اداریہ: اعجازِ مسیحائی
(مطبوعہ رسالہ ’’انصارالدین‘‘ یوکے مارچ اپریل 2025ء)
ہر سال ’’یوم مسیح موعود‘‘ کی آمد کے ساتھ ہم احمدیوں کے اس ایمان و یقین کو تقویت حاصل ہونے لگتی ہے کہ تمام انبیائے کرام کی طرح سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کا اوّلین مقصد بنی نوع انسان کو اُس کے خالق حقیقی کی پہچان کرواکر تعلق باللہ کی لذّت سے شناسا کرنا تھا۔ آپؑ نے نہ صرف اپنے کلمات اور فرمودات کے ذریعے اپنی بعثت کے وہ مقاصد عالیہ بیان فرمائے جن کے حصول سے انسان اپنے ربّ سے زندہ تعلق قائم کرسکتا ہے بلکہ اپنے وجود باجود سے وہ اسوہ بھی پیش فرمایا جس پر قدم مارنے سے سلوک کی یہ راہیں استوار و آسان ہوتی چلی جاتی ہیں۔آپؑ کے انفاسِ مسیحائی سے ایسے بےشمار معجزات ظہور پذیر ہوئے جنہوں نے آپ کے دعویٰ پر مہرِ صداقت ثبت کردی۔
دراصل جب بھی خداتعالیٰ بنی نوع انسان کی ہدایت و راہنمائی کی خاطر اپنے کسی بندے کو مبعوث فرماتا ہے تو پھر وہ اُس فرستادے کے ساتھ اپنے اٹوٹ تعلق کی تائید میں ایسے خارق عادت نشانات ظاہر فرماتا ہے جو نہ صرف مخالفین کی ذلّت و شرمندگی کا موجب بنتے ہیں بلکہ مومنوں کے لیے تسکین، خوشی اور ازدیاد ایمان کا باعث بھی ہوتے ہیں۔ چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تعلق باللہ کے حوالے سے حضرت منشی محمد دین صاحب رضی اللہ عنہ بیان کیا کرتے تھے کہ جب پہلی بار وہ قادیان تشریف لائے تو سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام مسجد مبارک میں تشریف فرما تھے اورآپؑ کی مجلس میں نامور علماء اور بزرگ تشریف رکھتے تھے۔ منشی صاحبؓ حضورؑ کے کندھے دبانے لگے تو یہ خیال آیا کہ ’’محمد دین! کہاں تُو ایک دیہاتی اور معمولی پٹواری اور کہاں یہ اتنے بڑے باخدا عالم! مَیں اس محبوب وجودؑ کے علم و عرفان سے کہاں مستفید ہو سکتا ہوں!‘‘ یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے آپؓ پر عجیب کیفیت طاری ہوگئی۔ فرماتے ہیں:میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا ہی تھا کہ حضرت اقدس علیہ السلام نے سلسلہ کلام بند کرکے پلٹ کر میری طرف دیکھا اور فرمایا: ’’منشی صاحب! اِتَّقُوْا اللہَ وَ یُعَلِّمْکُمُ اللہُ‘‘ یعنی متقی بن جاؤ علم خود بخود ہی آ جائے گا۔
اعجازِمسیحائی کے جو واقعات آپؑ کی دعاؤں کی قبولیت کے نتیجے میں رونما ہوئے وہ آپؑ کے غلاموں کے ایمان و ایقان میں اضافے اور مخالفین کی ذلّت و رسوائی کے ساتھ ساتھ اُن میں سے سعید فطرت طالبانِ حق کی راہنمائی و ہدایت کا باعث بھی بنے۔ چنانچہ حضرت مولوی فتح الدین صاحبؓ دھرم کوٹی جو حضرت مسیح موعودؑ کے قدیم اور پرانے صحابہ میں سے تھے اور حضورؑ کے عشق میں ایسے رنگے ہوئے تھے کہ جس کا بیان مشکل ہے۔ اُن کے حوالے سے ایک واقعہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی کتاب ’’سیرت المہدی‘‘ میں یوں درج ہے کہ سائیں ابراہیم صاحبؓ آف دھرم کوٹ بگّہ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے ابتدائے دعویٰ میں دھرم کوٹ کے ہم پانچ کَس نے بیعت کی تھی یعنی خاکسار، مولوی فتح دین صاحبؓ، نورمحمد صاحبؓ، اللہ رکھا صاحبؓ اور شیخ نواب الدین صاحبؓ۔ اُس وقت رادھے خان پٹھان ساکن کروالیاں پٹھانان اچھا عابد شخص خیال کیا جاتا تھا۔ وہ دھرم کوٹ بگہ میں بھی آتا جاتا تھا اور مولوی فتح دین صاحب سے حضورؑ کے دعویٰ کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے سخت کلامی پر بھی اُتر آتا تھا۔ ایسے ہی ایک موقع پر 1900ء میں مولوی صاحبؓ نے اُسے توبہ اور استغفار کی تلقین کی کہ حضورؑ کی شان میں ایسی باتیں نہ کہو۔ لیکن اُس نے کہا کہ مَیں مباہلہ کرنے کو تیار ہوں۔ اس پر مولوی صاحبؓ بھی مباہلے کے لیے تیار ہوگئے اور مباہلہ وقوع میں آگیا۔ لیکن مباہلے کے بعد ہم احمدیوں نے آپس میں بات کی کہ حضرت صاحب کی اجازت کے بغیر مباہلہ کرنا ٹھیک نہیں تھا۔ پھر ہم پانچوں قادیان پہنچے اور نماز عشاء کے بعد حضورؑ کی خدمت میں سارا واقعہ عرض کرکے کہا کہ چالیس دن میعاد مقرر کی گئی ہے، حضور دعا فرمائیں۔ حضورؑ نے معاً فرمایا: کیا تم خدا کے ٹھیکیدار تھے؟ تم نے چالیس دن میعاد کیوں مقرر کی؟ یہ غلط طریق اختیار کیا گیا ہے۔ یہ بھی دریافت فرمایا کہ مباہلے کے لیے اپنے وجود کو پیش کیا ہے یا کہ ہمارے وجود کو؟ مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضور! اپنا وجود ہی پیش کیا ہے۔ حضورؑ نے فرمایا کہ ’’آئندہ یاد رکھو کہ مباہلے میں میرا وجود پیش کرنا چاہیے نہ کہ اپنا۔‘‘ اس کے بعد حضورؑ کچھ دیر خاموش رہے اور پھر فرمایا:’’مَیں دعا کرتا ہوں، آپ بھی شامل ہوجائیں۔‘‘
پھر نہایت رقّت بھرے الفاظ سے دعا شروع ہوئی۔ عشاء کے بعد سے لے کر تہجد کے وقت تک دعا ہوتی رہی۔ آخر دعا ختم ہوئی اور حضورؑ نے فرمایا:’’جاؤ، دعا قبول ہوگئی ہے اور خدا کے فضل سے تمہاری فتح ہے۔‘‘
پھر ہم واپس چل پڑے اور نماز فجر راستے میں پڑھی۔ واپس آکر بھی حضورؑ کی نصیحت کے مطابق دعائیں کرتے رہے۔ میعاد میں دس دن باقی رہ گئے تو رادھے خان نے آکر پھر سخت کلامی کی اور اپنے لوگوں کو ساتھ لے کر باہر جنگل میں دعا کرنے کے لیے چلاگیا۔ بعد میں اُس نے یہ بھی کہا کہ اُس کی دعا قبول ہوگئی ہے۔ یہ دعا کرنے کے بعد وہ واپس اپنے گاؤں کی طرف چلا تو راستے میں اُس کی پنڈلی کی ہڈّی پر چوٹ لگی جس کا زہر اُس کے جسم میں پھیل گیا اور چند دن میں ہی اُس کا جسم اتنا پھول گیا کہ چارپائی پر پورا نہ آتا تھا۔ مولوی صاحب اس کی بیماری کی حالت میں اُس کے پاس گئے اور ایک بار پھر توبہ و استغفار کی تلقین کی لیکن وہ متوجہ نہ ہوا اور میعاد ختم ہونے سے ایک دن پہلے واصل جہنم ہوا۔
ضمناً عرض ہے کہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں کہ مسنون طریق یہ ہے کہ مباہلے کے لیے ایک سال کی میعاد مقرر کی جائے اور اسی واسطے حضرت صاحب چالیس روز میعاد کے مقرر ہونے پر ناراض ہوئے ہوں گے۔ مگر خدا نے حضرت صاحب کی خاص دعا کی وجہ سے چالیس روز میں ہی مباہلے کا اثر دکھا دیا مگر یہ ایک استثنائی صورت ہے ورنہ عام حالات میں ایک سال سے کم میعاد نہیں ہونی چاہیے۔ آنحضرتﷺ نے بھی جب اہل نجران کو مباہلہ کے لیے بلایا تھا تو اپنی طرف سے ایک سال کی میعاد پیش کی تھی۔
اسی طرح تاریخ احمدیت میں یہ واقعہ بھی درج ہے کہ گورداسپور کے مجسٹریٹ چندولعل نے لیکھرام کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے حضورؑ سے بھری محفل میں سوال کیا کہ کیا آپؑ کو یہ الہام ہؤا ہے کہ جو آپؑ کی توہین کرنا چاہے گا، خدا اُس کو ذلیل و رسوا کردے گا؟ حضورؑ نے فرمایا: ہاں یہ میرا الہام ہے اور خدا کا کلام ہے اور خدا کا مجھ سے یہی وعدہ ہے۔ اُس نے کہا: اگر مَیں آپ کی ہتک کروں تو پھر؟ آپؑ نے اسی یقین کے ساتھ بلاتأمل فرمایا: خواہ کوئی کرے۔ اُس کے دو تین بار پوچھنے پر بھی یہی جواب دیا تو وہ مبہوت ہوکر رہ گیا اور پھر اس بارے میں کوئی بات نہیں کی۔
اسی طرح جب ایک بار ہپناٹزم کے ایک ماہر نے بھری مجلس میں حضورؑ سے کوئی نازیبا حرکت کروانا چاہی تو خدا تعالیٰ نے اپنے پیارے بندے کی حفاظت فرماتے ہوئے اُس کا عمل اُسی پر اُلٹادیا اور وہ خوف سے چیختا ہوا مسجد سے نکل بھاگا۔
حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:
سر سے لے کر پاؤں تک وہ یار مجھ میں ہے نہاں
اے مرے بدخواہ کرنا ہوش کر کے مجھ پہ وار
الغرض تاریخ احمدیت ایسے ہزاروں واقعات سے بھری پڑی ہے جو آج بھی دنیا کے ہر خطّے میں ظاہر ہورہے ہیں اور خداتعالیٰ کے خارق عادت نشانات ہم احمدیوں کے قلب و روح کو نورِ آسمانی سے روشن رکھے ہوئے ہیں۔ الحمدللہ علیٰ ذٰلک۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کو ماننے کے بعد آپؑ کی بیان فرمودہ تعلیمات و نصائح پر عمل پیراہوکر وہ مقام حاصل کرنے کی کوشش کی جائے جس کی امام وقت نے ہم سے توقعات فرمائی ہیں اور اپنے ربّ سے زندہ تعلق پیدا کرنے کے لیے اپنے آقا علیہ السلام کے نقوشِ پا کی پیروی کرنے کی کوشش کریں۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
