محترم ملک محمد اعظم صاحب اور دیگر افرادِ خاندان کی قبول احمدیت
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 30؍جولائی 1997ء میں مکرم ملک محمد اعظم صاحب اپنے خاندان میں نفوذ احمدیت کا ذکر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ میں ضلع سرگودھا کے ایک دورافتادہ گاؤں میں پیدا ہوا اور محض 4 برس کی عمر میں دو بھائیوں سمیت یتیم ہوگیا۔ دیہاتی ماحول میں جہاں تعلیم و تدریس کا چنداں رواج نہ تھا، میری والدہ نے نہ صرف ہماری پرورش کرنے بلکہ ہمیں زیورِ علم سے بھی آراستہ کرنے کا عزم کیا۔ چنانچہ دن بھر وہ محنت مزدوری کرتیں اورروزانہ 2 میل کے فاصلہ پر واقع سکول لے جاتیں اور واپس لاتیں۔ میں نے تیسری کلاس پاس کی تو ایک چچا ہمیں اپنے ہمراہ اپنی زمینوں پر لے گئے جہاں سے پرائمری سکول چار میل اور ہائی سکول چھ میل دور تھا۔
1958ء میں مَیں میٹرک میں تھا تو چچا نے، جو چار سال پہلے احمدی ہوچکے تھے،مجھے لٹریچر دینا شروع کیا جسے پڑھ کر میں نے احمدیت کی سچائی کو پالیا اور اس کا چرچا کرنابھی شروع کردیا۔ ایک مہربان دوست نے مجھے ازراہ ہمدردی سمجھایا کہ ابھی تم بہت چھوٹے ہو، سچ اور جھوٹ میں فرق نہیں کرسکتے۔ میں نے جواباً کہا کہ سچ اور جھوٹ کا فرق سمجھنا عقل اور عمر پرنہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل پر منحصر ہے، ابو جہل کتنی عمر کا تھا، دانا بھی کہلاتا تھا مگر اسے یہ فرق نہ سمجھ آیا۔
جنوری 1960ء میں چچا کے ہمراہ جلسہ سالانہ ربوہ میں شریک ہوا تو بیعت کرلینے کا فیصلہ کرلیا۔ گو چچا نے اس راہ میں آنے والی مشکلات کا بتا کرسمجھایا کہ واپس گھر جاکر والدہ سے مشورہ کرکے یہ قدم اٹھانا لیکن میں نے جواب دیا کہ سچائی کو پانے کے بعد اب میں بزدلی کا مظاہرہ نہیں کرسکتا۔ چنانچہ 24؍جنوری 1960ء کو بیعت کی سعادت حاصل کی۔ گھر پہنچا تو والدہ نے مخالفت کی اور ناپسندیدگی کا اظہار کیا لیکن میرے دل میں یہ تڑپ پیدا ہوگئی تھی کہ کسی طرح مرکز احمدیت میں آباد ہو جانے کا موقع مل جائے۔ چنانچہ مدرس کا کورس کرکے ستمبر 1961ء میں ربوہ میں ملازمت کرلی۔ لیکن والدہ ہر ممکن کوشش کے باوجود بھی ربوہ نہ آنے پر بضد رہیں۔ البتہ جب چھوٹے بھائی (مکرم ملک محمد اکرم صاحب مبلغ سلسلہ مانچسٹر یُوکے) نے میٹرک کرلیا تو میں انہیں والدہ کی اجازت سے ربوہ لے آیا اور انہوں نے پاکیزہ ماحول سے متاثر ہوکر فوراً احمدیت قبول کرلی۔ والدہ کو اس کا بھی بہت دکھ ہوا۔ لیکن ہم دونوں کی التجائیں بھی انہیں ربوہ آنے پر آمادہ نہ کرسکیں۔
جب میری شادی ہونا قرار پائی تو پھر والدہ نے ربوہ آنے پر آمادگی ظاہر کی ۔ میں یہ سوچ کر چھ ماہ پہلے ہی انہیں ربوہ لے آیا کہ وہ رمضان کے ایام ربوہ میں گزاریں اورجلسہ سالانہ بھی دیکھ لیں تو ممکن ہے ان کے دل کی کایا پلٹ جائے۔ اللہ تعالیٰ نے ہماری کوششوں اور دعاؤں کو قبول کیا اور جلسہ سالانہ 1964ء کے فوراً بعد انہیں قبول احمدیت کی توفیق عطا فرمادی۔ اس کے بعد وہ صرف ایک دفعہ گاؤں گئیں اور اپنا سامان لے کر ہمیشہ کیلئے ربوہ آگئیں، عبادات میں خوب ترقی کی اور نظام وصیت سے بھی منسلک ہوگئیں۔ اللہ تعالیٰ نے اولاد کو تعلیم دلانے کے ان کے جذبہ کویوں بھی قبول فرمایا کہ میں نےM.A. بھی کرلیا اور بھائی نے بھی شاہد کی ڈگری لینے کے بعد M.A.کرنے کی توفیق بھی پائی جبکہ تیسرا بھائی جو تعلیم تو زیادہ نہ حاصل کرسکا لیکن جماعتی خدمت کی مستقل توفیق پارہا ہے۔والدہ کی وفات21؍ نومبر 1996ء کو 83 برس کی عمر میں ہوئی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئیں۔