اداریہ: عبادِ صالحین

(مطبوعہ رسالہ ’’انصارالدین‘‘ یوکے ستمبرواکتوبر2024ء)

2024ء کے آغاز سے قبل ہی مجلس انصاراللہ برطانیہ کے لیے سیّدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی منظوری سے اس سال کے لیے نصب العین (theme) ’’عبادِ صالحین‘‘ مقرر کردیا گیا تھا۔ بعدازاں ہماری بہت سی تقاریب و اجتماعات میں اس موضوع پر سیرحاصل روشنی ڈالنے کی کوشش کی جاتی رہی۔ مضمون نویسی کے سالانہ مقابلہ جات کا مرکزی نکتہ بھی یہی عنوان رہا۔
صراط مستقیم پر چلانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے سورۃ الفاتحہ میں مومنوں کو یہ دعا سکھلائی ہے کہ اے خدا! تُو ہمیں ایسے نیک لوگوں کے راستے پر چلا جن پر تُو نے انعام کیا۔ ان انعامات کا ذکر خداتعالیٰ نے سورۃالنساء کی آیت 70 میں نبی، صدیق، شہید اور صالح کے حوالے سے کیا ہے۔ گویا ’’صالحیت‘‘ انسان کے لیے مختص روحانی مدارج میں سے ایک ابتدائی درجہ ہے۔ دراصل یہ اُس صلاحیت کا نام ہے جس کے نتیجے میں ایک مومن ایسے اعمال بجالاتا ہے جو ہر قسم کے فساد، ظلم ، ریا اور تکبّر سے پاک ہوں۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد4صفحہ274تا276 ایڈیشن 1984ء)

لوائے انصاراللہ

خداتعالیٰ نے قرآن کریم میں ایمان لانے اور پھر عملِ صالح بجالانے والوں کا ذکر بےشمار مقامات پر فرمایا ہے اور اُن سے بےشمار انعامات کا وعدہ بھی کیا گیا ہے۔ گویا کہ ایک مومن سے یہی توقع رکھی گئی ہے کہ وہ صالحیت کے درجہ میں شامل ہوکر اپنی روحانی ترقی کا سفر جاری رکھے۔ پس ایمان لانے کے بعد عمل صالح کرنا لازم و ملزوم ہے اور ضروری ہے کہ ہر وہ شخص جو صالحیت کے اعلیٰ مدارج کے حصول کا متمنّی ہے وہ اپنے ایمان کو کامل بناتے ہوئے ایسی زندگی بسر کرنے کی کوشش کرے جس میں وہ اپنی سوچ اور اپنے اعمال کو خلق خدا کے لیے سراسر خیر کا موجب بنادے۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف ذاتی حیثیت میں وہ اعلیٰ روحانی مدارج حاصل کرسکتا ہے جن کا بیان سورۃالنساء کی مذکورہ بالا آیت میں بھی کیا گیا ہے بلکہ اجتماعی حیثیت میں بھی یہ خوشخبری دی گئی ہے کہ مومنین کی ایسی جماعت کو خداتعالیٰ کی طرف سے خلافت جیسی نعمتِ عظمیٰ سے نوازا جائے گا جو اعمالِ صالحہ بجالائیں گے۔(النور56:) اور یقیناً یہی وہ لوگ ہیں جن سے خداتعالیٰ نے ارض مقدس کا وارث بنائے جانے کا وعدہ بھی فرمایا ہے۔ (سورۃالانبیاء106:)۔ اسی طرح حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ’’عمل صالح‘‘ کرنے والوں کو یہ خوشخبری دی کہ ’’جیسے آخرت میں انسان عمل صالح سے بچتا ہے ویسے ہی دنیا میں بھی بچتا ہے۔ اگر ایک آدمی بھی گھر بھر میں عمل صالح والا ہو تو سب گھر بچا رہتا ہے۔ سمجھ لو کہ جب تک تم میں عمل صالح نہ ہو، صرف ماننا فائدہ نہیں کرتا۔‘‘ (ملفوظات جلد 4صفحہ275۔ ایڈیشن 1984ء)

مسجد اقصیٰ فلسطین کا ایک قدیم منظر

گویا ایک ایسا بےضرر شخص جسے قدرت حاصل ہونے کے باوجود بھی حقوق انسانی کے تلف کرنے کا خیال تک نہ ہو بلکہ انسانیت کی خدمت اور بہبود کے لیے وہ ایسا مفید وجود بن جائے جو ہمہ وقت محض اپنے ربِّ کریم کی خوشنودی کی خاطر اس عارضی زندگی کے پل صراط سے ایک نافع النّاس وجود بن کر گزرتا چلا جائے، ایسا شخص نہ صرف اپنے لیے بلکہ اُن کے لیے بھی کامیابی کا زینہ بن جاتا ہے جو اُس کے دار امن میں اطاعت کرتے ہوئے داخل ہوجاتے ہیں اور اپنے دین و دنیا کو عافیت کے حصار میں دے دیتے ہیں۔
الغرض ’’عبادِ صالحین‘‘ کے مضمون کا نہ تو اختصار کے ساتھ احاطہ کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اپنی اہمیت کے لحاظ سے یہ ایسا عمومی درجہ رکھتا ہے جسے ہم انصار صرف ایک سال کے لیے ہی اپنا نصب العین مقرر کرکے تحریر و تقریر کے ذریعے اپنے جذبات کا اظہار کریں اور کسی حد تک اپنے اعمال کو سنوارنے کی سعی کریں اور پھر سال نَو کے آغاز پر جب نیا تجویز شدہ لائحہ عمل موصول ہو تو اُس کو پیش نظر رکھتے ہوئے عبدِ صالح بننے کے اپنے موجودہ عظیم الشان نصب العین کو یکسر فراموش کردیں۔ بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم نے اس سال عبدِ صالح بننے کے لیے جو کوشش کی ہے اسے آئندہ بھی جاری رکھیں کیونکہ یہی وہ راستہ ہے جس کے لیے ہم ہر نماز کی ہر رکعت میں خصوصیت سے دعا کرتے ہیں اور اس راستے پر چلتے ہوئے اُس کامیابی کی امید رکھتے ہیں جو ہمیں ایسے عبادِ صالحین میں شامل کردے جنہیں خداتعالیٰ نے اس دنیا میں بھی انعامات عطا فرمائے ہیں اور آخرت میں بھی انہیں اپنے بندوں میں شامل کرتے ہوئے اپنی جنت کا وارث قرار دیا ہے۔

برادرانِ کرام! اگر غور کیا جائے تو قرآنِ کریم کی تعلیمات، آنحضور ﷺ کی حیاتِ طیبہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کا خلاصہ دراصل یہی ایک مضمون ہے۔ یعنی اپنی زندگی کے ہر پہلو کو ایمان سے منوّر کرتے ہوئے اس کی روشنی میں عمل صالح بجالانے کی کوشش کرتے چلے جانا۔ تقویٰ کا یہی مضمون ہے جس کا ادراک حاصل کرنے کے لیے امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبات اور خطابات کو باقاعدگی سے سننا اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کرنا بھی ضروری ہے کیونکہ امرواقعی یہ ہے کہ خلافت احمدیہ ہی وہ نعمتِ عظمیٰ ہے جو بحیثیت جماعت ہمارے عبادِ صالحین ہونے کی شہادت دے رہی ہے۔ پس اس نعمت سے اپنی ذاتی زندگیوں کو متمتّع کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا کی تصویر بن جائیں اور چاہیے کہ خلیفۂ وقت کے ایسے سلطان نصیر بن جائیں کہ ہماری نسلوں میں بھی اس نعمت کا تسلسل جاری و ساری رہے اور وہ بھی اس نعمت کی قدر کرتے ہوئے اس کی برکات سے وافر حصہ پانے والی ہوں اور اپنے وقت پر اُن تمام عظیم الشان انعامات کی وارث بھی قرار پائیں جو ’’عبادِصالحین‘‘ کے لیے خداتعالیٰ نے مقدّر کررکھی ہیں اور جن کی خوشخبری خداتعالیٰ نے اعمال صالحہ بجالانے والے مومنین کو دے رکھی ہے۔
اگرچہ عمل صالح کے حصول کے لیے تقویٰ کی باریک در باریک راہوں کا بیان ایک احمدی کی زندگی کا حصہ تو ہے ہی لیکن اس کا اظہار گزشتہ ایک سال میں برطانیہ کے انصار کے سامنے اتنی بار اور اتنی شدّت سے ہوتا رہا ہے کہ ہر سامع کے لیے اُس کی زندگی کی سب سے بڑی تمنّا یہی بن جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اُسے بھی عباد صالحین کے زمرہ میں شامل فرماتے ہوئے اُن تمام برکات سے متمتع فرمادے جن کے عطا فرمانے کا اُس نے ’’عبادِ صالحین‘‘ سے وعدہ کررکھا ہے۔
پس ہمارا فرض ہے کہ کسی صورت بھی اس پیغام کو فراموش نہ ہونے دیں اور اپنے ایمان کی حفاظت کرتے ہوئے وہ عملِ صالح بجالانے کی کوشش کریں کہ ہمارا شمار خداتعالیٰ کی نظر میں بھی عبادِ صالحین میں ہونے لگے تاکہ ہم اُن زمانی اور روحانی انعامات کے وارث قرار پائیں جن کا خداتعالیٰ نے عبادِ صالحین سے وعدہ فرمایا ہوا ہے۔ آئیے اپنے نصب العین کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہم یہ عہد کریں کہ ہم اپنے خالق حقیقی سے وفا کرتے ہوئے شفقت علیٰ خلق اللہ کی سعی کریں گےاور بالخصوص نافع النّاس بنتے ہوئے اپنے ربّ کے عظیم الشان انعام ’’خلافت احمدیہ‘‘ سے محبت اور وفا، اس کی اطاعت اور اس کی حفاظت کے لیے ’’انصاراللہ‘‘ کے اپنے عہد کو حرزجان بناتے ہوئے خلافت راشدہ کے سلطان نصیر بننے کی کوشش کرتے چلے جائیں گے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔

یہ بات ہمیشہ ہمارے مدّنظر رہے کہ ہمارا صرف اپنے اجتماعات اور جلسوں میں اپنے عہد یا بیعت کے الفاظ کا دہرا دینا ہی کافی نہیں ہے۔ اگرچہ بیعت کے لیے ہاتھ بڑھانا اور خداتعالیٰ کی وحدانیت اور رسول اللہﷺ کی رسالت کی شہادت دیتے ہوئے خلیفۂ وقت کی اطاعت کا اقرار کرنا بھی ضروری ہے لیکن ان عظیم الشان الفاظ کی روح کو سمجھے بغیر اگر ہم اپنی زندگیوں میں تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش نہ کریں اور عبادصالحین میں شامل ہونے کے لیے مقدور بھر سعی نہ کرسکیں تو یہ اپنی ہی جان پر ظلم ہوگا۔ عہدِ بیعت کرنے کے بعد عمل صالح کی ضرورت اور اہمیت کے بارے میں سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام ارشاد فرماتے ہیں:

’’سمجھ لو کہ جب تک تم میں عملِ صالح نہ ہو صرف ماننا فائدہ نہیں کرتا۔ ایک طبیب نسخہ لکھ کر دیتا ہے تو اس سے یہ مطلب ہوتا ہے کہ جو کچھ اُس میں لکھا ہے وہ لے کر اسے پیوے۔ اگر وہ ان دواؤں کو استعمال نہ کرے اور نسخہ لے کر رکھ چھوڑے تو اسے کیا فائدہ ہو گا۔ اب اس وقت تم نے توبہ کی ہے۔ اب آئندہ خدا تعالیٰ دیکھنا چاہتا ہے کہ اس توبہ سے اپنے آپ کو تم نے کتنا صاف کیا۔ اب زمانہ ہے کہ خداتعالیٰ تقویٰ کے ذریعہ سے فرق کرنا چاہتا ہے۔ بہت لوگ ہیں کہ خدا پر شکوہ کرتے ہیں اور اپنے نفس کو نہیں دیکھتے۔ انسان کے اپنے نفس کے ظلم ہی ہوتے ہیں ورنہ اللہ تعالیٰ رحیم و کریم ہے۔ بعض آدمی ایسے ہیں کہ ان کو گناہ کی خبر ہوتی ہے اور بعض ایسے کہ اُن کو گناہ کی خبر بھی نہیں ہوتی۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لیے استغفار کا التزام کرایا ہےکہ انسان ہر ایک گناہ کے لیے خواہ وہ ظاہر کا ہو خواہ باطن کا، خواہ اسے علم ہو یا نہ ہو اور ہاتھ اور پاؤں اور زبان اور ناک اور کان اور آنکھ اور سب قسم کے گناہوں سے استغفار کرتا رہے۔ آج کل آدم علیہ السلام کی دعا پڑھنی چاہیے: رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ (الاعراف24:)یہ دعا اوّل ہی قبول ہو چکی ہے۔ غفلت سے زندگی بسر مت کرو۔ جو شخص غفلت سے زندگی نہیں گذارتا ہرگز امید نہیں کہ وہ کسی فوق الطاقت بلا میں مبتلا ہو۔ کوئی بلا بغیر اذن کے نہیں آتی۔ جیسے مجھے یہ دعا الہام ہوئی:رَبِّ کُلُّ شَیْءٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ۔‘‘ (ملفوظات جلد4صفحہ275 و276 ایڈیشن 1984ء)

(محمود احمد ملک)

اپنا تبصرہ بھیجیں