احمدی کا شناختی نشان اور اعجازمسیحائی
امریکہ کے محمد الیگزنڈر رسل ویب نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ قبولِ اسلام کی سعادت حاصل کی اور پھر ان کی تبلیغ سے فلاڈلفیا کے جارج بیکر بھی حلقہ بگوشِ اسلام ہوگئے۔ انہوں نے حضور علیہ السلام کی خدمت میں احمدی ہونے کے ثبوت میں کوئی شناخت بھجوانے کی درخواست کرتے ہوئے لکھا کہ یہاں کے دستور کے مطابق جو شخص کسی انجمن یا سوسائٹی کا رکن بنے اسے کوئی شناختی نشان یا سند دی جاتی ہے جسے وہ عندالضرورت پیش کر سکے۔ اس کے جواب میں حضور اقدس علیہ السلام نے انہیں لکھوایا کہ ’’ہمارا نشان شناخت صرف یہ ہے کہ جب نماز کا وقت آئے تو وضو کرکے نماز ادا کر لیا کرو، یہ کافی نشان ہے، دوسرے سندات یا نشانات کو ایک منافق بھی پیش کر سکتا ہے‘‘۔
ماہنامہ ’’انصاراللہ ‘‘ جون 1995ء میں مکرم عبدالسمیع صاحب کے مرتّبہ مضمون میں حضرت منشی برکت علی صاحب رضی اللہ عنہ کی یہ روایت بیان ہوئی ہے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مجلس میں تشریف فرما تھے کہ اچانک اٹھ کر سیڑھیوں سے اتر کر ڈھاب کی طرف تشریف لے گئے۔ دو تین احباب بھی ہمراہ تھے جنہوں نے بتایا کہ ڈھاب میں پانی بہت تھا، لڑکے نہا اور کھیل رہے تھے اور ایک لڑکا ڈوبنے کو تھا کہ حضورؑ نے ہاتھ بڑھا کر اسے باہر نکال لیا اور واپس آکر مجلس میں تشریف فرما ہوکر بات چیت میں مشغول ہوگئے۔
جناب من کیا عمران خان صاحب کے نانا 313 صحابہ میں تھے یا صرف یہ باتیں ہیں
میرے بھائی! جن باتوں کا فائدہ عام زندگی میں نہ ہو ان میں وقت لگانا بے فائدہ ہوتا ہے- مثلاً اگر علامہ اقبال کے والدین صحابہ میں سے تھے تو اس کا اثر اولاد میں سے جس نے قبول کیا اس نے فلاح پالی۔ اگر کوئی محروم رہا تو یہ اس کا ذاتی فعل ہے۔ میرا کام صرف یہ ہے کہ میرا ذاتی قول و فعل ایک احمدی کے شایانِ شان ہوجائے اور وہ پاک وجود جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے عین مطابق پاکر مَیں نے قبول کیا ہے اس کی بیان فرمودہ تعلیم کے مطابق اپنی زندگی بسر کرنے کی کوشش کرتا چلا جاؤں۔