امام مہدیؑ کی صحبت سے تراشے ہوئے چند ہیرے

(ڈاکٹر مبارز احمد ربانی)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ کے حالات زندگی کو قلمبند کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ایک موقع پر احبابِ جماعت سے فرمایا : جس جس کو کوئی روایت پتہ لگے اس کو چاہیے کہ لکھ کر اخباروں میں چھپوائے، کتابوں میں چھپوائے۔ (روز نامہ الفضل 16 فروری 1956ء)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اسی حوالے سے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: صحابہ کرام کے حالات جماعت کے لیے روحانی زندگی کا باعث ہیں۔ دوستوں کو چاہیے کہ اس بارہ میں تساہل نہ کریں اور جس کسی کو بھی کسی صحابی کے حالات کا علم ہو وہ ضرور ان حالات کو لکھے، اپنے پاس بھی محفوظ رکھے۔ (اصحاب احمدجلد 12)
محترم سید میر داؤد احمد صاحب سابق پرنسپل جا معہ احمدیہ ربوہ نے صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی کے حالات کو محفوظ کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ایک موقع پر فرمایا تھا کہ صحابہ کرام ایک قومی سرمایہ اور حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت کے نشان ہیں۔ انھیں یکجا اور محفوظ کرنا ہر احمدی کا فرض ہے۔ (اصحاب احمدجلد 11)
مؤلف ’’اصحاب احمد‘‘ محترم ملک صلاح الدین صاحب ایم اے نے صحابہ کرام کے حالات کو محفوظ رکھنے کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئےتحریر فرمایا ہے کہ کسی صحابی کے متعلق خواہ ایک آدھ بات ہی معلوم ہو اس کو محفوظ کیا جائے۔ ایک ایک دو دو باتیں جمع ہو کر معلومات کا مفید مجموعہ تیار ہو جاتا ہے۔ اس زمانے کے گزر جانے پر ایک آدھ بات بھی دستیاب ہونی محال ہو گی۔ (اصحاب احمدجلد 1)
خاکسار کی یہ خوش قسمتی ہے کہ مجھے اپنے بچپن سے ہی اپنے بعض بزرگوں اور ایسے عزیزوں کی مجالس میں وقت گذارنے کا موقع ملتا چلا آ رہا ہے جنہوں نے صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ کے ذکر کی روشنی سے ان مجالس کو منور کیا۔ان بابرکت یادوں میں سے چند ہدیۂ قارئین ہیں۔


حضرت ملک عطاءاللہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ

حضرت ملک عطاءاللہ صاحبؓ ایک بہت دعا گو، تہجد گزار ، ایمان دار اور سخی انسان تھے۔ آپؓ اپنے نام کے ساتھ احمدی لفظ کا اضافہ کیا کرتے تھے یعنی ملک عطاءاللہ احمدی۔ آپؓ کو خلافت سے والہانہ عشق تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے انتخاب کے بعد مولوی محمد علی صاحب نے آپؓ کو خط کے ذریعے لاہوری جماعت میں شمولیت کی دعوت دی مگر آپؓ نے صاف انکار کر دیا۔آپؓ کے تعلق باللہ کا ایک واقعہ پیش خدمت ہے۔ آپؓ کے بیٹے ملک محبوب ربانی صاحب نشتر میڈیکل کالج میں داخلے کی غرض سے اپنے بڑے بھائی ملک بشارت ربانی صاحب کے ساتھ بذریعہ ٹرین گجرات سے ملتان سفر کر رہے تھے۔ رات کا وقت تھا۔ راستے میں گمبر کے مقام پر ٹرین کو بہت خوفناک حادثہ پیش آ یا۔ کانٹا غلط بدلنے کی وجہ سے مال گاڑی کے ساتھ ٹکرہو گئی۔ ٹرین میں آگ لگی ا ور ٹرین پچک کر رہ گئی۔ اس حادثہ میں بہت سے مسافر جاں بحق اور زخمی ہوئے۔ارد گرد کے علاقے کے جنگلی لوگ اس حادثہ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لوٹ مار کرنے وہاں پہنچ گئے۔ جب اس حادثے کی خبر گھر پہنچی تو آپؓ اور آپؓ کی اہلیہ محترمہ ام سلمٰی صاحبہ بہت فکرمند ہوئے۔ آپؓ نے اسی حالت میں نفل میں دعا مانگنی شروع کردی۔ سلام پھیر کر آواز دی : سلمٰی! سلمٰی! رونا نہیں میرے دونوں بچے بچ گئے ہیں اور ان کا سامان بھی محفوظ ہے۔ تھوڑی دیر میں بچوں کی طرف سے ٹیلیگرام بھی آگیا کہ ہم دونوں بھائی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بچ گئے ہیں۔
حضرت ملک صاحبؓ جوانی سے ہی لوگوں میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ آپؓ کی پرہیزگاری کا اتنا رعب تھا کہ گلی محلے سے گزرتے تو عورتیں سروں پر دوپٹہ لے لیتی تھیں۔ راستے سے گزرتے ہوئے لوگوں کی نظر آپؓ پر پڑتی تو اونچی آواز سے آپؓ کو سلام کرتے۔ آپؓ بہت زبردست تیراک تھے۔ دریا کے درمیان میں آلتی پالتی مار کر بیٹھ جاتے تھے اور صرف پاؤ ں کے پنجوں کو حرکت دیتے رہتے تھے۔ فوج میں ملازمت کرنے کی وجہ سے آپؓ ایک مضبوط جسم کے مالک تھے۔ آپؓ کا معمول تھا کہ ہر صبح پانچ ، چھ میل سیر کرتے تھے۔موسم سرما میں بھی سیر کے لیے نکل جاتے تھے۔ آپؓ کی اہلیہ آپؓ کو اگر کہتیں کہ سردی میں باہر سیر کے لیے نہ جایا کریں تو آپؓ کہتے کوئی بات نہیں میں فوجی آدمی ہوں، مجھے عادت ہے۔ زندگی بھر مختلف کھیلوں کے مقابلوں میں حصہ لیتے اور انعامات جیت کر لاتے رہے۔ اسی طرح فوجی ملازمت کے دوران مختلف فوجی اعزازات وصول کیے۔ ایمانداری اس درجہ کی تھی کہ آپؓ کے انگریز فوجی ساتھی آپؓ سے گھبراتے تھے کہ کہیں ہماری شکایت حکومت کو نہ کر دیں۔
حضرت ملک صاحبؓ روزہ افطار کرنے کے لیے گھڑی کا استعمال نہیں کرتے تھے بلکہ سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق سورج کی شفق دیکھ کر روزہ افطار کرتے تھے۔بچوں کو کہا ہؤا تھا کہ سیدھے سکول جانا ہے اور سیدھے گھر واپس آنا ہے۔ آپؓ کے پاس آپؓ کے ایک غیر از جماعت عزیز محترم غلام سرور رضا صاحب رہا کرتے تھے۔ آپؓ کا ان سے کوئی خونی رشتہ نہیں تھا۔ ان کے والدین بچپن میں ہی وفات پا چکے تھے۔ وہ جب حضرت ملک عطاءاللہ صاحبؓ کے ساتھ ملتے تو احمدیت پر خوب بحث کیا کرتے تھے۔ لیکن جب حضرت ملک عطاءاللہ صاحبؓ کی وفات ہوئی تو معاً بعد انہوں نے بیعت کرلی۔ جب اُن سے پوچھا گیا کہ آپ نے اس طرح اچانک بیعت کیسے کرلی ؟ تو انہوں نے مسکرا کر جواب دیا کہ مَیں ملک صاحبؓ کے ساتھ خوب بحث کیا کرتا تھا لیکن ایک بار دیکھا کہ وہ گھر کے پچھلے کمرہ میں خوب رو رو کر دعائیں کر رہے تھے۔ اس کا مجھ پر بڑا اثر ہوا کہ ایسا شخص جھوٹا نہیں ہو سکتا۔ اُن کی وفات کے بعد وہ واقعہ شدّت سے یاد آیا اور اسی لیے بیعت کرلی۔
محترم غلام سرور رضا صاحب بعدازاں خدا تعالیٰ کے فضل سے وصیت کے بابرکت نظام میں شامل ہوئے اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں آپ کی تدفین ہوئی۔

حضرت ڈاکٹر اعظم علی خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ

آپؓ بہت مخلص ، دعا گو ، تہجد گزار اور مالی قربانی کرنے والے تھے۔ ہر وقت مسکراتے رہتے اور کم گو تھے۔ مسجد میں بڑے وقار سے بیٹھتے اور دھیمی آواز میں بات کرتے۔ پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر تھے۔ آپؓ نے ریٹا ئرمنٹ کے بعد گجرات شہر میں پریکٹس شروع کی۔ اللہ تعالیٰ نے آپؓ کے ہاتھ میں بڑی شفا رکھی تھی۔ دور دور سے لوگ آپؓ سے علاج کروانے آتے۔ آپؓ کے ایک کمپوڈر، جن کا نام مسعود تھا، نے بتایا کہ حضرت ڈاکٹر صاحبؓ نے میرے ساتھ ایک سلسلہ بنا رکھا تھا کہ اگر کسی مریض کا کوئی مرض سمجھ نہیں آتا تھا تو آپؓ دوائی کے نسخہ پر ’’ایکوا ‘‘ لکھ دیتے (جس کا مطلب ہے ’خالص پانی‘)۔ مسعود صاحب نے بتایا کہ میں نسخہ پر یہ لفظ لکھا ہوا دیکھتا تو ڈسٹل واٹر بوتل میں بھر کر دے دیتا تھا۔ حضرت ڈاکٹر صاحبؓ خود مریض کو سمجھاتے کہ اسے کیسے استعمال کرنا ہے۔ مریض کو پتہ ہی نہیں ہوتا تھا کہ بوتل کے اندر صرف سادہ پانی ہے۔ وہ اسے دوائی سمجھ کر لے جاتا تھا۔ لیکن اصل میں آپؓ بوتل پر سورہ فاتحہ اور درود شریف پڑھ کر پھونک دیتے اور پھر خدا تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے عرض کرتے کہ یا اللہ! میری قابلیت اور لیاقت جواب دے گئی ہے۔مجھے سمجھ نہیں آ رہی اس لیے میں اس معاملے کو تجھ پر چھوڑتا ہوں۔ تُو نے ہی شفا دینی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے لوگ شفایاب ہو جاتے تھے۔

حضرت مولانا محمد حسین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ (المعروف سبز پگڑی والے)

حضرت مولوی محمد حسین صاحبؓ

حضرت مولانا محمد حسین صاحبؓ ایک بزرگ اور دعا گو انسان تھے۔ ایک مرتبہ آپؓ گجرات شہر کی پرانی احمدیہ مسجد میں تشریف لائے اور احباب جماعت سے خطاب کیا۔ خطاب کے دوران آپؓ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت پر روشنی ڈالی اور اپنے ساتھ پیش آنے والے کچھ واقعات بھی سنائے۔ان میں سے ایک دلچسپ واقعہ کچھ یوں تھا۔
آپؓ نے فرمایا کہ میں اپنے والدین کے ساتھ قادیان آیا ہوا تھا۔ میری عمر چھوٹی ہی تھی۔ ایک روز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صندوق کی چابی گم ہو گئی۔ میرا خاندان چابیوں اور تالوں کو کھولنے کا ہنر جانتا تھا اس لیے صندوق کھولنے کے لیے مَیں آیا اور صندوق کھول دیا۔ حضور علیہ السلام بہت حیران ہوئے اور فرمایا کہ یہ بھی ایک علم ہے۔ پھر حضورؑ نے مجھے اس کام کا معاوضہ ادا کرنا چاہا مگر مَیں نے پس و پیش سے کام لیا اور کہا کہ حضور آپ صرف دعا ہی کر دیں۔ اس پر وہاں موجود کسی دوست نے کہا کہ پیسے بھی لے لو، دعا بھی ہوجائے گی۔ اور یوں مَیں نے پیسے لے لیے۔

