اختتامی خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع جلسہ سالانہ جرمنی26؍جون 2011ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُواللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ۔وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا وَاذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْۡکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآءً  فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ  اِخْوَانًا۔ وَکُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَکُمْ مِّنْۡہَا۔ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ آیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُوْنَ۔ (آل عمران:104-103)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کا ایسا تقویٰ اختیار کرو جیسا اس کے تقویٰ کا حق ہے اور ہرگز نہ مرو مگر اس حالت میں کہ تم پورے فرمانبردار ہو اور اللہ کی رسّی کو سب کے سب مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقہ نہ کرو اور اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو یاد کرو کہ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں کو آپس میں باندھ دیا اور پھر اس کی نعمت سے تم بھائی بھائی ہو گئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر (کھڑے) تھے تو اس نے تمہیں اس سے بچا لیا۔ اسی طرح اللہ تمہارے لئے اپنی آیات کھول کھول کر بیان کرتا ہے تا کہ شاید تم ہدایت پا جاؤ۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :

’’تقویٰ حقیقت میں اپنے کامل درجہ پر ایک موت ہے کیونکہ جب نفس کی سارے پہلوؤں سے مخالفت کرے گا تو نفس مر جاوے گا‘‘۔

(ملفوظات جلد6 صفحہ340۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پھر فرمایا:’’ ہماری جماعت کو چاہئے کہ نفس پر موت وارد کرنے اور حصولِ تقویٰ کے لئے وہ اوّل مشق کریں جیسے بچے خوش خطی سیکھتے ہیں تو اوّل اوّل ٹیڑھے حرف لکھتے ہیں لیکن آخر کار مشق کرتے کرتے خود ہی صاف اور سیدھے حروف لکھنے لگ جاتے ہیں۔ اسی طرح ان کو بھی مشق کرنی چاہئے ۔جب خدا تعالیٰ ان کی محنت  کو دیکھے گا تو خود اُن پر رحم کرے گا۔‘‘

(ملفوظات جلد6 صفحہ341-340حاشیہ۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان )

 پس یہ طریق ہے اُس تقویٰ کے حصول کا جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہیٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوْاللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ  کہ اے لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ کا ایسا تقویٰ اختیار کرو جیسا کہ اُس تقویٰ کا حق ہے۔ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے کہ نفس کی سارے پہلوؤں سے مخالفت کی جائے۔ انسان کے سامنے ہر ہر قدم پر تقویٰ سے توجہ ہٹانے کے سامان پڑے ہیں اور یہ سامان بھی اللہ تعالیٰ کی مرضی سے ہی پیدا ہوئے ہیں کہ شیطان کو کھلی چھٹی دے دی کہ یہ سامان پیدا کرو ۔جب اُس نے کہا کہ مَیں کروں گا ،اللہ تعالیٰ نے فرمایا ٹھیک ہے۔ اور پھر ایک مومن کو، حقیقی مومن کو فرمایا کہ اب تمہارا کام یہ ہے کہ یہ جو شیطانی کام ہیں ان سے بچو۔ اگر بچتے رہے تو ایمان کی حالت میں ترقی کرتے رہو گے اور حقیقی تقویٰ کو پا لو گے اور فرمایاکہ ان چیزوں سے بچنے کے لئے مسلسل کوشش کرو جو تقویٰ سے ہٹانے والی ہیں ۔

حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ جب بچہ لکھنا سیکھتا ہے تو ٹیڑھے میڑھے حرف لکھتا ہے اور پھر بھی وہ کوشش کرتا چلا جاتا ہے، تھکتا نہیں ہے۔ ایک پڑھنے والے بچے کو، سیکھنے والے بچے کو سیکھنے کا شوق ہوتا ہے۔ اور پھر ایک وقت آتا ہے کہ وہ خوبصورت الفاظ لکھنے لگ جاتا ہے۔ فرمایا کہ اگر مومن اس طرح تسلسل سے کوشش کرتا رہے تو تقویٰ کے اُس معیار پر پہنچ جائے گاجس پر خدا تعالیٰ ہمیں دیکھنا چاہتا ہے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا اللہ تعالیٰ نے شیطان کو کھلی چھٹی بھی دے دی ہے اور یہ چھٹی دے کر ہمیں اُس کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ دیا کہ اب خود ہی لڑو اور کوشش کرو، اگر بچ گئے تو میرے ورنہ شیطان کی گود میں چلے جاؤ۔ بلکہ طریقے بھی سکھائے ہیں۔ اللہ تعالیٰ دنیا میں ہماری مدد کے لئے اپنے فرستادے بھی وقتاً فوقتاً بھیجتا رہتا ہے جو دنیا کو شیطان کے حملوں سے بچانے اور خدا تعالیٰ کے قریب کرنے آتے ہیں۔ انسان کی تقویٰ میں ترقی کے لئے آتے ہیں۔ اور اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث فرما کر ہمیں تقویٰ کی حقیقت بتائی ہے۔ اور آپؑ نے بڑے مختصر اور جامع الفاظ میں ہمیں بتایا کہ تقویٰ کا حق ادا کرنے کے لئے اپنے نفس کی تمام خواہشات پر موت وارد کرنی ہو گی کہ مرضات اللہ کی تلاش کرو۔ تمہارا ہر فعل اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہو۔ اور جب ہر کام اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہو تو پھر نفس پر موت وارد ہوتی ہے۔ لیکن یہ کوئی ایک دن کا کام نہیں ہے، ایک مرتبہ کی کوشش نہیں ہے بلکہ ایک مسلسل کوشش ہے۔ ثباتِ قدم دکھانے کی ضرورت ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں کہ:

 ’’تقویٰ کا مرحلہ بڑا مشکل ہے۔ اُسے وہی طے کر سکتا ہے جو بالکل خدا تعالیٰ کی مرضی پر چلے۔ جو وہ چاہے وہ کرے۔ اپنی مرضی نہ کرے۔ بناوٹ سے کوئی حاصل کرنا چاہے تو ہر گز نہ ہو گا۔ اس لئے خدا کے فضل کی ضرورت ہے اور وہ اسی طرح سے ہو سکتا ہے کہ ایک طرف تو دعا کرے اور ایک طرف کوشش کرتا رہے۔   خدا تعالیٰ نے دعا اور کوشش دونو کی تاکید فرمائی ہے کہ اُدْعُوْ نِیٓ اَسْتَجِبْ لَکُم(المومن :61) (کہ جب مجھ سے دعا کرو تو مَیں قبول کروں گا۔ فرمایا کہ ادْعُوْ نِیٓ اَسْتَجِبْ لَکُم) میں تو دعا کی تاکید فرمائی ہے اوروَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَاَ(العنکبوت:70)میں کوشش کی‘‘۔ یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو لوگ ہماری راہ میں جہاد کرتے ہیں، کوشش کرتے ہیں اُن کو ہم اپنے راستوں کی طر ف ہدایت دیتے ہیں۔ فرمایا کہ ’’جب تک تقویٰ نہ ہو گا     اولیاء الرحمن میں ہرگز داخل نہ ہو گا‘‘۔(ملفوظات جلد6 صفحہ227۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان) جب تک تقویٰ نہیں ہو گا بندہ اولیاء الرحمن میں داخل نہیں ہو سکتا۔

پس اللہ تعالیٰ حقیقی مومنوں سے حقیقی تقویٰ چاہتا ہے اور اس کے لئے مختلف راستے اُس نے بتائے ہیں اور پھر ہم پر یہ احسان کیا کہ ہمیں اُس زمانے میں پیدا کیا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق اور آخری زمانے کے امام کو بھیجاجنہوں نے پھر خدا تعالیٰ کے پیغام کو ہم تک کھول کر پہنچایا۔ پس ہمارا فرض ہے کہ اس امام کے کامل فرمانبردار بنتے ہوئے اُس کی پوری اطاعت کریں۔ کامل فرمانبرداری کی کوشش کریں کیونکہ اس کی فرمانبرداری میں ہی اللہ کے رسول اور اللہ کی فرمانبرداری ہے۔ وہ عمل ہمارے سے ہوں جو ہمارا امام ہم سے چاہتاہے۔ گزشتہ مذاہب میں برائیاں اس لئے جڑ پکڑ گئی تھیں کہ اُن میں تقویٰ کی کمی ہو گئی تھی اور پھر وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کے مورد بنتے چلے گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو بھی یہ تنبیہ کی ہے، یہ وارننگ (warning)دی ہے کہ بگڑے ہوئے زمانہ میں جب تقویٰ کی کمی ہو گی تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے مسیح موعود کو بھیجے گا جو امام الزمان ہو گا، اُسے مان لینا تا کہ تقویٰ کی راہوںپر چلتے رہو، ورنہ جیساپہلی قوموں کا حال ہوا ہے تمہارا بھی ہو سکتا ہے اور ہو جائے گا۔ بیشک اسلام نے اب تا قیامت قائم رہنا ہے لیکن حقیقی مسلمان اور تقویٰ پر چلنے والے وہی ہوں گے جو اس زمانے کے امام کے ساتھ جڑنے والے ہوں گے۔

پس یہاں اللہ تعالیٰ نے جہاں یہ تنبیہ فرمائی کہ اگر تم نے احتیاط نہ کی، تقویٰ کا حق ادا نہ کیا، اللہ تعالیٰ کی رضا کو تلاش نہ کیا تو خدا تعالیٰ کی سزا کے مورد بن سکتے ہو۔ وہاں ایک تسلی بھی دلائی کہ اگر تقویٰ کا حق ادا کرتے رہو گے یا ادا کرنے کی کوشش کرتے رہو گے تو اللہ تعالیٰ کے انعامات کے وارث بھی بنو گے۔ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْن(آل عمران:103) ۔ اور ہرگز نہ مرو مگر اس حالت میں کہ تم فرمانبردار ہو۔ اس کا یہی مطلب ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر تقویٰ کی تلاش میں لگے رہے، اپنی طبیعتوں پر جبر کر کے اپنی اصلاح کی کوشش کرتے رہے تو ایسی حالت کی موت بھی اللہ کا قرب دلانے والی ہو گی اور جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ موت کا کوئی وقت مقرر نہیں ہے، یہ کامل فرمانبرداری کی تلاش اور جستجو اور کوشش اگر حقیقت میں ہو گی تو خدا تعالیٰ جو دلوں کا حال جانتا ہے وہ اپنے بندوں پر رحم اور فضل کرتے ہوئے اُنہیں نیک بندوں میں شمار کر لیتا ہے جو تقویٰ پر چلنے والے ہوتے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ کے رحم سے یہ بھی بعید نہیں کہ ایک مسلمان جو مسلسل کوشش کرتا ہے اُس کی موت ہی اللہ تعالیٰ اُس وقت لائے جب تقویٰ کے اعلیٰ مدارج پر پہنچ چکا ہو یا اُس کے قریب ہو۔ غرض کہ اصل چیز نیت ہے۔ ایک کوشش ہے اور دعا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہر کوشش اور عمل ہو رہا ہے تو اللہ تعالیٰ موت کے وقت ایسے مومن کے لئے ایسے حالات پیدا فرما دیتا ہے جو اسے اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار بنانے والے ہوتے ہیں۔پس اس کے حصول کے لئے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے دعا اور کوشش ایک مومن کی پہچان ہے۔

پس مَیں بار بار جب اس طرف توجہ دلاتا ہوں تو اسی لئے کہ یہ بہت اہم چیز ہے۔ ہمیں اس کے حصول کی کوشش کرنی چاہئے۔ ہم جو اُس امام کے ماننے کا دعویٰ کرتے ہیں، ہمیں اس بات پر خوش نہیں ہو جانا چاہئے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر زمانے کے امام کو مان لیا ہے، اُس کی بیعت میں شامل ہو گئے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے باقی تمام وہ باتیں بھی اپنی زندگی کا حصہ بنانی ہوں گی جو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والی ہوں اور جن کو ہم پر واضح کرنے کے لئے اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجا ہے اور آپ نے جماعت کا قیام فرمایا ہے۔ آپؑ ایک جگہ فرماتے ہیں :

 ’’اس سلسلہ سے خدا تعالیٰ نے یہی چاہا ہے اور اُس نے مجھ پر ظاہر کیاہے کہ تقویٰ گم ہو گیا ہے۔بعض تو کھلے طور پر بے حیائیوں میں گرفتار ہیں اور فسق و فجور کی زندگی بسر کرتے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو ایک قسم کی ناپاکی کی ملونی اپنے اعمال کے ساتھ رکھتے ہیں، مگر انہیں نہیں معلوم کہ اگر اچھے کھانے میں تھوڑا سا زہر پڑ جاوے تو وہ سارا زہریلا ہو جاتا ہے۔ اور بعض ایسے ہیں جو چھوٹے چھوٹے (گناہ )ریا کاری وغیرہ جن کی شاخیں باریک ہوتی ہیں اُن میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اب اللہ تعالیٰ نے یہ ارادہ کیا ہے کہ وہ دنیا کو تقویٰ اور طہارت کی زندگی کا نمونہ دکھائے۔ اسی غرض کے لئے اُس نے یہ سلسلہ قائم کیا ہے۔ وہ تطہیر چاہتا ہے اور ایک پاک جماعت بنانا اُس کا منشاء ہے۔‘‘(ملفوظات جلد5 صفحہ97-96۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

 پس یہ ہے وہ عظیم مقصد جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جماعت کا قیام فرمایا  یا جس کے قیام کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو مبعوث فرمایا۔ پس آج جس فسق و فجور میں دنیا مبتلا ہے وہ ظاہر و باہر ہے۔ ہر ایک دیکھ سکتا ہے کہ ہر طرف بے حیائی کا دور دورہ ہے۔ میڈیا نے بالکل بے حیائی پیدا کر دی ہوئی ہے اور اس فسق و فجور کو ابھارنے کے لئے نئے نئے ذرائع دنیا نے اختیار کر لئے ہیں۔ الیکٹرانک طریق ہیں، اخبارات ہیں وغیرہ وغیرہ۔ پس اگر آج ایک احمدی نے اور احمدی کہلانے والے مرد، عورت، نوجوان اور بچے نے اس بات کو نہ سمجھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جماعت بنانے کے لئے آئے تھے جو دنیا کو فسق و فجور سے نکالے اور خود بھی اگر یہ لوگ اس کی بجائے، الیکٹرانک ذرائع اور دوسری لغویات میں پڑ کر تقویٰ سے دور ہٹ گئے تو پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شمولیت کے مقصد کو بھولنے والے ہوں گے۔ فسق و فجور کیا چیز ہے؟ فسق کہتے ہیں، سچائی، صحیح راستے، قانونی حدود اور فرمانبرداری سے باہر نکلنا۔ اخلاق سے گری ہوئی اور گناہوں میں ڈوبی ہوئی حرکات کرنا۔ اسی طرح فجور کا مطلب ہے، سچائی سے دور ہٹنا، جھوٹ بولنا، غلط حرکات کرنا، جھوٹی قسمیں کھانا، اللہ تعالیٰ کے احکامات کو نظر انداز کرنا۔ اب آج کل کے جو مختلف ذرائع دنیا کی تفریح کے لئے بنائے گئے ہیں، اگر غور کریں تو وہ سب نیکیوں سے دور کرنے والے ہیں، جھوٹ کی ترغیب دلانے والے ہیں، بے حیائیوں کی طرف لے جانے والے ہیں،اللہ تعالیٰ کے احکامات نظر انداز کرنے اور فرمانبرداری سے باہر نکلنے کی ترغیب دلانے والے ہیں۔ بے حیائی کی ترغیب کی ایک مثال دیتا ہوں۔

 آج انٹرنیٹ یا کمپیوٹر پر آپس کے تعارف کا  ایک نیاذریعہ نکلا ہے جسے Facebook کہتے ہیں۔ گو اتنا نیا بھی نہیں لیکن بہر حال یہ بعد کی چند سالوں کی پیداوار ہے ۔ اس طریقے سے مَیں نے ایک دفعہ منع بھی کیا، خطبے میں بھی کہا کہ یہ بے حیائیوں کی ترغیب دیتا ہے۔ آپس کے جو حجاب ہیں، ایک دوسرے کا حجاب ہے، اپنے راز ہیں بندے کے وہ اُن حجابوں کو توڑتا ہے، اُن رازوں کو فاش کرتا ہے اور بے حیائیوں کی دعوت دیتاہے۔ اس سائٹ کو جو بنانے والا ہے اُس نے خود یہ کہا ہے کہ مَیں نے اسے اس لئے بنایا ہے کہ مَیں سمجھتا ہوں کہ انسان جو کچھ ہے وہ ظاہر و باہر ہو کر دوسرے کے سامنے آ جائے اور اُس کے نزدیک ظاہر و باہر ہو جانا یہ ہے کہ اگر کوئی اپنی ننگی تصویر بھی ڈالتا ہے تو بیشک ڈال دے اور پھر اس پر دوسروں کو تبصرہ کرنے کی دعوت دیتا ہے تو یہ جائز ہے۔ اِنَّا لِلّٰہ۔ اسی طرح دوسرے بھی جو کچھ کسی کے بارے میں دیکھیں اُس میں ڈال دیں۔ یہ اخلاقی پستی اور گراوٹ کی انتہا نہیں تو اَور کیا ہے؟ اور اس اخلاقی پستی اور گراوٹ کی حالت میں ایک احمدی ہی ہے جس نے دنیا کو اخلاق اور نیکیوں کے اعلیٰ معیار بتانے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف لے کر آنا ہے اُس سے تعلق پیدا کروانا ہے، اُن کو اس بات کی طرف متوجہ کرنا ہے کہ تمہاری زندگی کا مقصد خدا تعالیٰ کی عبادت اور کامل فرمانبرداری ہے، اس کے لئے کوشش کرو ورنہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سہیڑنے والے بن جاؤ گے۔اب ایک طرف تو یہ دعویٰ ہے کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں آ کر ان نیک باتوں اور تقویٰ کو قائم کرنا ہے اور دوسری طرف یہ کہ ہمیں فیس بک (Facebook)سے کیوں روکا جاتا ہے؟ ہمیں ہماری آزادی سے کیوں محروم کیا جاتا ہے؟ یہ دو باتیں ساتھ ساتھ نہیں چل سکتیں۔ ہمیں یہ سوچنا ہو گا کہ ہم نے ان میں سے کس کو اختیار کرنا ہے اللہ تعالیٰ کی رضا کو، تقویٰ کو یا اِن فسق و فجور پھیلانے والی باتوں کو؟

 آج ایک احمدی ہی وہ خوش قسمت ہے جو دنیا کی صحیح رہنمائی کر سکتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اُس کو دینی علم سے، خزانوں سے اس طرح مالا مال کر دیا ہے کہ کسی دوسرے کے پاس وہ خزانے ہیں ہی نہیں۔ قرآنِ کریم کی روشن تعلیم کی جو تفسیریں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمائی ہیں وہ کسی اور کے پاس مل ہی نہیں سکتیں۔ پس احمدی ہی ہے جو دوسروں کی رہنمائی کر سکتا ہے، نیکیوں اور بدیوں کی تمیز کر سکتا ہے اور کروا سکتا ہے۔ پس اس بات کو ہر احمدی کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مَیں جس کام پر مامور کیا گیا ہوں ،جو کام میرے سپرد کیا گیا ہے اُس کی ادائیگی کی کوشش کروں۔ بے حیائیوں اور لغویات میں نہ پڑوں۔ بیعت تو ہم نے اس لئے کی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے انصار بن کر فسق و فجور میں پڑی ہوئی دنیا کو فسق و فجور سے باہر نکالا جائے۔ لیکن اگر ہم خود ان برائیوں میں پڑ جائیں تو پھر اس دنیا کا کیا حال ہو گا ۔ پس جو اس بات کو نہیں سمجھے گا وہ آپ سے کاٹا جائے گا۔ کیونکہ آپ کا مقصد تقویٰ کا قیام ہے۔ جو اس مقصد کے حصول کے لئے مددگار نہیں بن سکتا وہ ظاہر میں بیشک جماعت کا ممبر کہلاتا ہو لیکن خدا تعالیٰ کی نظر میں وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے منسلک نہیں ہے اور اس کی بڑے واضح طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کشتی نوح میں وضاحت فرما دی ہے۔ پس ہمیں اپنے عمدہ کھانے میں سے دنیا کی ملونی کے زہر کو نکالنا ہو گا۔ بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے مقصد کی تکمیل کے لئے دوسروں کے کھانے بھی صاف کرنے ہوں گے، اُن کو بھی زہر کھانے سے بچانا ہو گا تبھی ہم فرمانبرداروں میں شمار ہوں گے۔ تبھی ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شمار ہوں گے۔ آپ نے یہ جو فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ تقویٰ و طہارت کی زندگی کا نمونہ دکھائے، خدا نے جو یہ نمونہ دکھانے کا طریق رکھا ہوا ہے یہ سب سے بڑھ کر تو انبیاء کا ہوتا ہے اور اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ نمونہ دکھایا۔ پھر اپنے صحابہ میں اسے قائم فرمایا انہوں نے بھی عمدہ نمونہ دکھایا اور پھر یہ جماعتِ مومنین جو تا قیامت رہنے والی جماعت ہے اس کے ممبران نے وہ نمونہ دکھانا ہے۔ اس لئے اب یہ ہماری بھی ذمہ داری ہے۔

پس یہ بڑے غور اور فکر کی بات ہے کہ ہم اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے اس مقصد کے حصول کے لئے جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مبعوث ہوئے تھے آپ کے معاون و مددگار بنیں۔ دنیا کی طرف زیادہ دیکھنے کی بجائے اپنے تقویٰ کے معیارکی طرف نظر رکھنے والے بنیں۔ اللہ تعالیٰ کے اس احسان پر شکر گزار ہوں کہ اُس نے ہمیں ایک جماعت میں شامل کر دیا ہے، ایک لڑی میں پرو دیا ہے جس کے ساتھ جُڑے رہنے اور جس میں پروئے رہنے سے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش ہم پر برس رہی ہے اور برستی چلی جائے گی۔ انشاء اللہ۔

 ہمیں اللہ تعالیٰ نے دنیا کے گند سے نکال کر اس جماعت سے وابستہ کر کے جو ہم پر احسان کیا ہے، اُس پر شکر گزاری کا تقاضا ہے کہ ہم تقویٰ کے معیار کو بڑھائیں۔ اُس رسّی کو مضبوطی سے پکڑیں جو خدا تعالیٰ نے ہماری دنیا و آخرت سنوارنے کے لئے ہمیں پکڑائی ہے۔ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ  وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا(آل عمران:104)  اور اللہ کی رسّی کو سب مضبوطی سے پکڑ لو۔ پہلی قومیں بگڑیں وہ اس لئے کہ اپنی تعلیم سے دورہو گئیں۔ ہر ایک تقویٰ سے دور ہو کر اپنے اپنے راستے اختیار کرنے لگا۔ تو اس میں یہ ایک پیشگوئی بھی ہے کہ مسلمان اپنی اس ذمہ داری کو نہیں سمجھیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے ہاتھ میں ایک رسّی پکڑائی ہے اور ہم نے اس کو مضبوطی سے تھامے رکھنا ہے، اُس تعلیم کی حقیقت کو تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے سمجھنے کی کوشش کرنی ہے جو قرآنِ کریم کی صورت میں اُتری ہے، تو پھر اس بات کو نہ سمجھنے کی وجہ سے مسلمان بھی یہودیوں کی طرح فرقوں میں بٹ جائیں گے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث بھی ہے اور پھر دنیا نے دیکھا کہ یہ فرقوں میں بٹ بھی گئے۔

                ایک حدیث میں آپؐ فرماتے ہیں کہ خدا کی کتاب قرآنِ کریم اللہ کی رسّی ہے جو آسمان سے زمین تک پھیلائی گئی ہے یا اتاری گئی ہے۔

(سنن الترمذی کتاب المناقب باب مناقب اھل بیت النبیﷺ حدیث نمبر3788دار المعرفۃ بیروت لبنان2002ء)

 پس قرآنِ کریم کے احکامات ہیں جو تقویٰ پر چلاتے ہیں لیکن قرآنِ کریم کی آیات کو سمجھنے کے لئے، اُس کے اسرار و رموز کو سمجھنے کے لئے، بعض باتوں کو سمجھنے کے لئے، اُس کی صحیح تفسیر سمجھنے کے لئے، اللہ تعالیٰ کے فرستادوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اُن نیک لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے جو اُس کو سمجھ سکیں اور جن کے آنے کے بارہ میں خدا تعالیٰ نے ہمیں قرآنِ کریم میں بتایا بھی ہوا ہے اور اِس زمانے میں جس کے آنے کی قرآنِ کریم میں ہمیں اللہ تعالیٰ نے آخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ(الجمعۃ:4)  فرما کر خبر بھی دی ہے جو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع میں قرآنِ کریم کا تعلق آسمان سے زمین پر جوڑے گا یا پھر اس رسّی کے ذریعے آسمان تک پہنچنے کے صحیح طریق سکھائے گا۔

پس اللہ تعالیٰ نے اس رسّی کو پکڑنے کی ہدایت فرمائی ہے کہ قرآنِ کریم کو پکڑو کیونکہ ایک زمانہ آئے گا جس میں قرآنِ کریم کا پڑھنا صرف رسم کے طور پر ہو گااور صرف ظاہری عزت قرآنِ کریم کی ہو گی، اُس کی تعلیم پر عمل نہیں ہو گا بلکہ مخفی شرک بھی مسلمان کر رہے ہوں گے۔ اب دیکھیں آج کل قبروں کو پوجا جا رہا ہے۔ہمارے سامنے بڑی واضح مثالیں موجود ہیں۔ مسلمانوں نے حضرت عیسیٰ کو آسمان پر بٹھا کر اللہ تعالیٰ کا شریک بنایا ہوا ہے۔

 پس اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہیں جو قرآنِ کریم کی تعلیم کو اس دنیا میں جاری کرنے کے لئے آئے اور وہی ہیں جو اسلام پر اعتراضات کو دُور کرنے والے ہیں۔کوئی آپ کے علمِ کلام سے باہر نکل کر اسلام پر اعتراض کرنے والے کا منہ بند نہیں کر سکتا اور آپ بھی ایک حبل اللہ ہیں۔ اس کو مضبوطی سے پکڑنے کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ارشاد فرمایا ہے۔ فرمایا کہ برف کی سِلوں پر گھٹنوں کے بل گھسٹ کر بھی جانا پڑے تو جانا اور اس مسیح و مہدی کو میرا سلام پہنچانا۔

 ( سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب خروج المہدی حدیث 4084 مکتبۃ المعارف ریاض ایڈیشن اول)

(مسند احمد بن حنبل جلد دوم صفحہ 182 مسند ابی ہریرۃؓ حدیث 7957 عالم الکتب بیروت 1998ء)

پھر اس قدرت کے بعد جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صورت میں آئی یہ بھی اللہ تعالیٰ کی رسّی ہے، ایک اور قدرت کے ظہور کا بھی اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے جیسا کہ فرمایا وَعَدَاﷲُ الَّذِیْنَ اٰ مَنُوْامِنْکُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ  (سورۃ النور:56) کہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے اُن لوگوں سے جو ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے۔ کیا وعدہ کیا ہے؟ وہ وعدہ یہ ہے کہلَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِم (سورۃ النور:56)  کہ انہیں ضرور خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اُن سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا۔ اوروَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ  اور انہیں تمکنت عطا کرے گا۔ یعنی دین کی مضبوطی کے لئے، جماعت کی ترقی کے لئے سامان پیدا فرمائے گا۔ پھر دوسری قدرت جو خلافت کی صورت میں ہے، حبل اللہ بن جائے گی اور جس جماعت میں یہ خلافت ہو گی وہ وحدت پر قائم ہو کر خدائے واحد و یگانہ کے ساتھ تعلق پیدا کرنے والی جماعت بن جائے گی۔

 پس قرآنِ کریم کو حقیقت میں ماننے والوں کے لئے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ وہ قرآنی پیشگوئی کے مطابق مسیح موعود کو مانیں اور آپ کے بعد آپ کے جاری نظامِ خلافت کے ساتھ تعلق پیدا کریں۔ جب یہ صورت ہو گی تو تبھی ایک رسّی کو مضبوطی سے پکڑنے کا حکم پورا ہو گا۔ آج مسلمانوں کے پاس قرآن ہے لیکن اس کے باوجود فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں، جیسا کہ مَیں نے کہا، اور اس حد تک اختلاف ہے کہ ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگائے جاتے ہیں۔ الزام تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور جماعت احمدیہ کو دیا جاتا ہے کہ یہ دوسرے مسلمانوں کو کافر سمجھتے ہیں جبکہ خود ان کے اپنے لٹریچر ایک دوسرے پر تکفیر کے فتووں سے بھرے پڑے ہیں۔ پس جب فرقوں میں بٹنے کی یہ پیشگوئی بھی پوری ہوگئی ہے جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا تھا جیسا کہ مَیں نے کہا ۔ تو جب یہ پیشگوئی پوری ہوگئی ہے تو پھر مسیح موعود کا ظہور بھی ہؤا۔ پس جب اللہ تعالیٰ نے یہ نعمت تم پر اتار دی ہے کہ جو مسیح موعود کی صورت میں ظاہر ہوئی۔یعنی فرقوں میں بٹنے کے بعد پھر اسلام کو ایک ہاتھ پر اکٹھا کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے مسیح موعود کو بھیج دیا ہے۔ اب حکم یہ ہے کہ اختلاف ختم کرو اور اگر حقیقت میں    حبل اللہ کے انعام سے فیض پانا چاہتے ہو تو مسیح موعود کو مان کر اُمّتِ واحدہ بن جاؤ۔

پس جہاں یہ پیغام اُن لوگوں کے لئے ہے جو جماعت احمدیہ میں ابھی شامل نہیں ہوئے تو جو احمدی ہیں، جو جماعت میں شامل ہوئے ہیں اُن کو بھی یہ یاد کروایا کہ جہالت سے حکمت کی طرف اور اندھیروں سے روشنی کی طرف کا جو سفر تم نے شروع کیا ہے تو اب اس کا حق بھی ادا کرنا ہے۔ جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُجڈ اور جاہل لوگوں کو انسان اور تعلیم یافتہ انسان اور باخدا انسان بنایا تھا، تم بھی باخدا انسان بننے کی کوشش کرو۔ اپنی نیکیوں اور تقویٰ کو بڑھانے کی کوشش کرو۔ پس اللہ تعالیٰ کے اس احسان کے بعد اگر ہمارے اندر رنجشوں اور بدظنیوں نے جگہ پائی تو ہم حبل اللہ کی صحیح قدر کرنے والے نہیں ہوں گے۔ پس ایک احمدی کو فکر ہونی چاہئے کہ ہر چھوٹی سے چھوٹی بات بھی جس سے آپس کی رنجشیں پیدا ہوتی ہیں، اُن کو دور کرے۔ اُس میں یہ فکر ہونی چاہئے  کہ اُس نے اللہ تعالیٰ کی خشیت اور تقویٰ دل میں پیدا کرنا ہے۔ اُس نے خدا تعالیٰ کی کامل فرمانبرداری اختیار کرنی ہے اور خدا تعالیٰ کی رسّی کو جو قرآن، نبوت اور خلافت کی صورت میں اتاری گئی ہے اس کے ساتھ مضبوط تعلق پیدا کرنا ہے، اُسے پکڑنا ہے اور مضبوطی سے تھام لینا ہے۔

یاد رکھیں کہ نبوت کی طرف سے کہی گئی تمام باتوںپر ایمان اور یقین نبوت سے تعلق میں بڑھاتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ آنے والا حکم اور عدل ہو گا اور ایمان کو ثریا سے زمین پر لائے گا تو اب ہر احمدی کے دل میں یہ یقین ہونا چاہئے کہ جو کچھ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے وہی صحیح ہے اور دین کی جو تشریح آپ نے کی ہے وہی اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ ہے۔ جو پیشگوئیاں آپ نے فرمائی ہیں اُن پر یقین ہی ایک مومن کو ایمان میں بڑھائے گا۔ آپ نے خلافتِ احمدیہ کے جاری نظام کی بہت کھول کر وضاحت فرمائی ہے اور خاص طور پر یہ تلقین فرمائی کہ میرے بعد خلافت کا جاری نظام میری ہی بعثت کا تسلسل ہے۔ جو یہ کہتا ہے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعاوی پر تو یقین رکھتے ہیں، آپ کو سچا مسیح موعود بھی مان لیتے ہیں، مہدی معہود بھی مان لیتے ہیں لیکن خلافت سے تعلق ضروری نہیں ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک بہت بڑے اعلان اور دعوے کو جھٹلانے والا بن جاتا ہے۔ آپ نے اپنی سچائی کے طور پر قدرتِ ثانیہ کا بیان فرمایا تھا۔ پس وہ لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوے کے منکر ہیں جو آپ کے اس واضح اعلان کے اس حصے کو نہیں مانتے کہ خلافتِ احمدیہ دائمی قدرت ہے جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی۔ اس وقت جماعت کی خوبصورتی ہی یہ ہے کہ خلافتِ احمدیہ نے اُسے وحدت کی لڑی میں پرویا ہوا ہے۔ اگر یہ نہیں تو  ایسے لوگ حبل اللہ کے تیسرے حصے کو کاٹنے والے بن جاتے ہیں، یا خود اُس سے کٹ گئے۔ پس جب حبل اللہ کا زمین پر پہنچنے والا ایک سرا کٹ گیا تو خدا تعالیٰ تک پہنچنے کا ذریعہ بھی کٹ گیا۔ پس خلافت کی اطاعت اور اس کی حفاظت ہی ایک انسان کو ، ایک احمدی کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آنے کا حقدار بناتی ہے یا بیعت میں آنے کا دعویٰ کرنے کا حق دار بناتی ہے۔ اور یہی حقیقت بیعت پھر محبت اور بھائی چارے کے رشتے کو پروان چڑھانے والی ہونی چاہئے۔ ورنہ پھر وہی بات ہو گی کہ آپؑ کی ایک بات کو مان لیا اور دوسری کو چھوڑ دیا۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

               ’’چاہئے کہ تمہارے تمام اعضاء اورتمام قوتیں خدا کی تابع ہوں اور تم سب ایک ہو کر اُس کی اطاعت میں لگو‘‘۔

(لیکچر لاہور روحانی خزائن جلد20 صفحہ157)

اور اللہ کی اطاعت کیا ہے؟ اُس کے تمام احکامات پر عمل کرنے کی بھرپور کوشش ہے۔ مثلاً آپس کے تعلقات ہیں یا جس آیت میں مثال دی گئی ہے کہ بھائی بھائی تھے اس کا خیال رکھنا۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں  دوبارہ مضبوطی سے جوڑا ہے۔پھر ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ  رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ(الفتح:30) کہ مومن آپس میں بے انتہا رحم کرنے والے ہیں۔اگر ہر احمدی صرف اسی ایک بات کو اپنی زندگی کا لازمی حصہ بنا لے تو جماعت کے اندر ایک انقلاب  پیدا ہو جائے گا۔ ہر احمدی کے دل کی کیفیت بدل جائے گی۔ ہر احمدی گھرانہ جنت نظیر بن جائے گا۔ ہر احمدی خاندان ایک مثالی خاندان بن جائے گا۔ ہر حلقہ اور شہر اور ملک کی جماعت ایک مثالی جماعت بن جائے گی۔ اللہ تعالیٰ کی نعمت کو یاد کرتے ہوئے جب یہ رحم کے سلوک ہو رہے ہوں گے تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی موسلا دھار بارش بھی انشاء اللہ تعالیٰ، برس رہی ہو گی۔

پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’وہ نمونہ دکھاؤ کہ غیروں کے لئے کرامت ہو۔ یہی دلیل تھی جو صحابہ میں پیدا ہوئی تھی۔ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآءً  فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُم (آل عمران:104)  یاد رکھو، تألیف ایک اعجاز ہے، یاد رکھو جب تک تم میں ہر ایک ایسا نہ ہو کہ جو اپنے لئے پسند کرتا ہے وہی اپنے بھائی کے لئے پسند کرے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے‘‘۔

(تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد دوم صفحہ 137، الحکم مؤرخہ 17 اپریل 1900ء صفحہ9 جلد4 نمبر14)

 پس یہ معیار ہیں جو ہم نے حاصل کرنے ہیں اور ہمیں ایک شدت کے ساتھ ان معیاروں کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اور جب ہم یہ کریں گے تو ہم حقیقی طور پر جماعت کے ساتھ جُڑے کہلانے والے بنیں گے یا بن سکتے ہیں۔ ہم وہ جماعت بن جائیں گے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بنانا چاہتے ہیں۔

 پھر آپ ایک جگہ فرماتے ہیں:

 ’’وَکُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ فَاَنْقَذَکُمْ مِّنْہَا اور تھے تم ایک گڑھے کے کنارے پر سو اُس سے تم کو خلاصی بخشی یعنی خلاصی کا سامان عطا فرمایا‘‘۔(براہین احمدیہ روحانی خزائن جلد1 صفحہ601 حاشیہ در حاشیہ نمبر3)

یہ آپ نے فرمایا۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ہر لفظ اپنے اندر ایک معنی رکھتا ہے۔ خلاصی کا سامان ایک تو چودہ سو سال پہلے ہوا تھا جب آگ سے بچ کر لوگ جنتوں کے وارث بن گئے تھے۔ یہ خلاصی ایسی تھی کہ اس نے صرف بچایا ہی نہیں بلکہ انعاموں کا وارث بھی بنا دیا۔ اور اب خلاصی کا یہ سامان اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث فرما کر فرمایا ہے۔ آپ نے محبت اور بھائی چارے کے صحیح اسلوب ہمیں سکھلائے ہیں۔ آپ نے گناہوں سے بچنے اور آگ سے بچنے کے طریق ہمیں سکھائے ہیں۔ آپ نے بندے کے حقوق دلوا کر مظلوموں کو ظالموں سے نجات دلوائی ہے اور ظالموں کو اُن کے  ظلموں سے بچا کر خلاصی دلوائی ہے۔ پس آج ہم بھی اسی صورت میں خلاصی پا سکتے ہیں جب اس سامان سے حقیقت میں فائدہ اُٹھانے والے ہوں گے۔ ورنہ وہی بات ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ جیسے باقی مسلمان ہیں ویسے تم ہو کیونکہ نماز، روزہ، زکوۃ، حج ، اس کے تو وہ بھی قائل ہیں اور تم بھی قائل ہو۔ وہ بھی ان فرائض کو ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تم بھی ان فرائض کو ادا کرنے کی کوشش کرتے ہو۔ لیکن جیسا کہ میں نے بتایا فرقوں میں بٹ کر اُن کی حالت قُلُوْ بُھُمْ شَتّٰی ( الحشر:15) والی ہو چکی ہے، یعنی اُن کے دل پھٹے ہوئے ہیں اور ایسے لوگوں کے بارے میں ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَھُمْ وَکَانُوْا شِیَعًا لَّسْتَ مِنْھُمْ فِیْ شَیْیئٍ۔ اِنَّمَآ اَمْرُھُمْ اِلَی اللّٰہِ ثُمَّ یُنَبِّئُھُمْ بِمَا کَانُوْا یَفْعَلُوْنَ (الانعام:160) یقیناً وہ لوگ جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور گروہ در گروہ ہو گئے، تیرا اُن سے کچھ بھی تعلق نہیں اُن کا معاملہ خدا ہی کے ہاتھ میں ہے پھر وہ اُن کو اُس کی خبر دے گا جو وہ کیا کرتے تھے۔

 پس آپس کی چپقلشوں اور رنجشوں کو کوئی معمولی بات یا ذاتی معاملہ نہیں سمجھنا چاہئے۔ یہی بڑھتے بڑھتے خاندانی اور پھر بعض دفعہ جماعتی جھگڑوں میں بدل جاتے ہیں کہ فلاں عہدیدار کا فلاں رشتہ دار ہے اور اُس نے فلاں موقع پر اُس کی مدد کی تھی۔ اور پھر بدظنیوں کا یہ لا متناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور پھر ایسے لوگ جماعتی نظام سے بھی بدظنی کرنے لگ جاتے ہیں۔ اپنے دلوں میں کدورتیں بھرتے چلے جاتے ہیں۔ اور پھر ایک وقت آتا ہے کہ جماعت سے بھی دُور ہٹ جاتے ہیں۔

پس قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ جب مختلف پیرایوں میں مختلف لوگوں اور قوموں کی مثالیں دے کر بیان فرماتا ہے وہ اس لئے کہ حقیقی مومن اُن سے سبق حاصل کریں، اپنی اصلاح کی کوشش کریں اور جس ہدایت پرقائم ہو چکے ہیں اُس کے راستے اپنے پر بند کرنے کی بجائے مزید کھولیں اور اُن انعامات سے فیض پائیں جو اللہ تعالیٰ نے مومنین کی جماعت سے وابستہ کئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا ہے کہ فَاَلَّفَ بَیْۡنَ قُلُوْبِکُم۔ پس اُس نے تمہارے دلوںکو باندھ دیا ۔یہ بھی اللہ تعالیٰ کا ایک احسان ہے جو اُس نے اپنے فضل سے کیا ہے اور یہ فضل ایک مومن سے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ آپس میں بھی اس احسان کے بدلے ایک دوسرے کے ساتھ پیار اور محبت میں بڑھیں، ایک دوسرے کے لئے خالص ہمدردی کے جذبات پیداکریں، تبھی حقیقی مومن کہلائیں گے، تبھی اللہ تعالیٰ کے حقیقی شکر گزار کہلائیں گے۔

 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نصیحت فرماتے ہوئے ایک موقع پر فرماتے ہیں:

’’صلاح، تقویٰ، نیک بختی اور اخلاقی حالت کو درست کرنا چاہئے۔ مجھے اپنی جماعت کا یہ بڑا غم ہے کہ ابھی تک یہ لوگ آپس میں ذراسی بات سے چڑجاتے ہیں۔ عام مجلس میں کسی کو احمق کہہ دینا بھی بڑی غلطی ہے۔ اگر اپنے کسی بھائی کی غلطی دیکھو تو اس کے لیے دعا کرو کہ خدا اُسے بچالے۔ یہ نہیں کہ منادی کرو۔ جب کسی کا بیٹا بدچلن ہو تو اس کو سردست کوئی ضائع نہیں کرتا بلکہ اندر ایک گوشہ میں سمجھاتاہے کہ یہ بُراکام ہے اس سے باز آجا۔ پس جیسے رِفق ،حلم اور ملائمت سے اپنی اولاد سے معاملہ کرتے ہو ویسے ہی آپس میں بھائیوں سے کرو‘‘۔

(ملفوظات جلد6 صفحہ 369-368۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

اور خاص طور پر عہدیداروں کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے ۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ باقی نہ رکھیں، عمومی طور پر بھی میں کہہ رہا ہوں۔

فرمایا:’’جس کے اخلاق اچھے نہیں ہیں مجھے اس کے ایمان کا خطرہ ہے کیو نکہ اس میں تکبّر کی ایک جڑہے۔ اگر خدا راضی نہ ہو تو گو یا یہ برباد ہو گیا۔ پس جب اس کی اپنی اخلاقی حالت کا یہ حال ہے تواسے دوسرے کو کہنے کا کیا حق ہے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَکُمْ وَاَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْکِتٰبَ۔ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ (البقرۃ:45 ) کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہوجبکہ تم کتاب بھی پڑھتے ہو، آخر تم عقل کیوں نہیں کرتے؟

اس کا یہی مطلب ہے کہ اپنے نفس کو فراموش کر کے دوسرے کے عیوب کو نہ دیکھتا رہے بلکہ چاہئے کہ اپنے عیوب کو دیکھے‘‘ ۔(اب یہ ایک بہت بڑی بات ہے اگر خود انسان اپنا جائزہ لینا شروع کر دے تو بہت سارے مسائل اور فساد ختم ہو جاتے ہیں)’’چاہئے کہ اپنے عیوب کو دیکھے چونکہ خود تو وہ پابندان امور کانہیں ہو تا اس لیے آخر کارلِمَ تَقُوْلُوْنَ مَالَا تَفْعَلُوْنَ (الصف:3)۔ کا مصداق ہو جاتا ہے‘‘ (یعنی تم کیوں وہ کہتے ہو جو کرتے نہیں)۔ فرمایا ’’اخلاص اور محبت سے کسی کو نصیحت کرنی بہت مشکل ہے۔ بعض وقت نصیحت کرنے میں بھی ایک پوشیدہ بُغض اور کِبرملا ہؤا ہوتاہے۔ اگر خالص محبت سے وہ نصیحت کرتے ہو تے تو خدا تعالیٰ اُن کو اس آیت کے نیچے نہ لاتا۔ بڑا سعید وہ ہے جواوّل اپنے عیوب کو دیکھے۔ ان کا پتہ اس وقت لگتا ہے جب ہمیشہ امتحان لیتا رہے‘‘۔پس ہمیشہ اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے بجائے دوسروں کی غلطیوں کے دیکھنے کے ’’ یادرکھو کہ کو ئی پاک نہیں ہو سکتا جب تک خدا اُسے پاک نہ کرے۔ جب تک دعا نہ کرے کہ مر جاوے ، اس حد تک دعا کرے تب تک سچّا تقویٰ حاصل نہیں ہو تا ‘‘۔  فرمایا ’’اس کے لئے دعا سے فضل طلب کر نا چاہئے‘‘۔

(ملفوظات جلد6 صفحہ 369۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان )

پس یہ وہ سوچ ہے جس سے تقویٰ کی تلاش کی ضرورت ہے۔آپس میں محبت اور پیار اور بھائی چارہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ خلافت سے سچی وابستگی کی ضرورت ہے۔ نظامِ جماعت کے ساتھ بے لوث تعلق کی ضرورت ہے۔ اللہ کرے کہ ہم ان معیاروں کو حاصل کرنے والے بن جائیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہم میں پیدا کرنا چاہتے ہیں اور ایک ہو کر اسلام اور احمدیت کی ترقی کے لئے کوشاں ہوں۔ اب وقت تیزی سے قریب آ رہا ہے کہ مغربی ممالک میں بھی انشاء اللہ تعالیٰ اسلام اور احمدیت کے پھیلنے کے دن ہیں، اور اس ملک میں انشاء اللہ تعالیٰ اسلام نے بڑی تیزی سے پھیلنا ہے، خاص طور پر جرمنی والوں کو اس طرف توجہ دینی چاہئے۔ لیکن اس کے لئے ہمیں اپنے اعلیٰ ترین معیار قائم کرنے ہوں گے تا کہ آنے والوں کے لئے ٹھوکر کا باعث نہ بنیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس انقلاب کو دیکھنے اور اس میں حصہ لینے کی توفیق عطا فرمائے۔

اب دعا ہو گی، دعا میں شہدائے احمدیت کے خاندانوں کو یاد رکھیں۔اللہ تعالیٰ اُن کی مشکلات کو دور فرمائے۔ اسیران کو یاد رکھیں اللہ تعالیٰ اُن کی مشکلات کو دور فرمائے۔جماعت کی کسی بھی رنگ میں خدمت کرنے والوں کو یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ اُن کو نیک نیتی سے تقویٰ پر چلتے ہوئے خدمت کی توفیق عطا فرمائے۔ اپنے لئے اور اپنی نسلوں کے لئے بہت دعائیں کریں کہ ہمیشہ جماعت کی برکات سے فیض پانے والے بنے رہیں۔ خلافتِ احمدیہ سے جُڑے رہنے کے لئے دعائیں کریں۔ دنیا کے لئے دعائیں کریں کہ جس تباہی کی طرف وہ تیزی سے جا رہی ہے اُس سے وہ بچ جائے۔ اب پتہ نہیں یہ انقلاب جو دنیا میں آنا ہے کسی تباہی کے بعد آنا ہے یا اُس سے پہلے اللہ تعالیٰ اِن کو بچا لے اور اُس طرف توجہ پیدا کر دے۔ بہر حال بہت دعاؤں کی ضرورت ہے۔ عالمِ اسلام کے لئے دعائیں کریں۔ اللہ تعالیٰ انہیں بھی عقل دے اور وہ زمانے کے امام کو مان لیں۔

(اس کے بعد حضور نے ہاتھ اٹھا کر دعا کروائی)۔

 

اپنا تبصرہ بھیجیں