اختتامی خطا ب حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ برموقع جلسہ سالانہ جرمنی 2009
اس زمانہ میں ہم حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے مقصد کو تبھی پورا کر سکتے ہیں جب اپنی ذمہ داریاں سمجھتے ہوئے، اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا
کرتے ہوئے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیغام کو جو اسلام کاحقیقی اور سچا اور دنیا کی نجات کا پیغام ہے دنیا تک پہنچانے میں اپنابھرپور کردا ر ادا کریں۔
آج جماعت کی قربانیاں ہی ہیں جو خالص دین کے لئے ہیں اور دین کو قائم کرنے کے لئے اور انسانیت کا سر فخر سے بلند کرنے کے لئے ہیں۔ ان قربانیوں میں آج تک
ایک بھی ایسی مثال نہیں جس میں کسی احمدی نے ظلم کا ساتھ دینے کے لئے اپنا خون بہایا ہو یا دوسرے کا خون بہایا ہو اور پھر اسے مذہب کا لبادہ اوڑھایا ہو۔
احمدیوں کے دل آنحضرت اکی محبت سے سرشار ہیں ۔کلمہ طیبہلَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ احمدی کی پہچان ہے ۔
ہماری دیواروں اوربورڈوں سے تو یہ کلمہ مٹا یا جا سکتاہے۔ لیکن ہمارے دلوں سے اسے کبھی نہیں مٹا یا جاسکتا ۔
( پاکستان میں فیصل آباد کے قریب ایک گائوں لاٹھیاں والا میں پولیس کے احمدیہ مسجد اور عمارات سے کلمہ طیبہ کو مٹانے اور ہتھوڑوں سے توڑنے کی مذموم حرکت کاتذکرہ)
ہمارے مربیان اور مبلغین کا کام ہے کہ ا س علم کو جو خداتعالیٰ نے انہیں اپنے فضل سے عطا فرمایاہے پھیلائیں اور حضرت مسیح موعود؈ کی اس خاص فوج میں شامل ہو جائیں
جو حضرت مسیح موعود؈کے صف اوّل کے مجاہدین کہلانے والے ہونے چاہئیں ۔اپنوں کی تعلیم و تربیت بھی بہت بڑا کا م ہے جو ہمارے مربیان اور مبلغین کے سپرد ہے۔
آج وہ نوجوان جو دنیا کے مختلف جامعات میں پڑھ رہے ہیں وہ بھی یہ عہد کریں کہ ہم نے اپنے عہد کو پورا کرنے کے لئے کسی بھی قسم کی
دنیا وی خواہش کو روک نہیں بننے دینا۔ جو میدان عمل میں ہیں وہ بھی اپنے جائزے لیں کہ کیاہم اپنے وقف زندگی ہونے کا
حق ادا کر رہے ہیں ؟ خالص ہو کراپنے وقت کے تقاضے پورے کرنے کے لئے جُت جائیں۔
(واقفین زندگی، مربیان ومبلغین اور واقفین نوکو اہم نصائح)
اختتامی خطا ب حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ برموقع جلسہ سالانہ جرمنی۔
16؍اگست 2009۔بمقام منہائیم (جرمنی)
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
جلسہ سالانہ برطانیہ کی آخری تقریر میں مَیں نے جماعت کو انبیاء کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تبلیغ کی طرف توجہ دلائی تھی۔ نیز یہ کہ اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے مقصد کو تبھی پورا کر سکتے ہیں جب اپنی ذمہ داریاں سمجھتے ہوئے ،اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیغام کو جو اسلام کا حقیقی اور سچا اور دنیاکی نجات کا پیغام ہے دنیا تک پہنچانے میں اپنا بھر پور کردار ادا کریں۔ تبلیغ کے ضمن میں مَیں کچھ اور باتیں کہنا چاہتا ہوں جومَیں وہاں کہنا چاہتا تھا لیکن وقت کی وجہ سے نہیں کہہ سکا پھرمَیں نے سوچا کہ کچھ پوائنٹس جومَیں نے نوٹ کئے تھے وہ جرمنی کے لئے لکھ لوں۔ اِن میں سے بھی کچھ بیان کر سکوں گا اور یہ باقی پوائنٹس مَیں نے اس لئے بھی رکھے تھے کہ اُس وقت جماعت کے افراد کا جو ردّعمل ظاہر ہوا اور اب تک ہو رہا ہے اُس نے میرے اس خیال کو مزیدتقویت دی کہ بات کی بظاہر تکرار سے گوتکرار نہیں ہوتی لیکن تکرارہو بھی جائے تو فائدہ ہوتاہے اور یہ ایک ایسا مضمون ہے جس کی تکرار ہونی بھی چاہئے ۔ اس لئے اس مضمون کو دوبارہ مزید وضاحت کے ساتھ پیش کیا جائے۔ بہرحال جیسا کہ مَیںنے کہا کہ لوگوں پر اس کا ایک اثر اور توجہ ہے اور یہی جماعت احمدیہ کی خوبصورتی ہے اور شان ہے کہ جب بات کہی جائے تو اثر ہوتا ہے ۔ ایک تو فوری اثر اور ردّعمل تھا جو عربوں نے دکھایا اور تمام دنیا نے دیکھا اور اس ردّعمل کو دیکھ کر اور عربوں کی طرف سے لبیّک لبیّک کا نعرہ سن کر دنیا کے مختلف ممالک کے احمدیوں کے مجھے خطوط بھی آرہے ہیں اور فیکسیںبھی آرہی ہیں۔ اور پھر خود لوگوں کے اندربھی صرف نعرے سن کر ہی نہیں بلکہ بات سن کر ایک احساس جاگا ہے ۔پس اس احساس کو ہمیشہ کیلئے جگائے رکھنے کی ضرورت ہے اور جب یہ احساس شدت سے جاگے گا اور اس میں ایک تسلسل قائم رہے گا تو مخالفین بھی اپنی تمام تر کوششیںبروئے کار لائیں گے۔ جماعت کو دبانے کے لئے ہر قسم کے جتن کریں گے۔ یہی انبیاء کی جماعتوں سے مخالفین کا سلوک ہوتا رہا ہے اور یہی نبی کے سچا ہونے کی دلیل ہے کہ مخالفین ایڑی چوٹی کا زور لگا کر اس کے پیغام کو ختم کرنے کیلئے بھر پور کوشش کرتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی تائیدات اور نصرتوں کے دروازے پہلے سے بڑھ کر کھلتے چلے جاتے ہیں ۔پس ہمیشہ یاد رکھیں کہ مخالفت بھی سچائی کی نشانی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس ضمن میں فرماتے ہیں :
’’عادت اللہ اسی طرح پر ہے کہ جس سلسلہ کو خدا تعالیٰ خود قائم کرتا ہے اس کی سب سے زیادہ مخالفت ہوتی ہے۔ جس سلسلے کی مخالفت نہ ہو یا اگر ہو بھی تو بہت کم ہووہ سلسلہ سچا نہیں ہوتا ۔سچے سلسلہ کی سچائی کا ایک بڑانشان یہ بھی ہے کہ اس کی بہت مخالفت ہو۔ دیکھو ہمارے نبی کریم ا نے جب دعویٰ کیا تو کمبخت مخالفوں نے بہت شور مچایا اور بڑی مخالفت کی۔ مگر جب مسلیمہ کذاب نے دعویٰ کیا تو سب آپس میں مل جل گئے۔ کسی نے مخالفت نہ کی۔ وجہ یہ ہے کہ شیطان جھوٹے کا دشمن نہیں ہوتا۔ سچے کی مخالفت میں سب اپنا زور لگاتا ہے۔ دیکھو ہمارے نبی کریم ا کے اپنے بیگانے سب دشمن ہوگئے۔ کیا عالم اور کیا جاہل سب کے سب مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے یہاں تک کہ جن کو دین سے کچھ بھی تعلق نہیں ہوتا وہ بھی دشمن ہوگئے۔‘‘ فرمایا ’’آج کا بھی یہی حال ہے۔ ہر ایک نے مخالفت پر کمر باندھی ہوئی ہے۔ بڑے بڑے جرائم پیشہ اور بدکار لوگ ہماری مخالفت پر کمر بستہ ہیں۔ بہت لوگ ایسے ہیں جو دنیا طلبی کی ہی فکر میںہر وقت لگے رہتے ہیں اور بھُولے سے بھی کبھی دین کا نام نہیں لیتے۔ ہر وقت زمینداری اور ملازمت میں ہی مست رہتے ہیں اور دین کی ذرہ بھی پرواہ نہیں کرتے اور مذہب سے کچھ بھی تعلق نہیں رکھتے وہ ہماری مخالفت کرتے اور ہمارا نام سنتے ہی آگ بگولا ہوجاتے ہیں۔اُن کے نزدیک اگر تمام دنیا سے بدتر ہوں تو مَیں ہی ہوں۔ سو ایسے لوگوں کا فیصلہ تو اب خدا خود کرے گا۔‘‘ (ملفوظات جلد 5صفحہ254-255)اور یہی مخالفت کا سلسلہ آج تک چل رہا ہے۔
ہمارے مخالفین یہ دلیل دیتے ہیں کہ دیکھو تمام مسلمانوں نے احمدیوں کو اپنے میں سے نکال دیا ہے اور یہ احمدیوںکے جھوٹا ہونے کی دلیل ہے۔ ہماری دلیلوں کا جب بعض عرب علماء کے پاس بھی جواب نہیں ہوتا تو باوجود اس کے کہ عام حالات میں وہ اپنے آپ کو عربی دانی کی وجہ سے دین کا اور قرآن کریم کا سب سے زیادہ فہم و ادراک رکھنے والا سمجھتے ہیں لیکن ہمارے بارے میں وہ بھی یہ کہتے ہیں کہ ہندوستان کے اور پاکستان کے علماء نے جو فتویٰ دیا ہے تو کسی بنیاد پر ہی دیا ہوگا ۔اگر سچے ہوتے تووہ قبول کیوں نہ کرتے۔ ہندوستان اور پاکستان کے نام نہاد علماء کو تو اپنے منبر کی فکر تھی۔ نیک نیتی اور تقویٰ تواُن میں تھا ہی نہیں کہ غور کرتے۔ ہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مخالفت میں سب اس لئے اکٹھے ہوگئے کہ اُن کو اپنے پیٹ کی فکر تھی جیسا کہ ہمیشہ سے انبیاء کے مخالفین کا طریق رہا ہے اور ساری قوم سے پھر ان لوگوں نے پاکستان میں خاص طور پر طاقت کے زور پر یہ کہلوایا اور کہلوایا جاتا ہے کہ یہ اعلان کرو کہ نعوذ باللہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوٰۃ والسلام جھوٹے ہیں اور پتہ نہیں کیا کیا کچھ ہر سرکاری کاغذ پر لکھ کر دینا پڑتا ہے۔ اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایابا لکل یہی صورتحال آج بھی ہے۔ وہ لوگ جنہوں نے شاید عید کی نماز کے علاوہ کبھی کوئی نماز نہ پڑھی ہواور دنیا داری میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ ان کی بلکہ عمومی طور پر قوم کی بھی اخلاقی حالت کا یہ حال ہے کہ زوال انتہا کو پہنچا ہوا ہے اور اس کی نشاندہی خود ملکی اخبارات بھی کر رہے ہیں ۔ ایسے لوگ جو ہیں وہ تو پکے مسلمان ہونے کا لیبل لگائے ہوئے ہیں لیکن حضرت مرزا غلام احمد قادیانی؈ جو آنحضرت کی پیشگوئیوں کے مطابق اور آیت وَآخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ (الجمعۃ:4) کو پورا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہوئے وہ نعوذباللہ دجّال اور پتہ نہیں کیا کیا کچھ کہلوائے جارہے ہیں۔ آنحضرت ا نے تو مسلمان ہونے کی تعریف کلمہ لَا اِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ بیان فرمائی تھی۔ لیکن ان نام نہاد علماء کے نزدیک مسلمان کی تعریف صرف اور صرف حضرت مرزا غلام احمد قادیانی کو گالیاں نکالنا رہ گئی ہے اوران گالیوں کو غیرت رسول ا اور ختم نبوت کا لبادہ اوڑھا کر خدمت اسلام پر محمول کرتے ہوئے سادہ لوح مسلمانوں کے ذہنوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اورآپ کی جماعت کے خلاف زہر سے بھرا جاتا ہے اور نہیں سوچتے کہ اس کا نتیجہ کیا نکل رہا ہے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ان کا فیصلہ تو اب خدا کے پاس ہے۔ اس دنیا میں آج کل جو ان کی حالت ہورہی ہے یہ خدا تعالیٰ کے فیصلے کا اظہار ہی ہورہا ہے لیکن یہ اُن کو نظر نہیں آسکتا۔ جو کچھ خوف خدا رکھتے ہوں انہیں کویہ نظر آسکتا ہے۔
پس ہمیں تو مخالفتیںایمان میں مضبوطی کا باعث بنانے والی ہوتی ہیں اور ہونی چاہئیں کہ یہی انبیاء کی جماعتوں سے ہوتا چلا آیا ہے۔ ان تمام مخالفتوں کے باوجود انبیاء اپنا پیغام پہنچانے سے نہیں رکتے رہے اور ان کو ماننے والے بھی نہیں رکتے رہے اور نہ ہی خوفزدہ ہوئے۔ آنحضرت ا کی کس قدر مخالفت ہوئی۔ اس کا تصور بھی رونگٹے کھڑے کردیتا ہے۔ پھرآپ کے صحابہ کے ساتھ طاقتور مخالفین نے کیا سلوک کیا۔ یہ بھی ایک ایسا دردناک سلسلۂ واقعات ہے جو جہاںجذبات سے مغلوب کر دیتا ہے وہاں اُن صحابہ کے لئے دعا بھی نکلتی ہے جنہوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے لیکن توحید پر آنچ نہ آنے دی۔ آنحضرت ا سے عشق و محبت پر حرف نہ آنے دیا۔ ننگی پیٹھوں پر گرم تپتی ہوئی ریت اورسینوںپر بھاری بھر کم گرم پتھر برداشت کئے۔ دہکتے ہوئے کوئلوں کو اپنے جسموں کی چربی سے ٹھنڈا کیا۔ اپنے جسموں کو چِروا لیا لیکن خدا تعالیٰ اور اس کے رسول پرایمان اوران سے محبت کو اپنے دلوں سے نکالنا گوارا نہ کیا۔پھر آنحضرت ا کے غلام صادق کا دور آیا تو حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف شہیدنے جن کے پاس دولت بھی تھی اور جن کے مرید بھی ہزاروں کی تعداد میں تھے جب حق کو دیکھ کر زمانے کے امام اور مسیح و مہدی کو آنحضرت ا کے سلام کا پیغام پہنچایا تو زندہ زمین میں گاڑے گئے باوجود بادشاہ وقت کے بار با رکے اس پیغام کے کہ تمہاری زندگی صرف اس صورت میں بچ سکتی ہے کہ مسیح الزمان اور مہدی دوران کا انکار کرو ،ا ٓپ نے آنحضرت ا کے فرمان کو پورا کرنے پر اپنی جان کو کوئی وقعت نہ دی۔ مسیح موعودکو جو سلام پہنچایا اپنی جان کا نذرانہ دے کر اُس سلام کی حفاظت کی۔ جانتے تھے کہ یہی سلام مجھے اللہ اور اس کے رسول کا مقرب بنائے گا ۔جانتے تھے کہ اس سلام کے بدلے فرشتے بھی مجھ پر سلام بھیجیں گے۔ جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا ہے کہ سَلامٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ۔یعنی انہیں سلام کہا جائے گا ربّ رحیم کی طرف سے، مَیں اس کا مصداق بننے والا ہوں ۔پس جو اپنے ایمان کو انتہا پر پہنچاتے ہوئے مسیح و مہدی کو سلام پہنچا کر اپنی جان کے بدلے ربّ رحیم کے سلام کا حق دار بن جائے اُسے اور کیا چاہئے۔
اسی طرح حضرت مولوی عبد الرحمن خان صاحب بھی تھے۔ انہوں نے مخالفتوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی میں ان دو بزرگوں نے قربانی کے وہ معیار قائم کئے جن کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی کتاب ’’تذکرۃ الشہادتین‘‘ میں بیان فرمایا ہے۔ اور پھر جیسا کہ الٰہی جماعتوں کے ساتھ ہوتا آیا ہے آج تک جماعت کے افراد اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرتے چلے جارہے ہیں ۔ جماعت احمدیہ کی تاریخ مختلف قسم کی قربانیوں سے بھری پڑی ہے۔ یہ سب قربانیاں کیوں ہیں؟ اس لئے کہ مسیح محمدی کے پیغام کودنیا تک پہنچایا جائے۔
دوسرے لوگ بھی کہتے ہیں کہ ہم نے جان کی قربانیاں پیش کیں۔ لیکن وہ جان کی قربانیاں اس تعلیم کے خلاف ہیں جو آنحضرت ا نے پیش فرمائی تھیں۔ آپ ؐ نے تو فرمایا کہ مسلمان کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان کو محفوظ رہنا چاہئے۔ لیکن یہ خودکش حملے کر کے خوداس بات کی کھلے طور پر نفی کر رہے ہیں۔ آپؐ نے تو جنگ کی حالت میں بھی دشمن کی عورتوں ، بچوں اور بوڑھوں کو نقصان پہنچانے سے منع فرمایا تھا۔ اور یہ اپنے ہی ملک میں اپنے ہی ہم قوموں اور ہم مذہبوں کو ظالمانہ طریقے پر قتل کرتے جارہے ہیں۔ اور اس قتل و غارت اور ظلم کی انتہا کی ہوئی ہے۔ اور پھر اس پر مزید یہ کہ یہ سب کچھ اسلام اور مذہب کے نام پر ہورہا ہے۔
ہم احمدی تو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مسیح موعود کی آمد سے کوئی خونی انقلاب نہیں آنا بلکہ دینی جنگوں کا خاتمہ ہونا ہے۔ آنحضرت اکے سلام پہنچانے کے اس پیغام میں جہاںمسیح و مہدی کو قبول کرنے کی طرف ہدایت ہے وہاں اس بات کا بھی اشارہ ہے کہ مسیح ومہدی نے آنحضرت اکے نام احمد ؐ کا پرتَو بننا ہے اور یہ پرتَو بن کر پیار، محبت ،صلح اور آشتی کا پیامبر بننا ہے۔ اس لئے اُسے سلام پہنچا کر اس سلامتی پہنچانے والے گروہ میں شامل ہو کر ہر طرف محبت، پیار اور صلح کا پیغام پہنچا دو۔ پیار اور محبت سے اپنے پیدا کرنے والے خدا کی پہچان کروادو ۔محسن انسانیت حضرت محمدرسول اللہ ا کے جھنڈے تلے تمام دنیا کو لانے کی کوشش کرو۔
پس ہماری جانیں پیار ومحبت پھیلانے کی پاداش میں قربان ہوتی ہیں۔ ان کے نزدیک یہ بھی ایک جرم ہے۔ دوسرے لوگ اگر اپنی جانیں دے بھی رہے ہیں تو ظلم و بربریت کے نمونے دکھانے کے لئے اور پھر اس پر مستزادیہ کہ معصوم بچوں کو برین واش کر کے دین کے یہ ٹھیکیدار خود کش حملوں کے لئے تیار کرتے ہیں اورپھر بڑے فخر سے اس کا بیان بھی کرتے ہیں۔ یہ لوگ دین کے نام پر ماؤں سے اُن کے جگر گوشوں کے نذرانے مانگتے ہیں لیکن اپنا ایک بچہ بھی قربان کرنے کے لئے کبھی تیار نہیں ہوتے ۔ پس آج جماعت احمدیہ کی قربانیاں ہی ہیں جو خالص دین کے لئے ہیں اور دین کو قائم کرنے کیلئے اور انسانیت کا سر فخر سے بلند کرنے کیلئے ہیں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا یہ قربانیاں ہیںجو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی سے شروع ہوئیں اور آج تک چلتی جارہی ہیں۔ ان قربانیوں میں آج تک ایک بھی ایسی مثال نہیں جس میں کسی احمدی نے ظلم کا ساتھ دینے کے لئے اپناخون بہایا ہو یا دوسرے کا خون بہایا ہو اور پھر اُسے مذہب کا لبادہ اوڑھایا ہو۔
پاکستان میںتوجیسا کہ پہلے بھی کئی مرتبہ کہہ چکا ہوں لاقانونیت کا دور دورہ ہے اور احمدی تو ہمیشہ کی طرح اُن کی لپیٹ میں ہیں ہی لیکن جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ ان کا فیصلہ خدا کے پاس ہے۔ یہ لاقانونیت اور بدامنی ان کے اس رویہ کی وجہ سے اور اس روح کی وجہ سے ہے، اس بدزبانی کی وجہ سے ہے جو خدا تعالیٰ کے فرستادہ اور اس کی جماعت سے ہر موقعہ پر روا رکھے جانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ پس اے عقل کے اندھے مولویو اور اے احمدیت کے مخالفو! کچھ تو سوچو اور کچھ تو عقل کروکہ تمہارے ساتھ یہ کیا ہو رہا ہے؟
جہاں تک احمدیوں کا سوال ہے اُن کے دل آنحضرت ا کی محبت سے سرشار ہیں۔ کلمہ طیبہ لَااِلٰہَ اِلَّاللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ احمدی کی پہچان ہے۔ ہماری دیواروں اور بورڈوں سے تو یہ کلمہ مٹایا جا سکتا ہے لیکن ہمارے دلوں سے اسے کبھی نہیں مٹایا جاسکتا۔ آجکل بھی پاکستان میںاحمدیوں پر اس حوالے سے بہت سختیاں ہورہی ہیں۔ یہ کلمہ دیواروں سے بھی ہاتھ سے کھرچا جارہاہے۔ اگر سیمنٹ سے لکھا ہوا ہے تو ہتھوڑوں سے توڑا جارہا ہے۔چند دن پہلے فیصل آباد کے قریب ایک گاؤں لاٹھیاں والا میں یہ سب کچھ کیا گیا اور پولیس اورایلیٹ فورس کے دو تین سو مجاہدین نے یہ کارنامہ سرانجام دیا جن کی پیٹھوں پر لکھا ہوا تھا کہ ہم کسی سے خوف نہیں کھاتے۔ تم بیشک دنیا میں کسی سے خوف نہیں کھاتے ہوگے لیکن وہ خدا تعالیٰ جب اپنے پیاروں کو تنگ کرنے والوں سے انتقام لیتا ہے تو پھردنیا اورآخرت میں ایسے لوگوں کو تباہ و برباد کر دیتا ہے ۔ ان قانون کے پاسبانوں کو تو ہم قانون کے نام پر ظلم کرنے سے اس لئے نہیں روکتے کہ حکومتی اداروںسے ٹکرا کر ملک میں بدامنی پھیلانا ہماری تعلیم نہیں ۔لیکن ان نام نہاد دین کے ٹھیکیداروں سے کوئی احمدی نہ پہلے کبھی ڈرا ہے اور نہ آئندہ کبھی خوفزدہ ہوسکتا ہے۔ جیسا کہ مَیں نے بتایا انبیاء جب مبعوث ہوتے ہیں تو قربانیاں کرتے ہیں اور ان کے ماننے والے بھی قربانیاں کرتے ہیں۔ آجکل پھر جیسا کہ مَیں نے بتایا شدت کے ساتھ خاص طور پر پاکستان میںاحمدیوں کے خلاف جو دَور ہے اور آنے بہانے سے احمدیوں کو ظلم کا نشانہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے اور یہ سب کچھ نام نہاد مُلّاں کے ایماء پر ہورہا ہے ۔ فیصل آباد کی تو یہ ایک مثال ہے جو مَیں نے دی تھی۔ عمومی طور پر یہ ظلم مختلف جگہوں پر کسی نہ کسی طریقہ سے کیا جارہا ہے۔ اور ان لوگوں کا زعم ہے کہ احمدیوں کو اس طرح روکنے سے یہ احمدیت کو ختم کردیں گے۔ یہ سلسلہ جو خدا تعالیٰ کا جاری کردہ سلسلہ ہے نہ ان کے رکنے سے رک سکتا ہے اور نہ اُن کی پھونکوں سے یہ ختم ہوسکتا ہے ۔
اور مخالفت کا یہ سلسلہ اب صرف پاکستان میں نہیں ہے بلکہ دنیا کے اَور ملکوں میں بھی ہے اور جیسا کہ مَیں نے پہلے بتایایہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سچائی کی دلیل ہے۔ دنیا میں باقی ملکوں میں بھی جہاں مُلّاں کا زور چل سکتا ہے یہ فساد کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا احمدی ہر مخالفت کو اس لئے برداشت کرتے ہیں کہ ہم فساد نہیں چاہتے۔ جب حکومتی ادارے بیچ میں آجائیں تو پھر بالکل پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ احمدی اگر اپنی جان قربان کرتے ہیں تو دوسرے کی زندگی کی خاطر۔ یہ نام نہاد دین کے ٹھیکیدار اپنے مفاد کی خاطر عورتوں، بچوںاور معصوموں کی جانیں لینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ پس جیسا کہ مَیں نے کہا آج کل پھر مخالفین کی مخالفت کی شدت میں اُبال آیا ہوا ہے۔ لیکن یہ اُن کا وہم ہے کہ یہ کسی سچے احمدی کے پایۂ استقلال کو ہلا سکتے ہیں۔ یہ لوگ نہ ہی ہمارے دلوںسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت چھین سکتے ہیں اور نہ ہی ہمیں زمانے کے امام کے پیغام کو دنیا تک پہنچانے سے روک سکتے ہیں۔ ان مخالفتوں کا سامنا کرنے کے لئے ہمیں حضرت مسیح موعود
علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ابتداء میںہی تیار کر دیا تھا۔آپ؈ ایک جگہ فرماتے ہیں :۔
’’مجھے کیا معلوم ہے کہ ابھی کون کون سے ہولناک اورپرخار بادیہ درپیش ہیں جن کو مَیں نے طے کرنا ہے…‘‘ (کون سے ایسے خوفناک جنگل آنے والے ہیں جن کو مَیں نے طے کرنا ہے) ’’جو میرے ہیں وہ مجھ سے جدانہیں ہوسکتے۔ نہ مصیبت سے نہ لوگوں کے سبّ و شتم سے۔ نہ آسمانی ابتلاؤں اورآزمائشوں سے۔……کیا ہم زلزلوںسے ڈر سکتے ہیں۔ کیا ہم خدا تعالیٰ کی راہ میں ابتلاؤں سے خوفناک ہوجائیں گے۔ کیا ہم اپنے پیارے خدا کی کسی آزمائش سے جدا ہوسکتے ہیں۔ ہر گز نہیں ہوسکتے‘‘۔
(انوارالاسلام ۔روحانی خزائن جلد 9صفحہ24-23)
آپ مزید فرماتے ہیں :’’تم خوش ہو اور خوشی سے اچھلو کہ خدا تمہارے ساتھ ہے۔ اگر تم صدق اور ایمان پر قائم رہو گے تو فرشتے تمہیں تعلیم دیں گے اور آسمانی سکینت تم پر اترے گی اور روح القدس سے مدد دئیے جاؤ گے اور خدا ہر ایک قدم میں تمہارے ساتھ ہوگا اور کوئی تم پر غالب نہیں ہوسکے گا۔ خدا کے فضل کی صبر سے انتظار کرو۔ گالیاں سنو اور چپ رہو۔ ماریں کھاؤ اور صبرکرو ۔اور حتی المقدور بدی کے مقابلہ سے پرہیز کروتا آسمان پر تمہاری قبولیت لکھی جاوے ۔‘‘ (تذکرۃ الشہادتین۔ روحانی خزائن جلد20 صفحہ68)
پس یہ وہ تعلیم ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں دی ۔اور ہر احمدی جانتا ہے کہ خدا تعا لیٰ کی خاطر قربانی دینی پڑتی ہے لیکن الٰہی جماعتیں ان مخالفتوں کی وجہ سے اس پیغا م کو پہنچانے سے پیچھے نہیں ہٹتیں۔ تبلیغ کا یہ کام ہر احمدی نے کرنا ہے۔اپنے اندر اخلاص و وفا پیدا کرتے ہوئے کرنا ہے۔اپنے اندر پاک تبدیلیا ں پیدا کرتے ہوئے کرنا ہے۔اپنے عہد بیعت کو نبھاتے ہوئے کرنا ہے۔ کیونکہ یہی حواریوں کا کام ہے۔اور جیسا کہ میں نے کہابرطانیہ کے جلسے کے بعد اس ذمہ داری کو ادا کرنے کا بڑا مثبت ردعمل ہر علاقے اور ہر طبقے اور ہر ملک سے ہو رہا ہے۔پس یہ ایک پاک انقلاب ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمارے اندر پیدا کیا ہے۔
ایک تو عمومی رنگ میں ہر احمدی کا یہ فرض ہے ہی کہ اپنے اپنے دائرے میں اس نیک پیغام کو پہنچانے کی کوشش کرے جس کو خود اس نے اپنے لئے پسند کیا ہے۔لیکن قرآن کریم نے ایک خاص گروہ کا بھی ذکر فرمایا ہے جو قرآن کریم کا پیغام پہنچاتے ہیں۔پہلے دین کا علم حاصل کرتے ہیں اور پھر اس علم کو آگے پھیلانے کے لئے اپنی زندگیاں وقف کرتے ہیں۔خدا تعالیٰ فرماتا ہے: وَلتَکُن مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَ یَاْ مُرُوْنَ بِالْمَعرُوفِ وَ َینْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِوَ اُولٰئِکَ ھُمُ المُفلِحُونَ (آل عمران :105)اور چا ہئے کہ تم میں سے ایک جماعت ہو، وہ بھلائی کی طرف بلاتے رہیںاور اچھی باتوں کی تعلیم دیں اور بری باتوں سے روکیںاور یہی ہیں وہ جو کامیاب ہونے والے ہیں۔
پھر فرمایا : وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا کَآفَّۃ ً فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْھُمْ طَآئِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّہُوْا فِی الدِّیْنِ وَلِیُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْآ اِلَیْھِمْ لَعَلَّھُمْ یَحْذَرُوْنَ(التوبہ:122)مومنوں کے لئے ممکن نہیں کہ وہ تمام کے تمام اکٹھے نکل کھڑے ہوں۔پس ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ ان کے ہر فرقے میں سے ایک گروہ نکل کھڑا ہو تاکہ وہ دین کا فہم حاصل کریں اوروہ اپنی قوم کو خبردار کریں جب وہ ان کی طرف واپس لوٹیںتاکہ شاید وہ ہلاکت سے بچ جائیں۔
پس پہلے تو ہر ایمان لانے والے کی یہ ایک عمومی ذمہ داری ہے جیسا کہ مَیں نے کہاکہ وہ خیر جس سے اس کو حصہ ملا ہے اس خیر کو آگے پہنچائیں اور کسی خوف کو راہ میں روک نہ بننے دیں۔بے شک حکمت سے ہر کام مومن کی فراست کا حصہ ہے۔لیکن موعظۂ حسنہ دشمنیوں کی آگ کو ٹھنڈا بھی کر دیتا ہے۔اور جیسا کہ میں گزشتہ یوکے کے جلسہ میں بھی کہہ چکا ہوں کہ دنیا کی بہت بڑی تعداد امن کے راستوںکی تلاش کے لئے بے چین ہے۔پس یہ کام تو ہم میں سے ہر ایک نے کرنا ہے لیکن ہر ایک کیونکہ مکمل طور پراس کے لئے نہ علم رکھتا ہے نہ وقت دے سکتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے امّت میں سے ایک گروہ کی یہ ذمہ داری لگائی ہے اور اس ذمہ داری کو نبھانے کے لئے جماعت میں وقف زندگی کا نظام موجود ہے۔ پس ہر نوجوان جو اپنے آپ کو دین کا علم حاصل کرنے کے لئے پیش کرتا ہے،دین کا علم سیکھ کر اسے پھیلانے اور تبلیغ کرنے کے لئے پیش کرتا ہے، اس کو یہ سوچنا چاہئے کہ اس نے آنحضرت ا کی لائی ہوئی شریعت کودنیا میں پھیلانے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ایک عہد باندھا ہیاور جان چلی جائے تو چلی جائے لیکن اس عہد بیعت پر کبھی آنچ نہ آئے۔پس یہ انعام جو خیر کی صورت میں ہمیں ملا ہے اور ہم میں سے وہ جواس کی گہرائی کا علم حاصل کرتے ہیں ان کا کام ہے کہ اپنی جان لڑا کر دنیا کو آگ کے گڑھے میں گرنے سے بچائیں۔ہر ایک کو وہ علم اور فہم نہیں ہو سکتا جو ایک علم حاصل کرنے والے کو ہوتا ہے۔ پس ہمارے مربیان اور مبلغین کا کام ہے کہ اس علم کو جو خدا تعالیٰ نے انہیں اپنے فضل سے عطا فرمایا ہے پھیلائیں۔ جماعت نے ان پر پیسہ اور وقت خرچ کر کے انہیںاس قابل بنایا ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود؈ کی اس خاص فوج میں شامل ہوجائیں جو حضرت مسیح موعود؈کے صف ِاول کے مجاہدین کہلانے والے ہونے چاہئیں۔ اسی طرح اپنوں کی تعلیم اور تربیت بھی بہت بڑا کام ہے جو ہمارے مربیان اور مبلغین کے سپرد ہے تاکہ ہمیشہ وہ کمزوریاں جو جماعت میں پیدا ہوتی ہیں اور جو انعامات سے محرومیت کا باعث بنتی ہیں وہ بھی دور ہوتی رہیں اور جب وہ دَور آئے اور نظر آرہا ہے کہ آنے والا ہے کہ جب فوج در فوج لوگ جماعت میں داخل ہوں گے تو پھر بہت بڑی ذمہ داری پڑ جاتی ہے،بہت بڑھ کر کام کرنا پڑے گا۔ بے شک ہر احمدی کا بھی یہ کام ہے کہ اپنا جائزہ لے لیکن جو اس کام کے لئے متعین کئے گئے ہیں اورجنہوں نے اپنے آپ کو اس مقصد کے لئے پیش کیا ہے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صف اوّل کے مجاہدین کا کردار ادا کرنے والے بنیں گے ان کا سب سے اوّل یہ فرض ہے کہ اپنے جائزے لیں۔
پس آج وہ نوجوان دنیا کے مختلف جامعات احمدیہ میں پڑھ رہے ہیںوہ بھی یہ عہد کریں کہ ہم نے اپنے عہد کو پورا کرنے کے لئے کسی بھی قسم کی دنیاوی خواہش کو روک نہیں بننے دینا۔جو میدان عمل میں ہیں وہ بھی اپنے جائزے لیں کہ کیا ہم اپنے وقف زندگی ہونے کا حق ادا کر رہے ہیں؟ایک بہت بڑی تعداد واقفینِ نَو کی جامعات سے فارغ ہو کر نکلنے والی ہے۔ان کے سامنے پرانے واقفین کے بہترین نمونے ہونے چاہئیں۔پس خالص ہو کر اپنے وقف کے تقا ضے پورے کرنے کے لئے جُت جائیں۔ اپنے سامنے وہ مثالیں رکھیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے پیش کیں۔ہمارے سامنے وہ مثالیں ہوں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تربیت یافتہ صحابہ نے قائم کیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج بھی ایک ایسی تعداد ہے جن کی قربانیاں قدر کی نگاہ سے دیکھی جانے والی ہیں۔لیکن اس گروہ میں تو سو فیصد ایسی قربانی کرنے والے ہونے چاہئیں جن کے نمونے ہر احمدی کے لئے مشعل راہ ہوں۔ کسی مربی اور کسی مبلغ اور کسی معلم اور کسی واقف زندگی کی طرف کبھی کوئی انگلی اعتراض کے رنگ میں نہ اٹھے ۔گو کہ سو فیصد تو ایسا نہیں ہو سکتاکیونکہ بعض لوگوں کو اعتراض کی عادت ہوتی ہے اور اعتراض کرتے چلے جاتے ہیںاور انہوں نے اعتراض کرنا ہی ہوتا ہے۔لیکن ایک واقف زندگی کا کردار ایسا ہو کہ ہر اعتراض معترض کے منہ پر طمانچہ بن کر پڑے۔
حضرت مسیح مو عو د علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یَدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَر ِ(آل عمران:105) کاترجمہ اس طرح فرمایا ہے کہ ’’جو نیکی کی طرف دعوت کریں اور امرِ مَعْرُوْف اور نَہِی عَنِ الْمُنْکَر اپنا طریق رکھیں‘‘۔
(شہادت القرآن۔ روحانی خزائن جلد6صفحہ331)
اب دیکھیں نیکی کی طرف دعوت کون کر سکتا ہے، وہی جو خود نیکیوں کو بجا لانے کی طرف توجہ دینے والا ہوگا۔ایک بے علم اور جاہل تو بعض غلطیاں کر کے قابل معافی ہو سکتا ہے لیکن ایک صاحب علم جو دوسروں کو تو وعظ کرتا ہے لیکن اپنی کمزوریوں کو نہیں دیکھتااس کے لئے بہت خوف کا مقام ہے۔پس دین کا علم رکھنے والوں کو بہت زیادہ اپنی فکر کرنی چاہئے۔جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے:امرِ مَعْرُوْف اور نَہِی عَنِ الْمُنْکَر اپنا طریق رکھیں۔ معروف کا حکم تبھی دیا جاسکتا ہے اور برائیوں سے تبھی روکا جا سکتا ہے جب خود بھی اپنا یہ طریق ہو۔وسعت حوصلہ بے انتہا ہو۔ عاجزی ہو۔ دوسروںکے جذبات کا خیا ل ہو۔تکلیفیں برداشت کرنے کی عادت ہو۔گھریلو زندگی حتی الوسع جنت نظیر بنانے کی کوشش ہو۔ اس میں چونکہ واقف زندگی کی بیوی کا بھی بہت بڑا دخل ہے اس لئے ایک واقف زندگی کی بیوی کو بھی کبھی ایسے مطالبات نہیں کرنے چاہئیں جوواقف زندگی کے لئے تکلیف مالا یطاق ہو۔اور سب سے بڑھ کر دعائوں اور عبادات اور نوافل پر بہت زیادہ زور ہوکیونکہ اپنے زور بازو سے نہ کسی کو کوئی اچھائی کی طرف مائل کر سکتا ہے نہ برائیوں سے کوئی روک سکتا ہے۔ اس کے لئے خدا تعالیٰ کی مدد کی ضرورت ہے اور مدد دعاؤں کے ذریعے ہی حاصل کی جاسکتی ہے۔پس یہ باتیں ہوںگی تو آپ بہترین مربی ،واعظ اور مبلغ ہوںگے ورنہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے نیچے آئیں گے کہ لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُونَ تم وہ باتیں کیوں کہتے ہو جو تم خود نہیں کرتے۔ لیکن یہا ں مَیں اس بات کو واضح کر دوں کہ یہ حکم صرف واقفین کیلئے نہیں ہے۔ گو ان کو سب سے بڑھ کر اس کا خیال رکھنا چاہئے۔ بلکہ یہ اللہ تعالیٰ نے تمام مومنین کو مخاطب کر کے فرمایا ہے۔ پس ہر احمدی کو اپنے نمونے قائم کرنے ہوںگے تبھی تبلیغ کے میدان میں ترقی ہو سکتی ہے۔ اگر ایک مربی اپنی بھرپور کوشش کر بھی رہا ہو لیکن افراد جماعت کے نمونے اس ماحول میں ایسے ہیں جو دوسروں کے لئے ٹھوکر کا باعث بن رہے ہیں تو مبلغ کی کوشش کوئی کام نہیں دکھا سکتی۔پس ہر فرد جماعت کو یاد رکھنا چاہئے کہ وہ جماعت کا سفیر ہے اور جب یہ مشترکہ کوششیں ہوںگی تب تبلیغ کے میدانوں میں وسعتیں پیدا ہوتی چلی جائیں گی۔
مَیں واپس مبلغین کی طرف آتے ہوئے ان کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ ارشاد رکھنا چاہتا ہوں اور ہر ایک نے یہ پڑھا بھی ہوگا لیکن اگر مستقل اس کی جگالی نہیں کرتے تو اُس پڑھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔تَفَقُّہ فِی الدِّیْن کی وضاحت کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:
’’یعنی ایسے لوگ ہونے چاہئیں جوتَفَقُّہ فِی الدِّیْن کریں۔ یعنی جو دین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا ہے اس میں تفقہ کر سکیں۔ یہ نہیں کہ طوطے کی طرح یاد ہو اور اس پہ غور و فکر کی مطلق عادت کا مذاق ہی نہ ہو۔اس سے وہ غرض حاصل نہیں ہو سکتی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے۔……لیکن چونکہ سب کے سب ایسے نہیں ہوسکتے اس لئے یہ نہیں فرمایا کہ سب کے سب ایسے ہو جائیں۔ بلکہ یہ فرمایا کہ ہر جماعت اور گروہ میں سے ایک ایک آدمی ہو اور گویا ایک جماعت ایسے لوگوں کی ہونی چاہئے جو تبلیغ اور اشاعت کا کام کر سکیں۔ اس لئے بھی کہ ہر شخص ایسی طبیعت اور مذاق کا نہیں ہوتا۔‘‘ (ملفوظات جلدچہارم ۔ صفحہ 599-598 مطبوعہ ربوہ ۔بحوالہ الحکم جلد 10نمبر2مورخہ17جنوری1906صفحہ4)
پس جو میدان عمل میں ہیں وہ بھی اپنے علم کو بڑھاتے چلے جائیں۔ اوردنیا میں جو مختلف جامعات احمدیہ کھل چکے ہیں ان میں پڑھ رہے ہیں وہ بھی یاد رکھیں کہ غور اور فکر کی بھی عادت ہونی چاہئے۔ آنحضرت ا کے فرمان کے مطابق علم میں توقبر میں جانے تک اضافہ کرتے رہنا چاہئے۔ اس لئے مطالعہ اور غور پر بہت زور دینے کی ضرورت ہے تاکہ پھر یہ زیادہ بہتر رنگ میں تبلیغ کرنے کا ذریعہ بن سکے۔ آنحضرت اکے صحابہ نے علم سیکھا اور آگے پھیلایا ۔اپنے پاک نمونے دکھائے اور لوگوںکے دلوں کو گھائل کیا۔ اپنی دعاؤں سے عرش کے پائے ہلائے اور شمال اور جنوب اور مشرق اور مغرب میں پھیل گئے۔ معترضین کے ایسے مدلّل جواب دئیے کہ ان کے منہ بند کر دئیے۔ احادیث کی روایا ت بھی ہمیں ان لوگوں کے ذریعہ سے ہی پہنچی ہیں اور ہمارے علم کا باعث بنی ہیں جنہوں نے آنحضرت ا کے در پر دھونی رمائی ہوئی تھی۔ حضرت ابو ہریرہؓ جو بہت بعد میں آئے لیکن بے انتہا روایتوں کے راوی بن کر ہم پر احسان عظیم کر گئے۔وہ کسی آسائش کی تلاش کے لئے وہاں نہیں بیٹھے رہتے تھے بلکہ اس قدر بھوک اور فاقے برداشت کرنے پڑے کہ اکثربے ہوش ہو جاتے تھے ۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابہ تھے جنہوں نے تبلیغ کا فریضہ سر انجام دیا ۔ان کے واقعات کا مطالعہ بھی ہمارے واقفین ِزندگی کو خصوصاً اور افراد جماعت کو عموما ًکرنا چاہئے۔ انکی قربانیوں کو یاد رکھنا چاہئے۔ یہ بعض پرانے بزرگ ایسے بھی ہوں گے جنہوں نے اپنی زندگیاں دین کے لئے گزار دیں لیکن ان کی اولادوں میں سے کوئی بھی تَفَقُّہ فِی الدِّیْن کے لئے آگے نہیں آیا۔ اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے واقفین نو سکیم کے ذریعہ سے اس طرف توجہ پیدا ہوئی ہے۔ لیکن وہ نمونے اور وہ معیار بھی حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جو ہمارے بزرگوں نے دکھائے اور جن کی وجہ سے ان کا خدا تعالیٰ سے خاص تعلق پیدا ہوا۔ ان لوگوں نے دنیاوی جاہ و حشمت کی پرواہ نہیں کی اور بعض اپنی بڑی اچھی نوکریاں چھوڑکر ، دنیا داری کو چھوڑ کر دین کی خدمت کیلئے آگے آگئے اور پھر دین کو دنیا پر ایسے مقدم کیا کہ کبھی دنیا کا خیال ہی نہیں آیا ۔ جوں جوں ہم حضر ت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے سے دور جا رہے ہیں ہمیں ایک خاص کوشش ا ور دعا کے ساتھ دین کا علم سیکھنے کے ساتھ ساتھ قربتِ الٰہی اور معرفتِ الٰہی کے حصول کے راستے بھی تلاش کرنے چاہئیں۔ اپنی جانوں کو اس مقصد کے حصول کے لئے ہر سختی کے لئے تیا ر کرنا چاہئے۔ (باقی آئندہ)