اصحاب احمدؑ کی قرآن مجید سے محبت

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ سالانہ نمبر 2007ء میں قرآن کریم سے حضرت مسیح موعودؑ کے چند صحابہؓ کی محبت کے واقعات مکرم سہیل احمد ثاقب صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہیں۔
٭ حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ فرماتے ہیں: حضرت مسیح موعود کے عہد مبارک سے لے کر آج تک کوئی ایسا موقع نہیں آیا کہ کسی شخص نے قرآن مجید پر اعتراض کیا ہو اور ﷲ تعالیٰ نے اسی وقت مجھے اس سوال کے کئی جوابات نہ سمجھا دیئے ہوں۔ میرے ساتھ سفر کرنے والے اکثر علماء سلسلہ جانتے ہیں کہ میں سفر میں قرآن مجید کے سوا دیگر کتابیں رکھنے کا عادی نہیں اور یہ خدا تعالیٰ کا سراسر فضل و احسان ہے کہ وہ مجھے اس کتاب اقدس کے ذریعہ سے ہر میدان میں فائزو کامران کرتا رہا ہے۔ الحمدﷲعلیٰ ذالک
٭ حضرت سید محمد سرور شاہ صاحبؓ کے بارہ میں محمد حفیظ بقاپوری صاحب لکھتے ہیں کہ آپؓ قرآن مجید کے عاشق تھے۔ لمبے عرصہ تک مسجد اقصیٰ میں درسِ قرآن دیتے رہے۔ جامعہ میں پرنسپل رہے۔ جامعہ کی بلڈنگ مسجد نور کے پاس مغرب میں تھی اور آپ کا مکان اندرون شہر تھا۔ میں نے بارہا دیکھا کہ جامعہ جاتے وقت آپؓ اپنا مخصوص لباس زیب تن فرماتے۔ ایک مضبوط اور خوبصورت عصا ہاتھ میں لئے بڑے ہی وقار سے گھر سے نکلتے اور ایک ہاتھ میں باریک ٹائپ کا مصری قرآن کھولے تلاوت کرتے یا آیت کریمہ کے معانی پر غوروفکر فرماتے جاتے۔
٭ حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ کے بارہ میں مولوی محمد حفیظ صاحب بقاپوری فرماتے ہیں کہ احباب قادیان کا یہ تعامل تھا کہ صبح کی نماز کے بعد اپنے گھروں میں بلند آواز سے قرآن کریم کی تلاوت کرتے۔ احمدیہ بازار کے دکاندار اپنی دکانوں پر بیٹھ کر تلاوتِ قرآن میں مشغول ہو جاتے ۔ حضرت میر صاحبؓ کو یہ امر بڑا مرغوب تھا۔ آپؓ بازار میں جاتے اور جو دکاندار تلاوت نہ کررہا ہوتا، اُسے محبت سے اس کی تلقین کرتے۔
حضرت میر صاحبؓ کی بیٹی سیدہ بشریٰ بیگم صاحبہ فرماتی ہیں :۔ وفات سے دو تین روز پہلے آپ کی طبیعت خراب تھی اور آپ لیٹے ہوئے تھے ۔ ان دنوں میں آپ قرآن مجید کا ترجمہ اور نوٹس لکھوا رہے تھے ۔ جب آپ کو قرآن شریف لکھنے کے لئے باہر بلایا گیا تو آپ فوراً اٹھ کر باہر چلے گئے اور فرمایا کہ قرآن شریف کے لئے تو رات کے دو بجے تک بھی بیٹھ سکتا ہوں۔
٭ حضرت چوہدری ظفرﷲ خان صاحبؓ اپنے والد محترم حضرت چوہدری نصرﷲ خان صاحبؓ کے بارہ میں فرماتے ہیں کہ قرآن کریم کے ساتھ آپ کو بہت محبت تھی۔ عشاء کی نماز کے بعد سونے تک اکثر قرآن کریم کی تلاوت میں گزارتے تھے ۔ میرے انٹرنس کے امتحان میں چھ ماہ کے قریب باقی تھے۔ ایک دن آپ نے مجھ سے دریافت فرمایا: قرآن مجید کا ترجمہ کتنا پڑھ لیا ہے۔ میں نے جواب دیا: ساڑھے سات پارے۔ فرمایا کہ جب تم کالج چلے جاؤگے تو ان امور کی طرف توجہ کم ہو جائے گی میں چاہتا ہوں کہ امتحان سے قبل قرآن کریم کا ترجمہ تم ختم کر لو۔ چنانچہ روزانہ آپ نے عشاء کے بعد دو تین رکوع پڑھاکر کالج میں داخل ہونے سے پہلے قرآن کریم کا سادہ ترجمہ ختم کرا دیا۔
٭ حضرت یعقوب علی عرفانی صاحبؓ حضرت چوہدری نصراﷲ خانصاحبؓ کے حفظ قرآن کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ معمولی امر نہیں اس پیرانہ سالی میں جبکہ دماغ زیادہ محنت برداشت نہیں کرتا ۔ انہوں نے خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے قرآن مجید کو حفظ کیا اور یہ ایک روح صداقت تھی جو ان کے اندر کام کرتی تھی۔ کسی نے ان سے پوچھا تو کہا کہ قانون کی اتنی بڑی کتابیں حفظ کر لیں اور اب تک بہت بڑا حصہ نظائر کا یاد ہے۔ خدا تعالیٰ کی کتاب کو حفظ نہ کرنا بہت بڑی غلطی ہے ۔
٭ حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ کا قرآن مجید کے حوالہ سے ایک منفرد مقام تھا ۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اُن میں یہ ملکہ پایا جاتا تھا کہ کسی بھی مضمون کے متعلق قرآن مجید سے فوراً متعلقہ آیات نکال دیا کرتے تھے اور اُن کی وفات کے بعد مجھے ایسا اب تک کوئی آدمی نہیں ملا۔
٭ حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ کے بارہ میں حضرت عبداﷲ خان صاحبؓ بیان فرماتے ہیں: ’’نواب صاحب صبح کی نماز سے قبل قرآن مجید کی تلاوت کرتے اور فرمایا کرتے تھے کہ قرآن مجید ایک سمندر ہے جو کوئی اس بحر میں غوطہ زنی کرے گا خالی ہاتھ نہ لوٹے گا بلکہ کچھ نہ کچھ حاصل کرے گا۔ آپ تلاوت کثرت سے کرتے تھے…۔
٭ حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ کپورتھلوی کو قرآن مجید سے بہت محبت تھی ۔ رمضان کے مہینہ میں اکثر آپ کا یہ قاعدہ تھا کہ ایک سپارہ کے متعلق جو رات کو تراویح میں پڑھا جانا ہوتا تھا آپ تفسیری نوٹ لکھتے اور تراویح کے بعد مسجد میں دوستوں کے سامنے اپنے نوٹ سنا دیتے کہ آج جو سیپارہ پڑھا گیا ہے اس میں یہ مطالب اور احکام ﷲ تعالیٰ نے بیان فرمائے ہیں۔
٭ حضرت مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوریؓ کا ایک واقعہ یوں ہے کہ حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کے رمضان میں قرآن کے درس کی خاطر اپنے والد کی جائیداد کے انتقال سے متعلق اپنے بھائیوں کے خط کا جواب یہ لکھا کہ تین دن کا درس نہیں چھوڑ سکتا خواہ انتقال میرے نام ہویا نہ ہو۔ جب یہ خط تحصیلدار نے دیکھا تو اُس کی آنکھیں پُرآب ہو گئیں اور اس نے کہا کہ ایمان تو ایسے لوگوں کا ہے۔ پھر اُس نے آپؓ کا انتظار کیا اور آپؓ کے آنے کے بعد فیصلہ کروایا۔
٭ حضرت مولوی حسن علی صاحب بھاگلپوریؓ نے مولوی محمد حسین بٹالوی سے حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کے فوائد بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’قرآن کریم کی جو عظمت اب میرے دل میں ہے، خود پیغمبر خداﷺ کی عظمت جو میرے دل میں اب ہے پہلے نہ تھی۔ یہ سب حضرت مرزا صاحب کی بدولت ہے‘‘۔
٭ حضرت قطب الدین صاحبؓ کے بارہ میں حضرت یعقوب علی عرفانی صاحبؓ لکھتے ہیں: ’’احمدیت نے ایسی تبدیلی پیدا کی کہ وہ ہر وقت قرآن مجید پڑھتے رہتے تھے اور اس طرح قرآن مجید کے حافظ ہو گئے‘‘۔ اور مکرم محمد شفیع صاحب بیان کرتے ہیں : ایک بات جو آپؓ (یعنی حضرت قطب الدین صاحبؓ) میں خاص تھی وہ یہ کہ آپ جب صبح ہل جوتنے کے لیے جایا کرتے تو اپنے ساتھ لوٹا اور قرآن بھی لے جاتے۔ آپ کے ساتھی حقہ وغیرہ لے لیتے لیکن آپ وضو کرنے کے بعد قرآن شریف کی تلاوت کرتے رہتے۔
٭ حضرت مولانا شیر علی صاحبؓ فرماتے ہیں: ’’حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ نے تفسیر قرآن کریم انگریزی کی introduction میں تحریر فرمایا ہے کہ قرآن شریف کی طرز عبارت ایسی ہے کہ اس کو آسانی سے یاد کیا جاسکتا ہے اور اپنی جماعت کے تین افراد کی مثالیں تحریر فرمائی ہیں جنہوں نے بڑی عمر میں بہت تھوڑے سے عرصہ میں قرآن شریف کو یاد کیا۔ ان میں سے ایک مثال چوہدری ظفرﷲ خان صاحب کے والد صاحب مرحوم کی ہے۔ دوسری صوفی غلام محمد صاحب کی اور تیسری ڈاکٹر بدرالدین صاحب کی ہے ۔ گزشتہ مشاورت کے موقع پر میں نے صوفی صاحب کو مبارکباد دی تھی کہ آپ کا ذکر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے ترجمۃالقرآن انگریزی کی introduction میں فرمایا ہے ۔ صوفی صاحب مرحوم یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور بعد میں فرمایا کہ مجھے خود حضرت مسیح موعودؑ نے قرآن شریف یاد کرنے کی تحریک فرمائی تھی ‘‘۔
٭ مرزا ایوب بیگ صاحبؓ رقت سے قرآن مجید پڑھتے ۔ مومنین کے ذکر پر دعا کرتے کہ ان جیسے اعمال کی توفیق ملے اور کفار و منافقین کے ذکر پر عجز سے دعا کرتے کہ اﷲتعالیٰ ان میں سے نہ بنائے۔ سجدہ میں آدھ آدھ گھنٹہ دعا کرتے۔ قرآن مجید کے احکام پر حضرت مسیح موعودؑ کے قرآن مجید سے نشان لگائے ہوئے تھے کہ جنہیں تلاوت کے وقت بالخصوص مد نظر رکھنا چاہیے ۔ بعض دفعہ کوئی آیت لکھ کر لٹکا دیتے تا وہ ہمیشہ پیش نظر رہے۔ رمضان المبارک میں ایک بار قرآن مجید ضرور ختم کرتے اور آخری مرض میں حفظ کرنا بھی شروع کیا تھا اور کچھ حصہ حفظ بھی کر لیا تھا۔
٭ حضرت منشی امام الدین صاحبؓ پٹواری قرآن مجید کی تلاوت ہمیشہ باقاعدگی سے کرتے تھے مگر قادیان میں مقیم ہو جانے کے بعد کثرتِ تلاوت کی وجہ سے بسااوقات چھٹے ساتویں روز ایک دور ختم کر لیا کرتے تھے۔ قرآن مجید سے آپ کی محبت اس امر سے ظاہر ہے کہ آخری بیماری میں جب آپ خود تلاوت نہ کر سکتے تھے اور بالکل کمزور ہوگئے تھے تو اپنے نواسے حافظ مسعود صاحب سے قرآن مجید سنا کرتے تھے۔
٭ حضرت ملک مولا بخش صاحبؓ کو قرآن مجید سے خاص عشق تھا اور قرآنی معارف اورحقائق کو سننے کے لئے باوجود بیماری و کمزوری کے تعہد کرتے تھے۔ چنانچہ کئی ماہ تک موسم سرما میں صبح کی نماز محلہ دارالفضل سے آ کر دارالرحمت میں اس لئے ادا کرتے رہے تاکہ مولانا غلام رسول راجیکی صاحبؓ کے درس سے مستفیض ہوں۔ رمضان میں جو درس مسجد اقصیٰ میں ہوتا اس میں بھی التزام کے ساتھ شریک ہوتے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں