اصحاب رسول اللہﷺ کا عشق الٰہی

(مطبوعہ رسالہ انصارالدین مارچ و اپریل و مئی و جون2023ء)

(فرخ سلطان محمود)

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَالسَّابِقُونَ الاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُہَاجِرِیْنَ وَالاَنصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوہُم بِإِحْسَانٍ رَّضِیَ اللّہُ عَنْہُمْ وَرَضُواْ عَنْہُ وَاَعَدَّ لَہُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِیْ تَحْتَہَا الْاَنْہَارُ خَالِدِیْنَ فِیْہَا اَبَدًا ذَلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ۔ (التوبۃ:100)
اور مہاجرین اورانصارمیں سے سبقت لے جانے والے اوّلین اور وہ لوگ جنہوں نے حسن عمل کے ساتھ ان کی پیروی کی، اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اس سے راضی ہو گئے اوراس نے ان کے لیے ایسی جنتیں تیارکی ہیں جن کے دامن میں نہریں بہتی ہیں۔وہ ہمیشہ ان میں رہنے والے ہیں۔یہ بہت ہی عظیم کامیابی ہے۔
جب سے کائنات وجودمیں آئی ہے عشق ووفا کے بے شمارقصے اور کہانیاں وجود میں آتے رہے لیکن وہ قصے ادھورے اور مادی اور فناہونے والے تھے۔ مرورِ زمانہ کی گردنے ان سب کوصفحۂ ہستی سے ان کے ناموں سمیت مٹاڈالا۔ لیکن عشق ووفاکی ایک داستان مکہ اورمدینہ کی سرزمین پربھی رقم ہوئی اورآج پندرہ سو سال ہونے کوآئے کہ جس کی خوشبواورمہک میں کوئی فرق نہیں آیا۔
اس دنیائے رنگ و بُو میں عشق کی پیمائش کا کوئی پیمانہ ابھی دریافت نہیں ہوا۔ عشق کی بے پایاں کیفیات کو تو کبھی ایک عاشق خود بھی پوری طرح نہیں جان پاتا، تاہم حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی آغوشِ تربیت سے فیض پانے والے صحابہ کرامؓ کے عشق الٰہی کا ذکر ہو تو اپنے معشوق کی محبت کے حصول کے لیے ہمہ وقت بے قرار رہنا، اُس کی رضا کے حصول کے لیے ہر تکلیف اور مشقّت کو برداشت کرنے پر آمادہ رہنا، اپنے محبوب کی اطاعت میں ہر وقت سرتسلیم خم کیے رکھنا، محبوب یزداں کے ہر لفظ کو اپنے لیے حکم تصور کرکے مصروف عمل ہوجانا … اور اس سعیٔ پیہم کے باوجود بھی اپنے محبوب حقیقی کی ناراضی کے خوف سے لرزاں و ترساں رہنا۔ الغرض الفاظ اُس عشق کا احاطہ کرنے سے قاصر ہیں۔
مذکورہ پس منظر کے ساتھ جب ہم صحابہ کرامؓ کے مربی یعنی آنحضور ﷺ کی سیرت مطہّرہ پر غور کرتے ہیں تو آپؐ کی زندگی کے ہر پہلو کا احاطہ کرتے ہوئے عقل ورطۂ حیرت میں گُم ہوجاتی ہے کہ ایک ایک لمحہ اپنے ربّ کی محبت میں گزار کر اور اس کے لیے بے شمار قربانیاں پیش کرکے تکمیلِ دینِ اسلام کا علم بلند کرنے کے بعد جب خداتعالیٰ نے اپنے بندے سے اُس کی رضا پوچھی تو آپؐ نے ایک فاتح اور بادشاہ کی حیثیت سے اس دنیا میں رہنے کی بجائے اپنے محبوب حقیقی کی آغوش رحمت میں لپٹ جانا مقدّم جانا۔ یہی وجہ تھی کہ آپﷺ کی بےمثال قربانیوں اور استقلال کو دیکھتے ہوئے کفار مکّہ یہی اظہار کرتے کہ عَشِقَ مُحَمّدٌ رَبَّہٗ۔ محمدؐ اپنے ربّ کے عشق میں گرفتار ہے۔ اپنے ربّ کے عاشق صادق اور اپنے محبوب آقاﷺ کی زیرتربیت اخلاقی اور روحانی ترقیات پانے والے غلاموں کی زندگیوں کا نصب العین بھی خداتعالیٰ سے محبت ہی قرار پایا۔ اُنہیں بھی اپنے ربّ سے عشق کی ویسی ہی کیفیات حسب استطاعت عطا ہوئیں جو اُن کے آقاﷺ میں بدرجۂ اولیٰ موجود تھیں۔ اور ان پاکیزہ روحانی کیفیات کے اثرات کے نتیجے میں اُن غلاموں کی زندگیوں میں بھی ایک انقلاب عظیم پیدا ہوا جس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ
’’آج سے چودہ سو سال قبل عرب کے بیابانی ملک میں ایک عجیب ماجرا گزرا کہ لاکھوں مردے تھوڑے دنوں میں زندہ ہو گئے اور پشتوں کے بگڑے الٰہی رنگ پکڑ گئے۔… وہ جو اپنے خصائل اور عادات میں درندوں اور وحشیوں سے ابتر تھے، اخلاق عالیہ سے یوں مزین ہوئے کہ دنیا انگشت بدنداںرہ گئی۔ جو ذرۂ خاک تھے ثریا بن کر چمکے۔ جو جاہل مطلق تھے، دنیا کے استاد اور معلم بن گئے۔ عرش کے خدا نے رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ کا تاج ان کے سروں پر رکھا تو سید الرسل ﷺ نے اصحابی کالنجوم کے اعزاز سے انہیں سرفراز کیا۔ یہ تبدیلی ان میں اس وجہ سے پیدا ہوئی کہ اوّلین وآخرین کے سردار حضرت خاتم الانبیاء ﷺ نے ان کو خدا کی آیات پڑھ کر سنائیں، ان کا تزکیہ کیا اور کتاب اور حکمت کا علم عطا کیا:کُلُّ بَرَکَۃٍ مِّنْ مُحَمَّدٍ فَتَبَارَک مَنْ عَلَّمَ وَتَعَلَّم۔‘‘
(برکات الدعاء، روحانی خزائن جلد نمبر6،صفحہ نمبر9۔11، مطبوعہ لندن)
اپنے آقا و مولا محمد مصطفیٰ ﷺ کے ہاتھ سے ایک بار جب کوئی محبوب حقیقی کی محبت کا، اس کے عشق کاجام پی لیتا تو کوئی دُکھ،کوئی تکلیف،کوئی اذیت اس محبت کانشہ اتارنے میں کامیاب نہ ہوسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ مکہ کی تیرہ سالہ تکلیفوں اورظلم وستم کے دَورمیں صحابہ کرامؓ، مردہوں یاعورت، عشق کی اس خارزار وادی میں چھلنی قدموں اور زخم زخم جسموں کے ساتھ چلتے رہے،گھسٹتے رہے،بے ہوش ہوتے رہے یہاں تک کہ اپنی جانوں سے بھی ہاتھ دھوتے رہے۔ لیکن اپنے محبوب حقیقی کے عشق میں یہ سب کچھ وہ شربتِ شیریں کی طرح پیتے رہے۔ مکہ کے ظالم جن کے ہاتھ ظلم کرتے کرتے تھک جایاکرتے غصہ میں آکرکہا کرتے کہ محمدؐ اپنے ربّ کا عاشق ہے اور تم محمدؐ کے عاشق ہوگئے ہو۔ ہرچند کہ وہ طنزاً یہ جملہ کہتے لیکن خداکی قسم کتناسچ تھا اس جملے میں، کتنی حقیقت تھی اس بات میں۔وہ واقعی عاشق تھے۔ اپنے آقا کی الفت کی ایک نظر ان کی تمام ترکلفتوں کو کافور کردیتی کیونکہ اسی محمدﷺ کا فیض تھا جس نے انہیں عشق الٰہی کے وہ انداز سکھائے تھے کہ ایمان کے نہایت درجوں پر وہ فائز فرمائے گئے تھے۔ انہیں عشاقِ صادق میں بلالؓ بھی تھے، عمارؓویاسرؓ بھی تھے،زِنِّیرۃؓ و سمیہؓ بھی تھیں، ابوبکر و عمر رضوان اللہ علیہم بھی تھے۔ایک سے بڑھ کرایک اپنے عشق و وفا میں نمایاں نظرآتاہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام مکی دَورمیں صحابہ کے جذبۂ عشق کا ذکر یوں فرماتے ہیں: ’’گالیاں سنتے تھے، جان کی دھمکیاں دے کر ڈرائے جاتے تھے اور سب طرح کی ذلّتیں دیکھتے تھے پر کچھ ایسے نشۂ عشق میں مدہوش تھے کہ کسی خرابی کی پروانہیں رکھتے تھے اور کسی بلا سے ہراساں نہیں ہوتے تھے… ایسے نازک زمانہ میں وفاداری کے ساتھ محبت اور عشق سے بھرے ہوئے دل سے جو دامن پکڑا جس زمانہ میں آئندہ کے اقبال کی تو کیا امید، خود اس مرد مصلح کی چند روز میں جان جاتی نظر آتی تھی۔یہ وفاداری کا تعلق محض قوتِ ایمانی کے جوش سے تھا جس کی مستی سے وہ اپنی جانیں دینے کے لیے ایسے کھڑے ہوگئے جیسے سخت درجہ کا پیاسا چشمہ شیریں پر بےاختیار کھڑا ہوجاتاہے۔‘‘ (ازالۂ اوہام۔ روحانی خزائن جلد 3صفحہ151)
الغرض صحابہ کرام اپنے آقاﷺ کے بیان فرمائے ہوئے ہر اُس طریق پر دل و جان سے عمل پیرا ہوئے جس کے نتیجے میں اُنہیں اپنے محبوب حقیقی کی رضا حاصل ہوجائے۔ پس کسی وجود کے عشق الٰہی کو بیان کرنا دراصل اُس شخصیت کے اُن تمام پہلوؤں کا احاطہ کرنا ہے جن کا تعلق اُس کے اُن اعمال سے ہے جو وہ اپنی محبوب ترین ہستی کی خوشنودی کی خاطر بجالاتا ہے۔ اس حوالے سے صحابہ کرامؓ کا جذبہ جہاد دیکھیں، انفاق فی سبیل اللہ پر غور کریں، ایثار اور شفقت علیٰ خلق اللہ کے پہلوؤں پر نظر ڈالیں تو یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اسلام کی آغوش میں آجانے کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کی زندگی اور موت، ہر قول و فعل اور حرکت و سکون، الغرض اُن کی سوچ کا محور اور نیتوں کا مدار بھی خدا تعالیٰ کی محبت کے حصول کی خاطر وقف تھا جس کی عکاسی اُن کے ہر عمل سے ہوتی ہے۔ جب ہم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر طائرانہ نگاہ ڈالتے ہیں تو اس امر میں کوئی شک نہیں رہتا کہ وہ اپنے ربّ کی محبت میں سرشار ہوکر زندہ رہے اور اُس کی رضا کے حصول کے لیے ہی اپنی زندگیوں، اپنے مالوں، اپنی اولادوں اور اپنی ہر عزیز چیز کو قربان کرنے کے لیے مسلسل سرگرم عمل رہے۔ اُن کے ہر چھوٹے اور بڑے عمل کا نقطۂ معراج اپنے معشوق حقیقی کی رضا کو پالینے کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔ اور ایسا کیوں نہ ہوتا کہ ان عاشقان کا انتخاب بھی تو محبوب حقیقی نے ہی فرمایا تھا۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں کو دیکھا تو محمدﷺ کو منتخب فرمایا۔ پس آپ کو اپنی رسالت سے سرفراز فرمایا۔ یہ انتخاب اللہ نے اپنے علم کی بنا پر کیا۔ آپ کے انتخاب کے بعد پھر لوگوں پر نگاہ ڈالی تو بہترین عباد کو صحابہ کے طور پر انتخاب فرمایا اور ان کو رسول خداﷺ کے دین کے انصار اور اپنے نبی کے وزراء بنا دیا۔ (کنزالعمال جلد 6 صفحہ318)
صحابہ کرامؓ نے توحید باری تعالیٰ کی خاطر المناک مشکلات کو برداشت کیا۔ اس راہ میں جانیں قربان کیں۔ انھیں تپتی ہوئی گرم ریت اور پتھروں پر گھسیٹا گیا۔ الٹا لٹکا کر نیچے آگ جلا دی گئی۔ لوہے کی زرہیں پہنا کر چلچلاتی دھوپ میں کھڑا کر دیا گیا۔ بھوک اور پیاس کی اذیتیں دی گئیں۔ ان کے شیرخوار بچوں کو دودھ سے محروم کیا گیا۔ ان کا سوشل بائیکاٹ کیا گیا۔ اموال اور جائیدادیں چھین لی گئیں۔ ماں باپ نے مسلمان بچوں سے جدائی اختیار کرلی۔ انہیں وطن سے بےوطن کر دیا گیا۔ مقدس حاملہ عورتوں کے حمل گرا دئے گئے۔ عبادتگاہیں گرادی گئیں۔ غرضیکہ ہر دن نئے ظلم و ستم ایجاد کئے گئے۔ ہر رات نئے ظلم تراشے گئے۔ صبح و شام کو مصائب و آلام کی چکیوں میں تبدیل کر دیا گیا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے یہ سب دکھ مصائب اور تکالیف رب ذوالجلال کی خاطر خندہ پیشانی سے قبول کیں اور توحید کے علم کو بلند سے بلند تر کرتے چلے گئے۔ خدائے بزرگ و برتر نے ان شاندار قربانیوں کو بہت ہی پیار اور محبت کی نظر سے دیکھا اور شرف قبولیت عطا فرماتے ہوئے ان بزرگ ہستیوں کو زندہ جاوید کردیا جن پر قومیں ابدالآباد تک فخر کرتی رہیں گی۔ چنانچہ ایک دن سرداران قریش نے مسجد حرام کے پاس حضرت نبی کریم ﷺ سے سوال و جواب کرنا شروع کر دیے، پھر پکڑ کر زدوکوب کرنے لگ گئے۔ حضرت ابوبکرؓ نے شوروغل سنا اور دوڑے ہوئے آئے اور کہا: تمہارا برا ہو۔ اس عظیم انسان سے اس لیے لڑتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا ربّ اللہ ہے اور یہ تمہارے پاس روشن دلائل لے کر آیا ہے۔ چنانچہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو چھوڑ دیا اور حضرت ابوبکرؓ کو مارنا شروع کردیا۔ آپؓ کی بیٹی حضرت اسماء کہتی ہیں کہ ابا گھر آئے۔ آپ جب بالوں کی مینڈھی کو ہاتھ لگاتے تو وہ آپ کے ہاتھ میں آجاتی۔ اس پر بھی کوئی شکوہ نہ تھا بلکہ فرماتے رہے:تَبَارَکْتَ یَا ذَا الْجَلَالِ وَالْاِکْرَام۔ (استعجاب جلد اوّل صفحہ 343)
= آنحضرتﷺ کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں بتوں کے پجاریوں کی ایسی کایا پلٹی کہ وہ بھی اپنے ربّ کے عشق میں سرشار ہوگئے اور عبادتِ الٰہی ان کی محبوب غذا بن گئی۔ چنانچہ صحابہ کرامؓ سخت سے سخت مصروفیت کی حالت میں بھی جب نماز کا وقت آتا تو تمام کاروبار چھوڑ کرادائیگیٔ نماز کے لیے مسجد چلے جاتے۔ حضرت سفیان ثوریؓ سے روایت ہے کہ صحابہ خریدوفروخت کیا کرتے تھے لیکن فرض نماز کو ہر صورت میں جماعت کے ساتھ ادا کرتے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ ایک بار میں بازار میں تھا کہ نماز کا وقت آگیا۔ تمام صحابہ دکانیں بند کرکے مسجد چلے گئے۔ قرآن کریم کی یہ آیت رِجَالٌ لَّا تُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَّ لَابَیْعٌ عَنْ ذِکْرِاللّٰہ (النور41:) انہی کے بارہ میں نازل ہوئی۔ یعنی یہ ایسے لوگ ہیں جن کو تجارت، خریدوفروخت خدا کی یاد سے غافل نہیں کرتی۔ (فتح الباری جلد 4 صفحہ 253)
صحابہ کرام کو خداتعالیٰ سے ایسی محبت تھی کہ اُس کے دربار میں حاضر ہونے سے قبل بہت سے صحابہ اپنے وضو کو تازہ کرتے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے بارہ میں بھی کتب احادیث میں یہی لکھا ہے۔ (ابوداؤد کتاب الطہارہ)
= احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کرامؓ کو نماز باجماعت ادا کرنے کا اس حد تک شوق تھا کہ بیماری اور تکلیف کے باوجود مسجد میں نماز ادا کرنے کی کوشش کرتے۔ بعض صحابہ دوسروں کا سہارا لے کر مسجد آتے اور نماز باجماعت ادا فرماتے۔ (نسائی کتاب الامامہ باب المحافظۃ علی الصلوٰۃ حیث ینادی)
= اگرچہ آنحضور ﷺ نے یہ اجازت دی ہوئی تھی کہ بارش میں گھروں میں نماز پڑھ لی جائے لیکن صحابہ کو اپنے آقاﷺ کی اقتدا میں نماز ادا کرنے کا اس قدر شوق تھا کہ بعض صحابہ بارش کی رات بھی مسجد آتے۔
(ابوداؤد کتاب الادب باب مایقول اذااصبح)
= خداتعالیٰ سے محبت کے اظہار میں عبادت کو جو مقام حاصل ہے، صحابہؓ اُس سے پوری طرح آشنا تھے۔ چنانچہ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ رات عشاء کی نماز باجماعت پڑھانے کے لیے دیر تک تشریف نہ لاسکے۔ عورتیں اور بچے انتظار میں سوگئے تو حضرت عمرؓ نے حضور کو پکارا۔ حضور تشریف لائے اور فرمایا۔ ساری دنیا میں تمہارے سوا اور کہیں لوگ اس نماز کی انتظار میں نہیں۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ یہ ان دنوں کی بات ہے جب مدینہ کے سوا اَورکہیں نماز نہیں ہوتی تھی۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے کسی کام کی وجہ سے عشاء کی نماز بہت دیر سے پڑھائی اور صحابہ انتظار میں بیٹھے رہے۔ بعض کو نیند بھی آگئی۔ آنحضرتﷺ تشریف لائے اور فرمایا تم لوگ نماز کی انتظار میں تھے گویا نماز ہی پڑھتے رہے۔ یعنی نماز پڑھنے کا ثواب ملتا رہا۔
(بخاری کتاب مواقیت للصلوٰۃ)
= محبوب حقیقی کے حضور حاضری کے وقت محبوب سے محبوب چیز بھی اگر صحابہ کی توجہ میں خلل انداز ہوجاتی تو وہ ان کی نگاہ میں مبغوض ہوجاتی۔ ایک دن حضرت ابوطلحہ انصاریؓ اپنے باغ میں نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک چڑیا اڑتی ہوئی آئی چونکہ باغ بہت گھنا تھا اور کھجوروں کی شاخیں باہم ملی ہوئی تھیں۔ چڑیا ان میں پھنس گئی اور نکلنے کی راہ ڈھونڈنے لگی۔ ان کو باغ کی شادابی اور چڑیا کی اچھل کود کا یہ منظر بہت پسند آیا اور اس کو تھوڑی دیر دیکھتے رہے۔ پھر نماز کی طرف توجہ کی تو یہ یاد نہ آیا کہ کتنی رکعتیں پڑھی ہیں۔ دل میں کہا کہ اس باغ نے یہ فتنہ کیا ہے۔ فوراً حضور نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا واقعہ بیان کرنے کے بعد کہا کہ اس باغ کو صدقہ میں دیتا ہوں۔ اسی طرح ایک اَور صحابی کے متعلق روایت ہے کہ وہ اپنے باغ میں نماز پڑھ رہے تھے۔ فصل کا زمانہ تھا۔ دیکھا تو کھجوریں پھل سے لدی ہوئی تھیں۔ ان کو دیکھ کر نماز سے توجہ ہٹ گئی اور بھول گئے کہ کس قدر رکعتیں پڑھی ہیں۔ نماز سے فارغ ہو کر حضرت عثمانؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ اس باغ کی وجہ سے میں فتنہ میں مبتلا ہوا ہوں۔ اس لیے اس باغ کو صدقہ کرتا ہوں۔ چنانچہ انہوں نے 50 ہزار پر اسے فروخت کردیا۔
(مؤطا امام مالک کتاب الصلوٰۃ)
= اپنے ربّ کی محبت پانے کا جنون ایسا تھا کہ سخت سے سخت تکلیف میں بھی صحابہ کرامؓ کی نماز قضا نہیں ہوتی تھی۔ جس دن حضرت عمرؓ کو زخم لگا اسی رات کی صبح لوگوں نے نماز فجر کے لیے جگایا تو فرمایا: ہاں جو شخص نماز چھوڑ دے اسلام میں اس کا کوئی حصہ نہیں۔ چنانچہ اسی حالت میں کہ زخم سے مسلسل خون جاری تھا آپؓ نے نماز پڑھی۔ (بخاری ابواب صلوٰۃ الخوف باب الصلوٰۃ عند مناھضۃالعدو)
عشق الٰہی کا اظہار زندگی کے آخری لمحے تک ایسا دکھائی دیتا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ چنانچہ بزرگ صحابی حضرت خبیبؓ کو جب شہید کیا جانے لگا تو انہوں نے اپنے قاتلوں سے اجازت مانگی کہ مجھے دو رکعت نماز پڑھ لینے دو۔ بخاری میں روایت ہے کہ یہ پہلے شخص تھے جنہوں نے قتل کے وقت دو رکعت ادا کرنے کا طریق جاری کیا۔ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: اگر مجھے یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ تم کہو گے کہ گھبرا کر ایسا کررہا ہے تو میں اور زیادہ خدا سے محو راز و نیاز ہوتا۔ پھر چند اشعار پڑھتے ہوئے اپنے مولا کے حضور حاضر ہوگئے جن کا ترجمہ یہ ہے کہ جب میں مسلمان ہونے کی حالت میں قتل کیا جاؤں تو میں پروا نہیں کرتا کہ کس پہلو گرتا ہوں۔ اگر خداوند تعالیٰ کو منظور ہوا تو میرے جسم کے ٹکڑوں میں بھی برکت دے دے گا۔ (استیعاب جلد اوّل صفحہ 168، سیرالصحابہ جلد سوم صفحہ 311)
= اپنے ربّ کے حضور حاضری میں کسی وجہ سے تاخیر ہونے لگتی یا اگر کسی رکاوٹ کی وجہ سے نماز قضا ہو جاتی تو صحابہ کرام کو اس کا بہت دکھ اور تکلیف ہوتی۔ غزوہ خندق میں کفار سے برسرپیکار ہونے کے باعث حضرت عمرؓ کی عصر کی نماز قضا ہوگئی تو آپ انتہائی رنج میں کفار کو برا بھلا کہتے ہوئے آئے اور رسول اللہ کے سامنے اپنے دکھ کا اظہار کیا۔ (بخاری ابواب صلوٰۃ الخوف باب الصلوٰۃ عند مناھضۃالعدو)
= کفار مکّہ کو علم تھا کہ عشق الٰہی یعنی توحید کا درس ہی اسلام میں داخل ہونے کا دروازہ ہے اور وہ اپنی بدبختی کی انتہا کرتے ہوئے اسی دروازے میں داخل ہونے والوں پر عرصۂ حیات تنگ کردیتے۔ خدائے واحد و یگانہ کی عبادت کرنے کے جرم میں کفار مکہ کی اذیتوں سے مجبور ہو کر حضرت ابوبکرؓ نے رسول اللہﷺ سے ہجرت کی اجازت لے کر رختِ سفر باندھا تو راستہ میں ابن الدغنہ رئیس قارہ سے ملاقات ہوئی۔ اس سے پوچھا ابوبکر کہاں کا قصد ہے؟ آپ نے فرمایا کہ قوم نے مجھے جلاوطن کردیا ہے۔ اب ارادہ ہے کہ کسی اَور ملک کو چلاجاؤں اور آزادی سے خدا کی عبادت کروں۔ ابن الدغنہ نے کہا کہ تم سا آدمی جلاوطن نہیں کیا جاسکتا۔ تم مفلس و بے نوا کی دستگیری کرتے ہو، قرابت داروں کا خیال رکھتے ہو، مہمان نوازی کرتے ہو، مصیبت زدوں کی اعانت کرتے ہو۔ میرے ساتھ واپس چلو اور اپنے وطن ہی میں اپنے خدا کی عبادت کرو۔ چنانچہ آپؓ ابن الدغنہ کے ساتھ پھر مکہ واپس آئے۔ ابن الدغنہ نے قریش میں پھر کر اعلان کر دیا کہ آج سے ابوبکرؓ میری امان میں ہیں۔ ایسے شخص کو جلاوطن نہ کرنا چاہیے جو محتاجوں کی خبرگیری کرتا ہے، قرابت داروں کا خیال رکھتا ہے، مہمان نوازی کرتا ہے اور مصائب میں لوگوں کے کام آتا ہے۔ قریش نے ابن الدغنہ کی امان کو تسلیم کیا لیکن فرمائش کی ابوبکر کو سمجھا دو کہ وہ جب اور جس طرح جی چاہے اپنے گھر میں نمازیں پڑھیں اور قرآن کی تلاوت کریں لیکن گھر سے باہر نمازیں پڑھنے کی ان کو اجازت نہیں۔ چنانچہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے عبادت الٰہی کے لیے اپنے صحن خانہ میں ایک مسجد بنالی۔ کفار کو اس پر بھی اعتراض ہوا۔ انہوں نے ابن الدغنہ کو خبر دی کہ ہم نے تمہاری ذمہ داری پر ابوبکرؓ کو اس شرط پر امان دی تھی کہ وہ اپنے مکان میں چھپ کر اپنے مذہبی فرائض ادا کریں۔ لیکن اب وہ صحن خانہ میں مسجد بنا کر اعلان کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں۔ ہم کو خوف ہے کہ ہماری عورتیں اور بچے متاثر ہو کر اپنے آبائی مذہب سے بدعقیدہ نہ ہو جائیں۔ اس لیے تم انہیں مطلع کردو کہ اس سے باز آجائیں ورنہ تم کو ذمہ داری سے بَری سمجھیں۔ اس پر ابن الدغنہ نے آپؓ سے کہا: تم جانتے ہو کہ میں نے کس شرط پر تمہاری حفاظت کا ذمہ لیا ہے اس لیے یا تو تم اس پر قائم رہو یا مجھے ذمہ داری سے بری سمجھو میں نہیں چاہتا کہ عرب میں مشہور ہو کہ میں نے کسی کے ساتھ بدعہدی کی۔ حضرت ابوبکرؓ نے نہایت استغنا کے ساتھ جواب دیا کہ مجھے تمہاری پناہ کی حاجت نہیں، میرے لیے خدا اور اس کے رسول کی پناہ کافی ہے۔ (بخاری باب ہجرۃالنبیﷺ و اصحابہ الی المدینہ)
رضائے باری تعالیٰ حاصل کرنے کے لیے صحابہ کرام انتہائی ذوق و شوق اور مستعدی سے فرض نمازوں کے علاوہ نوافل، نماز تہجد، اشراق اور صلوٰۃ کسوف وغیرہ پڑھا کرتے تھے۔ قرآن مجید میں صحابہ کرام کی فضیلت اور عبادت کے شوق و لگن کو ان الفاظ میں بیان فرمایا گیا ہے:تَتَجَافٰی جُنُوْبُھُمْ عَنِ الْمَضَاجِعَ… الخ (السجدۃ17:) جب یہ آیات نازل ہوئیں تو صحابہ کرام راتوں کو دیر تک نماز پڑھا کرتے یہاں تک کہ پاؤں سوج جاتے تھے۔ (ابوداؤد کتاب الصلوٰۃ باب نسخ قیام اللیل)
= صحابہؓ نے اپنے آقاﷺ سے عشق الٰہی کی جو ادائیں اخذ کی تھیں اُن کا ہی فیضان تھا کہ نماز کے دوران وہ کسی اَور ہی عالَم کے مکین ہوجاتے۔ چنانچہ حضرت ابوبکرؓ کی نماز کی کیفیت یہ تھی کہ انتہائی انہماک اور سوزوگداز سے نماز ادا فرماتے اور اس قدر رقّت طاری ہوتی کہ ہچکی بندھ جاتی۔ (کنزالعمال جلد ششم صفحہ 312)
حضرت امام حسنؓ کا بیان ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمرؓ نماز پڑھ رہے تھے۔ جب اس آیت پر پہنچے ’’تیرے ربّ کا عذاب یقینا واقع ہونے والا ہے اور اس کو کوئی دُور کرنے والا نہیں‘‘ تو اتنے متأثر ہوئے کہ رقّت طاری ہوگئی اور روتے روتے آنکھیں سوج گئیں۔ اسی طرح ایک دفعہ تلاوت کرتے ہوئے آپؓ پر اس قدر خشوع طاری ہوا کہ اگر ان کے حال سے ناواقف شخص انہیں دیکھ لیتا تو یہ سمجھتا کہ آپ کی روح ابھی اسی حالت میں پرواز کرجائے گی۔
(کنزالعمال جلد ششم صفحہ 337)
= حضرت عمرؓ نماز میں عموماً ایسی سورتیں پڑھتے جن میں قیامت کا ذکر یا اللہ تعالیٰ کی عظمت کا بیان ہوتا اور خشوع و خضوع اور رقّت کی وجہ سے آنسو رواں ہوجاتے۔ حضرت عبداللہ بن شداد کا بیان ہے کہ باوجودیکہ میں پچھلی صف میں رہتا تھا لیکن حضرت عمرؓ جب آیت اِنَّمَا اَشْکُوْا بَثِّیْ وَحُزْنِیْ پڑھتے تو آپؓ کے رونے کی آواز مجھے سنائی دیتی۔ (بخاری کتاب الصلوٰۃ باب اذا بکی الامام فی الصلوٰۃ)
= صحابہ کرامؓ کے عشق الٰہی کی مثالوں سے قرون اولیٰ کی تاریخ بھری پڑی ہے۔ اپنے ربّ کے حضور عبادت کے لیے حاضری کے وقت اُن کے لیے زندگی اور موت میں کوئی فرق نہ رہتا۔ چنانچہ غزوۂ ذات الرقاع کے موقع پر دو صحابی ایک پڑاؤ پر پہرہ دینے کے لیے مقرر تھے۔ ایک صحابی اپنی ڈیوٹی دے کر سوگئے جبکہ دوسرے نماز پڑھنے لگے۔ کسی مشرک نے نماز پڑھنے والے صحابی کو تیر مارا جو اُن کے بدن میں پیوست ہو گیا۔ اس صحابی نے تیر نکالا اور نماز جاری رکھی۔ اس مشرک نے دوبارہ تیر مارا۔ اس کو بھی انہوں نے نکالا لیکن نماز میں مشغول رہے۔ مشرک نے تیسرا تیر پیوست کردیا۔ انہوں نے نکالا اور رکوع اور سجدہ میں چلے گئے اور اتنے میں سوئے ہوئے صحابی کو جگا دیا تو وہ مشرک بھاگ کھڑا ہوا۔ زخمی صحابی سے جب ان کے ساتھی نے دریافت کیا کہ مجھے پہلے کیوں نہ جگایا تو وہ کہنے لگے کہ میں ایک ایسی سورت پڑھ رہا تھا کہ اسے ختم کیے بغیر مجھے پسند نہ آیا کہ نماز ختم کردوں۔ جب مشرک نے مجھ پر تیر اندازی کی تو میں نے رکوع کیا اور تمہیں جگا دیا۔ لیکن خدا کی قسم اگر اس پہرہ داری کے فریضہ کے ضائع ہونے کا خطرہ نہ ہوتا تو خواہ میری جان چلی جاتی میں اس سورت کو پورا کیے بغیر نماز ختم نہ کرتا۔ (حیات الصحابہ جلد سوم صفحہ 519)
= حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام مغرب اور عشاء کے درمیان بھی نوافل ادا کیا کرتے تھے۔ اصحاب الصفہ دن کو جنگل سے ایندھن لاتے اور (فرض نماز کے علاوہ) رات کو نوافل ادا کرتے۔ چنانچہ خداتعالیٰ فرماتا ہے: کَانُوْا قَلِیْلًا مِّنَ الَّیْلِ مَا یَھْجَعُوْنَ (الذّٰریٰت18:)۔ یہ لوگ عبادت میں مشغول رہنے کے سبب راتوں کو بہت کم سوتے ہیں۔
(ابوداؤد کتاب الصلوٰۃ باب قیام النبیؐ)
= اصحاب الصفہ کے بارے میں حضرت امام بخاریؒ نے لکھا ہے کہ یہ لوگ دن کو جنگل سے ایندھن لاتے اور (فرض نماز کے علاوہ) رات کو نوافل ادا کرتے۔ (بخاری کتاب المغازی باب غزوۃالرجیع)
= ایک روز آنحضرت ﷺ رات کو گھر سے نکلے تو دیکھا کہ حضرت ابوبکرؓ پست آواز کے ساتھ قراء ت کررہے ہیں۔ آگے بڑھے تو حضرت عمرؓ کو نہایت بلند آواز سے نماز میں قراء ت کرتے دیکھا۔ جب یہ دونوں بعد میں آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے توآپؐ نے فرمایا۔ ابوبکر! نماز میں تمہاری آواز دھیمی تھی۔ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں جس (خدا) سے سرگوشی کررہا تھا اُس کے کان میں میری آواز پہنچ گئی۔ آنحضرتﷺ نے حضرت عمرؓ سے دریافت کیا کہ تمہاری آواز نماز میں بہت بلند تھی تو حضرت عمرؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مَیں سونے والوں کو جگاتا اور شیطان کو دھتکارتا ہوں۔
(ابوداؤد کتاب الصلوٰۃ باب رفع الصوت فی القرأۃ)
= خداتعالیٰ کی جو محبت صحابہ کرامؓ کے دلوں میں موجزن تھی اُس کا ایک نظارہ یوں بھی نظر آتا ہے کہ ابوعثمان نہدی کہتے ہیں کہ ایک دفعہ مجھے سات دن حضرت ابوہریرہؓ کی مہمانی کا فخر حاصل ہوا۔ گھر میں تین افراد تھے۔ ابوہریرہؓ، اُن کی بیوی اور ایک خادم۔ رات کو انہوں نے تین حصوں میں تقسیم کررکھا تھا۔ ایک حصہ میں ایک فرد عبادت کرتا تھا۔ جب وہ سونے لگتا تودوسرے کو اٹھا دیتا اور جب دوسرا سونا چاہتا تو تیسرے کو اٹھا دیتا۔ اسی طرح ایک روایت ہے کہ حضرت عمرؓ نہایت خشوع و خضوع سے نماز تہجد ادا کرتے۔ صبح ہونے کے قریب ہوتی تو گھر والوں کو جگاتے اور یہ آیت پڑھتے: وَاْمُرْ اَھْلَکَ بِالصَّلٰوۃِ (طٰہ133:) (اپنے گھر والوں کو بھی نماز کا حکم دے)۔ (مؤطا کتاب الصلوٰۃ باب فی صلوٰۃ اللیل)
= آنحضرتﷺ نماز تہجد میں لمبی لمبی سورتیں مثلاً سورۂ بقرہ، آل عمران، مائدہ اور انعام وغیرہ پڑھا کرتے تھے اور جس قدر لمبا قیام ہوتا تھا اسی طرح رکوع اور سجود بھی طویل ہوتے تھے۔ اس قدر طویل اور پُرسکون نماز میں وہی شخص شریک ہوسکتا تھا جس کا دل عشق الٰہی سے لبریز ہوتا۔ بعض صحابہ آنحضرتﷺ کے ساتھ اس طویل نفلی عبادت میں بھی شریک ہو جاتے۔ حضرت عوف بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں آنحضرتﷺ کے ساتھ نماز تہجد میں شریک ہوا۔ ایک بار حضرت حذیفہؓ کو بھی یہ شرف نصیب ہوا۔ نیز حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کو بھی۔ اسی طرح حضرت عائشہؓ کو بھی یہ سعادت ملتی رہی۔
(مسند احمد بن حنبل جلد ششم صفحہ 98)
حضرت عبداللہ بن عباسؓ اپنے بچپن کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے ایک رات اپنی خالہ امّ المومنین حضرت میمونہؓ کے پاس گزاری۔ جب آدھی رات گزر گئی یا اس سے کچھ پہلے یا اس سے کچھ بعد تو حضرت نبی کریمﷺ بیدار ہوئے۔ سورۂ آل عمران کی آخری دس آیتیں پڑھیں۔ پھر وضو کیا اور نماز تہجد کے لیے کھڑے ہوگئے۔ حضرت عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے بھی آنحضرتﷺ کے ساتھ نماز تہجد ادا کی۔ حضورؐ نے دو دو رکعتیں کرکے نماز تہجد پڑھی اور آخر میں وتر پڑھے۔ پھر لیٹ گئے یہاں تک کہ فجر کی نماز کا وقت ہوگیا۔
(بخاری کتاب العمل فی الصلوٰۃ)
امرواقعہ یہ ہے کہ یہ شوق صرف چند صحابہ کرامؓ تک محدود نہ تھا بلکہ عموماً سب صحابہ میں پایا جاتا تھا اور وہ ایک دوسرے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی محبت کے حصول میں سعی کرتے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک رات آنحضرتﷺ نے مسجد میں نماز تہجد پڑھی لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ پڑھی۔ پھر دوسری رات بھی آنحضرتؐ نے پڑھی تو بہت سے صحابہ شریک ہوگئے۔ پھر تیسری اور چوتھی رات بھی صحابہ جمع ہوگئے مگر آنحضرتﷺ تشریف نہ لائے۔ جب صبح ہوئی تو آپؐ نے فرمایا۔ میں نے تمہارا کام دیکھا (یعنی نوافل ادا کرتے ہوئے) مگر میں اس بات کے ڈر سے نہ نکلا کہ تم پر یہ عبادت فرض نہ ہوجائے۔ (بخاری کتاب التہجد)
= بعض صحابہؓ نے خود درخواست کرکے آنحضورﷺ سے اپنے گھر میں نماز پڑھانے کی درخواست کی تاکہ اُس جگہ کو جائے نماز کا درجہ دے دیں۔ چنانچہ بدری صحابی حضرت عتبان بن مالک انصاریؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں اپنی قوم بنی سالم کی امامت کیا کرتا تھا۔ میرے گھر اور اُن کے درمیان ایک نالہ تھا۔ بارش ہوجاتی تو میرے لیے یہ نالہ پار کرنا مشکل ہو جاتا اور میری بینائی میں فتور آگیا تھا۔ میں نے آنحضرتﷺ سے اپنی اس مشکل کا ذکر کرکے عرض کی کہ یا رسول اللہ! میرے گھر تشریف لاکر ایک جگہ نماز پڑھ کر برکت بخشیں تاکہ میں وہ جگہ نماز کی مقرر کرلوں۔ چنانچہ آنحضرتﷺ ایک روز حضرت ابوبکرؓ سمیت میرے گھر تشریف لائے۔ اس وقت دن چڑھ چکا تھا۔ آنحضرتﷺ ایک جگہ نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے۔ اللہ اکبر کہا تو ہم لوگوں نے بھی آپ کے پیچھے صف باندھ کر دورکعتیں پڑھیں۔ (بخاری کتاب التہجد باب صلوٰۃ النوافل جماعۃ)
= عشق الٰہی کے سمندر میں جب بعض صحابہ ایسے غوطہ زن ہوجاتے کہ گویا تارک الدنیا ہوجاتے۔ دنیاوی آرام و آسائش کو قربان کرکے اپنے ربّ کی خوشنودی حاصل کرنے کی آرزو اُن کا نصب العین بن جاتی۔ بعض صحابہ ساری رات عبادت میں اور دن کو روزہ میں گزارتے لیکن ایسا کرنے سے آنحضورﷺ نے انہیں منع فرمایا۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت نبی کریمﷺ نے مجھے ارشاد فرمایا کہ مجھے اطلاع ملی ہے کہ تم رات کو عبادت کرتے اور دن کو روزہ رکھتے ہو۔ مَیں نے عرض کیا: یارسول اللہ یہ درست ہے، مَیں ایسا ہی کرتا ہوں۔ اس پر حضرت نبی کریمﷺ نے فرمایا اگر تُو ایسا کرے گا تو تیری آنکھیں خراب ہو جائیں گی۔ تیری جان کمزور ہو جائے گی۔ تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ تیرے نفس کا بھی تجھ پر حق ہے۔ تیری اہلیہ کا بھی تجھ پر حق ہے۔ بےشک روزہ بھی رکھو، افطار بھی کرو، عبادت بھی کرو اور سوؤ بھی۔
(بخاری کتاب التہجد باب مایکرہ من ترک قیام اللیل)
اسی طرح روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے حضرت سلمان فارسیؓ اور حضرت ابوالدرداءؓ کو بھائی بھائی بنا دیا تھا۔ ایک روز حضرت سلمانؓ اپنے بھائی حضرت ابوالدرداءؓ سے ملنے گئے تو دیکھا کہ اُمّ درداء (ان کی بیوی) میلی کچیلی ہیں۔ انہوں نے حال پوچھا تو کہا تمہارا بھائی ابوالدرداء تارک الدنیا ہوگیا ہے۔ اتنے میں حضرت ابو الدرداءؓ بھی آگئے اور حضرت سلمانؓ کے لیے کھانا تیار کیا اور کہنے لگے تم کھاؤ میں روزے سے ہوں۔ حضرت سلمانؓ نے کہا جب تک تم نہ کھاؤ گے مَیں نہیں کھاؤں گا۔ خیر حضرت ابوالدرداءؓ نے کھالیا۔ جب رات ہوئی تو حضرت ابوالدرداءؓ عبادت کے لیے اٹھے۔ حضرت سلمانؓ نے کہا سو جاؤ۔ وہ سوگئے۔پھر اٹھنے لگے تو کہا سو جاؤ۔ جب رات کا آخری پہر ہوا تو حضرت سلمانؓ نے کہا: اب اٹھو۔ پھر دونوں نے نماز پڑھی تو حضرت سلمانؓ نے اُن کو سمجھایا کہ بھائی! دیکھو اللہ کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری جان کا بھی اور تمہاری بیوی کا بھی اور ہر ایک کا حق ادا کرو۔ یہ سن کر حضرت ابوالدرداءؓ آنحضورﷺ کے پاس آئے اور آپؐ سے یہ سب واقعہ بیان کیا۔ آپؐ نے فرمایا: سلمان نے سچ کہا۔
(بخاری کتاب الصوم باب من اقسم علیٰ اخیہ)
ایک دن آنحضرتﷺ نے گھر میں دو ستونوں کے درمیان ایک رسی بندھی ہوئی دیکھی تو دریافت فرمایا کہ یہ کیسی رسی ہے؟ بتایا گیا کہ یہ رسّی اُمّ المومنین حضرت زینبؓ نے باندھی ہے۔ جب وہ کھڑی کھڑی عبادت کرتے تھک جاتی ہیں تو اس سے سہارا لیتی ہیں۔ آپؐ نے فرمایا اس رسی کو کھول دو۔ تم میں سے ہر شخص کو اس وقت تک عبادت کرنی چاہیے جب تک نماز میں دل لگا رہے۔
(بخاری کتاب التہجد باب مایکرہ من التشدید فی العبادۃ)
حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ ایک دن بنی اسد قبیلہ کی ایک عورت میرے پاس بیٹھی تھی اتنے میں حضرت نبی کریمﷺ تشریف لائے تو دریافت فرمایا یہ کون عورت ہے؟ حضرت عائشہؓ نے جواب دیا کہ یہ فلاں عورت ہے جو رات بھر عبادت کرتی ہے اور سوتی نہیں۔ پھر اس کے نماز پڑھنے کی کیفیت بیان کی۔ اس پر آنحضرتﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بس اتنا عمل کرو جتنے کی طاقت ہو۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ تو (ثواب دینے سے) تھکتا نہیں۔ تم ہی (عمل کرتے کرتے) تھک جاؤگے۔ (بخاری کتاب التہجد باب مایکرہ من التشدید فی العبادۃ)
صحابہ کرامؓ اپنے ربّ کے ایسے عاشق اور فنا فی اللہ تھے کہ اپنے ربّ کی عبادت کے لیے بلانے یعنی اذان دینے کے لیے بھی مسابقت کرتے۔ ایک بار حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے ان میں قرعہ بھی ڈالا۔ (بخاری کتاب الاذان)
= محبتِ الٰہی کی یہ بھی ایک مثال تھی کہ بعض صحابہ آنحضرتﷺ کی اقتدا میں نماز باجماعت ادا کرنے کے بعد پھر اپنی قوم کے پاس واپس جاتے اور انہیں نماز پڑھاتے۔ چنانچہ حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت معاذ بن جبلؓ آنحضرتﷺ کے ساتھ نماز (فرض) پڑھا کرتے تھے۔ پھر جا کر اپنی قوم میں امامت کرتے اور وہی نماز ان کو پڑھاتے۔ (بخاری کتاب الاذان باب ماطوّل الامام)
= آنحضورﷺ نے بھی اپنے صحابہ کرامؓ کی توحید باری تعالیٰ سے محبت پر ہمیشہ ہی غیرمعمولی خوشی کا اظہار فرمایا۔ چنانچہ اُمّ المومنین حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے ایک صحابی کو ایک لشکر پر سردار بنا کر بھیجا۔ وہ صحابی اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھاتے تو اپنی قراءت کو قُلْ ھُوَاللّٰہُ اَحَد پر ختم کرتے۔ جب وہ لوگ واپس لَوٹے تو رسول اللہﷺ کے پاس اس بات کا ذکر ہوا تو آپؐ نے فرمایا: اس سے دریافت کرو کہ وہ ایسا کیوں کرتا ہے؟ صحابہؓ کے دریافت کرنے پر انہوں نے جواب دیا کہ اس سورت میں اللہ تعالیٰ کی صفت ’اَحَد‘ کا ذکر ہے اور مَیں اس کے پڑھنے کو محبوب رکھتا ہوں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا اس کو بتا دو کہ اللہ تعالیٰ بھی اس کو محبوب جانتا ہے۔ (ترمذی کتاب فضائل القرآن)
= حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:’’جس قدر انسان خدا کے خوف میں ترقی کرے گا اسی قدر محبت زیادہ ہوتی جاوے گی اور جس قدر محبت الٰہی میں ترقی کرے گا اسی قدر خدا کا خوف غالب ہو کر بدیوں اور برائیوں سے نفرت دلاکر پاکیزگی کی طرف لے جائے گا۔‘‘ (ملفوظات جلد سوم صفحہ 299)
پس جس دل میں محبت الٰہی ہوتی ہے وہ ربّ ذوالجلال کے خوف سے لرزاں و ترساں رہتا ہے۔ صحابہ کرام کے دل جو محبت الٰہی سے لبریز تھے وہ خدا کی ہیبت و جلال سے لرزاں بھی رہتے تھے۔ حضرت عثمانؓ خوف خداوندی سے اکثر آبدیدہ رہتے۔ موت، قبر اور عاقبت کا خیال ہمیشہ دامنگیر رہتا۔ کوئی جنازہ گزرتا تو کھڑے ہو جاتے اور بے اختیار آنکھوں سے آنسو نکل آتے۔ مقبروں سے گزرتے تو رقّت طاری ہو جاتی اور داڑھی تر ہوجاتی۔ لوگ کہتے کہ جنت و دوزخ کے تذکروں سے تو آپ پر اس قدر رقّت طاری نہیں ہوتی۔ آخر مقبروں میں کیا خاص بات ہے کہ انہیں دیکھ کر آپؓ بے قرار ہو جاتے ہیں؟ فرماتے: آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے کہ قبر آخرت کی سب سے پہلی منزل ہے۔ اگر یہ معاملہ آسانی سے طے ہوگیا تو پھر تمام منزلیں آسان ہیں۔ اگر اس میں دشواری پیش آئی تو تمام مرحلے دشوار ہوں گے۔ (مسنداحمد بن حنبل جلد اوّل صفحہ 63)
حضرت عمرؓ خشیت الٰہی سے لرزاں و ترساں رہتے۔ قیامت کے مؤاخذہ سے بہت ڈرتے تھے اور ہر وقت اس کا خیال رہتا۔ ایک دفعہ کسی سے آپؓ نے فرمایا ’’تم کو یہ پسند ہے کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ اسلام لائے، ہجرت کی، جہادکیا اور نیک اعمال کیے۔ اس کے بدلہ میں دوزخ سے بچ جائیں اور عذاب و ثواب برابر ہو جائے۔ وہ صحابی کہنے لگے: خدا کی قسم! ہم نے روزے بھی رکھے، نمازیں پڑھیں، بہت سے نیک کام کیے اور ہمارے ہاتھ پر بہت سے لوگ اسلام لائے۔ ہمیں ان اعمال سے اپنے ربّ سے بہت توقعات ہیں۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: اس ذات کی قسم، جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ مجھے تو یہی غنیمت معلوم ہوتا ہے کہ عذاب سے بچ جائیں اور نیکی اور بدی برابر ہو جائیں۔
(بخاری باب ایام الجاہلیۃ)
حضرت ابوبکرؓ فرمایا کرتے تھے: اگر آسمان سے ندا آئے کہ ایک آدمی کے سوا تمام دنیا کے لوگ جنتی ہیں تب بھی مواخذہ کا خوف میرے دل پر ہوگا کہ شاید وہ بدقسمت انسان میں ہی ہوں۔ (کنزالعمال جلد ششم صفحہ 245)
حضرت ابوبکرصدیقؓ جب کوئی سرسبز درخت دیکھتے تو فرماتے: کاش میں درخت ہی ہوتا کہ عاقبت کے جھگڑوں سے چھوٹ جاتا۔ کسی باغ سے گزرتے تو چڑیوں کو چہچہاتے دیکھتے تو آہ سرد کھینچ کر فرماتے: پرندو! تمہیں مبارک ہو کہ دنیا میں چگتے پھرتے ہو، درخت کے سایہ میں بیٹھتے ہو اور قیامت کے روز تمہارا کوئی حساب نہ ہوگا۔ کاش ابوبکر بھی تمہاری طرح ہوتا۔ (کنزالعمال جلد ششم صفحہ 312)
= آنحضور ﷺ کی قوّت قدسیہ نے اپنے صحابہؓ میں محبتِ الٰہی کی جو لَو لگائی تھی اس کے نتیجے میں صحابہ کی روح کی غذا ذکرِ الٰہی تھی۔ بڑی کثرت سے نمازوں کے علاوہ بھی ذکرِ الٰہی اور تسبیحات کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ آنحضرتﷺ نے حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ سے فرمایا کہ تم دونوں ہر نماز کے بعد دس بار تسبیح، دس بار تحمید اور دس بار تکبیر پڑھ لیا کرو اور جب سونے لگو تو 33 بار تسبیح، 33 بار تحمید اور 34 بار تکبیر پڑھ لیا کرو۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ جب سے رسول اللہﷺ نے مجھے اس کی تلقین فرمائی مَیں نے اس کو چھوڑا نہیں۔ (بخاری کتاب المناقب۔ مناقب علیؓ)
حضرت عکرمہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہؓ ہرروز بارہ ہزار دفعہ تسبیحات کرتے اور فرماتے: میں اپنے گناہوں کے مطابق تسبیحات کرتا ہوں۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم حضرت نبی کریمﷺ کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک شخص نے آکر یہ کہہ کر نماز شروع کی اَللّٰہُ اَکْبَرُ کَبِیْرًا وَّالْحَمْدُ لِلّٰہِ کَثِیْرًا وَّسُبْحَانَ اللّٰہِ بُکْرَۃً وَّاَصِیْلًا۔ یعنی اللہ سب سے بڑا ہے اور سب تعریفیں اسی کے لیے ہیں اور اس کی ذات پاک ہے صبح بھی اور شام بھی۔ نماز کے بعد حضرت نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ یہ کلمے خدا کو ایسے پیارے لگے کہ آسمان کے دروازے ان کے لیے وا کردیے گئے۔ ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں ہمیشہ یہ مبارک کلمات دہراتا ہوں۔ (مسلم، ترمذی، نسائی)
= اپنی ضروریات کو ترک کرکے یعنی اپنی خواہشات کا قلع قمع کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کی راہ میں اُسی کی محبت اور رضا کے حصول کی خاطر اپنے مال کو بخوشی پیش کردینا ہی انفاق کی حقیقی روح ہے۔ قرآن کریم نے انفاق مال کے ساتھ بہترین اور پسندیدہ مال کی شرط بھی لگائی ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں مال پیش کرنے کا تعلق ایثار سے ہے۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی آنحضرتﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول! اجر کے لحاظ سے سب سے بڑا صدقہ کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: سب سے بڑا صدقہ یہ ہے کہ تُو اس حالت میں صدقہ کرے کہ تو تندرست ہو اور مال کی ضرورت اور حرص رکھتا ہو، غربت سے ڈرتا ہو اور خوشحالی چاہتا ہو۔ صدقہ و خیرات میں ایسی دیر نہ کر یہاں تک جب جان حلق تک پہنچ جائے تو تُو کہے فلاں کو اتنے دے دو اور فلاں کو اتنا۔ حالانکہ وہ مال اب تیرا نہیں رہا وہ تو فلاں کا ہو ہی چکا (یعنی اب تیرے اختیار سے نکل چکاہے۔) (صحیح بخاری کتاب الزکوٰۃ حدیث نمبر 1330)
انفاق فی سبیل اللہ دو طرح سے ہے، ایک فرض جیسے زکوٰۃ اور دوسرا نفل مثلاً صدقات۔ آنحضورﷺ کی زیرتربیت صحابہ ہر دو طرح کی مالی قربانیوں میں انتہائی درجے پر پہنچے ہوئے تھے۔ اس حوالے سے متعدد ایمان افروز واقعات احادیث کی کتب میں درج ہیں۔ مثلاً حضرت ابوبکرؓ نے کئی بار اپنا سارا مال خدا اور اُس کے رسولؐ کی خاطر پیش کردیا۔ ہجرت کے وقت بھی اپنا سارا مال پانچ چھ ہزار درہم اپنے ہمراہ لے لیے تاکہ بوقت ضرورت راستے میں راہِ خدا میں پیش کرسکیں۔ اسی طرح حضرت عمرؓ نے غزوۂ تبوک کے موقع پر اپنا نصف مال آنحضورﷺ کے قدموں میں رکھ کر سوچا کہ آج مَیں ابوبکرؓ سے سبقت لے جاؤں گا۔ لیکن جب حضرت ابوبکرؓ تشریف لائے تو انہوں نے اپنا سارا مال راہِ خدا میں پیش کردیا اور حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ مَیں نے کہا کہ مَیں ان پر کبھی کسی چیز میں سبقت نہیں لے جاسکتا۔ اسی طرح جب یہ آیت نازل ہوئی کہ اپنے بہترین مال کو خدا کے حضور پیش کرو تو کئی صحابہ کرامؓ (مثلاً حضرت طلحہؓ، حضرت ابو الدحداحؓ اور حضرت عبداللہ بن زیدؓ) نے اپنے باغ صدقہ کردیے، بعض صحابہؓ (مثلاً حضرت عمرؓ) نے باغ کا پھل راہِ خدا میں پیش کیا، کئی صحابہؓ (مثلاً حضرت اسماءؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت ابن عمرؓ) نے اپنے کئی غلاموں کو آزاد کیا۔ بعض صحابہؓ (مثلاً حضرت زید بن حارثہؓ اور حضرت ابن عمرؓ) نے اپنے بہترین جانور پیش کردیے۔یہ ساری مالی قربانی اسی لیے تھی کہ صحابہؓ اپنے ربّ کی محبت میں سرشار تھے اور اس راہ میں ترقی کرتے چلے جانے کی اُمنگ اُن کے دلوں میں موجزن رہتی تھی۔ اس راہ میں وہ اپنے دنیاوی نقصانات کی بھی پروا نہیں کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت ابن عمرؓ کی عادت تھی کہ جب کوئی چیز انہیں اپنے مال میں زیادہ پسند آتی تو اُسے اللہ کی راہ میں دے کر قربِ الٰہی حاصل کرنے کی کوشش کرتے۔ آپؓ کے غلاموں کو آپؓ کی اس عادت کا پتہ چل گیا۔ چنانچہ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ کوئی غلام نماز کے لیے خوب تیار ہوکر مسجد میں جاکر بیٹھ جاتا۔ حضرت ابنِ عمرؓ اُس کو اس حالت میں دیکھتے تو خوش ہوکر اسے آزاد کردیتے۔ اگر کوئی دوست کہتے کہ ان غلاموں میں عبادت کا شوق نہیں ہے بلکہ یہ تو صرف آپؓ کو دھوکا دیتے ہیں تو آپؓ فرماتے:’’جو ہم کو اللہ کے معاملہ میں دھوکا دے گا ہم ضرور اُس کے دھوکے میں آئیں گے۔‘‘
حضرت عثمانؓ کی مالی قربانیوں کا شمار ممکن نہیں۔ آنحضورﷺ نے ایک خطبہ میں جب جیشِ عسرہ کی ضرورتوں کی طرف توجہ دلائی تو آپؓ نے ایک سو اونٹ مع کجاوہ و پالان کے دینے کا وعدہ کیا۔ جب آنحضورﷺ نے دوبارہ ارشاد فرمایا تو آپؓ نے مزید ایک سو اونٹوں کا وعدہ کیا۔ پھر جب آنحضورؐ نے تیسری بار توجہ دلائی تو آپؓ نے بھی مزید ایک سو اونٹوں کا وعدہ کرلیا۔ تب آنحضورؐ نے آپؓ کے لیے یوں دعا کی:’’اے میرے اللہ! عثمان کو بھول نہ جانا، عثمان پر کوئی مؤاخذہ نہیں اگر آج کے بعد وہ کوئی عمل نہ کرے۔‘‘ غزوۂ تبوک میں حضرت عثمانؓ نے ایک ہزار سواریاں پیش کیں اور غزوہ کے کُل خرچ کا ایک تہائی پیش کردیا۔
حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ ایک مالدار تاجر تھے۔ آپؓ نے ایک دفعہ سات سو اونٹ مع سامان تجارت کے صدقہ کیے۔ ایک بار چار ہزار درہم، پھر چالیس ہزار درہم، پھر چالیس ہزار دینار، پھر پانچ سو اونٹ، پھر ڈیڑھ ہزار اونٹنیاں صدقہ کیں، کئی سو گھوڑے جہاد کے لیے پیش کیے۔
حضرت ابولبابہؓ اپنی ایک غلطی پر نادم ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے اُن کی توبہ قبول فرمالی۔ پھر وہ آنحضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنا مکان اور سارا مال صدقہ کردیا۔ آنحضورﷺ نے تہائی مال کا صدقہ قبول فرمالیا۔
اسی طرح حضرت کعب بن مالکؓ کی توبہ جب قبول ہوئی تو انہوں نے بھی اپنا سارا مال بطور شکرانہ کے صدقہ کرنے کے لیے آنحضورﷺ کی خدمت میں پیش کیا تو آنحضورﷺ نے فرمایا کہ کچھ مال اپنے پاس رکھ لو۔
حضرت سلمان فارسیؓ مدائن کے گورنر تھے اور آپؓ کا وظیفہ پانچ ہزار دینار تھا۔ مگر سارا وظیفہ صدقہ کر دیتے اور خود چٹائیاں بُن کر گزارا کرتے۔ آپؓ کے بھانجے نعمان بن حمید کہتے ہیں کہ آپؓ فرماتے تھے: مَیں کھجور کے پتے ایک درہم میں خریدتا ہوں اور محنت کرکے انہیں تین درہم میں بیچتا ہوں۔ ایک درہم تو اسی کام کے لیے رکھ لیتا ہوں، دوسرا درہم اہل و عیال پر خرچ کرتا ہوں اور ایک درہم صدقہ کر دیتا ہوں۔ کوئی بھی مجھے اس کام سے روکے تو مَیں نہیں رکوں گا۔
آنحضورﷺ نے ایک خطبہ عید میں صدقہ و خیرات کی ترغیب دی تو صحابیاتؓ نے اپنے کانوں کی بالیاں، گلے کے ہار اور انگلیوں کے چھلے تک اتار کر حضرت بلالؓ کی چادر میں ڈال دیے۔
حضرت عبداللہ بن زبیرؓ فرماتے ہیں کہ مَیں نے حضرت عائشہؓ اور حضرت اسماءؓ سے زیادہ کسی کو سخی نہیں دیکھا۔ ان دونوں کے طریقے مختلف تھے۔ حضرت عائشہؓ تھوڑا تھوڑا کرکے جمع کرتیں اور جب کچھ مال جمع ہوجاتا تو تقسیم کر دیتیں لیکن حضرت اسماءؓ تو کوئی چیز پاس رکھتی ہی نہیں تھیں۔
ایک بار ایک صحابیؓ انڈے کے برابر سونا لے کر آنحضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے یہ سونا ایک کان سے ملا ہے اسے بطور صدقہ قبول فرمائیے۔ اس کے علاوہ میرے پاس اَور کچھ نہیں ہے۔ اس پر آنحضورﷺ نے اعراض فرمایا تو اُس صحابیؓ نے دوبارہ عرض کیا اور پھر سہ بارہ عرض کیا۔ اس پر آنحضورﷺ نے فرمایا: تم لوگ اپنا تمام سرمایہ صدقہ میں دے دیتے ہو اور پھر بھیک مانگنے لگتے ہو۔ بہترین صدقہ وہ ہے جس کے بعد بھی انسان کے پاس کچھ مال رہ جائے۔
حضرت حکیم بن حزامؓ کے پاس دو اعرابی سائل آئے تو آپؓ انہیں بازار لے گئے۔ دو اونٹنیاں اور اُن کا سامان خریدا اور اُن پر غلہ لاد کر اُن کے حوالہ کردیا۔
پس تاریخِ اسلام کے دورِ اوّلیں میں مالی قربانیوں کے بہت سے واقعات محفوظ ہیں جب کئی صحابہؓ نے سائل کی ضرورت پوری کرنے کے لیے قرض لیا اور بے شمار صحابہؓ نے صدقہ و خیرات کرنے کے لیے مزدوری کی اور اپنی محنت کی کمائی پیش کردی۔ اُمّ المومنین حضرت زینبؓ بن جحش چمڑہ رنگنے اور سینے کے فن سے آشنا تھیں اور اس طرح جو آمد ہوتی اللہ کی راہ میں خرچ کرتیں۔ حضرت زینبؓ سوت کات کر مجاہدین کی مدد کیا کرتی تھیں۔ حضرت سودہؓ کھالیں بناتیں اور اُن سے ہونے والی آمدنی صدقہ کرتیں۔
مذکورہ بالا مثالیں صدقات اور طوعی انفاق فی سبیل اللہ سے تعلق رکھتی ہیں۔ لیکن جب معاملہ صدقات کی بجائے زکوٰۃ کا ہو تو صحابہؓ کی زندگیوں میں نہایت دلکش نظارے نظر آتے ہیں۔ زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے صحابہؓ کا اسوہ یوں تھا کہ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ جب پھل پک جاتے اور زکوٰۃ کا وقت آتا تو صحابہؓ جوق در جوق اپنے اموال کی زکوٰۃ لے کر حاضر ہوتے یہاں تک کہ ایک ڈھیر لگ جاتا۔ حضرت اُبی بن کعبؓ کو آنحضورﷺ نے زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا۔ ایک صحابی کے پاس جب آپؓ پہنچے تو انہوں نے اپنا بہت سا مال پیش کردیا۔ آپؓ نے کہا کہ تم پر صرف اونٹنی کا ایک بچہ فرض ہے۔ صحابیؓ نے عرض کیا کہ بچہ کس کام کا؟ نہ وہ سواری کے قابل ہے، نہ دودھ دیتا ہے، آپ یہ اونٹنی لے جائیں۔ آپؓ نے بتایا کہ آنحضور ﷺ کی اجازت کے بغیر آپؓ اسے قبول نہیں کرسکتے تو وہ صحابیؓ آنحضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی بات دہرائی۔ چنانچہ آنحضورﷺ نے اونٹنی قبول کرتے ہوئے فرمایا: فرض تو وہی ہے جو اُبی نے بیان کیا ہے لیکن اگر تم اس سے زیادہ دو تو وہ صدقہ ہوگا اور ہم اس کو قبول کرلیں گے۔ اسی طرح ایک صحابیؓ کا بیان ہے کہ حضورؐ جب ہمیں زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے بھیجتے تو فرماتے کہ دودھ دینے والی اونٹنی وصول نہیں کرنی۔ ایک جگہ کسی نے ایک نہایت خوبصورت، جسیم اونٹنی پیش کی مگر مَیں نے قبول نہ کی۔ اُس نے اصرار کیا کہ اُس کے مال میں سے بہترین اونٹنی لے لوں۔ پھر میرے کہنے پر نسبتاً کم قیمت والی اونٹنی لے آیا تو مَیں نے اسے کہا کہ مَیں اسے قبول تو کر لیتا ہوں مگر اس بات سے ڈرتا ہوں کہ حضورﷺ کہیں مجھ پر ناراض نہ ہوں۔
ایک صحابیہؓ اپنی لڑکی کے ساتھ آنحضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ لڑکی کے ہاتھ میں سونے کے کنگن تھے۔ آپؐ نے پوچھا کیا اِن کی زکوٰۃ دیتی ہو؟ عرض کیا: نہیں۔ فرمایا: کیا تمہیں یہ اچھا معلوم ہوتا ہے کہ خدا قیامت کے دن تمہارے ہاتھ میں آگ کے کنگن پہنائے۔ انہوں نے یہ سنا تو فورًا کنگن آپؐ کے سامنے ڈال دیے۔
خداتعالیٰ کی خاطر ہر قسم کی قربانی پیش کرنے اور کرتے چلے جانے کا انداز صحابہؓ نے اپنے آقاﷺ سے ہی سیکھا تھا۔ چنانچہ حضرت ابو بصرہ غفاریؓ بیان کرتے ہیں کہ میں قبول اسلام سے قبل آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضور نے مجھے بکری کا دودھ پیش کیا جو آپ کے اہل خانہ کے لیے تھا۔ حضورؐ نے مجھے سیر ہو کر وہ دودھ پلایا اور صبح میں نے اسلام قبول کر لیا۔ بعد میں مجھے پتہ لگا کہ آنحضرت ﷺ نے وہ رات بھوکے رہ کر گزاری جبکہ اس سے پچھلی رات بھی بھوکے گزاری تھی۔ (مسند احمد بن حنبل جلد6حدیث نمبر 25968)
گھر میں موجود کھانے کی ایک ہی چیز اصحابِ صفّہ کو پیش کردینا، نئی خوبصورت چادر کسی کی فرمائش پر اُسے عطا فرمادینا، یتیموں، مسکینوں اور بیواؤں کے سر پر دست شفقت رکھنا آپؐ کے اخلاق عالیہ تھے جو آپؐ کے اہل و عیال اور صحابہؓ نے سیکھے اور خداتعالیٰ کی محبت کی خاطر اُنہیں اپنایا۔ چنانچہ ایک صحابی حضرت ربیعہ الاسلمیؓ غربت کی وجہ سے شادی نہ کرتے تھے۔ آنحضرت ﷺ نے خود ان کا رشتہ کروایا۔ ولیمہ کا وقت آیا تو حضورؐ نے انہیں فرمایا: عائشہؓ کے پاس جاؤ اور آٹے کی ٹوکری لے آؤ۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عائشہؓ کے پاس گیا تو انہوں نے بتایا کہ اس ٹوکری میں تھوڑا سا آٹا ہے اور اس کے علاوہ کھانے کی کوئی اَور چیز نہیں لیکن چونکہ حضورؐ نے فرمایا ہے اس لیے لے جاؤ۔ چنانچہ اس آٹے سے ولیمے کی روٹیاں پکائی گئیں۔ (مسند احمد بن حنبل جلد4حدیث نمبر 15982)
حضرت دکین بن سعیدؓ فرماتے ہیں کہ ہم آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ہم 440آدمی تھے اور ہم نے حضورؐ سے غلہ مانگا۔ آپؐ نے حضرت عمرؓ کو فرمایا: اٹھو اور انہیں دو۔ حضرت عمرؓ نے عرض کیا یا رسول اللہؐ! میرے پاس تو صرف اتنا ہے جو میرے اور میرے بچوں کے لیے گرمی کے موسم میں کفایت کرے۔ آپؐ نے فرمایا: اٹھو اور دو۔ چنانچہ حضرت عمرؓ ان سب لوگوں کو ساتھ لے کر گھر آئے۔ کمرہ کھولا تو وہاں کھجوروں کا چھوٹا سا ڈھیر تھا۔ ہم میں سے ہر آدمی نے اپنی ضرورت کے مطابق اس میں سے لے لیا۔ مگر خدا کی قدرت کہ اس ڈھیر میں ذرّہ برابر کمی نہ آئی۔ (حلیۃالاولیاء جلد اوّل صفحہ365)
ایک بار رسول اللہ ﷺ نے صحابہؓ سے فرمایا کہ کیا آج تم میں سے کسی نے مسکین کو کھلایا ہے۔ حضرت ابو بکرؓ فورًا اٹھے، گھر پہنچے۔ ان کے بیٹے عبدالرحمٰن کے ہاتھ میں روٹی کا ایک ٹکڑا تھا جو اس سے لے لیا۔ وہ لے کر مسجد گئے اور وہاں ایک سائل ملا تو وہ ٹکڑا اسے دے دیا۔ (سنن ابوداؤد کتاب الزکوٰۃ حدیث نمبر 1422)
ایک دفعہ حضرت علیؓ کے پاس کسی سائل نے آکر سوال کیا تو آپ نے حضرت حسنؓ یا حسینؓ سے فرمایا کہ اپنی امّاں سے جا کر کہو میں ان کے پاس چھ درہم چھو ڑ آیا ہوں ان میں سے ایک درہم دے دیں۔ چنانچہ وہ صاحبزادے گئے اور واپس آکر کہا کہ اماں جان کہتی ہیں کہ آپ نے آٹا خریدنے کے لیے وہ چھ درہم چھوڑے ہیں۔ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ بندے کا ایمان سچا نہیں ہوسکتا جب تک کہ بندے کو اس چیز پر، جو اللہ کے قبضہ میں ہو، زیادہ اعتماد نہ ہو بہ نسبت اس چیز کے جو بندے کے قبضہ میں ہو۔ پھر فرمایا کہ جا کر اپنی اماں سے وہ چھ درہم لے آؤ۔ حضرت فاطمہؓ نے وہ رقم بھیج دی اور حضرت علیؓ نے وہ چھ کے چھ درہم اس سائل کو دے دیے۔ (کنزالعمال جلد3 صفحہ310)
ایک مسکین نے حضرت عائشہؓ سے کچھ مانگا۔ اس دن آپ روزہ سے تھیں اور گھر میں سوائے ایک چپاتی کے اور کچھ نہ تھا۔ آپ نے اپنی خادمہ سے فرمایا یہ روٹی سائل کو دے دو۔ خادمہ نے کہا کہ پھر آپ کس چیز سے روزہ افطار کریں گی؟ آپؓ نے فرمایا کہ روٹی ضرور اس سائل کو دے دی جائے۔ اسی طرح ایک دفعہ کسی مسکین نے حضرت عائشہؓ سے کھانا طلب کیا۔ ان کے سامنے انگور کا ایک خوشہ رکھا ہوا تھا۔ حضرت عائشہؓ نے ایک آدمی سے کہا کہ یہ خوشہ اٹھا کر سائل کو دے دو۔ اس آدمی نے تعجب کیا مگر آپ نے یہ آیت پڑھی: فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہ (اگر کوئی ذرہ برابر بھی نیکی کرے گا تو اس کا بدلہ پائے گا۔)
ایک مرتبہ حضرت معاویہؓ نے حضرت عائشہؓ کی خدمت میں ایک لاکھ درہم بھیجے۔ شام ہونے تک آپؓ نے سب کے سب تقسیم کردیے۔ اس دن آپ کا روزہ بھی تھا۔ جب افطاری کا وقت آیا تو لونڈی نے آپؓ سے کہا کہ گھر میں آج افطاری کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ (مستدرک حاکم جلد 4صفحہ13)
حضرت عبد اللہ بن عمرؓ ایک بار بیمار تھے۔ آپؓ نے فرمایا: میرا دل مچھلی کھانے کو چاہتا ہے۔ لوگوں نے آپ کے لیے مچھلی تلاش کی۔ بڑی تلاش کے بعد صرف ایک ہی مچھلی ملی جسے ان کی بیوی حضرت صفیہ نے کھانے کے لیے تیار کر دیا اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے سامنے پیش کیا۔ اتنے میں ایک مسکین آیا اور حضرت ابن عمرؓ کے پاس آکر کھڑا ہو گیا۔ آپؓ نے مچھلی اٹھا کر اسے دے دی۔ گھر والوں نے عرض کیا کہ آپ نے تو ہمیں اس مچھلی کی تلاش میں تھکا دیا تھا۔ ہم مسکین کو درہم دے دیتے ہیں، وہ درہم اس کے لیے مچھلی سے زیادہ مفید ہوگا۔ مگر حضرت ابن عمرؓ نے فرمایا کہ اس وقت میرے نزدیک یہی مچھلی محبوب ہے اور مَیں اِسے ہی صدقہ کروں گا۔ (حلیۃالاولیاء جلد اوّل صفحہ297)
حضرت سعید بن عامرؓ ایک دفعہ شدید مالی مشکلات کا شکار ہوگئے۔ حضرت عمرؓ کا دورِ خلافت تھا جب ان کو معلوم ہوا تو انہوں نے ایک ہزار دینار حضرت سعیدؓ کو بھجوادیے۔ وہ یہ دینار لے کر اپنی بیوی کے پاس آئے اور واقعہ بتایا۔ بیوی نے کہا آپ اس رقم سے کچھ کھانے پینے کا سامان اور غلّہ خرید لیں۔ فرمانے لگے کیا میں تجھے اس سے بہتر بات نہ بتاؤں۔ ہم اپنا مال اس کو دیتے ہیں جو ہمارے لیے تجارت کرے اور ہم اس کی آمدنی سے کھاتے رہیں اور اس مال کی ضمانت بھی وہی دے۔ بیوی نے کہا بالکل ٹھیک ہے۔ حضرت سعیدؓ بن عامر نے وہ تمام دینار اللہ کی راہ میں خرچ کر دیے اور تنگی ترشی میں گزارہ کرتے رہے۔
(حلیۃالاولیاء جلد اوّل صفحہ244)
حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضور ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ میں بہت زیادہ مبتلائے مشقّت ہوں۔ آنحضرتﷺ نے صحابہؓ سے فرمایا: آج کی رات اسے کون مہمان کے طور پر ٹھہرائے گا۔ حضرت ابو طلحہؓ انصاری نے کھڑے ہو کر عرض کیا: یا رسول اللہ! مَیں۔ چنانچہ وہ اسے گھر لے گئے اور اپنی بیوی سے پوچھا کچھ کھانے کے لیے ہے؟ اس نے کہا سوائے بچوں کے کھانے کے اَور کچھ نہیں۔ انہوں نے بیوی سے کہا: بچوں کو کسی چیز سے بہلا دے اور جب وہ شام کا کھانا مانگیں تو انہیں سلا دے۔ اور جب ہمارا مہمان اندر آئے تو چراغ بجھادینا۔ چنانچہ انہوں نے مہمان کی آمد پر چراغ گُل کر دیا اور بچوں کو سلادیا اور خود دونوں میاں بیوی مہمان کے ساتھ بیٹھ کر اندھیرے میں منہ ہلاتے رہے گویا کھانا کھا رہے ہیں۔ اس طرح گھر کے سب لوگ فاقہ سے رہے اور مہمان نے سیر ہو کر کھانا کھایا۔ اللہ تعالیٰ کو ان کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ اس نے رسول اللہﷺ کو وحی کے ذریعہ سے اس واقعہ کی خبر دی۔ حضورؐ نے صبح حضرت ابوطلحہؓ کو بلایااور ہنستے ہوئے فرمایا کہ رات تم نے مہمان کے ساتھ کیا کیا۔ اللہ تعالیٰ کو تم دونوں کی یہ بات بہت پسند آئی ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الاشربہ حدیث نمبر3839)
حضرت ابو سعید خدریؓ کی روایت ہے کہ ایک جمعہ کو ایک بدحال شخص مسجد میں داخل ہوا۔ آنحضرتﷺ نے اس کی خاطر صدقہ کی تحریک فرمائی۔ صحابہؓ نے کچھ کپڑے پیش کیے تو رسول اللہؐ نے وہ کپڑے اسے دے دیے۔ اگلے جمعہ کو وہ پھر آیا اور رسول اللہؐ نے جب صدقہ کی تحریک کی تو اس نے دو کپڑوں میں سے ایک پیش کر دیا، مگر آپؐ نے فرمایا کہ تم اپنا کپڑا اٹھالو۔
(سنن نسائی کتاب الجمعہ حدیث نمبر1391)
حضرت جریرؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ کی خدمت میں ایک غریب قوم کے لوگ حاضر ہوئے جو ننگے پاؤں اور ننگے بدن تھے۔ ان کی حالت دیکھ کر رسول اللہﷺ کا چہرہ متغیر تھا اور آپ نے صحابہؓ کو جمع کر کے خطاب کیا اور ان کے لیے صدقہ کی تحریک فرمائی۔ صحابہؓ نے دینار، درہم، کپڑے اور جو اور کھجور صدقہ کیا یہاں تک کہ کپڑوں اور غلے کے دو ڈھیر جمع ہوگئے۔ حضرت جریرؓ کہتے ہیں میں نے دیکھا کہ رسول اللہؐ کا چہرہ یہ منظر دیکھ کر سونے کی ڈلی کی طرح چمک رہا تھا۔ (صحیح مسلم کتاب الزکوٰۃ حدیث نمبر1691)
اگرچہ صحابہ کرام کی قربانیاں اکثر ایسی پوشیدہ ہوتی تھیں کہ جن کا اظہار ہوجانا کسی طَور وہ پسند نہیں کیا کرتے تھے تاہم یہ چند ایک مثالیں ثابت کرتی ہیں کہ خداتعالیٰ کی بے پایاں محبت اُن کے پاکیزہ دلوں میں موجزن تھی اور اپنے ربّ سے یہی عشق تھا جس نے انہیں توکّل علی اللہ کے عظیم الشان مقام پر فائز کردیا تھا۔
اس مضمون کا اختتام ایک ایسی لازوال حقیقت پر کرتے ہیں جس کی مثال مذہبی تاریخ میں کہیں نظر نہیں آتی۔ آنحضورﷺ سے صحابہ ؓ نے ایسا عشق کیا کہ اس کی نظیر بھی کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ وہ زندگی بھر آپﷺ کے دائیں بھی لڑے، بائیں بھی لڑے، آگے بھی اور پیچھے بھی لڑے اور اپنی جانوں کی قربانیاں دیتے چلے گئے تاکہ دشمن کے بدارادوں سے آپؐ محفوظ رہ سکیں۔ چنانچہ صحابہؓ کی زندگیوں میں آنحضرت ﷺ کی وفات ہی سب سے بڑا امتحان تھا کہ جب اُن پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ ان کے دلوں کو یقین نہیں آتا تھا کہ ان کا محبوب آقا جدا ہوگیا ہے۔ اُن کی ذہنی کیفیت اُن کے بس میں نہ رہی تھی۔ حضرت عمر ؓ تلوار لے کر لہرانے لگ گئے کہ جو کہے گا کہ رسول اللہﷺ وفات پاگئے ہیں مَیں اُس کا سر قلم کر دوں گا۔ ایسے میں سیدنا حضرت ابوبکرؓ تشریف لائے۔ رسول اللہﷺ کے چہرہ مبارک سے کپڑا اٹھایا اور کہا اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ اور مبارک پیشانی پر بوسہ دینے کے بعد بے اختیار منہ سے یہ الفاظ نکلے: ہائے دوست رخصت ہوگیا۔ پھر سرجھکایا اور دوبارہ پیشانی کو بوسہ دے کر چہرہ مبارک ڈھانک دیا اور کہا آپ کی زندگی کیا اچھی تھی اور موت بھی کیا اچھی ہے۔ آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے اور کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان! اللہ کی قسم! اللہ آپ پر دو موتیں جمع نہیں کرے گا۔ (یعنی وہ جسمانی موت جو مقدّر تھی ہوگئی لیکن آپ کے مشن پر موت کبھی وارد نہیں ہوگی۔) اس کے بعد آپؓ باہر تشریف لائے جہاں حضرت عمرؓ تلوار لہرارہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ جو رسولؐ اللہ کی وفات کا اعلان کرے گا اس کا سرتن سے جدا کردوں گا۔ حضرت ابوبکرؓ نے بڑی جرأت و بہادری سے حضرت عمرؓ کو مخاطب ہو کر فرمایا:عَلٰی رِسْلِک،عمر ٹھہر جاؤ۔ پھر صحابہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: جو شخص محمدﷺ کی عبادت کرتا تھا وہ سن لے کہ محمدؐ فوت ہو چکے اور جو اللہ کی عبادت کرتا تھا وہ جان لے کہ اللہ زندہ ہے وہ کبھی نہیں مرے گا۔ اللہ نے فرمایا ہے وَمَامُحَمَّدٌ اِلَّارَسُوْل قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ …
(بخاری کتاب المغازی باب مرض النبی و وفاتہٖ)
گویا جس توحید کے قیام کی خاطر رسول اللہﷺ تشریف لائے تھے اور اس راہ میں بےشمار دکھ اور مصائب برداشت کیے تھے۔ حضرت نبی کریمﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکرؓ نے جب توحید کا درس یاد دلایا تو حضرت عمرؓ کی تلوار نیام میں چلی گئی اور خداتعالیٰ کی محبت اور کلام اللہ کی عظمت کے سامنے انہوں نے سرتسلیم خم کردیا۔ یہ آنحضورﷺ کی صحبت کا فیض تھا کہ آپؐ کے تربیت یافتہ آپؐ کے غلاموں کے پائے ثبات میں کوئی لغزش نہ آئی۔ وہ زندگی بھر عشق الٰہی کے اسیر رہے اور اُن راہوں میں سرگرداں رہے جہاں اُن کے محبوبِ حقیقی کی رضا حاصل ہوسکتی ہو۔ بلاشبہ محبتِ الٰہی کے سائے میں وہ ہر باطل سے جاٹکرائے اور اسی عشقِ حقیقی کا جام پینے کی آرزو میں اپنے محبوبِ حقیقی کے حضور حاضر ہوگئے۔ رضائے الٰہی کی یہی تڑپ تھی جس نے اُن کو ایسے عظیم الشان درجے پر فائز فرمادیا کہ رضی اللہ عنہم کا خطاب اُنہیں عطا ہوا۔
چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’کیا صحابہ کرام مفت میں اس درجہ تک پہنچ گئے جو اُن کو حاصل ہوا۔ دنیاوی خطابوں کے حاصل کرنے کے لیے کس قدر اخراجات اور تکلیفیں برداشت کرنی پڑتی ہیں تو پھر کہیں جاکر ایک معمولی خطاب، جس سے دلی اطمینان اور سکینت حاصل نہیں ہوتی، ملتا ہے۔ پھر خیال کرو کہ رضی اللہ عنہم کا خطاب جو دل کو تسلی اور قلب کو اطمینان اور مولا کریم کی رضامندی کا نشان ہے، کیا یونہی آسانی سے مل گیا؟ بات یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ کی رضامندی جو حقیقی خوشی کا موجب ہے حاصل نہیں ہوسکتی جب تک عارضی تکلیفیں برداشت نہ کی جاویں۔‘‘
(رپورٹ جلسہ سالانہ 1897ء صفحہ 79)

اپنا تبصرہ بھیجیں