اظہار عقیدت
(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 13؍جنوری2025ء)
لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے2013ء نمبر1 میں محترمہ ڈاکٹر فہمیدہ منیر صاحبہ نے اپنے ایک مضمون میں ذاتی مشاہدات کے حوالے سے خلفائے کرام اور خاندانِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض بزرگ خواتین کی سیرت اختصار سے بیان فرمائی ہے۔
آپ بیان کرتی ہیں کہ حضرت نواب امۃالحفیظ بیگم صاحبہؓ کو جب میں نے پہلی بار دیکھا تو محسوس کیا کہ یہ نرگس کا پھول ہے جو اپنے اندر ایک خاص خوشبو رچائے ہوئے اپنی موجودگی منوا لیتا ہے۔ ایک بارمیرے بچوں نے آپ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ چونکہ آپؓ کی طبیعت ان دنوں کافی ناساز تھی اس لیے مجھے پوچھنے میں جھجک محسوس ہورہی تھی مگرجب میں نے اس خواہش کااظہار کیا تو آپؓ نے باکمال مہربانی مجھے اجازت دے دی۔ جب میں بچوں کے ساتھ ملاقات کے لیے گئی توفوراً اندر بلا لیا۔ بچوں سے ہاتھ ملایا ان کے نام پوچھے اورکوائف دریافت کیے۔ میری بیٹی کوکہنے لگیں’’یہ تم پر گئی ہے انشاءاللہ ڈاکٹر بنے گی۔‘‘ بیٹے سے پوچھا کہ تم بڑے ہوکر کیا بننا چاہتے ہو؟ اس نے کہا کہ فوج میں جانا چاہتا ہوں۔ فرمایا کہ فوج والے تو ہماری قدر نہیں کرتے، ہمیں برا جانتے ہیں وہاں کیا جانا! میرے بیٹے نے کہا کہ ہو سکتا ہے جب مَیں بڑا ہوں تب تک حالات تبدیل ہو جائیں۔ فرمایا: ’’خدا کرے۔‘‘ سب بچوں کو ٹافیاں دیں اور دعا دے کر رخصت کیا۔ بچے آج تک ان کے شفیق ہاتھوں کے مصافحہ کا لمس محسوس کرکے خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آج تک ہم نے ایسے ہاتھ کبھی نہیں چھوئے۔
حیا اور پاکیزگی کا بہت خیال تھا۔ بیماری میں جب بھی مَیں انہیں دیکھنے گئی اشد مجبوری کی حالت کے علاوہ کبھی معائنہ کے لیے راضی نہ ہوتی تھیں اور فرمایا کرتی تھیں کہ نرس کے طور پر صرف حلیم کو لایا کرو، نرس بدل کر ساتھ نہ لانا۔ اسی شرم اور حجاب کی وجہ سے آخری دم تک لیڈی ڈاکٹر بھی بدلنے کے لیے تیار نہ ہوئیں۔
دوسروں کی تکلیف کا بہت احساس تھا۔ مجھے فرمایا کرتی تھیں کہ ’’ایسے وقت مجھے دیکھنے آؤ جب دوسرے مریضوں کا حرج نہ ہواور کسی زچگی کی مریضہ کو چھوڑ کر نہ آنا۔‘‘ جب بھی مَیں جاتی تو دریافت فرماتیں کہ ’’زیادہ مریض تو نہیں تھے؟ مریضوں کو میری وجہ سے تکلیف نہ ہو، فرصت کے وقت دیکھنے آنا۔‘‘ کبھی مجھے جلدی ہوتی تو بھانپ جاتیں اور کہتیں کہ لگتا ہے کافی مریض چھوڑ کر آئی ہو؟ اگرمَیں بتاتی کہ کوئی زیادہ بیمار ہے تو اگلی بار اس کاحال ضرور دریافت فرماتیں۔
قبولیتِ دعا کے کئی نشان آپؓ کی ذات سے وابستہ ہیں۔ میرے بھائی عزیزم حشمت کو مقعد کا کینسر تھا۔ مَیں نے آپؓ سے دعا کی درخواست کی تو تسلی دیتے ہوئے فرمایا: ’’فکر نہ کرو بالکل ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘ مجھے معالج ہونے کی حیثیت سے زیادہ ڈرتھا۔ مگر وقت نے ثابت کر دیا کہ آپؓ کی بات سچ نکلی۔ اس کا ایک ایسا آپریشن کیا گیا تھا جس میں اجابت کی جگہ بند کرکے پیٹ پر مصنوعی اجابت کی جگہ بنادی گئی تھی اور ڈاکٹروں نے کہا تھا کہ یہ مستقل یہاں پیٹ پرہی رہے گی۔ لیکن پھر خدا تعالیٰ کے خاص فضل، آپؓ اور حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی دعاؤں کا یہ معجزانہ اثر ہواکہ دس سال بعد آپریشن کرکے اصل اجابت کی جگہ کھول دی گئی۔ سبحان اللہ، الحمدللہ
میرا بھائی عزیزم نعمت بےروزگاری کی وجہ سے بہت پریشان تھا۔ ہم نے آپؓ سے دعا کے لیے درخواست کی تو آپؓ نے دعا کرنے کے بعد فرمایا: ’’اسے بہت اچھی نوکری مل جائے گی انشاءاللہ۔ لیکن اسے کہنا کہ دل لگا کر نوکری کرے۔ چھوڑے نہ۔‘‘
15؍جولائی 1965ء کو فضل عمر ہسپتال میں میرا ڈیوٹی کا پہلا دن تھا۔ شام کو مَیں حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ سے ملاقات کے لیے حاضر ہوئی۔ حضورؓکے ایک طرف چھوٹی آپا مریم صدیقہ تھیں اور دوسری طرف مہر آپا۔ حضورؓبے چین ہوکر کراہ رہے تھے۔ چھوٹی آپا نے فرمایا کہ حضور! یخنی کا ایک آدھ گھونٹ پی لیں۔ مگر آپؓ نے منہ پر ہاتھ رکھ لیا۔ مَیں نے بھی عرض کیا کہ حضور ایک دو چمچ لے لیں۔ آپؓ نے آنکھیں کھول کر استفہامیہ دیکھا توچھوٹی آپا نے بتلایا کہ یہ فضلِ عمر ہسپتال میں ڈاکٹر فہمیدہ آئی ہیں۔ فرمایا: ’’لیڈی ڈاکٹر صاحبہ آگئی ہیں۔ الحمدللہ الحمدللہ۔‘‘ پھر حضورؓ نے عاجزہ کی درخواست منظور فرمائی اوریخنی پینے پر رضامندی کا اظہار کیا۔ دونوں خواتینِ مبارکہ نے ایک ایک چمچ آپؓ کے منہ میں ڈالا۔ پھرآپؓ نے منہ پر ہاتھ رکھ لیا اور باقی یخنی نہیں پی۔
حضرت چھوٹی آپا صاحبہ ہمارا آئیڈیل تھیں۔ ایک سائبان کی طرح ہمیں اپنے عمل سے بتاتیں کہ کس طرح سکون اور محنت سے ہمیں بھی اُن کی طرح ہمیشہ تازہ دم رہنا ہے۔ جب خاندانِ مسیح موعودؑ میں کوئی زچگی ہوتی تو آپ زچہ کے ساتھ حاضر رہتیں، اُس کا خیال رکھتیں اور مجھے بھی بتلاتیں کہ زچہ کے ساتھ کیا سہولتیں برتنی چاہئیں۔
حضرت چھوٹی آپا بہت صابر تھیں۔ ایک دفعہ آپ کافی علیل تھیں۔ مَیں بھی ہسپتال سے چھٹی پر تھی ۔ آپ خود میرے پاس تشریف لائیں، ساتھ ایک لڑکی تھی۔ فرمایا: ’’ایک مریضہ لائی ہوں اس کا علاج کرنا ہے۔‘‘ پھر اُس سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ ڈاکٹر صاحبہ کو بتاؤ کیا بیماری ہے۔ وہ خاموش رہی اورکہنا نہ مانا۔ چھوٹی آپا نے ہر چند پیار سے کہا۔ پر وہ لڑکی ٹس سے مس نہ ہوئی۔ میرا صبر ختم ہو رہا تھا غصہ بھی آرہا تھا۔ میں جزبز ہوتی رہی۔ بولیں: ہمارا فرض تھا کہ ہم کوشش کرکے اس کی تکلیف دُور کردیں، ہمیں زبردستی کرنا جائز نہیں۔
جب مَیں ربوہ گئی تھی تب میری شادی نہیں ہوئی تھی۔ ایک روز مَیں آپا منصورہ بیگم صاحبہ حرم حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کے پاس گئی تو حضورؒ بھی تشریف فرما تھے۔ حضورؒ نے فرمایا: ’’لیڈی ڈاکٹر صاحبہ کی شادی کروائیں۔‘‘ آپا منصورہ بیگم صاحبہ نے مجھ سے ساری تفصیل پوچھی اور فرمایا کہ ’’میں دعا کروں گی۔‘‘ پھر اس حوالے سے رابطہ میں رہیں یہاں تک کہ میری شادی میرے ماموں زاد مکرم منیر احمد ملک صاحب سے ہو گئی۔
حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کے بچوں کے ہاں سب بچوں کی پیدائش میرے ہاتھوں ہوئی اور بےشمار دعائیں سمیٹنے کا موقع ملا۔ ایک بار حضورؒ بی بی حلمی کے بچے کو دیکھنے تشریف لائے۔مَیں نے مبارکباد عرض کی تو ’’خیر مبارک‘‘ کہہ کر فرمایا: ’’منصورہ بیگم! لیڈی ڈاکٹر صاحبہ سخت تھکی ہوئی محسوس ہورہی ہیں۔‘‘ اور پھر جیب میں سے چاکلیٹس نکال کے سیدہ بیگم صاحبہ کو تھماتے ہوئے فرمایا: ’’یہ ان کو کھلاؤ۔‘‘
حضرت منصورہ بیگم صاحبہ کو مَیں نے ہروقت شاداب اور مسکراتا دیکھا۔ آپ کو کبھی بہت زیادہ تیار ہوتے اور سجتے ہوئے نہیںدیکھا۔ آپ کی شخصیت بہت پُروقار، سنجیدہ اور بردبارتھی۔ جب بھی میں قصرِ خلافت جاتی توموسم کے مطابق شربت یا چائے سے تواضع کرتیں۔ اگر صبح جلدی چلی جاتی تو ناشتہ تیار ملتا۔ پردے کی انتہائی پابند تھیں، باہر جانے کے لیے چشمہ، دستانے، جرابیں ہر وقت پہنتیں۔ ملازمین کے ساتھ مل کر صفائی کا تمام کام خود کرواتیں۔ حضورؒ کے تمام کام خود کرتیں نیز ہر جگہ ان کی معاونت بھی کرتیں۔