اداریہ: ایک صدی قبل رونما ہونے والا عظیم الشان تاریخی واقعہ اور اس کے تقاضے

اداریہ ’’انصارالدین‘‘ جنوری و فروری 2022ء

ایک صدی قبل رونما ہونے والا
عظیم الشان تاریخی واقعہ اور اس کے تقاضے

1066ء میں ولیم ڈیوک آف نارمنڈی نے جو بعد میں ’’ فاتح ولیم‘‘ (William the Conqueror) کے نام سے مشہور ہوا، نارمن لشکر کی مدد سے انگلستان پر حملہ کر دیا اور اسے فتح کر لیا۔ ولیم جب انگلستان کے ساحل پر اُترا تو نرم ریت پر پاؤں پڑنے کی وجہ سے اپنا توازن قائم نہ رکھ سکا اور اپنی دونوں ہتھیلیوں کے سہارے آگے کی طر ف گرگیا۔ یہ واقعہ اُس کے لئے نیز اس کے لشکر کے لئے اچھا شگون نہیں تھا کیونکہ اس کی وجہ سے لشکر کے اندر بد دلی کی کیفیت پیدا ہوسکتی تھی۔ اس نازک موقعہ پر اُ س نے اپنے حواس قائم رکھے اور جب وہ اُٹھا تو اس کے ہاتھوں کی مُٹھیوں میں ریت پکڑی ہوئی تھی۔

نارمنڈی کا ساحل سمندر

اُس نے اپنی فوج کو مخاطب کرتے ہوئے بلند آواز سے کہا:

’’ دیکھو! انگلستان کی زمین میرے ہاتھوں میں ہے‘‘۔

اس نوعیت کا ایک واقعہ اسلامی تاریخ میں بھی ملتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت کی بات ہے ، مسلمانوں اور ایرانیوں میں جنگ قادسیہ ہونے والی تھی۔ اسلامی لشکر کے سردار حضرت سعد بِن ابی وقاصؓ تھے۔ خلیفہ وقت کی ہدایت کے مطابق حضرت سعدؓ نے ایک مختصر سا وفد حضرت مغیرہ بن زرارہ کی قیادت میں شاہ ایران کسریٰ یزد جرد کے پاس مصالحت کے لئے بھجوایا۔ بادشاہ ان کے ساتھ نہایت حقارت سے پیش آیا اور اسلامی لشکر کے افسران کو اور ہر ایک سپاہی کو اِس شرط پر کچھ رقم دینے کی پیشکش کی کہ وہ بغیر جنگ کے واپس لَوٹ جائیں۔ وفد نے یہ پیشکش مکمل طور پر ٹھکرا دی جِس پر بادشاہ طیش میں آگیا۔ اُس نے مٹی کا ایک بورا منگوایا اور وفد کے سردار کے کندھے پر رکھواتے ہوئے کہا کہ اب تمہیں اِس خاک کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ وفد کے سردارنے بڑے اطمینان کے ساتھ مٹی کا وہ بورا اپنے کندھوں پر رکھوالیا اور بلند آواز کے ساتھ اپنے ساتھیوں سے کہا ’’ چلو! بادشاہ نے خود اپنے ہاتھوں سے ایران کی زمین ہمارے حوالے کر دی ہے‘‘۔ بادشاہ مشرک تھا اور مشرک وہمی ہوتا ہے اس لئے وہ گھبرا گیا اور وفد کو روکنے کی کوشش کی تاکہ وہ مٹی کا بورا اُ ن سے واپس چھین لے لیکن وہ اپنے گھوڑوں کو ایڑ لگاتے ہوئے اس کی دسترس سے باہر نکل گئے۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اپنی ایک رؤیا میں اپنے آپ کو انگلستان کے ساحل پر فوجی لباس میں دیکھا تھا۔ آپؓ نے دیکھا کہ حضور ؓ ایک فاتح جرنیل کی طرح چاروں طرف نظر دوڑا رہے ہیں کہ اتنے میں ایک آواز آئی ’’ولیم دی کانکرر‘‘ (William the Conqueror) ۔ حضور ؓ فرماتے ہیں کہ اُس وقت مَیں یوں محسوس کرتا ہوں جیسے یہ آواز اور میری روح ایک ہی وجود ہیں۔ اس خواب سے ظاہر ہوتا ہے کہ جِس طرح ولیم نے انگلستان پر مادی فتح حاصل کی تھی اسی طرح جماعت احمدیہ اسلامیہ اس پر روحانی فتح حاصل کرے گی۔ اِنشاء اللہ العزیز
سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ خلفائے احمدیت میں وہ پہلے بابرکت وجود تھے جنہوں نے بنفس نفیس تشریف لاکر سرزمین انگلستان کو برکت بخشی۔ اس عظیم الشان واقعہ پر ایک صدی گزرنے کو ہے۔ انگلستان میں رہنے والے ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ حضورؓ کے رؤیا کی عملی تعبیر کے لیے ایک عزم صمیم کے ساتھ کوشش کرے اور دعوت الی اللہ کے لیے ہرممکن جدوجہد کرتا چلاجائے یہاں تک کہ آئندہ دو سال میں دیارمغرب کے ہر باسی تک احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغام پہنچ جائے۔
ہمیں یہ امر ہمیشہ پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ1924ء میں جب سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ ویمبلے کانفرنس میں شرکت کے لیے انگلینڈ تشریف لائے تھے تو اپنے اس سفر کو انگلستان کی روحانی فتح کی بنیاد قرار دیا تھا۔ حضورؓ اس حوالے سے تحریر فرماتے ہیں:
’’خداتعالیٰ کے فضل سے انگلستان کی روحانی فتح شروع ہوچکی ہے۔ … جو کچھ مَیں کہتا ہوں وہ ایک روحانی امر ہے جس کو صرف وہی دیکھ سکتے ہیں جن کی روحانی آنکھیں ہوں۔ آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ اس بادشاہ نے جس کے قبضہ میں تمام عالم کی باگ ہے۔ مجھے رؤیا میں بتایا ہے کہ میں انگلستان گیا ہوں اور ایک فاتح جرنیل کی طرح اُس میں داخل ہوا ہوں اور اُس وقت میرا نام ’’ولیم فاتح‘‘ رکھاگیا … مَیں اس خواب کی بِنا پر یقین رکھتا تھا کہ انگلستان کی روحانی فتح صرف میرے انگلستان جانے سے وابستہ ہے۔ اور اب میرے نزدیک انگلستان کی فتح کی بنیاد رکھ دی گئی ہے آسماں پر اُس کی فتح کی بنیاد رکھ دی گئی ہے اور اپنے وقت پر اس کا اعلان زمین پر بھی ہوجائے گا۔ … انگلستان فتح ہوچکا۔ خدا کا وعدہ پورا ہوگیا اُس کی فتح کی شرط آسمان پر یہ تقدیر تھی کہ مَیں انگلستان آؤں ۔ سومَیں خدا کے فضل سے انگلستان پہنچ گیا ہوں ۔ اب اس کارروائی کی ابتداء انشاء اللہ شروع ہوجائے گی اور اپنے وقت پردوسرے لوگ بھی انشاء اللہ دیکھ لیں گے۔‘‘
(اخبار الفضل قادیان بتاریخ4؍اکتوبر1924ء)

حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد المصلح الموعود

یہ امرواقعہ ہے کہ حضورؓ کے اس پہلے سفرِ انگلستان کے دوران کئی جہتوں سے جماعت احمدیہ کی ترقیات کی بنیاد رکھ دی گئی تھی اور آئندہ آنے والی نسلوں کو نہایت پُرحکمت پیغام دیتے ہوئے اُن کی راہ عمل بھی طے کردی گئی تھی۔ چنانچہ ’’تاریخ احمدیت‘‘ میں رقم ایک واقعہ پڑھنے اور سننے والوں کے دلوں میں ولولہ اور اُن کی روحوں میں ہمیشہ ارتعاش پیدا کرتا چلاجائے گا کہ سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ 2؍اکتوبر 1924ء کو ’’ولیم فاتح ‘‘ والا اپنا رؤیا پورا کرنے کی نیت سے خلیج پیونسی (Bay of Pevensey) تشریف لے گئے اور وہاں سے ایک کشتی کے ذریعہ اُس تاریخی مقام پر پہنچے جہاں ’’ولیم دی کنکرر‘‘ اتراتھا۔ حضورؓ نے ایک فاتح جرنیل کی طرح چاروں طرف نگاہ دوڑائی۔ حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی، حضرت مولانا دردؔ صاحب اور مسٹر خالد شیلڈرک حضور کے ہمراہ تھے۔حضرت بھائی جی بیان فرماتے ہیں:
’’ اُس وقت آپ کے چہرہ پر جلال اور شوکت تھی مگر اس کے ساتھ ایک ربودگی ملی ہوئی تھی۔ اس کے بعد خاموشی کے ساتھ آپ نے دعا کی اس مقام کے ساتھ ہی ویلٹائین نام ایک بُرج سا ہے جس پر ایک توپ رکھی ہوئی ہے پھرآپ نے نماز قصر کرکے پڑھی اور اُس میں لمبی دعا کی ۔ اور زمین پر اکڑوں بیٹھ کر پتھر کے سنگریزوں کی مٹھیاں بھریں اور فرمایا کسریٰ کے دربار میں ایک صحابی کو مٹی دی گئی تو صحابی نے مبارک فال لیا کہ کسریٰ کاملک مل گیا اور لے کررخصت ہوا۔… اور خدا نے وہ سرزمین صحابہ کو دے دی اس مبارک فال پر‘‘۔
(اخبار الفضل قادیان بتاریخ 20؍ نومبر 1924ء)
قارئین محترم! انگلستان کی سرزمین پر رقم ہونے والی یہ پاکیزہ داستان چند سال پہلے کی بات نہیں ہے، نہ ہی دو چار دہائیوں کا قصہ ہے۔ قریباً ایک صدی پہلے وہ گھڑی آئی تھی جب آسمانی بادشاہت کے مقدس نمائندے نے یہ اعلان کیا تھا کہ آسمان پر انگلستان کی فتح کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ اور اپنے وقت پر اس کا اعلان زمین پر بھی ہوجائے گا۔ پس ہمارے لیے یہ بہت سوچنے، غوروفکر کرنے اور اپنے کردار کا دیانتداری سے جائزہ لینے کا مقام ہے کہ آج قریباً ایک صدی گزرجانے کے بعد، اگر آج بھی تیسری نسل کے ایک نئے موڑ پر ہم تاریخ کے اوراق میں درج خوشخبریوں میں حقیقت کا رنگ بھرنے کی اپنی ذمہ داری ادا نہیں کرپارہے، اگر ابھی تک ہم نے اپنے مقدّس خلفاء کی آواز

مَنْ اَنْصَارِیْٓ اِلَی اللّٰہِ

پر لبّیک کہتے ہوئے

نَحْنُ اَنْصَارُاللّٰہِ

کی صدا بلند نہیں کی، اگر ابھی تک ہم نے اپنے پیارے امام ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی بار بار یاددہانیوں کے باوجود اپنے عہد بیعت اور انصاراللہ کے عہد کو نبھانے کے لیے، دعوت الی اللہ کے اس عظیم الشان کام میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپؑ کے خلفائے عظام کا مددگار بننے کے لیے، اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ اس عظیم کام کو سرانجام دینے کے لیے میدان عمل میں اُترنے کا قصد نہیں کیا، تو کیا ہم حقیقی انصار اللہ کہلانے کے حقدار ہیں؟

پیارے دوستو! اپنی زندگی کا باقی ماندہ عرصہ گزرجانے سے پہلے کچھ دیر کے لئے اعتکاف کیجیے اور اپنے مقصدِ حیات کا تعین کرنے کی سعی کیجیے۔ ہم جانتے ہیں کہ جب تک ہم میں سے ہر شخص خلافتِ حقّہ کی مسند پر فائز اپنے امام ہمام، اُس بابرکت وجود کی آواز پر کماحقّہ لبیک نہیں کہے گا اور ایک عزم صمیم کے ساتھ اپنے اس عہد کو پورا کرنے کی کوشش نہیں کرے گا جو خداتعالیٰ کی وحدانیت اور حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی رسالت کی گواہی دیتے ہوئے ہم اپنے ہر اجلاس عام میں کھڑے ہوکر دہراتے چلے جاتے ہیں، تب تک دعوت الی اللہ کی راہ میں

نَحْنُ اَنْصَارُاللّٰہِ

کہنے کا حق ہم سے ادا نہیں ہوسکتا۔
خداتعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم حقیقی معنوں میں انصاراللہ میں شامل ہو کر دین اسلام کی سربلندی کے لئے اپنا کردار ادا کرنے والے ہوں اور سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ کی پاکیزہ روح جس عالمی روحانی نقشے کو اپنی چشم تصوّر میں بساکر ہم سے رخصت ہوئی تھی، ہم بھی اپنی جان، جان آفرین کے سپرد کرنے سے پہلے بانی انصاراللہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس روحانی جہاد میں اپنا عاجزانہ عمل پیش کرکے اپنے ربّ کے حضور سرخرو ہوجائیں۔ آپؓ کی قلبی کیفیات کا ترجمان یہ شعر ہمیشہ ہمارے پیش نظر رہنا چاہیے کہ

محمود کرکے چھوڑیں گے ہم حق کو آشکار
روئے زمیں کو خواہ ہلانا پڑے ہمیں

(محمود احمد ملک)

100% LikesVS
0% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں