احمدی کی عظمتِ کردار

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل ۲؍جون۲۰۲۵ء)

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام
حضرت اقدس مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام

خداتعالیٰ اپنے انبیاء کے ذریعہ جب کسی سلسلے کی بنیاد رکھتا ہے تو اس کے ماننے والوں میں ایک روحانی انقلاب برپا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کے ذریعہ جس جماعت کا قیام فرمایا اس میں بھی ان اوصافِ حمیدہ کی بےشمار مثالیں ملتی ہیں۔ آپؑ فرماتے ہیں:’’میری جماعت نے جس قدر نیکی اور صلاحیت میں ترقی کی ہے یہ بھی ایک معجزہ ہے۔‘‘ (سیرت المہدی جلداول صفحہ146)۔ رسالہ ’’انصارالدین‘‘ جولائی اگست 2014ء میں شامل مکرم محمود احمد انیس صاحب کے مضمون میں ایسی ہی روحانی تبدیلیوں کا بیان ہے۔
٭…حضرت منشی عبدالرحمٰن صاحبؓ آف کپورتھلہ طویل عرصہ تک ناظرمحکمہ جنگی رہے۔ لاکھوں روپے کا حساب کتاب تھا۔ کئی کمانڈرانچیف آئے اور گئے۔ سب منشی صاحبؓ کی دیانت اور خدمت گزاری کے قدردان تھے۔ پچپن سال بعد منشی صاحب سبکدوش ہوئے آپؓ کا حساب صاف تھا۔ پھر ذاتی روزنامچہ میں آپؓ نے یہ دیکھنا چاہا کہ میرے ذمہ کسی کا قرض تونہیں ہے۔ پڑتال کرتے ہوئے کوئی چالیس سال قبل کا ایک واقعہ درج تھا جب آپؓ نے ایک غیراحمدی عجب خاں سے مل کر ایک معمولی سی تجارت کی تھی۔ اس کے نفع میں سے بروئے حساب 40 روپے منشی صاحبؓ کے ذمہ نکلتے تھے۔ آپؓ نے یہ رقم حقدارکے نام بذریعہ منی آرڈر بھجوادی۔ عجب خاں کپورتھلہ کا رہنے والا تھا۔ منی آرڈر وصول ہونے کے بعد وہ اپنی مسجد میں گیا اور لوگوں سے کہا کہ تم احمدیوں کو برا تو کہتے ہو لیکن یہ نمونہ بھی تو کہیں دکھاؤ، یہ چالیس سال کا واقعہ ہے اور خود مجھے بھی یاد نہیں تھا۔

مسعود احمد دہلوی صاحب

٭…محترم مسعود احمد دہلوی صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ مجھے کام میں ہاتھ بٹانے کے لیے ایک نوآموز کلرک ملا ہوا تھا۔ ایک دن وہ بہت مسمسی شکل بنائے میرے قریب آکر کھڑا ہوگیا۔ میں نے اس سے پوچھا بات کیاہے؟ ڈرتے ڈرتے بولا جی میں نے ایک ٹھیکیدار سے دس روپے لیے ہیں۔ مَیں فوراً سمجھ گیا کہ اس نے میرا نام لے کر یہ رقم اُس سے لی ہے اور اب اسے فکر یہ ہے کہ اگر ٹھیکیدار نے مجھے بتادیا تو یہ ناراض ہوکر مجھے فارغ ہی نہ کرادیں۔ میں نے ٹھیکیدار کو بلاکر پوچھا کہ تم سے میرے کلرک نے کیا کہہ کر دس روپے لیے ہیں؟ اُس نے کہا: اِس نے آپ کا نام لے کر کہا تھا لیکن دیوی لال (کیشئر) نے مجھے پہلے ہی بتادیا تھا کہ نئے اکاؤنٹنٹ صاحب احمدی ہیں اور رشوت نہیں لیتے، انہیں کبھی رشوت دینے اور شیشے میں اتارنے کی کوشش نہ کرنا۔ اس لیے مَیں سمجھ گیا تھا کہ پیسوں کی اسے خود ضرورت ہے۔ مَیں نے اس سے کہا کہ تجھے چاہئیں تو تُو پیسے لے لے لیکن اکاؤنٹنٹ کا نام نہ لے اگر انہوں نے لینی ہوتی تو وہ اتنی سی رقم کبھی نہ مانگتے۔
مَیں نے کلرک سے دس روپے واپس دلوانے چاہے تو ٹھیکیدار نے کہا پھینکی ہوئی ہڈی کتے کے منہ سے چھیننے کے لیے انسان کو خود بھی کتا بننا پڑتا ہے، اگر وہ حرام کھاتا ہے تو کھاتا پھرے، اُسے اُس کے حال پر چھوڑ دیں۔ تب مَیں نے اُس کلرک کو خوب جھاڑ پلائی اور پھر چپڑاسیوں کو بلاکر تین تین روپے انہیں دلوادیے اور کہا باقی چار روپے خود رکھ لے اور آئندہ کبھی ایسی حرکت نہ کرے۔
٭…مکرم سمیع اللہ زاہد صاحب اپنے پھوپھا مکرم چودھری نذیر احمد صاحب ملہی کا ذکرِ خیر یوں کرتے ہیں: آپ دیانتدار اور درویش انسان تھے۔ جس طرح خالی ہاتھ بطور پٹواری بھرتی ہوئے تھے اسی طرح خالی ہاتھ ریٹائر بھی ہوگئے۔ رزق حرام کو نہ خود چھوا اور نہ ہی دوسروں کے لیے اس کا وسیلہ بنے اس لیے محکمانہ ترقی سے محروم رہے۔ زندگی بھر کوئی جائیداد نہیں بنائی۔ خاکسار کی پھوپھی امۃالحئی بیان کرتی ہیں کہ شادی کو چند ہفتے ہی ہوئے تھے کہ ایک آدمی چودھری صاحب سے ملنے کے لیے آیا۔ اسے بیٹھک میں بٹھاکر کچھ دیر بعد اندرآئے اور چالیس ہزار روپے مجھے پکڑاکر کہنے لگے کہ اس آدمی کا کام جائز ہے جو میں نے کرنے کا وعدہ کرلیا ہے اور وہ یہ رقم دینے پر مُصرہے۔ مَیں نے کہا کہ یہ پیسے اُسے واپس کردیں، دوزخ کی آگ کو مَیں تو چھونا بھی پسند نہیں کرتی۔ میرایہ کہنا تھا کہ آپ جیسے خوشی سے جھوم اٹھے مجھے باربار شاباش دی اور کہا کہ میں یہ پیسے لینے سے قطعی انکار کرنے کے بعد صرف تمہیں آزمانے کے لیے اُس سے لے کر آیا تھا۔

حضرت چودھری سر محمد ظفراللہ خان صاحبؓ

٭…اللہ والوں کی ایک یہ صفت بھی ہوتی ہے کہ وہ برائی کا بدلہ نیکی سے دیتے ہیں۔ حضرت چودھری سر محمد ظفراللہ خان صاحبؓ فرماتے ہیں: اپریل1932ء میں مجھے ایک اہم تعیناتی سے متعلق وائسرائے کا خط ملا۔ چونکہ معاملہ ابھی تک بصیغہ راز تھا اس لیے جیسے انہوں نے مجھے اپنے ہاتھ سے خط لکھا تھا میں نے بھی انہیں اپنے ہاتھ سے جواب لکھا اور اسے بذریعہ رجسٹری بھیجنے ڈاکخانہ میں لے گیا۔ مجھے رجسٹری کے قواعد کا علم تھا، نہ خط رجسٹری کرنے کا تجربہ۔ بابوصاحب خط دیکھ کر برافروختہ ہوئے۔ خط میری طرف پھینک کر غصے میں کہا: ’’آجاتے ہیں کہیں کے، نہ عقل نہ سمجھ۔ یہ لو فارم اسے پُر کرکے لاؤ۔ ‘‘ مَیں نے اُن سے معذرت کی اور فارم پُرکرکے پیش کردیا۔ کئی سال بعد جب میں فیڈرل کورٹ کا جج تھا۔ ایک دن وہی بابوصاحب جو ریٹائر ہوچکے تھے اپنی کسی ذاتی ضرورت کے سلسلے میں میرے مکان پر تشریف لائے۔ میں کچھ خجل ہوا کہ انہیں یاد آتاہوگا کہ اسے تو خط رجسٹری کرنے کا ڈھنگ بھی نہیں آتاتھا۔ وہ معمر تھے۔ مَیں ادب اور تواضع سے پیش آیا اور جو ارشاد انہوں نے فرمایا مَیں نے تعمیل کردی۔
٭…ایسا ہی ایک واقعہ حضرت ڈاکٹرحشمت اللہ صاحبؓ کا بھی ہے۔ آغازجوانی میں ہی آپؓ کے والد صاحب کی وفات ہوگئی تو آپؓ کے پاس کوئی معقول ذریعہ آمد نہ تھا۔ آپؓ کے ایک شفیق استاد نے ازراہِ ہمدردی فرمایا کہ مجھے ایک آسامی ایک فوجی کرنل محمدرمضان کے ہاں خالی معلوم ہوئی ہے۔ اگر تم کہو تو میں اُن سے دریافت کروں کہ وہ ملازمت تمہیں دے دے۔ میں نے عرض کیا کہ ہاں مہربانی فرماویں۔ اس پر وہ کرنل کے ہاں گئے مگر اُس نے ’’مرزائی‘‘ کا سوال اٹھادیا۔ وہ خاموش واپس آگئے اور مجھے قصہ بتلاکر کہا کہ کل میرے ساتھ چلنا اور اگر کرنل احمدی ہونے کا دریافت کرے تو تم خاموش رہنا۔ اس پر میرے اندرسے یہ آواز آئی کہ یہ تو تیس چالیس روپے کی نوکری ہے مَیں پانصد روپے کی نوکری پر بھی نہیں تھوکتا اگر اپنی احمدیت چھپانی پڑے۔
بہرحال اگلے روز ہم جونہی اُس کرنل کے بنگلہ کے پھاٹک پر پہنچے تو کرنل نے ایک فاصلے سے ہمیں دیکھ کر کہا: مولانا! مولانا! یہاں کوئی ملازمت نہیں۔ جب ہم ذرا قریب ہوئے تو درشتی کے لہجے میں کہا کہ مَیں نے ایک سکھ لڑکے کو وہ نوکری دے دی ہے۔ مجھے کرنل کے اس سلوک سے سخت رنج پہنچا اور اس حال میں واپس گھر پہنچا کہ نماز مغرب ادا کرتے ہوئے پُرملال دل کے ساتھ دعا میں لگ گیا کہ یاالٰہی تومجھے ایسا رزق دے کہ میں کرنل جیسے لوگوں کا محتاج نہ بنوں۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان بہم پہنچائے کہ میں نے میڈیکل کی تعلیم حاصل کی اور ڈاکٹر بن گیا۔ پھر 12جون 1912ء کو اپنے شہر پٹیالہ کے بہت بڑے ہسپتال میں متعین ہوگیا۔ بہت بڑا آپریشن روم، آنکھ کے مریضوں کی نگہداشت اور سپیشل وارڈ میرے سپرد ہوئے۔ چارپانچ سال بعد جب کہ مَیں آپریشن روم کے باہر چبوترے پر کھڑا تھا کہ دیکھتا ہوں کہ وہی کرنل سامنے سے آرہا ہے جبکہ تقریباً اُسی قدر فاصلہ رہ گیا جس قدر فاصلے سے سات سال پہلے اُس نے احمدی ہونے کی وجہ سے مجھے بُری طرح دھتکارا تھا تو اُس نے جھک کر اور ماتھے پر ہاتھ رکھ کر سلام کیا اور یوں ملتجی ہوا کہ ڈاکٹرصاحب! میرے فلاں بزرگ کی آنکھ کا آپریشن ہونا ہے براہ مہربانی اُس کا خیال رکھیں۔ مَیں نے اس کو تسلی دی۔ میں اپنے ربّ کا بہت شکر گزارہوں کہ اس نے مجھے یہ احسان کرنے کی توفیق دی۔
٭…محترم مرزا منظور احمد صاحب قادیانی رقمطراز ہیں: حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحبؓ غالباً فیروزپور میں متعین تھے کہ آپؓ کی عدالت میں ایک ہندوکا مقدمہ پیش ہوا۔ اُس نے عدالت اعلیٰ میں درخواست کی کہ کیونکہ مجھے مرزا صاحب سے بوجہ ان کے مسلمان ہونے کے انصاف کی توقع نہیں اس لیے میرا یہ مقدمہ کسی اَور عدالت میں منتقل کیا جائے۔ علاوہ ازیں اس نے ہندو اخبارات میں بھی بڑا پراپیگنڈا کیا کہ مرزا عزیز احمد بڑا متعصب مسلمان ہے اس لیے ایک ہندو کے مقدمے میں اس جج سے انصاف کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ لیکن اعلیٰ عدالت نے دلائل سننے کے بعد درخواست ردّ کردی۔

