اطاعتِ امام … تا وقتِ مرگ

اطاعتِ امام … تا وقتِ مرگ
اداریہ:
(مطبوعہ رسالہ ’’انصارالدین‘‘ یوکے جولائی و اگست 2020ء)

حضر ت مسیح موعود علیہ السلام نے شرائط بیعت میں دسویں شرط یہ بیان فرمائی ہے :
’’یہ کہ اس عاجز سے عقدِ اخوت محض للہ باقرار طاعت در معروف باندھ کر اس پر تاوقتِ مرگ قائم رہے گا اور اس عقدِ اخوت میں ایسا اعلیٰ درجہ کا ہو گا کہ اس کی نظیر دنیوی رشتوں اور تعلقوں اور تمام خادمانہ حالتوں میں پائی نہ جاتی ہو۔‘‘

سیّدنا امیرالمومنین خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام ہم سے اس بات کا عہد لے رہے ہیں کہ اس نظام میں شامل ہوکر محبت اور بھائی چارے کا ایک رشتہ مجھ سے قائم کر رہے ہو، یہ تم اقرار کررہے ہوکہ چونکہ آنے والے مسیح کو ماننے کا خدا اور رسول کا حکم ہے اس لئے یہ تعلق اللہ تعالیٰ کی خاطر قائم کررہاہوں۔ گویا اللہ تعالیٰ کے دین کی سربلندی اور اسلام کو اکنافِ عالم میں پہنچانے کے لئے، پھیلانے کے لئے رشتہ جوڑ رہے ہیں۔ اس لئے یہ تعلق اس اقرار کے ساتھ کامیاب اور پائیدار ہو سکتا ہے جب معروف باتوں میں اطاعت کا عہد بھی کرو اور پھراس عہد کو مرتے دم تک نبھاؤ۔ اور پھر یہ خیال بھی رکھو کہ یہ تعلق یہیں ٹھہر نہ جائے بلکہ اس میں ہر روز پہلے سے بڑھ کر مضبوطی آنی چاہیے اور اس میں اس قدر مضبوطی ہو اور اس کے معیار اتنے اعلیٰ ہوں کہ اس کے مقابل پر تمام دنیاوی رشتے، تعلق، دوستیاں ہیچ ثابت ہوں۔ ایسا بے مثال اور مضبوط تعلق ہوکہ اس کے مقابل پر تمام تعلق اور رشتے بے مقصد نظر آئیں۔ چونکہ یہ خیال دل میں پیدا ہو سکتا ہے کہ رشتہ داریوں میں کبھی کچھ لو اور کچھ دو، کبھی مانو اورکبھی منواؤ کا ا صول بھی چل جاتاہے۔ تو یہاں یہ واضح ہو کہ واضح طور پر یہ ارشاد بھی فرمایا تمہارا یہ تعلق غلامانہ اور خادمانہ تعلق بھی ہے بلکہ اس سے بڑھ کر ہونا چاہیے۔ تم نے یہ اطاعت بغیر چون وچرا کے کرنی ہے۔ کبھی تمہیں یہ حق نہیں پہنچتا کہ یہ کہنے لگ جاؤ کہ یہ کام ابھی نہیں ہو سکتا، یا ابھی نہیں کرسکتا۔ جب تم بیعت میں شامل ہوگئے ہو اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کے نظام میں شامل ہو گئے ہوتو پھر تم نے اپنا سب کچھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دے دیا اور اب تمہیں صرف ان کے احکامات کی پیروی کرنی ہے،ان کی تعلیم کی پیروی کرنی ہے۔ اور آپ کے بعد چونکہ نظام خلافت قائم ہے اس لئے خلیفۂ وقت کے احکامات کی، ہدایات کی پیروی کرنا تمہارا کام ہے۔ لیکن یہاں یہ خیال نہ رہے کہ خادم اور نوکر کا کام تو مجبوری ہے، خدمت کرنا ہی ہے۔ خادم کبھی کبھی بڑبڑا بھی لیتے ہیں۔ اس لئے ہمیشہ ذہن میں رکھو کہ خادمانہ حالت ہی ہے لیکن ا س سے بڑھ کر ہے کیونکہ اللہ کی خاطر اخوت کا رشتہ بھی ہے اوراللہ کی خاطر اطاعت کا اقرار بھی ہے اور اس وجہ سے قربانی کا عہد بھی ہے۔ توقربانی کا ثواب بھی اس وقت ملتاہے جب انسان خوشی سے قربانی کر رہا ہوتاہے۔ (ماخوذ از خطبہ جمعہ فرمودہ 26؍ستمبر2003ء)
ہم جانتے ہیں کہ آج ہم نے خلیفہ وقت کی بیعت کرکے اپنے اسی عہد کو دہرایا ہے جو شرائط بیعت میں شامل ہے۔
اطاعت کے ضمن میں یہ ایک نکتہ ہمیشہ پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ امام کی غیرمشروط اور صدقِ دل کے ساتھ اطاعت کرنی لازمی ہے۔ کیونکہ یہی واحد صورت ہے جس کے نتیجے میں جماعت کی یکجہتی اور اتحاد قائم رہ سکتا ہے۔ حتّٰی کہ اگر نماز میں امام کوئی غلطی کربیٹھے تب بھی سوائے سبحان اللہ کہنے کے کسی کو نکتہ چینی کرنے یا ذاتی طور پر اپنی علیحدہ درست نماز ادا کرنے کا حق حاصل نہیں ہوتا بلکہ لازمی طور پر ہر مقتدی کو اپنے امام کی اقتدا میں وہی غلطی دہرانا ہوگی۔ امرواقعہ یہ ہے کہ اس حکم پر سرتسلیم خم کرنے کے نتیجے میں ہی وہ برکات حاصل ہوسکتی ہیں جو جماعت سے وابستہ ہیں۔ پس اگر کوئی بھی فرد مبیّنہ طور پر خود کو صحیح گردانتے ہوئے امام کی اطاعت سے باہر نکلنے کی کوشش کرتاہے تو نہ صرف اس جماعت کے اتحاد اور یکجہتی کو نقصان پہنچانے والا ہوتا ہے بلکہ اُس فردِ واحد کی عبادت اور نماز کی اہمیت بھی باقی نہیں رہتی۔ گویا اطاعت کیے بغیر اُس کی ساری عبادت محض لاحاصل مشقّت بن کر رہ جائے گی۔
پس غورطلب بات ہے کہ اسلام میں جب کہ ایک وقتی طور پر بنائے جانے والے امام الصلوٰۃ کی اطاعت کو اس حد تک لازمی قرار دیا گیا ہے کہ اگر وہ نماز میں کوئی غلطی کرتا ہے تو مقتدیوں کو بھی وہ غلطی دہرانے کا حکم ہے تو پھر بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امام وقت حضرت خلیفۃالمسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز (جن کے ہاتھ پر ہم سب نے حضرت امام الزمان علیہ السلام کے نمائندے کے حیثیت سے بیعت کی ہوئی ہے) کی بہ دل و جان اطاعت اور فرمانبرداری کرنا کس قدر ضروری ہے اور اس سے روگردانی کرنا کتنا بڑا گناہ ہے۔

محمود احمد ملک
50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں