا۔ ایک پیپے کی تہہ میں کچھ دال اور روٹی کے ٹکڑے ملے، وہ کھائے۔
ہماری ڈیوٹی بہشتی مقبرہ میں لگی۔ چاروں طرف پہرے والوں کی تین قطاریں تھیں۔ رات کو Password بتا کر گزرنا پڑتا تھا۔ ایک رات حضرت مصلح موعودؓ بھی انتظام کا جائزہ لینے کے لئے تشریف لائے۔ پہرے والے نے پہلے نہیں پہچانا اور روک لیا۔ پھر معلوم ہونے پر جانے دیا۔ حضورؓ انتظام دیکھ کر بہت مطمئن واپس تشریف لے گئے۔
ایک رات فساد کا شدید خطرہ پیش آگیا۔ حضرت مولانا ذوالفقار علی خانصاحبؓ گوہر نے ایک بلند جگہ چڑھ کر گرجدار آواز میں پوچھا کیا جانیں دینے کے لئے تیار ہو۔ سینکڑوں پہرے داروں کا جواب تھا کہ ’’بڑی خوشی سے‘‘۔ اگرچہ پھر خیریت ہی رہی۔
جب پہرہ ختم ہوگیا تو واپسی کا سفر کرتے ہوئے میرا یکہ اُلٹ گیا اور میرے کندھے کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ چنانچہ سارا سفر بڑے درد اور کرب سے طے ہوا۔ امیر صاحب نے اپنے پاس سے میرے لئے سیکنڈ کلاس کا ٹکٹ لے لیا اور خود ہی تیمارداری کرتے رہے اور دلاسا دیتے رہے۔ جماعت لاہور کو پہلے سے اطلاع دے دی گئی تھی اس لئے لاہور سٹیشن پر سٹریچر موجود تھا۔ مجھے میو ہسپتال لے جایا گیا اور بیہوش کرکے مرہم پٹی کی گئی۔ اٹھارہ دن ہسپتال میں داخل رہا۔ اب ایک بازو دوسرے سے چھوٹا ہے اور سردیوں میں درد کرتا ہے۔ لیکن یہ درد ایسا میٹھا ہے جو سارے واقعات کی یاد دلاتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں