اداریہ: مالی فراخی کے چند مجرّب نسخے
اداریہ
مالی فراخی کے چند مجرّب نسخے
(مطبوعہ رسالہ’’انصارالدین‘‘ نومبر-دسمبر2019ء)
گزشتہ شمارہ کے اداریہ میں قرض سے نجات کے چند مجرّب طریقے پیش کیے گئے تھے جو تصویر کا ایک رُخ تھا۔ اسی تصویر کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ قرض سے نجات کے بعد مالی فراخی کیونکر حاصل ہوسکتی ہے۔
دراصل ہر مخلص احمدی کی خواہش ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اُسے مالی فراخی عطا کرے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں زیادہ سے زیادہ خرچ کرسکے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے وہ دعا بھی کرتا ہے، علم بھی حاصل کرتا ہے اور مختلف پیشے بھی اختیار کرتا ہے اور اس طرح وہ زندگی بھر بہتر سے بہترین کی طرف سعی مسلسل میں مصروف رہتا ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا تھا کہ کسی بھی کام میں کامیابی کے لئے تین امور ضروری ہیں۔ محنت، دیانت اور اُس کام کو کرنے کا علم۔ ان تینوں امور میں کمی یا زیادتی اُس کام کے نتیجہ پر براہ راست اثرانداز ہوتی ہے۔ پس یاد رکھنا چاہیے کہ دعا اور وظیفہ کے ساتھ ساتھ عملی کوشش اور ظاہری اسباب کو اختیار کرنا بھی ضروری ہے ورنہ کوئی دعا اور وظیفہ انسان کو سوائے نکمّا اور سست بنانے کے کچھ فائدہ نہیں دے گا۔ اس لئے غوروفکر کی عادت ڈالنی چاہیے کہ کہیں ہماری محنت، دیانت، استقلال یا یقینِ کامل میں کوئی کمی تو نہیں رہ گئی۔ پھر یہ بھی ضروری ہے کہ فوری نتائج حاصل کرنے کے لئے کبھی بے صبری نہ دکھائیں۔ جو کام آپ کا ہے وہ حُسنِ نیت اور احسن طریق پر انجام دیں اور پھر اس کے بدلہ میں خداتعالیٰ نے جو مقدّر کر رکھا ہے اس کا انتظار کریں لیکن مایوسی اور جلدبازی کسی صورت میں جائز نہیں۔
مکرم ایچ ایم احمد صاحب نے مالی فراخی حاصل کرنے کے بارہ میں اپنے تجربات کی روشنی میں ایک مضمون تحریر کیا تھا۔ اس مفید مضمون کا خلاصہ ہدیۂ قارئین ہے:
پہلا نسخہ:
ایک دفعہ میں بہت سی مالی مشکلات میں پھنس گیا تو ایک بزرگ نے مجھے درج ذیل مسنون دعا بتائی جس کا ورد مَیں نے انتہائی پُرتاثیر پایا:
اَللَّہُمَّ إِنِّیْ أَعُوذُ بِکَ مِنَ الْہَمِّ وَالْحَزَنِ وَالْعَجْزِ وَالْکَسَلِ وَالْبُخْلِ وَالْجُبْنِ وَضَلَعِ الدَّیْنِ وَغَلَبَۃِ الرِّجَالِ. (صحیح البخاری، کتاب الأطعمۃ)
ترجمہ: اے اللہ! میں ہم وغم سے تیری پناہ میں آتا ہوں اور عاجز رہ جانے اور سستی سے بھی تیری پناہ کا طالب ہوں۔ میں بزدلی اور بخل سے بھی تیری پناہ میں آتا ہوں۔ نیز قرض کے بوجھ اور لوگوں کے اپنے اوپر غالب آجانے سے بھی تیری پناہ چاہتا ہوں۔
اسی طرح آنحضرت ﷺ کی یہ دعا بھی غور سے پڑھیں:
اللَّہُمَّ اکْفِنِی بِحَلَالِکَ عَنْ حَرَامِکَ وَأَغْنِنِی بِفَضْلِکَ عَمَّنْ سِوَاکَ. (سنن الترمذی، کتاب الدعوات عن رسول اللہ)
ترجمہ: اے اللہ! ہمارے لئے اپنا حلال رزق کافی کردے بجائے حرام کے۔ اور ہمیں اپنے فضل سے اپنے سوا ہر ایک سے بے نیاز کردے۔
دوسرا نسخہ:
ایک بار شہر میں مخالفین نے نہ صرف ہمارا بائیکاٹ کردیا بلکہ بدزبانی کی انتہا کردی۔ اس پر مقامی جماعت نے فیصلہ کیا کہ مخالفین حضرت مسیح موعودؑ کو جتنی گالیاں دیں گے اس سے بڑھ کر ہم رسول اللہ ﷺ پر درود بھیجیں گے۔ چنانچہ میں نے درود شریف اور حضورؑ کے نعتیہ کلام کو گنگنانا شروع کردیا۔ یہ علاج تو میں نے مخالفین کے مقابلہ پر شروع کیاتھا لیکن یکدم حالات نے پلٹا کھایا اور دن بدن میرا بائیکاٹ کم ہونا شروع ہوا۔ مَیں کئی دفعہ تجربہ کر چکا ہوں کہ جتنا زیادہ درود پڑھوں دکان پر اتنا ہی زیادہ کام ہوتا ہے۔
تیسرانسخہ:
ایک مجلس مشاورت کے موقع پر حضورانور ( حضرت مصلح موعودؓ) نے بیرونی ممالک کی مساجد کے لئے ایک سکیم پیش فرمائی تو میں نے فیصلہ کیا کہ ہر ہفتہ کے روز اپنے پہلے سودے کا منافع اس سکیم میں دیا کروں گا۔ اور میں اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر آپ کو بتاتا ہوں کہ اس عرصہ میں میری ہفتہ کے روز کی بِکری سارے دیگر دنوں سے زیادہ ہوتی رہی ہے۔ چنانچہ میں نے اس نسخہ کو وسیع کرتے ہوئے اپنے دیگر چندوں کے لئے بھی یہی طریق اختیار کرلیا۔
چوتھا نسخہ:
میرا یہ ہر سال کا تجربہ ہے کہ تحریک جدید کا چندہ ادا کرنے کے بعد نمایاں طور پر میری روزانہ کی بِکری زیادہ ہونی شروع ہوجاتی ہے۔ متعدد دفعہ میں نے یکمشت چندہ ادا کیا ہے لیکن کسی دفعہ بھی ذرہ برابر غیر معمولی بوجھ محسوس نہیں کیا۔ دو تین دفعہ وعدہ کے ساتھ ہی نئے سال کے اعلان والے دن ادائیگی بھی کرکے دیکھی ہے اور ہمیشہ اس گُر کو کامیاب پایا ہے۔
پانچواں نسخہ:
نفلی روزہ مَیں نے کئی دفعہ آزمایا ہے۔
چھٹا نسخہ:
میرا تجربہ ہے کہ بعض چھوٹے چھوٹے خدمت خلق کے کام کرنے پر رزق میں بہت فراخی ہوتی ہے۔ مثلاً ضرورتمندوں کو چند روپے قرض دینے سے۔
ساتواں نسخہ:
میں نے بیسیوں دفعہ تجربہ کیا ہے کہ اگر وقت بے وقت گھر میں مہمان آجائیں تو بڑی برکتوں کا باعث ہوتے ہیں۔
آٹھواں نسخہ:
بظاہر معمولی سی بات ہے لیکن یہ اصول دکاندار کے لئے بہت اہم ہے کہ کوئی چیز جو خراب ہو چکی ہو یا اس کی میعاد گزر چکی ہو تو کبھی بھی اس بات کو گاہک سے پوشیدہ نہ رکھیے۔ میں کھوٹے سکّوں کو بھی تلف کر دیا کرتا ہوں اور جس روز بھی چند آنے اس طرح تلف کرتا ہوں اس روز اللہ تعالیٰ بے شمار کھرے سکّوں سے میری جیب بھر دیتا ہے۔
نواں نسخہ:
نواں نسخہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا اظہارِ تشکر ہے یعنی الحمد للہ کا وظیفہ۔ اس کو کئی دفعہ آزمایا واقعی رزق کی فراخی کا بڑا عجیب نسخہ ہے۔
دسواں نسخہ:
روزانہ کا محاسبہ ہے۔ کسی دن بِکری اگر زیادہ ہو تو ضرور سوچا کرتاہوں کہ یہ کیوں ہے؟ اور اگر کم ہوتی ہے تو پھر بھی سوچتا ہوں کہ یہ کیوں ہے؟ زیادتی یقینا کسی نہ کسی نیک عمل کا نتیجہ ہوگی سوائے اللہ تعالیٰ کی رحیمیت کے۔ اور کمی کسی غلطی یا کسی نہ کسی عمل میں کمزوری کا نتیجہ ہوگی۔
مضمون نگار اپنے مضمون کا اختتام ان الفاظ سے کرتے ہیں کہ یہ سارے نسخے ایک ہی مرکزی نقطہ کے گرد چکر لگا رہے ہیں اور وہ ہے
اَلْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ۔
پس آپ روپیہ کمائیں اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کے حصے کو بھی مدّ نظر رکھیں تو اس میں برکتیں ہی برکتیں نظرآئیں گی۔ مَیں نے ان وظیفوں سے روپیہ ہی نہیں کمایا بلکہ سخت پریشانیوں میں ان سے ڈھارس حاصل کی ہے۔ تکلیفوں میں راحت اور اداسی میں بشاشت پائی ہے۔ غلطیوں، کوتاہیوں اور گناہوں کے اندھیرے میں روشنی دیکھی ہے۔ (مطبوعہ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 28؍جنوری 1953ء)
محترم قارئین! خاکسار اپنی گزارشات کا اختتام حضرت مولوی غلام رسول راجیکی صاحبؓ کی ایک ایمان افروز روایت سے کرنا چاہتا ہے۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ ایک دن دورانِ گفتگو مَیں نے حضرت مولوی عبداللہ سنوری صاحبؓ سے عرض کیا کہ آپ سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا کوئی خاص واقعہ بتائیں۔ حضرت مولوی صاحبؓ نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ جب ایک لمبا عرصہ کی مالی مشکلات میں مبتلا رہنے اور کئی ہزار روپے کا مقروض ہونے کے بعد، گھبراکر بے چینی کی حالت میں، مَیں نے حضرت مسیح موعودؑ کے حضور نہایت عاجزی سے اپنی مالی مشکلات کے ازالہ کے لئے درخواستِ دعا کی تو حضورؑ نے دعا کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے فرمایا کہ فرضوں کی نماز کے بعد گیارہ دفعہ
لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْم
کا وظیفہ جاری رکھیں۔ چنانچہ حضوراقدس کے ارشاد کے مطابق مَیں نے کچھ عرصہ اس وظیفہ کو جاری رکھا اور خود حضورؑ نے بھی دعا کی۔ خدا کے فضل سے تھوڑے ہی عرصہ میں میرا سب قرض اُتر گیا۔ اس کے بعد جب کبھی بھی مجھے مالی پریشانی ہوتی ہے تو مَیں یہی وظیفہ کرتا ہوں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ میرے لئے کشائش کے سامان پیدا فرمادیتا ہے۔ اس پر مَیں نے حضرت مولوی عبداللہ سنوری صاحبؓ سے کہا کہ حضرت اقدس علیہ السلام تو اب وصال فرما چکے ہیں ورنہ ہم حضور علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوکر اس وظیفے سے استفادہ کرنے کی اجازت کی درخواست کرتے۔ لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ اب ہم آپ سے اجازت حاصل کرکے اس وظیفہ سے فائدہ اٹھاسکیں۔ اس پر حضرت مولوی عبداللہ سنوری صاحبؓ نے مجھے اس کی اجازت مرحمت فرمادی۔
یہ روایت بیان کرنے اور اس وظیفہ کی برکات کا ذکر کرنے کے بعد حضرت مولوی غلام رسول راجیکی صاحبؓ رقمطراز ہیں کہ
’’خاکسار ہر اُس احمدی کو جو میری اس تحریر سے آگاہ ہوسکے اور اس وظیفہ سے فائدہ اٹھانا چاہے اپنی طرف سے اس وظیفہ کی اجازت دیتا ہے۔‘‘
پیارے بھائیو! اس وظیفہ سے استفادہ کرنے سے پہلے (براہ کرم) حضرت مولوی صاحبؓ کے مذکورہ الفاظ پر غور فرمالیں کہ آپؓ کی طرف سے اس وظیفہ کو کرنے کی اجازت ’ایک احمدی‘ کو ہی دی گئی ہے۔…… اللہ تعالیٰ ہمیں حقیقی معنوں میں احمدی بننے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے رزق میں فراخی عطا فرماتے ہوئے فی سبیل اللہ خرچ کرنے کی توفیق، حوصلہ اور بشاشت بھی بڑھاتا چلا جائے۔ آمین