انسانی جان کی حرمت

ماہنامہ ’’تحریک جدید‘‘ ربوہ جولائی 2009ء میں انسانی جان کی حرمت کے حوالہ سے مکرم ایچ۔ایم طارق صاحب کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے جس میں خودکُش حملہ آوروں کے اس دعویٰ کو ردّ کیا گیا ہے کہ وہ جنت کے حصول کے لئے ایسا کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں (المائدہ:33، النساء:94) دوسروں کے قتل کی ممانعت کرتے ہوئے قاتل کو جہنم اور خوفناک عذاب سے ڈرایا ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک مسلمان کا خون اور مال دوسرے پر حرام قرار دیا ہے۔ اور یہ بھی فرمایا کہ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے انسان محفوظ رہیں۔ آنحضور ﷺ نے ایسے افراد کو جہنمی قرار دیا اور اُن کا جنازہ پڑھنے سے انکار کردیا جنہوں نے خودکُشی سے اپنی جان لی۔
19ویں صدی میں فرانس میں بعض فلاسفروں اور ادیبوں نے قرار دیا کہ زندگی بے معنی اور بے مقصد ہے اور اس بات کا پرچار کیا کہ انسان کو خودکُشی کرلینی چاہئے چنانچہ کئی لوگوں نے اُن کی بات مان لی۔ جاپان میں آج بھی اس کا رواج ہے۔ مغرب میں Mercy Killing کے نام پر ایسے مریض خودکُشی کرلیتے ہیں جو اپنے آپ کو لاعلاج تصور کرتے ہیں۔ ہالینڈ میں 1983ء میں اسے قانونی طور پر جائز قرار دیا گیا تھا چنانچہ جن مغربی ممالک میں اس کی ممانعت ہے وہاں سے لوگ ہالینڈ جاکر خودکُشی کروالیتے ہیں۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے لوگو! اپنے آپ کو قتل نہ کرو، یقینا اللہ تم پر بہت رحم کرنے والا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی کسی تکلیف کی وجہ سے اپنی موت کی تمنا نہ کرے اور اگر اُسے ایسا کرنا ہی ہو تو یہ دعا کرے کہ اللہ! مجھے زندگی دے جب تک میرے لئے زندگی بہتر ہے یا مجھے وفات دے اگر میرے لئے وفات بہتر ہے۔
ماضی قریب میں دہشت گردی کا آغاز یہود نے کیا تھا جب وہ فلسطین پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔ تاہم اب مسلمانوں نے یہ الزام خود پر لے لیا ہے۔ حالانکہ حدیث ہے کہ جس نے کسی بھی چیز سے اپنے آپ کو قتل کیا اُسے جہنم کی آگ میں عذاب دیا جائے گا۔ ایک بار رسول کریمﷺ نے گزشتہ اقوام میں سے ایک شخص کا واقعہ بیان کیا جو زخمی ہوگیا تھا۔ اُس نے چھری سے زخمی ہاتھ کاٹ ڈالا اور خون اتنا بہا کہ وہ مر گیا۔ اللہ نے فرمایا کہ میرے بندہ نے اپنی جان کے بارہ میں جلدی کی۔ مَیں نے اس پر جنت حرام کردی۔
حضرت مسیح موعودؑ نے بھی ’’گورنمنٹ انگریزی اور جہاد‘‘ میں دہشت گردانہ حملوں کو صریح بے رحمی اور انسانی اقدار کے برخلاف قرار دیا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں