اداریہ: ابتلاء میں مومن کا ردّعمل

مطبوعہ رسالہ اسماعیل لندن ، اکتوبر تا دسمبر 2013ء

اداریہ

ابتلاء میں مومن کا ردّعمل

دنیا کے تمام معاشروں اور قریباً تمام زبانوں میں ایک ملتی جلتی روایت بیان کی جاتی ہے۔ اس روایت میں نام تو مختلف خطّوں کی تاریخ کے حوالہ سے تبدیل ہوسکتے ہیں لیکن نتیجہ اس کا ایک ہی نکلتا ہے۔ تاہم نتیجہ بیان کرنے سے پہلے ہم آپ کو حکایت سناتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ تھا جو اپنے ایک خادم سے نمایاں شفقت کا اظہار کرتا تھا اور یہ بات طبعاً دوسرے خدام کو نہ صرف ناپسند تھی بلکہ وہ حسد میں بھی مبتلا تھے اور بادشاہ سے جھوٹی سچی شکایات کرکے اُس خادم کے مقام کو آقا کی نظروں سے گرانے کی کوششوں میں لگے رہتے تھے۔ بادشاہ نہ صرف بہت زیرک تھا بلکہ منصف مزاج اور عادل بھی تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اگر کوئی شکایت سچی بھی ہوئی تو بھی اس کے پس منظر میں کوئی ایسی بات ہوگی جو اُس خادم کی فراست پر ہی دلالت کرے گی۔ لیکن پھر بھی دوسرے خدام کو یہ احساس دلانے کے لئے کہ بادشاہ کی محبت بے وجہ نہیں ہوتی ہے، اُس نے ایک ترکیب سوچی۔ اور ایک موقع پر جب خدام اپنے آقا کے گرد جمع تھے تو بادشاہ نے بدذائقہ خربوزہ کی قاشیں بنائیں اور تمام خدام کو ایک ایک قاش اپنے ہاتھ سے دی۔ جونہی خدام نے اس قاش سے پہلا لقمہ لیا تو سب نے ہی خراب سا منہ بناکر تھوک ڈالا اور نہایت ادب سے اظہار کیا کہ بادشاہ سلامت! یہ خربوزہ تو کھانے کے قابل ہی نہیں ہے۔ بادشاہ کچھ دیر خاموش رہا اور اپنے اُس خادم کو کن انکھیوں سے دیکھتا رہا جو بدذائقہ قاش کو بھی مزے لے کر کھا رہا تھا۔ جب وہ قاش ختم کرچکا تو بادشاہ نے اُس سے پوچھا کہ تمہارے سامنے دوسرے خدام نے اس خربوزے کے بدذائقہ ہونے کی وجہ سے ساری قاشیں تھوک دی تھیں لیکن تم اس کو اس طرح سے کھا گئے ہو گویا کہ یہ نہایت شیریں تھا۔
غلام نے عرض کیا: حضور! مَیں نے آپ کے ہاتھ سے اتنی میٹھی قاشیں کھائی ہیں کہ اِس ایک قاش کی تلخی بھی محسوس نہیں ہوئی۔
بادشاہ نے یہ سن کر اپنے دوسرے خدام کی طرف دیکھا گویا کہ بزبان حال یہ پوچھ رہا ہو کہ تم نے میرے ہاتھوں سے لی جانے والی شیریں قاشیں کیوں یاد نہیں رکھیں؟
اس حکایت سے ہم واقفین زندگی کے لئے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر ہم (اپنے حقیقی بادشاہ یعنی) اللہ تعالیٰ کا قرب اور اُس کا پیار حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اپنی زندگی میں آنے والے ہر ابتلاء کے موقع پر ہمارا ردّعمل یہی ہونا چاہئے:

اِسْتَعِیْنُوْا بِاالصّبْرِ وَالصَّلوٰۃ

کہ صبر اور دعاؤں کے ساتھ اُس کی مدد کے طالب رہیں۔

محمود احمد ملک

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں