انٹرویو: عطاء الوہاب احمد رائبانسکی آف پولینڈ
خدام الاحمدیہ برطانیہ کے سہ ماہی ’’طارق‘‘ 2009ء میں پولینڈ سے تعلق رکھنے والے ایک نواحمدی خادم کا انٹرویو شامل اشاعت ہے۔
آپ بیان کرتے ہیں کہ میرا نام عطاء الوہاب احمد رائبانسکی ہے۔ یہ نام مجھے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا تھا۔ میں 9؍اکتوبر 1980ء کو وارسا (پولینڈ) میں پیدا ہوا۔ A-level کرنے کے بعد میں نے قریباً ہر قسم کا پیشہ اپنایا اور شراب خانہ سے لے کر ڈیکوریٹر، پروموٹر، سٹیج ٹیکنیشن، لائٹ انجینئر، ساؤنڈ ٹیکنیشن، مزدوری وغیرہ ہر طرح سے آمدنی پیدا کرنے کی کوشش کی۔ پھر میں اپنا مستقبل سنوارنے کے لئے یکم ستمبر 2006ء کو بریڈ فورڈ (برطانیہ) آگیا۔
اپنی جوانی کے ایام سے 2006ء تک مَیں دہریہ خیالات رکھتا تھا لیکن روحانیت اور مذہب کے بارہ میں جاننا ضرور چاہتا تھا۔ پولینڈ میں مسلمانوں کی کم تعداد اور اسلام کے بارہ میں مغربی میڈیا اور مؤرخین پر بھروسہ نہ ہونے کی وجہ سے برطانیہ آکر میری کوشش تھی کہ اسلام کے بارہ میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کروں۔ میں جانتا تھا کہ مجھے کسی مذہب کو رومن کیتھولزم کی آنکھ سے نہیں دیکھنا چاہئے، جو کہ پولینڈ میں سب سے زیادہ مقبول عیسائی فرقہ ہے۔ جب مَیں نے اسلام کے بارہ میں ایک صوفی ادریس شاہ کی کتاب “Caravan of Dreams”پڑھی تو مجھے یقین ہوگیا کہ اسلام ایک کثیر الاشکال اور بھرپور مذہب ہے جس کی روحانیت اس کی معاشرت سے زیادہ طاقتور ہے۔اور کئی بار غور کرنے کے بعد میں اسی نتیجہ پر پہنچا تھا کہ اگر خدا موجود ہے تو پھر اسلام ہی کے ذریعہ اُس کی عبادت کی جاسکتی ہے۔
بریڈ فورڈ میں مکرم عبداللطیف صاحب سے میرے دوستانہ تعلقات قائم ہوگئے کیونکہ مَیں اُن کے بیٹے کے ساتھ کام کرتا ہوں۔ اُن کے ذریعہ سے میں اسلام، احمدیت اور حضرت مسیح موعودؑ سے متعارف ہوا۔ 2007ء میں ریجنل مبلغ مکرم نسیم باجوہ صاحب کے ساتھ لمبی بات چیت کے بعد مَیں اس نتیجہ پر پہنچ گیا کہ مَیں دل سے احمدی ہوچکا ہوں۔ اس سوچ کے ساتھ میں نے اپنی زندگی کو بدلنا شروع کردیا۔ لیکن بیعت فارم پُر کرنے کا فیصلہ نومبر 2008ء میں کیا۔
احمدیت کی طرف سفر کا آغاز کرنے کے بعد مَیں اکثر احمدیوں کے قریب رہا اور اس بات کا مشاہدہ کیا کہ وہ اپنے عقائد پر بہت ثابت قدم تھے، اس لئے میں نے اُن سے بہت کچھ سیکھا۔ احمدی ہونے کے نتیجہ میں مَیں نے وہ چیز حاصل کرلی، جس کی تلاش میں غیرمسلم اور غیر احمدی اپنی پوری زندگیاں صرف کر دیتے ہیں اور وہ ہے مقصدحیات کاادراک اور دوسروں کے ساتھ ایک نادر رشتہ میں منسلک ہونا۔ تاہم روحانیت کا سفر ایک جاری سفر ہے جس میں ہم مسلسل سیکھتے ہیں۔
مجھے جماعت میں شامل ہونے میں کچھ عرصہ لگا جس کی وجہ سے مجھے یہ موقعہ میسر آیا کہ احمدی ہونے سے پہلے مَیں کچھ احمدی احباب سے مل سکوں اور انہی تعلقات کی بنیاد پر یہ مرحلہ بہت ہی آسان ہوگیا۔ حقیقت یہ ہے کہ احمدی بہت ہی خوش خلق لوگ ہیں جس کی وجہ سے کسی کو ان کے ساتھ شامل ہونے میں دشواری پیش نہیں آسکتی۔ میری والدہ نے بھی میرے احمدی ہونے پر خوشی کا اظہار کیا اور دوستوں نے بھی کوئی منفی ردّعمل نہیں دکھایا اس لئے مجھے اُن مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا جو عام طور پر احمدیت قبول کرنے والوں کو پیش آتی ہیں۔