اسلام کے چند معاشرتی زرّیں اصول

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 9؍جنوری 2014ء میں مکرم طلحہ احمد صاحب کے قلم سے شذرات شامل اشاعت ہیں جن میں شہروں کو آباد کرنے کے حوالے سے اسلام کے چند زرّیں اصولوں کا بیان انور غازی کے کالم مطبوعہ روزنامہ ’’جنگ‘‘ 27؍مئی 2013ء سے منقول ہے۔

اٹلی کا حکمران مسولینی

علامہ محمد اقبال ایک بار مسولینی سے ملے تو دورانِ گفتگو آنحضرتﷺ کی اس پالیسی کا ذکر بھی کیا کہ شہر کی آبادی میں غیرضروری اضافے کی بجائے دوسرے شہر آباد کیے جائیں۔ مسولینی نے برملا کہا کہ شہری آبادی کی منصوبہ بندی کا اس سے بہتر حل دنیا میں موجود نہیں ہے۔
آنحضورﷺ کا ارشاد تھا کہ مدینہ کی گلیاں کشادہ رکھو، ہر گلی میں سے دو لدے ہوئے اونٹ آسانی سے گزر سکیں۔ آپؐ نے مدینہ کے وسط میں مرکزی مارکیٹ ’’سوقِ مدینہ‘‘ قائم فرمائی تھی۔ آج کی تہذیب یافتہ دنیا کہتی ہے کہ جس شہر کے درمیان مارکیٹ نہ ہو وہ ترقی نہیں کرسکتا۔ آپؐ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ یہ تمہاری مارکیٹ ہے اس میں ٹیکس نہ لگاؤ۔ آج دنیا ٹیکس فری مارکیٹ کی طرف رجحان رکھتی ہے۔ آپؐ نے ذخیرہ اندوزی سے منع فرمایا۔ اگر اس حکم پر عمل کیا جاتا تو خوراک کا عالمی بحران کبھی پیدا نہ ہوتا۔ آپؐ نے فرمایا کہ سود اور سٹے کے کاروبار سے نفع نہیں نقصان ہوتا ہے۔ آج یہ بات بھی ثابت ہوچکی ہے۔
رسول اللہﷺ نے مفتوحہ علاقوں میں بھی درختوں کو کاٹنے اور آگ لگانے سے منع فرمایا۔ ماحولیاتی آلودگی سے بچنے کا یہ بہترین نسخہ ہے۔کسی شخص نے مدینہ کے بازار میں بھٹی لگالی تو حضرت عمرؓ نے اُسے حکم دیا کہ اسے شہر سے باہر لے جاؤ۔ آج دنیا کے مہذّب ممالک میں انڈسٹریل علاقے شہر سے باہر قائم کیے جاتے ہیں۔ آپؐ نے مدینہ کے باہر ’’محی النقیع‘‘ نامی سیرگاہ بنوائی جس میں کثرت سے پودے لگوائے۔ آپؐ خود بھی وہاں تشریف لے جایا کرتے تھے۔ آج ہر شہر میں ایسے پارک قائم کیے جاتے ہیں۔
آنحضورﷺ نے مدینہ کے قبائل میں میثاق کروایا جو باون دفعات پر مشتمل تھا۔ یہ دراصل مدینہ کی شہری حکومت کا دستورالعمل تھا جس نے جھگڑوں کو ختم کردیا۔
مسجد نبوی کو مدینہ میں مرکزی سیکرٹریٹ کا درجہ حاصل تھا۔اس کے صحن میں ایک ہسپتال بھی بنوایا گیا تھا۔
اسرائیلی وزیراعظم گولڈہ مائرہ نے لکھا ہے کہ عرب اسرائیل جنگ کے دوران مجھے مسلمانوں کے پیغمبر کی زندگی کا وہ پہلو یاد آگیا جب چراغ میں تیل نہیں تھا مگر دیوار پر 9؍تلواریں لٹک رہی تھیں۔
آنحضورﷺ نے فرمایا تھا کہ مَیں ایک دن کھانا کھاکر شکر اور دوسرے دن بھوکا رہ کر صبر کرنا چاہتا ہوں۔ فتوحات کے بعد دولت ملنے پر بھی آپؐ ایک کچے مکان میں کھجور سے بنے ہوئے بستر پر سوتے رہے۔ انتہائی سادہ زندگی بسر کی، بھوک کی وجہ سے بارہا پیٹ پر پتھر باندھنے پڑتے۔ یہی انداز آپ کو آج بھی چیدہ چیدہ نظر آتا ہے۔ چنانچہ دنیا کے کئی ارب پتی پُرتعیّش کی بجائے سادہ زندگی گزار رہے ہیں۔ مثلاً امریکی بازار حصص کے سب سے بڑے بروکر وارین یافٹ اپنی گاڑی خود چلاتے ہیں۔ ایک عام مکان میں رہتے ہیں۔ بڑا مکان نہ لینے کی وجہ یوں بیان کرتے ہیں کہ جب دوسروں کے پاس ایسا ذاتی مکان بھی نہیں ہے تو مَیں بڑے مکان کی خواہش کیوں کروں۔ اسی طرح سویڈن کے ارب پتی اور ایکتا فرم کے مالک انکیفر کامریڈ کا کہنا ہے کہ میری کمپنی کی مصنوعات غریب لوگ خریدتے ہیں اس لیےمَیں بھی غریبانہ زندگی گزارتا ہوں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں