اداریہ: درازیٔ عمر کا ایک کارگر نسخہ

(مطبوعہ رسالہ انصارالدین جولائی و اگست2023ء)

مبلغین کرام سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ کے ہمراہ

احمدیہ لٹریچر میں وقتاً فوقتاً جن عمدہ کتب کا اضافہ دیکھنے میں آتا ہے اُن میں ایسے بہت سے خدّامِ احمدیت کا تذکرہ پیش کیا جاتا ہے جن کا مقصدِ حیات فقط یہ تھا کہ زمین کے کناروں تک اسلام کا حقیقی پیغام پہنچانے کے لیے ہرممکن جدّوجہد کریں اور اس راہ میں آنے والی ہر مصیبت کا خندہ پیشانی سے سامنا کریں۔ اُن کے دل اس عزمِ صمیم سے لبریز تھے کہ دعوت الی اللہ کی مقدّس راہ میں نہ صرف اپنی جان، مال اور عزت کی پروا نہیں کریں گے بلکہ ہر قسم کے مصائب، قیدوبند کی صعوبتیں اور اذیت ناک تشدّد بھی برداشت کریں گے۔ ان اسیرانِ راہ مولیٰ کی خصوصیت یہ بھی تھی کہ جس جرم (یعنی دعوت الی اللہ) کے الزام میں وہ پابندِ سلاسل کیے گئے تھے، اسیری کے دوران میں بھی وہ اس جرم کا ارتکاب کرتے چلے گئے اور بہت سی سعید روحوں کے لیے نجات دہندہ ثابت ہوئے۔ 10؍مارچ 1944ء کو پیشگوئی مصلح موعود کا اعلان کرنے کے لیے لاہور میں جب ایک عظیم الشان جلسے کا انعقاد ہوا تو اس موقع پر سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے متعدد مختلف ممالک کے اُن مبلغین کو بھی پیش فرمایا جو حضورؓ کی ہدایت کے مطابق اُس وقت تک اکنافِ عالم میں پیغام حق پہنچانے کا فریضہ سرانجام دے چکے تھے۔ ان خوش نصیب داعیانِ الی اللہ میں حضرت مولوی ظہور حسین صاحب آف بخارا بھی شامل تھے جنہوں نے بخارا میں بیتے اپنے تکلیف دہ حالات اور اسیری کے واقعات کا تفصیل سے ذکر فرمایا۔

حضرت مولوی ظہورحسین صاحب

بعدازاں حضورؓ نے اپنے خطاب میں آپ کے حوالے سے فرمایا

’’یہی مولوی ظہور حسین صاحب جنہوں نے ابھی روس کے حالات بیان کیے ہیں، جب انہوں نے مولوی فاضل پاس کیا تو اس وقت لڑکے ہی تھے۔ مَیں نے اُن سے کہا کہ تم روس جاؤگے؟ انہوں نے کہا مَیں جانے کو تیار ہوں۔ مَیں نے کہا جاؤگے تو پاسپورٹ نہیں ملے گا۔ کہنے لگے بے شک نہ ملے مَیں بغیر پاسپورٹ کے ہی اُس ملک میں تبلیغ کے لیے جائوں گا۔ آخر وہ گئے اور دو سال جیل میں رہ کر انہوں نے بتا دیا کہ خدا نے کیسے کام کرنے والے مجھے دیے ہیں۔ خدا نے مجھے وہ تلواریں بخشی ہیں جو کفر کو ایک لمحہ میں کاٹ کر رکھ دیتی ہیں۔ خدا نے مجھے وہ دل بخشے ہیں جو میری آواز پر ہرقربانی کرنے کے لیے تیار ہیں۔ مَیں انہیں سمندر کی گہرائیوں میں چھلانگ لگانے کے لیے کہوں تو وہ سمندر میں چھلانگ لگانے کے لیے تیار ہیں۔ مَیں انہیں پہاڑوں سے اپنے آپ کو گرانے کے لیے کہوں تو وہ پہاڑوں کی چوٹیوں سے اپنے آپ کو گرا دیں۔ میں انہیں جلتے ہوئے تنوروں میں کود جانے کا حکم دوں تو وہ تنوروں میں کود کردکھادیں۔ اگر خود کشی اسلام میں حرام نہ ہوتی تو مَیں اس وقت تمہیں یہ نمونہ دکھا سکتا تھاکہ جماعت کے سو آدمیوں کو اپنے پیٹ میں خنجر مار کر ہلاک ہو جانے کا حکم دیتا اور وہ سو آدمی اسی وقت اپنے پیٹ میں خنجر مار کر مر جاتے۔…‘‘

حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحبؓ شہید

ہم جانتے ہیں کہ ایک صدی سے زیادہ عرصے پر پھیلی ہوئی ایسی ہی بےشمار داستانیں آج تاریخ احمدیت کا حصہ ہیں۔ عشق حقیقی سے ملبوس یہ داستانیں کابل کی کال کوٹھڑی میں بیڑیوں میں جکڑے ہوئے پاک وجود حضرت صاحبزادہ سیّد عبداللطیف شہیدؓ سے لے کر امریکہ کے اُس ساحل تک پھیلی ہوئی ہیں جہاں حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کو قید کیا گیا تھا اور آپؓ کی دعوت الی اللہ سے قیدخانے میں ہی مومنین کی ایک جماعت قائم ہوگئی تھی ۔ آج بھی پاکستان اور کئی دیگر ممالک میں خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت و توفیق سے یہی تاریخ رقم کی جارہی ہے۔ کئی اسیران راہ مولیٰ نے اسیری کے دوران ہی اپنی جان اپنے ربّ کے حضور پیش کردی۔ ان میں سے ایک محترم نورالدین الحصنی صاحب بھی تھے جن کا تعلق شام سے تھا اور انہوں نے سعودی عرب میں اسیری کی سختیوں اور اپنی بیماریوں کے باوجود اپنے ایمان پر ثابت قدم رہتے ہوئے 25؍مئی 2023ء کو 82سال کی عمر میں دورانِ قید وفات پائی۔

حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ

برادران کرام! مغربی ممالک میں رہنے والے احمدیوں کے لیے یہ مقامِ غوروفکر ہے اور چاہیے کہ ہم بار بار تاریخ احمدیت کے اس مخصوص و ممتاز حصے کو سامنے رکھ کر اپنے آپ سے یہ سوال کرتے رہیں کہ جس اہم فریضے کی ادائیگی کی راہ میں قیدوبند کی صعوبتیں اور بدترین تشدّد بھی ہمارے آباؤاجداد کے لیے روک نہیں بن سکا، آج یورپ میں ہر قسم کی آزادیٔ اظہار مہیا ہونے اور دعوت الی اللہ کے جدید ذرائع میسر ہونے کے باوجود ہم اُس فریضے کو ادا کرنے میں کس حد تک مخلص ہیں۔

مبغین کرام 1939ء میں

اگرچہ مختلف جماعتی تقاریب میں ہم خداتعالیٰ سے بارہا یہ عہد کرتے ہیں کہ اپنی جان، مال، وقت اور عزت کو قربان کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہیں گے۔ تاہم یہ بھی جانتے ہیں کہ دیار مغرب میں آج دعوت الی اللہ کی راہ میں جان کی قربانی کا تقاضا تو فی الحال نہیں کیا جارہا۔ نیز خداتعالیٰ نے اپنے فضل سے اکثر احباب کو جو مالی فراخی اور کشائش عطا فرمائی ہوئی ہے تو اس کو دیکھتے ہوئے مالی قربانی بھی عموماً قابل ذکر نہیں رہتی۔ البتہ ’وقت‘ کے حوالے سے تنگی داماں کا تذکرہ ہر محفل میں اور باہم ہونے والی ملاقاتوں میں ضرور رہتا ہے۔ پس غور کیا جائے تو دیار مغرب میں اصل قربانی یا یوں کہہ لیجیے کہ بہت بڑی قربانی ’وقت‘ کی قربانی ہے جو اِن ممالک میں رہنے والے مومنین پیش کرسکتے ہیں۔
کسب معاش کے جھمیلوں سے نمٹنے کے بعد اپنی اولاد کی تربیت اور راہنمائی کے لیے وقت نکالنا بھی ہمارے لیے فرض ہے۔ لیکن اس کے بعد وقت کی قربانی کا ایک بہترین استعمال دعوت الی اللہ اور خدمت خلق کے لیے کی جانے والی مساعی میں شامل ہونے کے لیے خود کو پیش کرنا بھی ہے۔ یہ وہ کارِ خیر ہے جو ایک مومن کے لیے محض ایک فرض کی حیثیت ہی نہیں رکھتا بلکہ اس کے نتیجے میں اُس سے ایسی خیروبرکت کا وعدہ بھی کیا جاتا ہے جس کا اجر نہ صرف قربانی دینے والے کے لیے بلکہ اُس کی نسلوں میں اُن کے لیے بھی دائمی اجر کی حیثیت اختیار کرجاتا ہے جو اپنے آباؤاجداد کے نقشِ قدم سے راہنمائی لیتے ہوئے اس میدانِ جہاد میں اپنا قدم بڑھاتے چلے جاتے ہیں۔
آج کی قربانی کے اجر عظیم میں درازیٔ عمر عطا کیا جانا بھی شامل ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’احادیث میں جو آیا ہے کہ مسیح موعود کے زمانہ میں عمریں لمبی ہو جائیں گی۔اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ موت کا دروازہ بالکل بند ہوجائے گا اور کوئی شخص نہیں مرے گا۔ بلکہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ مالی،جانی نصرت میں اس کے مخلص احباب ہوں گے اور خدمت دین میں لگے ہوئے ہوں گےاُن کی عمریں درازکردی جائیں گی۔اس واسطے کہ وہ لوگ نفع رساں وجود ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے۔ وَاَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الْاَرْضِ (الرعد18:) یہ امر قانون ِقدرت کے موافق ہے کہ عمریں درازکر دی جائیں گی۔‘‘ (ملفوظات جلدسوم صفحہ385)

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام
سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود و مہدی مسعود علیہ الصلوٰۃ والسلام

ایک دوسرے موقع پر حضورعلیہ السلام نے اسی مضمون کو یوں بیان فرمایا:
’’جو لوگ دین کے لیے سچا جوش رکھتے ہیں اُن کی عمر بڑھائی جاوے گی اور حدیثوں میں جو آیا ہے کہ مسیح موعود کے وقت عمریں بڑھادی جاویں گی اس کے معنی یہی مجھے سمجھائے گئے ہیں کہ جو لوگ خادم دین ہوں گے ان کی عمریں بڑھائی جاویں گی۔ جو خادم نہیں ہوسکتا وہ بڈھے بیل کی مانند ہے کہ مالک جب چاہے اُسے ذبح کر ڈالے۔اور جو سچے دل سے خادم ہے وہ خدا کا عزیز ٹھہرتا ہے اور اس کی جان لینے میں خدا تعالیٰ کو تردّد ہوتا ہے۔اس لئے فرمایا وَاَمَّا مَا یَنْفَعُ النّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الْاَرْضِ۔ (الرعد18:)‘‘ (ملفوظات جلددوم صفحہ283)
پس ضروری ہے کہ جب بھی کسی دینی مقصد کے لیے ہمیں آواز دی جائے اور کسی بھی قسم کی قربانی کا تقاضا کیا جائے تو ہم سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرنے کی کوشش کریں تاکہ ہم اُن برکات کے وارث قرار پائیں جن کا ان ادنیٰ قربانیوں کے نتیجے میں عطا کیے جانے کا وعدہ مومنین سے کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

(محمود احمد ملک)

اپنا تبصرہ بھیجیں