اختتامی خطا ب حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ برموقع جلسہ سالانہ برطانیہ 2009

اگروحی و الہام کے دروازے بند ہوگئے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی صفات میں سے بھی
بعض صفات ختم کر چکاہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر بہتان عظیم ہے اور بہت بڑا گناہ ہے۔

دین کی تعلیم کو تازہ رکھنے کے لئے ،غافلوں کو جگانے کے لئے اور اللہ تعالیٰ کی روحانی بادشاہت کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے سلسلہ ٔوحی ضروری ہے۔

انبیاء کا کام ہے کہ خدا کی وحی کو دنیا تک پہنچا کرا س کی نجات کاسامان کریں۔ انبیاء کے بعد انبیاء کے ماننے والوں کی
ذمہ داری ہو جاتی ہے کہ اس پیغام کو جو نبی پر اترا ہے آگے پہنچائیں اور دنیا میں پھیلائیں ۔

آج یہی کام ہر احمدی کا ہے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایمان لائے ہیں، آپ کو اس زمانہ کا امام اور مسیح ومہدی مانا ہے تو
نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہ کا نعرہ لگاتے ہوئے اس مشن کی تکمیل کے لئے ہر قربانی کے لئے تیار ہوجائیں اور اس کام کو پورا کرنے کے لئے اپنی
تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لائیں جس کے لئے مسیح محمدؐی کوخدا تعالیٰ نے مبعوث فرمایا تھا۔

اس مقصد کے حصول کے لئے خاص کوشش کے ساتھ دعوت الی اللہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہر ملک اور ہر شہر اور ہر قصبہ اورہر گاؤں کے رہنے والے احمدیوں کو خاص پلاننگ کر کے اس کام کو سرانجام دینے کی ضرورت ہے۔ صرف دو چار فیصد تک یہ پیغام پہنچا کر ہم اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش نہیں ہوجاتے۔ دنیا ایک پاک انقلاب چاہتی ہے۔

ایشیا،یورپ،امریکہ ،آسٹریلیا ،جزائر کے رہنے والوں اور افریقہ ،ہندوستان،پاکستان اور عرب کے رہنے والے احمدیوںکو
مسیح موعود ومہدی معہود ؑکے پیغام کو ہر شہر ،ہر قصبے اور ہر گلی میں پہنچانے کی کوشش کرتے چلے جانے کا ولولہ انگیز پیغام۔
( حدیقۃ المہدی میں جلسہ سالانہ برطانیہ 2009ء کے موقع پر آیات قرآن مجید،عربی لغت اور حضرت مسیح موعود؈کے ارشادات کے حواالہ سے وحی و الہام کے جاری رہنے سے متعلق بصیرت افروز اختتامی خطاب)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب مسیحیت اور مہدویت کا دعوی کیا اور ساتھ ہی یہ اعلان بھی فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے بذریعہ و حی و الہام بتایا ہے کہ میں ہی آنے والا مسیح اور مہدی ہوں اور آنحضرت ا کی غلامی اور آپ ا سے عشق و محبت کی وجہ سے مجھے اُمّتی اور غیر تشریعی نبوت کا مرتبہ ملا ہے تو مخالفین نے ایک طوفان برپا کر دیا کہ یہ سراسر جھوٹ ہے اور آپ کیلئے ایسے ایسے غلیظ الفاظ استعمال کئے کہ کسی شریف آدمی کے منہ سے ایسی باتیں نہیںنکل سکتیں اور اب تک کرتے چلے جارہے ہیں۔ اور مسلمانوں کواس بات پر انگیخت کیا کہ اب آنحضرت ا کے بعد نبوت کے تمام دروازے آیت خاتم النبیّین کے ساتھ خدا تعالیٰ نے بند کر دئیے ہیں ۔ ہر احمدی اچھی طرح جانتا ہے کہ خاتم النبیّین کے جو معنی دوسرے کرتے ہیں یہ غلط ہیں۔ اس سے نبوت کے دروازے بند نہیں ہوئے بلکہ اللہ تعالیٰ کی اس آیت کے مطابق کہ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا (المائدہ:4)یعنی مَیں نے تمہارے فائدے کے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پراپنا احسان پورا کر دیا اور تمہارے لئے دین کے طور پر اسلام کو پسند کیا۔ اسلام ہی اب تا قیامت آخری دین ہے اور فرمایا کہ بَلْ ھُوَ قُرْآنٌ مَّجِیْدٌ فِیْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ(سورۃ البروج :23)یعنی یہ بزرگ کلام ہر جگہ اور ہر زمانہ میں پڑھا جانے والا ہے اور لوح محفوظ میں ہے۔اس کو اس طرح محفوظ کر دیا ہے کہ اب قیامت تک اس کی تعلیم نے ہی قائم رہنا ہے۔ یہ اعلان اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ اب کوئی نئی شریعت اور کوئی نیا دین نہیں آئے گا ۔کوئی آزاد نبی نہیں آسکتا جو خدا تعالیٰ سے اپنے تعلق کی وجہ سے، اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرتے ہوئے اس کی عطا سے براہ راست نبوت کا درجہ پائے بلکہ یہ مقام بھی اب اُسی کو مل سکتا ہے جو آنحضرت ا کی اُمّت میں سے ہواور آپ کی مہر کے نیچے ہو۔ یہ خدا تعالیٰ کا اعلان تھا ۔ پس اس غلط فہمی یا خاتم النبییّن کے الفاظ کا صحیح ادراک نہ رکھنے کی وجہ سے کچھ نا سمجھ علماء نے اور اکثریت شریر طبع علماء نے اُمّت کو حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف بھڑکانے کی ہر جگہ اور ہر زمانے میںکوشش کی اور کر رہے ہیں اور ظاہر ہے جب اس بات ہی کو نہیں سمجھا یانہ سمجھنا چاہا کہ ختم نبوت کا کیا مطلب ہے تو پھر وحی الٰہی کا مضمون جو اس سے منسلک ہے اُس کی بھی ان لوگوں نے غلط تشریح کرنی تھی اور کی۔ اوراعلان کیا اور کرتے ہیں کہ وحی الٰہی کے اب تمام دروازے بند ہوگئے اور حضرت مسیح موعود؈کے اس اعلان کہ خدا تعالیٰ مجھ سے بولتا ہے اور مجھے وحی و الہام کرتا ہے کے بھی سخت منکر ہوگئے۔ لیکن جو حق کی تلاش میں ہیں، سعید فطرت ہیں انہوں نے حق کو تلاش کیا، بات کو سمجھا اور سمجھ رہے ہیں اور حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہو کر آنحضرت ا کے لائے ہوئے آخری اورکامل اور مکمل دین کو دنیا کے کناروں تک پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
وحی و الہام کیا چیز ہے؟ یا اس کا حقیقی مطلب کیا ہے؟ کیونکہ اکثر ذہنوں میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر وحی و الہام کے دروازے بند ہوگئے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی صفات میں سے بھی بعض صفات ختم کر چکا ہے یا یہ صفت ختم ہوگئی ہے۔ گویا خدا تعالیٰ کی ایک صفت نعوذ باللہ فنا ہوگئی۔ یا خدا تعالیٰ جو سب طاقتوں کا مالک ہے جو یہ اعلان کرتا ہے کہ ھُوَالْا َوَّلُ وَالْاٰخِر ُ(الحدید:4)کہ وہ اوّل بھی ہے اور آخر بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ ازلی ابدی ہے اس کو فنا نہیں۔ اگر کسی بھی کام کو جو خداتعالیٰ پہلے کرتا تھا اب نہیں کرتا تو ماننا پڑے گا کہ اس کی بعض صفات میں کمی ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر بہتان عظیم ہے اور بہت بڑا گناہ ہے۔ ایک طرف تو مسلمانوں کا خدائے قادر وتوانا اورواحد ویگانہ کو ماننے کا دعویٰ ہے اور دوسری طرف بغیر سوچے سمجھے صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دشمنی میں ایسی بات کرنا جو اللہ تعالیٰ کی بلند شان پر حرف لاتی ہو اس پر ان کو کوئی روک نہیں ہے،کوئی شرم وحیاء نہیں ہے۔ پس خوف خدا کریں اور اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو یاد رکھیں کہ فَسُبْحٰنَ اللّٰہِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا یَصِفُوْنَ(الانبیاء:23)۔پس پاک ہے اللہ جو عرش کا بھی رب ہے اور تمام نقصوں سے پاک ہے اور اس سے بھی جو وہ کہتے ہیں۔
پس اللہ تعالیٰ جس طرح پہلے تمام صفات رکھتا تھا، وہ تمام صفات جن کا ہم علم رکھتے ہیں یا نہیں رکھتے، آج بھی وہ ان تمام صفات کا حامل ہے اور انہیںجب چاہے جس طرح چاہے استعمال کرتا ہے۔ آج بھی اس کی اپنے بندوں سے کلام کی صفت جاری ہے جس طرح پہلے جاری تھی اور اس زمانے میں اپنے وعدے کے مطابق جب اس نے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیجا تو ان سے وحی و الہام کے ذریعہ کلام کیا ۔حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے ایک شعر میں فرماتے ہیںکہ ؎
وہ خدا اب بھی بناتا ہے جسے چاہے کلیم اب بھی اس سے بولتا ہے جس وہ کرتا ہے پیار
پھر اللہ تعالیٰ قرآن کریم میںوحی کے جاری رہنے کے بارہ میں، فرشتے اترنے اور کلام کرنے کے بارے میں فرماتاہے اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَااللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا۔تَتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ الْمَلٰئِکَۃُ اَ لَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ(حٰمٓ السجدہ:31)یقینا وہ لوگ جنہوں نے کہا اللہ ہمارا رب ہے پھر استقامت اختیار کی۔ ان پر بکثرت فرشتے نازل ہوتے ہیں کہ خوف نہ کرو اور غم نہ کھاؤ اور اس جنت کے ملنے سے خوش ہوجاؤ جس کا تم وعدہ دئیے گئے ہو ۔
اور پھر فرماتا ہے نَحْنُ اَوْلِیٰٓؤُکُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ۔ وَلَکُمْ فِیْھَا مَا تَشْتَھِیْٓ اَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیْھَا مَا تَدَّعُوْنَ (حٰمٓ السجدہ:32 )ہم اس دنیوی زندگی میں بھی تمہارے ساتھ ہیں اور آخرت میں بھی اور اس میں تمہارے لئے سب کچھ ہوگا جس کی تمہارے نفس خواہش کرتے ہیں اور اس میں تمہارے لئے وہ سب کچھ ہوگا جو تم طلب کرتے ہو۔
پس ان آیات میں فرشتوں کے اترنے اور وحی کے جاری رہنے کا ذکر فرما کر اللہ تعالیٰ نے ان غلط سوچ رکھنے والے علماء کا بھی منہ بند کر دیا ہے جو کہتے ہیں کہ اب وحی کے دروازے بند ہیں۔ ہاں یہ وحی کے دروازے ان پر کھلے ہیں جو اللہ کے اولیاء ہیں۔ نام نہاد علماء نہیں۔ استقامت دکھانے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی خاطر ہر ابتلاء اور تکلیف کوبرداشت کرنے والے ہیں۔ ان پر فرشتے اترتے، ان سے کلام کرتے اور ان کو تسلی دیتے ہیں کہ ہم اس دنیامیں بھی تمہارے ساتھ ہیں اور اگلے جہان میں بھی ساتھ ہوں گے۔
اس آیت کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہمارا خدا وہ خدا ہے جو جامع صفات کاملہ ہے۔ جس کی ذات اور صفات میں اور کوئی شریک نہیں ۔اور یہ کہہ کر پھروہ استقامت اختیار کرتے ہیں اور کتنے ہی زلزلے آویںاور بلائیں نازل ہوں اور موت کا سامنا ہو اُن کے ایمان اور صدق میں فرق نہیں آتا اُن پر فرشتے اترتے ہیںاور خدا اُن سے ہمکلام ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ تم بلاؤں سے اور خوفناک دشمنوں سے مت ڈرو اور نہ گزشتہ مصیبتوں سے غمگین ہو۔مَیں تمہارے ساتھ ہوں اورمَیں اسی دنیا میں تمہیں بہشت دیتا ہوں جس کا تمہیںوعدہ دیا گیا تھا ۔ پس تم اس سے خوش ہو ۔ اب واضح ہو کہ یہ باتیں بغیر شہادت کے نہیں اور یہ ایسے وعدے نہیں کہ جو پورے نہیں ہوئے بلکہ ہزاروں اہل دل مذہب اسلام میں اس روحانی بہشت کا مزہ چکھ چکے ہیں۔ درحقیقت اسلام وہ مذہب ہے جس کے سچے پیروؤں کو خدا تعالیٰ نے تمام گزشتہ راستبازوں کا وارث ٹھہرایا ہے اور ان کی متفرق نعمتیں اس امت مرحومہ کو عطا کر دی ہیں ‘‘۔
(لیکچر لاہور۔ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 161)
پھر آپ فرماتے ہیں’’ الہام یعنی وحی الٰہی ایسی شئے ہے کہ جب تک خدا تعالیٰ سے پوری طرح صلح نہ ہو اور اس کی اطاعت کے لئے اس نے گردن نہ رکھ دی ہو تب تک وہ کسی کو حاصل نہیں ہوسکتی ۔ خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَااللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا۔تَتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ الْمَلٰئِکَۃُ اَ لَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ(حٰمٓ السجدہ:31)۔ یہ اسی امر کی طرف اشارہ ہے کہ نزول وحی کا صرف ان کے ساتھ وابستہ ہے جو کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں مستقیم ہیں اور وہ صرف مسلمان ہی ہیں‘‘۔
(البدرجلد 4نمبر 8مورخہ 13؍مارچ1905ء صفحہ 2۔بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود؈ جلد چہارم صفحہ 88)
اور پھر فرمایا کہ’’ مکالمہ الٰہیہ اور رؤیائے صالحہ سے خدا تعالیٰ کے مخصوص بندوں کو جو اس کے ولی ہیں ضرور حصہ ملتا ہے‘‘۔
پس ایک حقیقی مسلمان کا تو یہ عقیدہ ہونا چاہئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس زمانے میں زمانے کے امام اور آنحضرت ا کے عاشق صادق کو مان کر ہمارا یہ پختہ عقیدہ ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی تمام صفات کا جامع جیسا پہلے تھاآج بھی ہے۔ اور اپنے ولیوں اور خاص لوگوں پر جب چاہے وحی و الہام کرنے کی نہ صرف طاقت رکھتا ہے بلکہ کرتا ہے۔ لیکن جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ الہام اور وحی اُس صورت میں ہوسکتا ہے جب خدا تعالیٰ سے پوری صلح ہو۔ اس کے آگے مکمل طور پر گردن رکھ دی ہو اور یہ کہ یہ امتیازبھی صرف مسلمانوں کو ہی حاصل ہے۔ حیرت ہے کہ جو امتیاز اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے آنحضرت اکی لائی ہوئی کامل شریعت کے بعد مخصوص کر دیا ،مسلمان اُس اعزاز کو لینے سے انکاری ہیں۔ صرف اس لئے کہ حضرت مرزا غلام احمدقادیانی علیہ السلام نے مسیح و مہدی اور غیر تشریعی نبی ہونے کا دعویٰ کر دیا ہے اور یہ اعلان فرمایا کہ خدا تعالیٰ مجھ سے ہمکلام ہوتا ہے ۔ اور پھر یہ صرف زبانی دعویٰ نہیں بلکہ اپنے بیشمار الہامات وقت سے پہلے بتائے اور اپنوں اور غیروںنے ان کے پورا ہونے کی تصدیق کی۔مثلاً خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ’’ مَیں تیرے ساتھ اور تیرے تمام پیاروں کے ساتھ ہوں‘‘ (الہام دسمبر1907ء)۔اور آج 120 سال سے زائدکا عرصہ گزرنے کے بعدبھی نہ صرف ہر احمدی بلکہ غیر بھی یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ تمام تر مخالفتوں کے باوجود خدا تعالیٰ کی تائیدات تمہارے ساتھ لگتی ہیں۔ دشمنوں نے آپ پر حملے کئے۔ آپ کو مقدمات میں گھسیٹا لیکن خدا تعالیٰ نے پہلے سے آپ کو خبر دے دی کہ دشمن آپ کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتے اور پھر ایک دنیا نے دیکھا کہ دشمن نہ صرف اپنی کوشش میں ناکام ونامراد ہوئے بلکہ خدا تعالیٰ کے عذاب کے نیچے آکر عبرت کا نشان بنے۔ چاہے برصغیر میں اٹھنے والے دشمن تھے یا امریکہ جیسے ملک میں رہنے والا دشمن تھا۔ اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ آپ کو جوخبر دی تھی اس کے مطابق اُسے ذلیل و رسوا کر دیا۔ پس وہ کم عقل اور کمزور ایمان ہے جو کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام اور وحی کے دروازے بند کر دئیے ہیں۔
اب مَیں پھرو اپس اس بات کی طرف آتا ہوں کہ اہل لغت کے نزدیک وحی و الہام کیا چیز ہے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے اقتباسات سے واضح ہوگیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں سے کلام کرنا وحی و الہام ہے۔ اہل لغت اس کی کس طرح وضاحت کرتے ہیں ۔ تمام کا بیان تو ممکن نہیں ہے مفردات امام راغب میں جو بیان ہوا ہے وہ مَیں بتا دیتا ہوں ۔یہ بھی لغت کی ایک اچھی کتاب تسلیم کی جاتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ وحی کے اصل معنی جلدی اشارے کے ہیں اور چونکہ اس لفظ میںسرعت کے معنی پائے جاتے ہیں اس لئے کہا جاتا ہے اَمْرٌ وَحیٌ اور یہ وحی کبھی کلام کے ذریعہ بطور اشارے اور تعریض کے ہوتی ہے ۔اور کبھی ایسی آواز کے ذریعہ ہوتی ہے جو مرکب الفاظ سے خالی ہو اور کبھی جوارح یعنی اعضاء کے اشارے کے ذریعہ ہوتی ہے اور کبھی کتابت کے ذریعہ۔ اور اسی سے اللہ تعالیٰ کایہ قول ہے۔ فَخَرَجَ عَلٰی قَوْمِہٖ مِنَ الْمِحْرَابِ فَاَوْحٰٓی اِلَیْھِمْ اَنْ سَبِّحُوْا بُکْرَۃً وَّعَشِیًّا (مریم:12)۔پس وہ اپنی قوم پر محراب سے ظاہر ہوا اور انہیں اشارہ کیا کہ صبح شام تسبیح کرو ۔فرمایا کہ اسی قول (جو سورۃ مریم کی آیت ہے) کی بابت بعض نے کہا کہ ان کے نزدیک انہوں نے اشارہ کیا اور بعض نے کہا کہ انہوں نے لکھ کر بتایا۔ (یہ نوٹ کرنے والی بات ہے) اور اُس الٰہی کلام کو بھی جو خدا تعالیٰ کے انبیاء اور اولیاء کی طرف پہنچایا جائے وحی کہا جاتا ہے۔ (مفردات امام راغب زیر مادہ’’ وح ی‘‘)
اب دیکھیں حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے یہ کہنے پر کہ مجھ پر وحی ہوتی ہے ایک شور مچ جاتا ہے۔ ہم تو حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو نبی مانتے ہیں اور آپ کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ مَیں ایک غیر تشریعی نبی ہوں اور انبیاء پر تو وحی ہوتی ہے۔ لیکن امام راغب کے نزدیک اولیاء پر بھی وحی ہوتی ہے اور یہاں انہوں نے کوئی تخصیص نہیں کی کہ اولیا ء اور انبیاء کی وحی کافرق کیاہے۔ بلکہ الٰہی کلام خواہ اولیاء سے ہو یا انبیاء سے ہو اسے وحی کہا جاتا ہے۔
حضرت مصلح موعود؄ نے مختلف لغات سے وحی کے جو معنی اخذ کر کے لکھے ہیں وہ پیش کرتا ہوں۔ آپ مختلف لغات کے معنی لکھنے کے بعدلکھتے ہیں کہ ان حوالہ جات سے معلوم ہوتا ہے کہ وحی کے معنی نمبر 1۔ کسی کام پر مبعوث کرنا۔ نمبر2۔ دل میں بات ڈالنا۔ نمبر 3۔ اشارے سے بات سمجھانا۔ نمبر 4۔ کسی پیغامبر کی معرفت پیغام بھیجنا۔ نمبر5۔ لکھنا ۔ 6۔ دوسروںسے چھپا کر بات کرنا۔ 7۔ حکم دینا کے ہیں۔
(تفسیر کبیر جلد۹صفحہ419)
یہ وحی کی مزید وسیع تعریف ہوگئی ہے ۔اس وضاحت کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ قرآن کریم میں کن مواقع پر اور کن کے لئے اور کس کو وحی کرنے کا بیان فرماتا ہے اور کس طرح کی وحی ہوتی ہے۔
قرآن کریم میں وحی کا لفظ بیشمار جگہ اور مختلف مواقع پر اور مختلف چیزوں پر استعمال ہوا ہے جن میں انسان کے علاوہ دوسرے جاندار بھی شامل ہیں بلکہ جمادات بھی ہیں۔ اُن سب پر استعمال ہوا ہے۔ گو کہ عموماً انبیاء کیلئے استعمال ہوا ہے لیکن دوسرے انسانوں پر بھی استعمال ہوا ہے جیسا کہ حضرت موسیٰ کی والدہ کے معاملہ میںخداتعالیٰ فرماتا ہے کہ اِذْ اَوْحَیْنَآ اِلٰٓی اُمِّکَ مَا یُوْحٰٓی۔اَنِ اقِْْذِفِیْہِ فِی التَّابُوْتِ فَاقْذِفِیْہِ فِی الْْیَمِّ فَلْیُلْقِہِ الْیَمُّ بِالسَّاحِلِ یَاْخُذْہُ عَدُوٌّ لِّیْ وَعَدُوٌّ لَّہٗ۔ وَاَلْقَیْْتُ عَلَیْْکَ مَحَبَّۃً مِّنِّیْ۔ وَلِتُصْنَعَ عَلٰی عَیْْنِیْ(طٰہٰ:40-39)۔
جب ہم نے تیری ماں کی طرف وحی کی جووحی کی جاتی ہے کہ اسے صندوق میں ڈال دے۔ اور دریا میں ڈال دے پھردریا اُسے ساحل پر جا پھینکے تا کہ میرا دشمن اوراُس کا دشمن اسے اٹھا لے اور مَیں نے تجھ پر اپنی محبت انڈیل دی اورتا کہ یہ بھی ہو کہ تومیری آنکھ کے سامنے پروان چڑھے۔
پھر دوسری جگہ فرمایا: وَاَوْحَیْنَآ اِلٰی اُمِّ مُوْسٰٓی اَنْ اَرْضِعِیْہِ فَاِذَا خِفْتِ عَلَیْہِ فَاَلْقِیْہِ فِی الْیَمِّ وَلَا تَخَافِیْ وَلَا تَحْزَنِیْ ۔اِنَّا رَآدُّوْہُ اِلَیْکِ وَجَاعِلُوْہُ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ(القصص:8)اور ہم نے موسیٰ کی ماں کی طرف وحی کی کہ اسے دودھ پلا۔ پس جب تو اس کے بارے میں خوف محسوس کرے تو اُسے دریا میں ڈال دے اور کوئی خوف نہ کراور کوئی غم نہ کھا ۔ ہم یقینا اسے تیری طرف دوبارہ لانے والے ہیںاور اُسے مرسلین میں سے ایک رسول بنانے والے ہیں۔
پھر حضرت عیسیٰ؈ کے حواریوں کی طرف وحی کے ضمن میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَاَوْحَیْتُ اِلَی الْحَوَارِیِّیْنَ اَنْ اٰمِنُوْا بِیْ وَبِرَسُوْلِیْ ۔ قَالُوْآ اٰمَنَّا وَاشْھَدْ بِاَنَّنَا مُسْلِمُوْنَ (المائدہ :112)اور جب مَیں نے حواریوں پر وحی کی کہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لے آؤ تو انہوں نے کہا ہم ایمان لے آئے۔ پس گواہ رہ کہ ہم فرمانبردار ہوچکے ہیں۔
اب جیساکہ لغت کے معنوں میں بھی ہم نے دیکھا اور ان جگہوں پر بھی وحی کے یہی معنی ہیںکہ خدا تعالیٰ نے دل میں بات ڈالی کہ یہ کرو ۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام اس ضمن میں فرماتے ہیں کہ:
’’ جو شخص اللہ تعالیٰ اور اس کی آیات پر ایمان لاتا ہے اُس پر واجب ہے کہ وہ اس بات پر بھی ایمان لائے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کی طرف چاہے وحی کرتا ہے خواہ وہ رسول ہو یا غیر رسول۔ اور وہ جس سے چاہتا ہے کلام کرتا ہے خواہ وہ نبی ہو یا محدّثوں میں سے کوئی ہو۔… اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں یہ خبر دی ہے کہ اُس نے موسیٰ؈ کی والدہ سے کلام کیا… اور پھر اس طرح ا س نے مسیح ناصری؈ کے حواریوں کی طرف وحی کی‘‘ ۔
(تحفہ ٔ بغداد ۔ روحانی خزائن جلد 7صفحہ 22-21۔ حا شیہ ۔ ترجمہ عربی عبارت)
پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ’’ اللہ تعالیٰ نے اپنی محکم کتاب میں بعض مردوں اور عورتوں سے متعلق خبر دی ہے کہ ان کے ربّ نے ان سے کلام کیا اور انہیں مخاطب کیا۔ انہیں بعض باتوں کے کرنے کا حکم دیا اور بعض امور سے منع کیا۔ وہ ربّ العالمین کی طرف سے نہ تونبی تھے اورنہ ہی رسول‘‘۔ فرمایا کہ’’ حضرت موسیٰ کی والدہ کو اللہ تعالیٰ نے کہا کہ وَلَا تَحْزَنِیْ اِنَّا رَآدُّوْہُ اِلَیْکِ وَجَاعِلُوْہُ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ(القصص:8)۔پس اے منصف اور عقل مند تم اس بات پر غور کرو کہ اس امت میں جو خَیْرُ الْاُمم ہے کیوں بعض مردوں سے خدا تعالیٰ کا کلام کرنا جائز نہیں حالانکہ اس نے تم سے پہلی امتوں کی عورتوں سے بھی کلام کیا ہے اور پہلوں کی مثالیں تمہارے پاس موجود ہیں‘‘ ۔
(حمامۃ البشریٰ ۔ روحانی خزائن جلد 7صفحہ 297۔ ترجمہ عربی عبارت )
پس ہم تو اس یقین پر قائم ہیں کہ آج بھی اللہ تعالیٰ اُن لوگوں پر وحی کرتا ہے جن کی فطرت نیک ہے اور جن کا انجام بخیر کرنا چاہتا ہے۔ اس لئے وحی کے ذریعے انہیں مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی مدد کے لئے کھڑا کر دیتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو فرمایا کہ : یَنْصُرُکَ رِجَالٌ نُوْحِیْ اِلَیْھِمْ مِّنَ السَّمَآئِ۔ (تذکرہ صفحہ 39) یعنی ہم تیری مدد ان لوگوں سے کریں گے جن کے دل میں ہم الہام کریں گے تو اللہ تعالیٰ یہ وحی کر بھی رہا ہے اور آج تک کرتا چلا جارہا ہے۔ کل مَیں نے چند واقعات پیش کئے تھے۔ بیشمار ایسے واقعات ہیں جو بعض شامل ہونے والے بتاتے ہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ ان کی راہنمائی کرتا ہے۔
اس وضاحت کے بعد اب مَیں دوبارہ اس طرف آتا ہوں۔ جیساکہ لغت کے معنوں میں ہم نے دیکھا ہے کہ ان جگہوں پر وحی کے یہی معنی ہیں کہ خدا تعالیٰ نے دل میں بات ڈالی کہ یہ کرو ۔
پھر آسمان کی طرف بھی وحی کا ذکر ہے جیسا کہ فرمایا فَقَضٰھُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ فِیْ یَوْمَیْنِ وَ اَوْحٰی فِیْ کُلِّ سَمَآئٍ اَمْرَھَا ۔ وَزَیَّنَّا السَّمَآئَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیْحَ وَحِفْظًا۔ ذٰلِکَ تَقْدِیْرُالْعَزِیْزِالْعَلِیْمِ(حم سجدہ:13)
پس اس نے ان کو دو زمانوںمیں سات آسمانوں کی صورت میں تقسیم کر دیا اور ہر آسمان کے قوانین اس میں وحی کئے اور ہم نے دنیا کے آسمان کوچراغوں اور حفاظت کے سامانوں کے ساتھ مزین کیا ۔یہ کامل غلبے والے اور صاحب علم کی تقدیر ہے۔
آسمان کے سپرد بھی کام ہیںجو سیاروں اور ستاروں اور جومختلف گیسز ہیں فضامیں ان کے سپرد مفوضہ کام کئے گئے ہیں۔
زمین پر وحی کا ذکر بھی ملتا ہے سورۃ زلزال میں جیسا کہ فرمایا یَوْمَئِذٍ تُحَدِّث ُ اَخْبَارَھَا۔بِاَنَّ رَبَّکَ اَوْحٰی لَھَا (سورۃ الزلزال آیات6-5)اس دن وہ اپنی خبریں بیان کرے گی کیونکہ تیرے ربّ نے اسے وحی کی ہوگی۔
یہ آخری زمانہ کے حالات کے بارہ میں بیان کیا گیا ہے۔اور اُن حالات میں جو حالات کی تبدیلی ہوگی اللہ تعالیٰ کی وحی کے مطابق زمین ان باتوں کا اظہار کرے گی۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے حکم سے سب کچھ ظاہر ہوجائے گا اورجوآج کل ہورہا ہے دنیا دیکھ رہی ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے شہد کی مکھی کی طرف وحی کی جیسا کہ فرماتا ہے کہ وَاَوْحٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحْلِ اَنِ اتَّخِذِیْ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا وَّمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا یَعْرِشُوْن(النحل:69)اور تیرے ربّ نے شہد کی مکھی کی طرف وحی کی کہ پہاڑوں میں بھی اوردرختوں میں بھی اور اُن بیلوں میں بھی گھربنا جو اونچے سہاروں پر چڑھاتے ہیں ۔
اب یہ وحی کہ کہاں کہاں گھر بنانے ہیں۔ یہ وحی کیا ہے؟ یہ وحی مکھی کی وہ اندرونی صلاحیتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے مکھی میں پیدا کی ہوئی ہیں۔ اور پھر اگلی آیت میں فرماتا ہے ثُمَّ کُلِیْ مِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتّ فَاسْلُکِیْ سُبُلَ رَبِّکِ ذُلُلًا۔ یَخْرُجُ مِنْ بُطُوْنِھَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُہٗ فِیْہِ شِفَآئٌ لِّلنَّاسِ۔ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰ یَۃً لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ(النحل:70)۔ کہ ہر قسم کے پھلوں میں سے کھااور اپنے ربّ کے راستوں پر عاجزی کرتے ہوئے چل۔ ان کے پیٹوں میں سے ایسا مشروب نکلتا ہے جس کے مختلف رنگ ہیں اور اس میںانسانوں کے لئے ایک بڑی شفا ہے یقینا اس میں غورو فکر کرنے والوں کے لئے ایک بہت بڑا نشان ہے۔
اس کا بھی ذکر فرمایا کہ وہ چھتے بنانے کے بعد شہد بناتی ہے جو تمہارے لئے شفا ہے اور عقل رکھنے والے اور سوچ ، فکرکرنے والوں کے لئے نشان ہے۔ بغیر سوچے سمجھے یہ کہہ دینا کہ وحی نہیں ہوسکتی یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کا استہزاء کرتے ہوئے کہنا کہ ان پر وحی نہیں ہوسکتی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ مثالیں دے کر اور دوسری مثالیں دے کر فرمایا کہ کارخانہ قدرت وحی پر بنیاد کرتا ہے ۔سائنس دانوں نے شہد کی مکھی پر جوتحقیق کی ہے اور اس نظام کے متعلق جو بتایا گیاہے وہ ایک حیرت انگیز نظام ہے اور یہ مکھیاں اپنی ملکہ کی حفاظت کرتی ہیں۔ اس کے لئے خوراک کا نظام ہے۔ ہر ایک مکھی کا اپنے اپنے فرض کی سر انجام دہی کا نظام ہے۔ اس بارے میں اب تو اخباروںمیں بھی اورکتابوں میں بھی اور انٹرنیٹ وغیرہ پر بڑی معلومات مل جاتی ہیں۔ لیکن یہ قرآن کریم کی شان ہے کہ چودہ سو سال پہلے اس کی تفصیلات بتائیں۔اس میں ایک تو یہ رہنمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہر مخلوق پر غور کر کے، اس کے کام کو دیکھ کر انسان کو یہ سوچ پیدا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ ہر ایک چیز کا ایک مقصد ہے۔اور دوسرے اس مقصد کو حاصل کرنے یا اس کام کو سر انجام دینے کے لئے جو اس کے سپرد ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ملتا ہے اور وہ حکم وحی کی صورت میں ملتا ہے ۔اور اگر یہ کام جوخدا تعالیٰ کی طرف سے ودیعت کی گئی طاقتوں کے مطابق کیا جاتا ہے اور جس کاحکم وحی خفی کی صورت میں ملتا ہے یا ظاہری وحی کی صورت میں۔ اگر یہ وحی نہ ہو تو یہ کام سر انجام پا نہیں سکتے اور یہی چیز روحانی نظام میں بھی لاگو ہے۔ اگر وحی کا نظام مسلسل نہ رہے یا حسب ضرورت اللہ تعالیٰ وقتاً فوقتاً جاری نہ رکھے تو جس طرح دنیاوی نظام نہیں چلتا روحانی نظام بھی نہیں چلتا اور نہ ہی چل سکتاہے۔ دنیا میں جو ایجادات سائنسدانوں کے ذریعہ ہوتی ہیں وہ بھی ایک طرح کی وحی خفی کی وجہ سے ہوتی ہیں ۔ ایک سائنس دان کے دل میں ایک خیال آتا ہے جس پر وہ کام کرکے اور سوچ کر وہ ایجاد کرتا ہے۔ تو بہر حال وحی کا ایک نظام ہے جو جاری نظام ہے۔ شہد کی مکھی کے بارہ میں جو یہ آیاکہ پہاڑوں پر گھر بنا یا درختوں میں یاجو عرشے بنائے جاتے ہیں اُن پر یا جو پودوں کی ٹیک کیلئے ہے اُن پر گھر بنا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے شہد کی مکھی کے ان تین جگہوں پرگھر بنانے کے لئے وحی کئے جانے کو روحانی نظام اور انسانی روحانی نظام کے مدارج کے ساتھ بڑی خوبصورتی کے ساتھ باندھ کر بیان فرمایا ہے۔ قرآن کریم کی یہ خوبصورتی ہے کہ ہر بات یا مثال جو قرآن کریم میں بیان ہوئی ہے اس کے ظاہری معنوں کے پیچھے ایک گہرا روحانی سلسلہ نظر آتا ہے ۔لیکن یہ بھی انہیں کو نظر آتا ہے اور انہیں کو سمجھ آتا ہے جو علم و معرفت کے موتی تلاش کرنے کے لئے اس میں غوطے لگاتے ہیں ۔ اس آیت میں انسانوں کی طرف وحی کے لئے یہ اشارہ ہے کہ جس طرح شہد کی مکھی کو مختلف اونچے مقامات پر گھر بنانے کے لئے وحی کی جاتی ہے اسی طرح انسانوں کی وحی کے بھی درجے ہیں ۔بعض کی وحی بہت اونچے مقام کی ہوتی ہے۔ بعض کی اس سے کم درجے کی اور بعض اُس سے بھی کم درجے کی۔ یہ قرآن کریم کے اس مضمون کی طرف بھی اشارہ ہے کہ تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ (البقرۃ:254) کہ یہ رسول ہیں جن میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔
اگر ہم سیاق و سباق کو دیکھیں تو شہد کی مکھی کی وحی اور پھرخالص شہد بنانے والی آیات کے آگے پیچھے روحانی نظام کا ہی ذکر چل رہا ہے۔ اور شہد کے مختلف رنگوں اور شفا کا ذکر کر کے اگلی آیت میںخداتعالیٰ نے پھر فرمایا: وَاللّٰہُ خَلَقَکُمْ ثُمَّ یَتَوَفّٰکُمْ وَمِنْکُمْ مَّنْ یُّرَدُّ اِلٰٓی اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِکَیْ لَا یَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَیْئًا۔ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ قَدِیْرٌ (النحل:71)اور اللہ نے تمہیں پیدا کیا اور پھر وہ تمہیں وفات دے گا اور تم ہی میں سے وہ بھی ہے جوہوش وحواس کھو دینے کی عمر تک پہنچ جاتاہے تا کہ علم حاصل کرنے کے بعد کلیۃً علم سے عاری ہوجائے۔ یقینا اللہ دائمی علم رکھنے والا اور دائمی قدرت رکھنے والا ہے۔
اب اس کا بظاہر توشہد کی مکھی سے کوئی جوڑ نہیں لیکن اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰ یَۃً لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ (النحل:70) (کہ جو سوچ اور فکر سے کام لیتے ہیں ان کے لئے یقینا اس میں بہت نشان پائے جاتے ہیں )کہہ کر یہ بتایا کہ غور کرو کہ انسانوں پر جو وحی ہوتی ہے اور جس کا قرآن کریم میں بھی ذکر ہے ان میں سے۔ اکثر آیات تو انبیاء پر وحی کے ذکر میںہی ہیں کہ انبیاء پر وحی روحانی شفاکے لئے ہوتی ہے۔ اور ہر زمانے میں شفا کی ضرورت ہے۔ قوموں کی روحانی حالت سنوارنے کے لئے بھی نبی مبعوث ہوتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے یا تو نئی شریعت اتاری جو گزشتہ سے بہتر تھی ،جو شفا کی زیادہ بہتر خاصیت رکھتی تھی یا پھر اُسی شریعت کو انبیاء کے ذریعہ سے جاری رکھا۔یہ اس لئے کہ قوموں کی روحانی حالتوں میں جو زوال آیا اور قومی لحاظ سے وہ ارذل العمر کو پہنچے اور اپنی تعلیم کو بھلا دیا تو وحی کے ذریعہ پھر خدا تعالیٰ اسے تازگی دے اور جو تازہ روحانی شہد ہے اسے پہنچتا رہے۔اور انبیاء میں جو مقام آنحضرت ا کو ملا جن کی وحی کا معیار اور مقام بھی اونچا ترین ہے۔ آپ افضل الرسل ہیں۔ اور خاتم النبیین ہونے کے لحاظ سے اور شریعت کامل اور مکمل ہونے کے لحاظ سے آپؐ کا زمانہ قیامت تک کا زمانہ ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے اس قانون کے تحت کہ زوال آتا ہے اور اس کی پیشگوئی بھی آنحضرت ا نے فرمائی تھی کہ ظلمت اور اندھیرے کا زمانہ اور دور آئے گا۔ وہ دور آیا۔ گو اُمّت میں اللہ تعالیٰ مجددین اور اولیاء بھیجتا رہا جو اپنے دائرے اور علاقے میں روشنی پھیلاتے رہے۔ اور پھر آخر میں خاتم الخلفاء مسیح و مہدی موعود کو بھیجا تاکہ قرآن کریم جو شِفَائٌ وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤمِنِیْنَ ہے، جو مومنوں کے لئے شفا اور رحمت ہے۔ جس کو بھلا کر مسلمان اندھیروں میں گرتے چلے جارہے ہیں۔ (اس کے ذریعہ )مسلمانوں کی وہ شان،و ہ شوکت جوکسی زمانہ میں تھی اس شان اور شوکت کو دوبارہ بحال اور قائم کرے اور وہ اس صورت میں ہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے براہِ راست راہنمائی حاصل کر کے وہ حقائق اور وہ معارف جو قرآن کریم کے ہر ہر لفظ میں پوشیدہ ہیں دنیا کے سامنے پیش کرے ۔پس اللہ تعالیٰ جو علیم و قدیر ہے جس کا علم بھی لافانی ہے اور جس کی قدرتیں بھی لازوال ہیں وہ اپنے نظام کو قائم کرنے کے لئے الہام کرتا ہے اور وحی نازل کرتا ہے اور جس پر چاہے نازل کرتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ جب مکھی کی وحی اب تک منقطع نہیں ہوئی تو انسانوں پر جو وحی ہوتی ہے وہ کیسے منقطع ہوسکتی ہے۔ اور حضرت مجدد الف ثانیؒ اور شاہ ولی اللہ شاہ صاحبؒ بھی وحی کے قائل تھے ۔ (البدر جلد2نمبر33مورخہ4؍ستمبر1903صفحہ256بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد3صفحہ12-13)
حضرت مسیح موعود ؑ اپنے اس مقام کے بارے میں جو خدا تعالیٰ نے آپ کو آنحضرتؐ کی غلامی میں اس زمانہ میں عطا فرمایا ہے تحریر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’ وہ خدا جو اس دنیا کا بنانے والا ، اور آئندہ زندگی کی جاودانی امیدیںاور بشارتیں دینے والا ہے اس کا قدیم سے یہ قانون قدرت ہے کہ غافل لوگوں کی معرفت زیادہ کرنے کے لئے اپنے بعض بندوں کو اپنی طرف سے الہام بخشتا ہے اور ان سے کلام کرتاہے اور اپنے آسمانی نشان اُن پر ظاہر کرتا ہے۔ اور اس طرح وہ خدا کو روحانی آنکھوں سے دیکھ کر اور یقین اور محبت سے معمور ہو کر اس لائق ہوجاتے ہیں کہ وہ دوسروں کو بھی اس زندگی کے چشمے کی طرف کھینچیں جس سے وہ پیتے ہیں تا غافل لوگ خدا سے پیار کر کے ابدی نجات کے مالک ہوں اور ہر ایک وقت میں جب دنیا میںخدا کی محبت ٹھنڈی ہوجاتی ہے اور غفلت کی وجہ سے حقیقی پاک باطنی میں فتور آتا ہے تو خدا کسی کو اپنے بندوں میں سے الہام دے کر دلوں کو صاف کرنے کے لئے کھڑا کر دیتا ہے۔ سو اس زمانے میں اس کام کے لئے جس شخص کو اس نے اپنے ہاتھ سے صاف کر کے کھڑا کیا ہے وہ یہی عاجز ہے‘‘۔
(کشف الغطا،روحانی خزائن جلد14صفحہ191)
پس دین کی تعلیم کو تازہ رکھنے کے لئے، غافلوں کو جگانے کے لئے اور اللہ تعالیٰ کی روحانی بادشاہت کو دنیا میں قائم کرنے لئے سلسلہ وحی ضروری ہے اور اس زمانے میں( اللہ نے) اپنی خاص قدرت سے حضرت مسیح موعود
علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اپنی وحی و الہام سے حصہ دیا تا کہ کشتی ٔ اسلام تمام طوفانوں کا سامنا کرتے ہوئے آگے سے آگے بڑھتی رہے۔ آپؑ کو اللہ تعالیٰ نے الہاماً فرمایا ’’اِصْنَعِ الْفُلْکَ بِاَعْیُنِنَا وَوَحْیِنَا وَقُمْ وَاَنْذِرْ فَاِنَّکَ مِنَ الْمَامُوْرِیْنَ‘‘۔(تذکرہ صفحہ 409)کہ تو ہماری آنکھوں کے سامنے اور ہماری وحی کے ماتحت کشتی تیار کر اور اٹھ اور ڈرا کیونکہ تو مامور ہے۔ پس اس کے بعد سے دنیا دیکھ رہی ہے کہ جب سے آپ کا دعویٰ ہے دنیا میں زمینی اور آسمانی آفات کا آنا اور دنیا کی تباہی جن سے آپ نے دنیا کو ڈرایا تھا ان میں بڑی تیزی آچکی ہے۔ آپ پر خداتعالیٰ کی وحی کے اترنے کی یہ روشن دلیل ہے۔ فَاعْتَبِرُوْا یَا اُوْلِی الْا َبْصَار۔ پس اے بصیرت رکھنے والو عبرت حاصل کرو۔
اب ہم دیکھتے ہیںکہ خدا تعالیٰ انسانوں پر کس طرح وحی نازل فرماتا ہے ۔ قرآن کریم اس بارہ میں کیا فرماتا ہے اللہ تعالیٰ سورۃ شوریٰ میں فرماتا ہے: مَا کَانَ لِبَشَرٍاَنْ یُّکَلِّمَہُ اللّٰہُ اِلَّا وَحْیًا اَوْ مِنْ وَّرَآیِٔ حِجَابٍ اَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلًا فَیُوْحِیَ بِاِذْنِہٖ مَا یَشَآئُ ۔ اِنَّہٗ عَلِیٌّ حَکِیْمٌ (الشوریٰ:52)اور کسی انسان کے لئے ممکن نہیں کہ اللہ اُس سے کلام کرے مگر وحی کے ذریعہ سے یا پردے کے پیچھے سے یا کوئی پیغام رساں بھیجے جو اس کے اذن سے جو وہ چاہے وحی کرے۔ یقینا وہ بہت بلند شان اورحکمت والا ہے۔
اس آیت کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’ ہم عملاًدیکھتے ہیں کہ تین ہی طریقے ہیںخدا تعالیٰ کے کلام کرنے کے ،چوتھا کوئی نہیں۔نمبر 1۔رؤیا ،نمبر2۔مکاشفہ ، نمبر3۔وحی……۔ مِنْ وَّرَآیِٔ حِجَاب سے مراد رؤیا کا ذریعہ ہے۔ مِنْ وَّرَآیِٔ حِجَاب کے معنی یہ ہیں کہ اس پر استعارے غالب رہتے ہیں جو حجاب کا رنگ رکھتے ہیں‘‘۔ خوابیں آتی ہیں تو اشاروں میں آتی ہیں کھل کر نہیں آتیں اور’’ یہی رؤیا کی ہیئت ہے‘‘۔
فرمایا :’’ یُرْسِلَ رَسُوْلًا سے مراد مکاشفہ ہے۔ رسول کا تمثل بھی مکاشفہ میں ہی ہوتا ہے۔ کشف کی شکل میں ۔ اور مکاشفہ کی حقیقت یہی ہے کہ وہ تمثلات ہی کا سلسلہ ہوتا ہے‘‘۔(ا لحکم جلد 10نمبر35مورخہ 10؍ اکتوبر1906ء صفحہ 10۔بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود؈ جلد چہارم صفحہ 112) یعنی پیغام رساں کا آنابھی کشفی حالت ہی ہے جس میں خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچایا جاتا ہے ۔ پس پیغام لانے والے یا فرشتے کا ظاہر ہونا کشفی رنگ رکھتا ہے اور کشفی حالت کی حقیقت یہی ہے کہ اس میں فرشتے اپنا پیغام پہنچاتے ہیں ۔
اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’ کلام الٰہی کی تین قسمیں ہیں ۔وحی، رؤیا ، کشف۔ وحی وہ ہے جو کسی واسطے کے بغیر نبی کے پاک اورمطہر دل پرنازل ہو اور یہ کلام زیادہ صاف اور روشن ہوتا ہے۔ اس کی مثال یوں دی جاسکتی ہے‘‘ (مجلس میںسامنے ایک نابینا حافظ صاحب بیٹھے ہوئے تھے) فرمایا’’کہ مثلًایہ حافظ صاحب نابیناجو ہمارے سامنے بیٹھے ہیں وہ ہمارے کلام کے سننے میں ہرگز کوئی غلطی نہیں کرتے اور نہیں جانتے کہ سنی ہوئی آواز ہمارے غیر کی آواز ہوسکتی ہے۔ اگرچہ وہ ظاہری آنکھ سے ہمیں نہیں دیکھ رہے‘‘۔( لیکن پھر بھی یقین ہے کہ یہ آواز جو ہے کس کی ہے)۔
’’دوسری قسم رؤیا اورخواب ہے کہ یہ کلام رنگین اور لطیف ہوتا ہے اور اس میںکنایہ ہوتا ہے اور وہ ذوالوجوہ ہوتا ہے۔ جیسا کہ رسول کریم ا کا اپنے دونوں مبارک ہاتھوں میں دو کنگنوں کا دیکھنا ۔یا اپنی ایک بیوی کے سب سے لمبے ہاتھ دیکھنا۔ یا گائے وغیرہ کو دیکھنا۔ اس قسم کا کلام تعبیر طلب ہوتا ہے۔
تیسری قسم کلام کی کشف ہے اور یہ تمثل کی صورت میں ہوتاہے۔ چاہے وہ بصورت جبرائیل؈ ہو یا کسی اور فرشتہ یا کسی دوسری چیز کی صورت میں ہو۔ ……پس آیت اَنْ یُّکَلِّمَہُ اللّٰہُ اِلَّا وَحْیًا اَوْ مِنْ وَّرَآیِٔ حِجَابٍ اَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلًا میںسوائے مذکورہ بالا تین طریقوں کے کلام الٰہی کا اور کوئی طریق نہیں بتایا گیا‘‘۔
(ا لحکم۔ جلد 5نمبر 11 مورخہ 24؍مارچ1901ء ۔ صفحہ 6۔ بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود؈ جلد چہارم صفحہ 113-112۔ مطبوعہ ربوہ )
تو انسانوں سے خدا تعالیٰ کی پیغام رسانی کے یہ تین طریقے ہیںجس کا خدا تعالیٰ نے اپنی اس آیت میں ذکر فرمایا ہے۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے کا طریق ہر ایک کے اپنے خدا سے تعلق اور مرتبے اور مقام کے لحاظ سے ہے۔ اپنے جن خاص بندوں کوخدا تعالیٰ وحی و الہام کرتا ہے ان کو رؤیا صادقہ بھی دکھاتا ہے۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ جس کو سچی رؤیا دکھائی ہو وہ صاحب کشف و الہام بھی ہو۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ: بعض دنیا داروں کو بھی اللہ تعالیٰ سچی خوابیں دکھاتا ہے۔ وہ ان کے کسی مقام کی وجہ سے نہیں ہوتیں بلکہ اُن پر یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے بذریعہ وحی و الہام اورکشف بھی مخاطب ہوتا ہے یا پیغام بھیجتا ہے۔ تا کہ اُنہیں(ایسے لوگوں کو) خدا تعالیٰ کی ذات پر یقین قائم ہو۔ اور وحی و الہام کا دعویٰ کرنے والے کی بات سننے کی طرف انہیں توجہ پیدا ہو ۔لیکن اس کے باوجود بدقسمتی سے کروڑوںاربوں لوگ اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے والے کی بات سننے کیلئے تیار نہیں ہوتے۔ تو جیسا کہ مَیں نے بتایا کہ یہ انبیاء ہی ہیں جو اس آیت کے سب سے بڑھ کر مصداق ہوتے ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ کے پیغام کو جو اللہ تعالیٰ اُن پر اتارتا ہے دنیا کو بتائیں اور انہیں عِبَادُ الرَّحْمٰن بنانے کی کوشش کریں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ : مَا عَلَی الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ ۔وَاللّٰہُ یَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَمَا تَکْتُمُوْنَ(المائدہ:100) رسول پر صرف بات کا پہنچا دینا ہے۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو تم ظاہر کرتے ہواور جو تم چھپاتے ہو ۔
پھر ایک جگہ فرمایا : قَالُوا رَبُّنَا یَعْلَمُ اِنَّا اِلَیْکُمْ لَمُرْسَلُوْنَ۔ وَمَا عَلَیْنَا اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنَ(سورۃ یٰس:17-16)انہوں نے کہا ہمارا رب جانتا ہے کہ ہم تمہاری طرف رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں اور ہمارا کام یہ ہے کہ ہم کھلی کھلی تبلیغ کریں۔ اس بارہ میں اور بھی کئی رسولوں کی ذمہ داریوں کے متعلق ذکر فرمایا ہے اور سب سے بڑھ کر آنحضرت ا کو فرمایا کہ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِکَ (المائدۃ:68)کہ تیرے ربّ کی طرف سے جو کلام تجھ پر اتارا گیا ہے اُسے دنیا تک پہنچا ۔
یہ کون سا پیغام ہے، یہ کس چیزکی تبلیغ ہے جو رسول کرتے ہیں؟ ہر ایک جانتا ہے کہ وہی پیغام جو اُن پر وحی کیا گیا ہے اور یہ اُن رسولوںاور انبیاء کی ذمہ داری نہیں ہوتی کہ ضرور اس پیغام کو منوائیں بھی۔ صرف یہ کام ہے کہ واضح کر دیں کہ یہ اللہ کا پیغام ہے ۔ اگر اسے قبول کرو گے تو اپنی دنیا اورآخرت سنوار لو گے اور اگر اس پیغام پر کان نہیں دھرتے تو تمہارا معاملہ خدا کے ساتھ ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے انبیاء کے انکار کرنے والوں کو بڑا انذار فرمایا ہوا ہے۔ اس لئے انبیاء جو سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے ہمدردی کرنے والے ہیں لوگوں کے انکار کی وجہ سے بے چین ہوجاتے ہیں۔ انہیں نظر آرہا ہوتا ہے کہ اس انکارکانتیجہ خوفناک نکل سکتا ہے۔ اور اس بے چینی میں سب سے بڑھ کر آنحضرت ا کی ذات تھی۔ جس کا ذکر قرآن کریم میںایک جگہ یوں آتا ہے لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُوْمِنِیْنَ(الشعراء:4) تو اپنی جان کو اس لئے ہلاک کر دے گا کہ وہ کیوں ایمان نہیں لاتے۔ لوگوں کے ایمان لانے میں انبیاء کی ذاتی غرض تو نہیںہوتی۔ جس طرح کہ قرآن کریم میں ہر نبی کے ذکرمیںآگے جواب آتا ہے کہ مَیں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا ۔میرا اجر تو خدا تعالیٰ کے پاس ہے۔ اور سب سے بڑھ کر آنحضرت اکی ذات پر یہ بات پوری ہوتی ہے جن کا اوڑھنا بچھونا ہی خدا تعالیٰ کی ذات تھی۔ جیسا کہ قرآن کریم میں آتا ہے۔ آپ سے اعلان کروایا کہ قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ (الانعام:163)تو اُن سے کہہ دے کہ میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور موت اللہ کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا ربّ ہے۔ تو جس نے سب کچھ اللہ تعالیٰ کے لئے کر دیا اس نے دنیا سے کیا لینا ہے ۔ جو دنیا والوں سے لینے کی بجائے دنیاوالوں کو اس فیّاضی سے دیتا تھا کہ کفار بھی یہ کہہ اٹھتے تھے کہ یہ کسی اور دنیا کی مخلوق ہے۔ پس آپؐ کا اپنی جان کوہلاکت میں ڈالنا اس وجہ سے تھا کہ اس پیغام کا انکار کر کے یہ لوگ کہیں ہلاک نہ ہوجائیں۔ دنیا والوں کو ہلاکت سے بچانے کیلئے آپ شدید بے چین اورکرب کی حالت میں رہتے تھے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس درد کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:’’ یہ نور ہدایت جوخارق عادت طور پر عرب کے جزیرہ میں ظہور میں آیا اور پھر دنیا میں پھیل گیایہ آنحضرت ﷺ کی دلی سوزش کی تاثیر تھی۔ ہر ایک قوم توحید سے دور اورمہجور ہوگئی مگر اسلام میں چشمۂ توحیدجاری رہا ۔ یہ تمام برکتیں آنحضرت ا کی دعاؤں کا نتیجہ تھیں۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُوْمِنِیْن َ(الشعراء:4)یعنی کیا تو اس غم میں اپنے تئیں ہلاک کردے گا جو یہ لوگ ایمان نہیں لاتے ۔ پس پہلے نبیوں کی اُمّت میں جو اس درجہ کی صلاح وتقویٰ پیدا نہ ہوئی اس کی یہی وجہ تھی کہ اس درجہ کی توجہ اور دل سوزی اُمّت کے لئے اُن نبیوں میں نہیں تھی‘‘۔
(حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد 22صفحہ 104-103۔ حاشیہ )
پس آپ ؐ کیونکہ نبی آخر الزمان تھے اور خاتم الانبیاء تھے۔ اس لئے آپ کا درد بھی قیامت تک پیدا ہونے والے لوگوں کے لئے تھا۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے آخری زمانہ میں آپؐ کے عاشق صادق کی مبعوث ہونے کی بھی آپ کو خوشخبری دی تھی جیسا کہ مَیں نے آپ کو بتایا کہ انبیاء دنیا میں آتے ہیں تا کہ اللہ تعالیٰ کی اتری ہوئی وحی کو ،جو ضروری نہیں کہ نئی شریعت کی صورت میں ہو بلکہ اپنے سے پہلے نبی کی شریعت اور پیغام کو حقیقی رنگ میں پیش کریں اوریہ حقیقی رنگ میں پیش کرناہی ہے کہ اگر زمانہ گزرنے کے ساتھ لوگ اسے بھول گئے ہیں یا صحیح فہم حاصل نہ ہونے کی وجہ سے اُس میں نئی بدعات داخل
ہوگئی ہیں تو اُنہیں صاف اورروشن کرکے جس کا ادراک انہیںخدا تعالیٰ کی وحی کے ذریعہ سے دیا گیا ہے دنیا کے سامنے پیش کریں۔ بہر حال انبیاء دنیا میں اس لئے آتے ہیںاور ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پیغام کو دنیا کے سامنے پیش کر کے انہیں خداتعالیٰ کے قریب لانے کی کوشش کریں اور کیونکہ اُن کے دل خدا تعالیٰ کی مخلوق کے درد سے بھرے ہوتے ہیں اس لئے ایک فکر اور بے چینی سے وہ یہ کام سر انجام دیتے ہیں۔
انبیاء کی اسی حالت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’ نبی بوجہ اس کے کہ ہمدردی بنی نوع کااس کے دل میں کمال درجہ پرجوش ہوتا ہے۔ اپنی روحانی توجہات اور تضرع اور انکسارسے یہ چاہتا ہے کہ وہ خدا جو اُس پر ظاہر ہوا ہے دوسرے لوگ بھی اُس کوشناخت کریں اور نجات پاویں۔اور وہ دلی خواہش سے اپنے وجودکی قربانی خدا تعالیٰ کے سامنے پیش کرتاہے اور اس تمنا سے کہ لوگ زندہ ہوجائیں کئی موتیں اپنے لئے قبول کر لیتاہے۔اور بڑے مجاہدات میںاپنے تئیں ڈالتا ہے ‘‘۔
(حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد 22صفحہ 117)
فرمایا:’’ ہر ایک اپنے لئے کوشش کرتا ہے مگر انبیاء علیہم السلام دوسروں کے لئے کوشش کرتے ہیں۔لوگ سوتے ہیں اور وہ اُن کیلئے جاگتے ہیں۔ اور لوگ ہنستے ہیں اور وہ اُن کے لئے روتے ہیں اور دنیا کی رہائی کیلئے ہر ایک مصیبت کو بخوشی اپنے پر وارد کر لیتے ہیں ۔یہ سب اس لئے کرتے ہیںکہ تا خدا تعالیٰ کچھ ایسی تجلی فرماوے کہ لوگوں پر ثابت ہوجاوے کہ خدا موجود ہے اورمستعددلوں پر اس کی ہستی اور اس کی توحید منکشف ہوجاوے تاکہ وہ نجات پائیں۔ پس وہ جانی دشمنوں کی ہمدردی میں مر رہتے ہیں‘‘۔ فرمایا’’ اور اس امر میں سب اعلیٰ نمونہ ہمارے نبی ا نے دکھلایا۔(حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد 22صفحہ 118-117)

اپنا تبصرہ بھیجیں