حضرت مرزا محمد اکرم بیگ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ

حضرت مرزا محمد اکرم بیگ صاحبؓ کا تعلق ضلع گجرات کے ایک گاؤں جلال پور جٹاں سے تھا۔ آپؓ کے جدِّامجد مغل بادشاہ شاہ جہاں کی فوج میں
سپہ سالار رہ چکے تھے۔
حضرت مرزا صاحبؓ ایک دعا گو اور تہجد گزار انسان تھے۔ سب سے پیار کرنے والے اور خلافت کے ساتھ بہت گہرا تعلق رکھتے تھے۔ کوہا ٹ ہسپتال میں بطور کمپوڈر کام کرتے ہوئے ایک احمدی ڈاکٹر کی تبلیغ سے آپؓ نے احمدیت قبول کی تھی۔ پھر جب جلال پور جٹاں میں اپنے گھر چھٹی پر آئے تو جماعت احمدیہ کی کچھ کتب بھی اپنے ساتھ لے آئے۔ اپنے والد صاحب سے فرمایا کہ کیا آپ نے سنا ہے کہ امام مہدی نے دعویٰ کر دیا ہے؟ انھوں نے کہا کہ ہاں میں نے بھی سنا ہے۔ آپؓ نے پوچھا کہ کیا میں آپ کو مرزا صاحب کی کتابیں پڑھ کر سناؤں؟ انہوں نے کہا: سناؤ۔ آپؓ بتاتے تھے کہ آپؓ کی تبلیغ سے آپؓ کے والد صاحب کے علاوہ آپؓ کے دو بھائی مرزا حاکم بیگ صاحب اور مرزا عباس بیگ صاحب بھی احمدی ہوگئے۔ آپؓ کے دونوں بھائی بھی صحابہؓ میں شامل تھے۔
مغل برادری کو جب آپؓ کے بیعت کرنے کا پتہ چلا تو انھوں نے بائیکاٹ کرنے کی دھمکی دی۔ آپؓ نے بغیر کسی گھبراہٹ کے فرمایا: کر لو۔ اور پھر استقامت سے ہر مخالفت کا مقابلہ کیا۔
آپؓ کی اولاد زندہ نہیں رہتی تھی۔ چھوٹی عمر میں ہی وفات پاجاتی تھی۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام آخری مرتبہ سیالکوٹ تشریف لائے تو آپؓ کی بیٹی خورشید صاحبہ گود میں تھیں۔ آپؓ ان کو لے کر حضور ؑ کی خدمت میں حاضر ہوئےاور فرمایا کہ حضورؑ میرے لیے دعا کریں میرے بچے نہیں بچتے۔حضور ؑ نے دعا کر کے آپؓ کی بیٹی کو الٹا سیدھا کر کے ہاتھ پھیرا اور فرمایا: لو اکرم بیگ! اب نہیں مرے گی۔ اللہ تعالیٰ نے خورشید صاحبہ کو اپنے فضل سے لمبی زندگی عطا کی اور انھوں نے چار خلفاء کا زمانہ پایا۔
ایک دفعہ آپؓ گجرات شہر کی پرانی احمدیہ مسجد سے باہر نکلے تو مسجد کے قریب ایک چوراہے پر ایک کلیجی فروخت کرنے والے کی دکان پر گئے۔ اس نے آپؓ کے سامنے جماعت کے بارے میں کچھ نامناسب گفتگو کی۔یہ بات آپؓ سے برداشت نہ ہوئی۔ آپؓ ہاتھ میں چھڑی رکھا کرتے تھے۔ آپؓ نے اس کی طرف اپنی چھڑی سے اشارہ کرتے ہوئے غصے سے تین بار کہا کہ تم نے پاگل ہوکر مرنا ہے۔یہ کہہ کر آپؓ وہاں سے چل دیے۔ کچھ دن گزرنے کے بعد پتہ چلا کہ واقعی وہ شخص پاگل ہو گیا ہے۔
عمر کا آخری حصہ حضرت مرزا اکرم بیگ صاحبؓ نے اپنی بیٹی خورشید صاحبہ کے پاس گذارا اور کچھ عرصہ بیمار رہنے کے بعد 1950ء میں وفات پائی۔ آپؓ کی تدفین گجرات ہی میں ہوئی۔


حضرت مرزا خدا بخش صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ (المعروف مومن جی)

حضرت مرزا خدابخش صاحبؓ ایک بہت نیک، ایمان دار اور علم دوست انسان تھے۔آپؓ کا کمرہ قرآن پاک کے نسخوں ، تفاسیر نیز دیگر دینی کتب سے بھرا ہوتا تھا۔ آپؓ صاحب رؤیاو کشوف بھی تھے۔ چنانچہ ایک بار آپؓ نے کشف میں دیکھا کہ آپؓ کے لیے کھانا آیا ہے اور وہ اسے کھا رہے ہیں۔ کھانے میں زردہ اور دوسرے چاول بھی ہیں۔ جب وہ نظارہ ختم ہوا تو آپؓ نے محسوس کیا کہ آپؓ کی انگلیاں چکنی تھیں اور ان پر گھی لگا ہوا تھا۔

حضرت شیخ محمد شفیع صاحب لدھیانوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ

حضرت شیخ محمد شفیع صاحب لدھیانویؓ نے 1905 ء میں حضرت اقدس مسیح موعود السلام کی بیعت کا شرف حاصل کیا۔ آپؓ کی بیعت کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ لدھیانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بہت بڑے عالم ہونے اور دعویٰ کی خبریں پہنچ چکی تھیں۔ ایک روز آپؓ کو پتہ چلا کہ مرزا صاحب آج لدھیانہ میں جلسہ کے لیے تشریف لا رہے ہیں۔آپؓ بھی وہاں جلسہ سننے چلے گئے۔حضرت مسیح موعودؑ کا لیکچر کئی گھنٹوں پر مشتمل تھا۔ آپؓ حضورؑ کے لیکچر سے بہت متاثر ہوئے اور حضرت مسیح موعودؑ کی شخصیت آپؓ کے دل و دماغ پر اس قدر نقش ہو ئی کہ لیکچر ختم ہونے کے معاً بعد آپؓ حضورؑ کے پاس گئے اور فرمایا کہ میں بیعت کرکے آپؑ کی جماعت میں شامل ہونا چاہتا ہوں۔اس طرح آپؓ بیعت کر کے اسلام احمدیت میں داخل ہوگئے۔
حضرت شیخ صاحبؓ کی زندگی کا زیادہ تر حصہ بمبئی (ممبئی) میں گذرا جہاں آپؓ سائیکلیں اور سلائی مشین وغیرہ کی فروخت کا کاروبار کرتے تھے۔ انگلینڈ سے آپؓ مال منگوایا کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو بہت کشائش عطا فرمائی تھی۔ پاکستان کے قیام کا اعلان ہوا تو آپؓ کو خبر ملی کہ لدھیانہ میں حالات بہت خراب ہیں۔ آپؓ کو خیال آیا کہ میں لدھیانہ جاتا ہوں تا کہ باقی افراد خانہ کی حفاظت کر سکوں۔ چنانچہ آپؓ ٹرین کے ذریعے بمبئی سے لدھیانہ جا رہے تھے کہ راستے میں نہر کے قریب سکھوں نے ٹرین پر حملہ کر کے قتل عام کیا اور سارے مسافر شہید کردیے۔آپؓ کو بھی مُردہ سمجھ کر ٹرین سے باہر نہر کے قریب پھینک دیا گیا۔ ٹرین جب لدھیانہ کے اسٹیشن پر پہنچی تو آپؓ کے بڑے بیٹے محترم محمدصدیق صاحب آپؓ کو لینے اسٹیشن پر آئے ہوئے تھے لیکن ٹرین کی حالت دیکھ کر اور آپؓ کو ٹرین میں نہ پا کر انھیں نہر کا خیال آیا اور فوراً نہر کی طرف دوڑے۔وہاں شدید زخمی حالت میں آپؓ کو پایا تو اٹھا کر گھر لے آئے۔ مگر رات کو ہی آپؓ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اپنے مالک حقیقی سے جا ملے اور شہادت کا رُتبہ حاصل کیا۔ حالات کے پیش نظر راتوں رات آپؓ کی تدفین لدھیانہ میں کر دی گئی۔

حضرت شیخ الٰہی بخش ، حضرت شیخ رحیم بخش
اور حضرت شیخ عبدالغفور صاحبان رضوان اللہ علیہم

حضرت شیخ الٰہی بخش صاحبؓ بہت پُرجوش اور سرگرم عمل انسان تھے۔ آپؓ خدمت دینیہ کے علاوہ دنیاوی طور پر بھی خدمت خلق کے کاموں میں مصروف رہتے تھے۔ پيشے کے لحاظ سے آپؓ تاجر تھے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے کاروبار ميں بہت برکت تھی۔ ضلع گجرات ميں آپؓ کی سب سے بڑی پريس اور کتابوں کی مشہور دکان تھی۔ آپؓ مسجد میں بڑے وقار سے بیٹھتے اور دعاؤں میں مشغول رہتے۔ بہت تحمل سے بات کرتے تھے۔ اردو اور پنجابی کے علاوہ آپؓ عربی اور فارسی زبانیں بھی جانتے تھے۔ حضرت مسیح موعودؑ کے زمانے میں جب ہندوستان میں طاعون کی وبا پھوٹی تو اس نے گجرات شہر میں بھی کافی تباہی پھیلائی۔ لوگوں کی تکالیف دُور کرنے کے لیے آپؓ نے بھی اقدامات اٹھائے۔ اس سلسلہ میں آپؓ نے اور آپؓ کے بیٹے حضرت شیخ رحیم بخش صاحبؓ نے وائسرائے ہند کو ایک پٹیشن بھی جمع کروائی جس میں تحریر کیا کہ جس طرح انگلستان کے بادشاہ نے وائسرائے ہند کو ہندوستان میں پھیلی ہوئی طاعون کے خاتمے کے لیے اقدامات اٹھانے کی طرف توجہ دلائی ہے اورلوگوں کے لیے دلی ہمدردی بیان کی ہے اسی طرح ہم بھی وائسرائے ہند کو چند تجاویز پیش کرتے ہیں مثلاً چوہوں کا خاتمہ کیا جائے،لوگوں کی نقل مکانی کی جائے، بیماروں کو تندرست لوگوں سے الگ کیا جائے، صحت اور صفائی کے اصولوں پر عمل درآمد کروایا جائےاور لوگوں کو سختی سے ان قوانین پر عمل کرنے کی تلقین کی جائے۔پھر آپؓ وائسرائے ہند کے علم میں لائے کہ ہم نے اس سلسلہ میں دو پمفلٹ تیار کیے ہیں۔ ایک میں طاعون کے بارے میں آگاہی اور دوسرے میں نظافت کے بارے میں معلومات فراہم کی ہیں۔ہم ان پمفلٹس کو لوگوں میں مفت میں تقسیم کر رہے ہیں۔
حضرت شیخ عبدالغفور صاحبؓ حضرت شیخ رحیم بخش صاحبؓ کے بڑے بیٹے تھے۔ آپؓ بھی بڑے بزرگ، ہمدرد اور صائب الرائے انسان تھے۔ آپؓ نے اپنا خاندانی کاروبار جاری رکھا۔ ایک مجذوب (جس کو دنیا کی کوئی پروا نہیں ہوتی) اکثر آپؓ کی دکان پر آیا کرتا تھا۔لوگ اس کی بڑی عزت کرتے تھے۔ اس کو دیکھ کر لگتا تھا کہ اس کا خدا تعا لیٰ سے کوئی تعلق ہے۔ ایک بار جب آپؓ کی دکان پر آیا تو اس نے کندھے پر ایک چھڑی رکھی ہوئی تھی جس پر کپڑے لٹکائے ہوئے تھے۔ اس وقت بعض غیر از جماعت افراد کے ساتھ آپؓ کی مذہبی بحث ہو رہی تھی۔آپؓ نے اس مجذوب سے کہا کہ یہ لوگ مسیح موعودؑ کو کافر دجال کہہ رہے ہیں۔ اس پر اُس نے اپنی چھڑی سے ان غیر از جماعت لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: جہنمی، جہنمی، جہنمی۔ آپؓ نے جب اس واقعہ کی تفصیل حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں لکھی تو حضورؓ نے فرمایا کہ ان لوگوں سے لکھوا کر شہادت لے لیں کہ اس مجذوب نے یہ بات کہی ہے۔ لیکن آپؓ نے جب لوگوں سے کہا تو انہوں نے شہادت دینے سے انکار کر دیا۔
اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان ہیروں کی روشنی رہتی دنیا تک جگمگائے اور اللہ تعالیٰ ان کو اپنے قرب میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین

امام مہدیؑ کی صحبت سے تراشے ہوئے چند ہیرے” ایک تبصرہ

  1. ماشاءاللہ بہت اچھا مضمون تھا، اللہ تعالیٰ صحابہ کو اعلیٰ مقام دے جنت میں اور ہمیں بھی ان جیسا بنائے امین

اپنا تبصرہ بھیجیں