حضرت مرزا عزیز احمد صاحبؓ

حضرت صاحبزادہ صاحبؓ فرمایا کرتے تھے کہ اُس کی درخواست اور اخبارات میں زہریلے پراپیگنڈا کی وجہ سے میرے دل میں لاشعوری طور پر اُس ہندو کے خلاف جذبات پیدا ہوگئے جس کا اثر یہ ہوا کہ شروع مقدمہ میں ہی اُس ہندو کو سزا دینے کے لیے اپنے دلائل کو مضبوط کرتا رہا تاآنکہ اس مقدمہ کی سماعت مکمل ہوگئی۔ مَیں نے چیمبرمیں بیٹھ کر فیصلہ قلم بند کیا اور انتہائی سزا تجویز کرتے ہوئے فائل کو گھر لے آیا۔ نصف شب کا وقت ہوگا کہ کسی غیبی طاقت نے مجھے اپنی گرفت میں لے کر اتنی زور سے بھینچا کہ میرا انگ انگ ٹوٹنے لگا اور ساتھ ہی یہ پُرشوکت آواز آئی کہ ’’اتنا غلط فیصلہ‘‘۔ اس کے ساتھ ہی میری آنکھ کھل گئی۔ سارا جسم خوف اور پسینے سے شرابور تھا۔ گھر والوں کو جگایا۔ پانی پیا۔ جب ہوش آیا تو اسی وقت وضوکرکے دو نفل ادا کیے۔ بڑا استغفار کیا۔ دعائیں کیں اور سوچنے لگا کہ یہ نظارہ کس کے متعلق تھا اور مَیں نے کونسا غلط فیصلہ کیا ہے۔ معاً توجہ فائل کی طرف گئی۔ مَیں نے فیصلہ دوبارہ پڑھنا شروع کیا تو اس میں بڑے سقم نظر آئے اورمَیں نے محسوس کیا کہ واقعی یہ غلط فیصلہ ہے۔ چنانچہ مَیں نے ایک نیا فیصلہ لکھا۔ اس کے بعد بڑی ہی پُرسکون نیند آئی۔
اُس ہندوکو یقین تھا کہ وہ سزا سے کسی صورت بچ نہیں سکتا۔ اُس کے اعزا واقرباء اور وکلاء بھی کافی تعداد میں جمع تھے۔ وہ بڑی گھبراہٹ میں اپنی جیب سے ہر چیز نکال کے اپنے عزیزوں کو اس خدشے کے تحت دیتا جاتا کہ نامعلوم اب کتنی لمبی مدت کے لیے زنداں میں رہنا ہوگا۔ جب اُس کا نام پکارا گیا تو کپکپاتے قدموں سے کمرہ عدالت میں داخل ہوا۔ اُس کی انتقالِ مقدمہ کی درخواست اور اخبارات میں پراپیگنڈا کی بِنا پر ہر ایک کا خیال تھا کہ آج اُس کو سخت سزاسنائی جائے گی۔ صاحبزادہ صاحبؓ نے اپنے مخصوص انداز میں فرمایا: لالہ جی! آپ نے بڑا زور لگایا کہ مقدمہ کسی اَور کے پاس چلا جائے اور خوب پراپیگنڈا بھی کیا لیکن آپ کی ایک نہ چلی اور آخرکار میرے پاس ہی پھنسے۔ ہندو لالہ کا رنگ فق ہوتا جارہا تھا۔ آپؓ نے فرمایا: اس کے باوجود ہم آپ کو باعزت بری کرتے ہیں۔ اس ہندوکا یہ سننا تھا کہ وہ غش کھاکر زمین پر گرا اور کمرۂ عدالت میں موجود ہرشخص کی زبان پر یہ الفاظ تھے کہ آج انصاف کی حد ہوگئی۔
ایک دن حضرت صاحبزادہ صاحبؓ کے نوکر اُس ہندو لڑکے کو پکڑ کر آپؓ کے پاس لائے اور بتایا کہ جب آپ عدالت سے واپس آتے ہیں تو یہ کوٹھی کی چاردیواری پر سے جھانکتا ہے۔ آپؓ نے پوچھا کہ لالہ جی! کیا بات ہے؟ ہندوکہنے لگا: مہاراج! سچ بات یہ ہے کہ مجھے آپ ایک دیوتا معلوم ہوتے ہیں۔ میرے مَن میں آپ کے دیدارکے لیے ایک آگ سی لگی رہتی ہے اور جب تک آپ کو دیکھ نہ لوں مجھے کسی پل آرام نہیں آتا۔ آپؓ نے فرمایا: تو پھر تمہیں چوروں کی طرح جھانکنے کی ضرورت نہیں۔
آپؓ نے پھر ہاتھ بڑھاکر کہا آؤ آج سے ہم اور آپ دوست بنتے ہیں۔ آپ ہر وقت بلاروک ٹوک مجھے مل سکتے ہیں۔ اس طرح وہ تاعمر آپؓ کا غلام بےدام بن گیا۔
٭…مکرم سمیع اللہ صاحب شہید کا ذکرِ خیرکرتے ہوئے مکرم رانا ظفراللہ صاحب تحریرکرتے ہیں: آپ کے ڈیرہ کے قریب ایک گوٹھ میں ایک سخت معاند مولوی رہتا تھا جو اکثر آپ کا نام لے کر آپ کے خلاف لوگوں کو بھڑکاتا تھا۔ ایک رات آپ دکان سے لیٹ گھر آرہے تھے۔ اندھیری رات میں دیکھا کہ ایک آدمی اور ساتھ ایک عورت سڑک پر کھڑی ہے۔ اُس نے ہاتھ دیا تو آپ نے موٹرسائیکل کی روشنی میں پہچان لیا کہ یہ وہی مولوی ہے جو حضرت مسیح موعودؑ اور مجھے گالیاں دیتا ہے۔ بریک لگائی تو وہ مولوی التجا کررہاتھا کہ اُس کی بیوی بیمار ہے اور اس کو ہسپتال لے کر جانا ہے۔ آپ اُن دونوں کو پیچھے بٹھاکر روانہ ہوئے تو کچھ دیر بعد اُس مولوی کی سسکیوں کی آواز آئی۔ وجہ پوچھنے پر وہ کہنے لگا کہ آج اس وقت کوئی بھی ہوتا تو مجھے کبھی نہ اٹھاتا اور مَیں یہ سوچ رہا ہوں کہ وہ شخص جس کو مَیں روزانہ گالیاں دیتا ہوں اس کا حوصلہ کتنا زیادہ ہے کہ اس نے مجھے پہچان کر پھر بھی بریک لگالی اور میری مدد کی۔ بہرحال آپ نے اُس کی بیوی کو ہسپتال میں داخل کرایا اور مولوی صاحب کو ساتھ لے کر ایک میڈیکل سٹور سے دوائیں خود خرید کر دیں۔ اُس دن کے بعد وہ مولوی صاحب آپ کے اتنے گرویدہ ہوئے کہ کبھی آپ کے خلاف بات نہ کی۔ وہ کبھی کبھی آپ کی دکان پر بھی آتے تو آپ اُن کی تواضع کرتے اور ساتھ تبلیغ بھی کرتے۔

حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب

٭…جناب شورش کاشمیری صاحب مجلس احرار کے سرگرم رکن تھے۔ ایک ملاقات میں حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب سے کہنے لگے کہ آپ لوگوں (یعنی احمدیوں) کی ہربات کا جواب ہمارے پاس ہے سوائے ایک بات کے۔ پوچھنے پر اپنا یہ واقعہ سنایا کہ قیامِ پاکستان سے پہلے ایک سیاسی جلسے میں انگریز حکومت کے خلاف دھواں دھار تقریر کی تو جلسے کے فوراً بعد پولیس نے مجھے گرفتار کرلیا اور کسی دوسرے شہر لے جانے کے لیے ریلوے سٹیشن لے گئے۔ تب مجھے خیال آیا کہ پولیس نہ جانے کہاں کہاں لے جائے اور میری جیب میں موجود نقدی اور کلائی پر بندھی گھڑی ان کے ہاتھوں ضائع ہوجائے، بہتر ہے اگریہ کسی ضرورت مند کے کام آجائے۔ چنانچہ مَیں نے ریلوے سٹیشن پر موجود لوگوں کو غورسے دیکھنا شروع کیا کہ ان میں سے کون کون وضع قطع اور لباس سے مسلمان نظر آتا ہے۔ پھر ایک نوجوان کو اشارے سے اپنے پاس بلایا جو مسلمان دکھائی دیتاتھا اور مصافحہ کرتے ہوئے پولیس سے نظربچاکر نقدی اور گھڑی اُس کے حوالے کردی کہ اس کے کام آجائے۔ اس سے پیشتر کہ اُس کو کچھ کہنا ممکن ہوتا ریل گاڑی آگئی اور مَیں اس میں سوار ہوگیا۔
پھر مقدمہ چلا اور جب کئی ماہ کی جیل کاٹنے کے بعد شورش صاحب اپنے گھر پہنچے تو ایک دن کسی نامعلوم شخص نے آکر انہیں سلام کیا اور رومال میں لپٹی ہوئی گھڑی اور نقدی پیش کرکے کہا جناب اپنی امانت واپس لے لیجئے۔ شورش صاحب نے حیرت کا اظہار کیا تو نووارد نے انہیں سارا واقعہ یاد دلایا۔ شورش کہنے لگے کہ مَیں نے تو آپ کو ایک نیک دل مسلمان بھائی سمجھ کر تحفہ دیا تھا۔ وہ کہنے لگا یہ بات آپ کے دل میں ہی ہوگی کیونکہ پولیس کی موجودگی کی وجہ سے آپ کچھ نہ کہہ سکے تھے اور گاڑی روانہ ہوگئی تھی۔ بہرحال میں نے تو اسے امانت سمجھ کر وصول کیا اور اسے سنبھال کر رکھا اور آج واپس کرنے آیاہوں۔ پھر دریافت کرنے پر اُس نے مزید بتایا کہ اُسے اخبارات سے پتا چلتا رہا کہ کتنی قید ہوئی ہے اور کب رہائی ہوگی۔ اس پر شورش صاحب نے بےاختیار ہوکر پوچھا کہ اپنا تعارف تو کروائیں۔اُس نے جواب دیا کہ مَیں احمدی ہوں۔ شورش صاحب سارا واقعہ سناکر حضرت مولوی ابوالعطاء صاحب سے کہنے لگے کہ آپ لوگوں کی اسی بات کا جواب ہمارے پاس نہیں ہے۔

عبدالعزیز ڈوگر صاحب حضورایدہ اللہ تعالیٰ کے ہمراہ

٭…محترم چودھری عبدالعزیز ڈوگر صاحب لکھتے ہیں: اکثر گرمیوں میں حضرت مصلح موعودؓ کلرکہار کے نزدیک ایک جگہ جابہ جاکر کچھ عرصہ قیام فرمایا کرتے تھے۔ 1957ء میں آپؓ نے مجھے وہاں طلب فرمایا۔ مَیں حاضر ہوا تو حضورؓ نے فرمایا ظہرکی نماز پڑھ کر کھانا میرے ساتھ ہی کھانا۔ کھانے پر ایک اَور دوست بھی بیٹھے تھے۔ ان کا نام چودھری اعظم علی تھا اور وہ سیشن جج تھے۔ کھانا کھانے کے بعد اجازت لے کر ہم دونوں اکٹھے سرگودھا کے لیے بذریعہ بس روانہ ہوئے۔ راستے میں مَیں نے اُن سے کہا کہ آپ کسی کی سفارش نہیں مانتے حتیٰ کہ اپنے والد صاحب کی بھی نہیں تو مجھے اپنی زندگی کا کوئی یادگار واقعہ سنائیں۔
مکرم چودھری صاحب نے بتایا کہ ایک دفعہ قتل کا ایک مقدمہ میری عدالت میں آیا۔ مقدمے کی کارروائی اور گواہوں کے بیانات کے بعد میں نے ملزم کو پھانسی کی سزادینے کا فیصلہ کیا۔ ملزم کے وکیل کو اس بات کا اندازہ ہوگیا تھا اور اُس نے یہ بات جاکر ملزم کی والدہ کو بتادی کہ ہم کیس ہارگئے ہیں اور ہوسکتاہے کہ پھانسی کی سزا ہوجائے۔ میرا ہمیشہ سے یہ دستورتھا کہ کسی کو بھی پھانسی کی سزا کا فیصلہ سنانے سے پہلے نفل پڑھاکرتا تھا۔ اب بھی جب مَیں نفل پڑھ چکا تو باہر سے بڑی آہ و بکا کی آوازیں آئیں۔ سپاہی نے آکر بتایا کہ اُسی ملزم کی ماں فریاد کررہی ہے۔ چنانچہ مَیں نے اُس وقت فیصلہ نہ لکھوایا اور گھر چلاگیا۔ رات کو تہجد میں پھر دعا کی کہ خدا مجھے صحیح فیصلہ کرنے کی توفیق دے۔ اُسی رات مجھے کشفاً سارے حالات نظرآئے کہ وہ قتل کیسے ہوا اور آلۂ قتل کہاں ہے۔ مَیں نے فوراً پولیس کو ہدایات دیں کہ اُس متعلقہ گاؤں کی ناکہ بندی کرلی جائے۔ پولیس افسران میری اس ہدایت پر حیران ہوکر تمسخر اُڑانے لگے۔ بہرحال مَیں اس گاؤں کی طرف روانہ ہوا تو راستے میں ایک نہرکا پُل نظر آیا جو مَیں نے کشف میں دیکھا تھا۔ وہاں رُک کر مَیں نے سپاہی کو کہا کہ پُل سے اتنے فاصلے پر کھدائی کریں۔ کھدائی کرنے پر وہاں سے آلۂ قتل اور مقتول کے خون آلود کپڑے برآمد ہوئے۔ پھر ہم گاؤں میں داخل ہوئے اور میری نشاندہی پر دو آدمیوں کو گرفتار کرلیا گیا جنہوں نے بعد میں اقرارِ جرم کرلیا۔ تحقیق کرنے پر پتا چلاکہ اُن دونوں نے اُس کی جائیداد کے حصول کے لیے اُس بےگناہ کو پھنسایا تھا۔ اس طرح خداتعالیٰ نے میرے ہاتھوں ایک بےگناہ کو پھانسی سے بچالیا۔

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام
حضرت اقدس مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام احمدیوں میں پیدا ہونے والی پاکیزہ تبدیلی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ہزارہا آدمیوں نے میرے ہاتھ پر اپنے طرح طرح کے گناہوں سے توبہ کی ہے اور ہزارہا لوگوں میں بعد بیعت مَیں نے ایسی تبدیلی پائی ہے کہ جب تک خدا کا ہاتھ کسی کو صاف نہ کرے ہرگز ایسا صاف نہیں ہو سکتا۔ اور میں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ میرے ہزارہا صادق اور وفادار مرید بیعت کے بعد ایسی پاک تبدیلی حاصل کرچکے ہیں کہ ایک ایک فرد ان میں بجائے ایک ایک نشان کے ہے۔‘‘ (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد22 صفحہ249)

احمدی کی عظمتِ کردار” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں