اُسوۂ رسولﷺ تربیتِ اولاد کی رُو سے

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 30 اکتوبر2020ء)

ماہنامہ ’’مشکوٰۃ‘‘ قادیان جون، جولائی 2012ء میں مکرم مولوی سفیر احمد شمیم صاحب نے تربیتِ اولاد کی رُو سے رسول اکرمﷺ کی سیرت پر روشنی ڈالی ہے۔
حدیث میں آتا ہے کہ بیوی کا انتخاب چار باتوں کی وجہ سے کیا جاتا ہے یعنی مال، حسب و نسب، حسن و جمال یا دین اور اخلاق۔ پھر فرمایا کہ اخلاق اور دین کو مقدّم رکھو ورنہ نقصان اٹھاؤگے۔ اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ ماں کا اثر اولاد کی پیدائش سے بھی پہلے شروع ہوجاتا ہے گویا تربیت کا سلسلہ بھی تب سے ہی شروع ہوجائے گا۔ اسلام نے پیدائش کے بعد تربیت کا آغاز بچے کے دائیں کان میں اذان اور بائیں میں اقامت سے شروع کیا۔
پھر بچپن کا زمانہ بھی ماں کے ساتھ ہی گزرتا ہے اور اُسی سے متأثر ہوتا ہے۔ اگر ماں چاہے تو بچے کو جنّت کی طرف رہنمائی کردے گویا جنّت ماں کے قدموں کے نیچے ہے۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ مَیں ہزاروں گھروں کے حالات کا مطالعہ کرکے اسی نتیجے پر پہنچا کہ اگر بچوں کی ماں نیک ہو اور تربیت کا تھوڑا بہت بھی مادہ رکھتی ہو تو علیٰ قدر مراتب ایسی ماں کے اسّی فیصد بچے نیک نکلتے ہیں سوائے اس کے کہ بڑے ہوکر باہر کی صحبت سے خراب ہوجائیں۔
رسول کریمﷺ تربیت کی خاطر بچوں کو کبھی سزا نہ دیتے بلکہ بڑی محبت اور پیار کے ساتھ تربیت کرتے اور ان کے لیے دعا کرتے۔ فرمایا کرتے کہ

اَکْرِمُوْا اَوْلَادَکُمْ

یعنی اپنی اولاد کی عزت کیا کرو۔ کیونکہ اگر کسی غلطی پر بھی محبت سے سمجھانے کی بجائے مارا یا ڈانٹا جائے تو آئندہ وہی غلطی ہوجانے پر بچہ سچ کا دامن چھوڑ دے گا اور جھوٹ بول دے گا۔ حضرت فاطمہؓ جب آپؐ کے پاس آتیں تو آپؐ کھڑے ہوجاتے، اپنی جگہ اُن کو بٹھاتے اور بڑے پیار سے پیش آتے۔
آنحضورﷺ بچوں کے ساتھ باتیں کرتے، کھیلتے، اُن کی دوڑیں لگواتے اور جیتنے والے کو انعام دیتے۔ کھیل کھیل میں اُن کی تربیت کرتے۔ چھوٹے بچے آپؐ کے کندھے پر چڑھتے، گود میں بیٹھتے۔ آپؐ بچوں کو ساتھ بٹھاکر کھانا کھلاتے تو بھی اُن کو کھانے کے آداب سکھاتے۔ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے آپؐ سے زیادہ بچوں سے محبت کرنے والا نہیں دیکھا۔
آنحضورﷺ ہمیشہ بچوں کو پہلے سلام کرنے کی کوشش کرتے۔ اس نمونے کی وجہ سے بعد میں بچے بھی آپؐ کو سلام کرنے میں پہل کرنے لگتے۔
حدیث ہے کہ بچہ سات برس کا ہوجائے تو اُس کو نماز پڑھنے کی تلقین کرو، جب دس سال کا ہوجائے اور نماز سے بے رغبتی دکھائے تو ہلکی پھلکی سزا بھی دو۔ کیونکہ جو بچہ خدا سے جُڑ جائے گا وہ دنیا میں کبھی ناکام نہیں ہوگا۔ اور نیک اولاد کو پیچھے چھوڑنے والا صدقہ جاریہ کا مستحق ہوجاتا ہے۔
آنحضورﷺ بچوں کی تربیت کے لیے حُسنِ سلوک کے ساتھ انصاف کا معاملہ بھی رکھتے۔ ایک بار جب آپؐ حضرت فاطمہؓ کے ہاں گئے ہوئے تھے تو حضرت حسینؓ نے کچھ پینے کے لیے مانگا۔ آپؐ نے ایک بکری کا دودھ دوہنا شروع کیا جس کا دودھ پہلے ہی دوہا جاچکا تھا۔ جب دودھ دوہ لیا تو حضرت حسنؓ بھی آپؐ کے پاس آگئے۔ لیکن آپؐ نے اُن کو پیچھے ہٹاکر دودھ حضرت حسینؓ کو دے دیا۔ حضرت فاطمہؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! یہ آپ کا زیادہ عزیز ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ پہلے اس نے مانگا تھا۔
ایک مرتبہ آنحضورﷺ کے دائیں جانب ایک بچہ اور بائیں جانب حضرت ابوبکرؓ تشریف فرما تھے۔ کسی صحابی نے کوئی مشروب پیش کیا تو آپؐ نے کچھ نوش فرمانے کے بعد اُس بچے سے دریافت فرمایا کہ کیا مَیں تم سے پہلے حضرت ابوبکرؓ کو یہ گلاس دے دوں؟ بچے نے کہا کہ اگر رسول اللہ کا حکم نہ ہو تو مَیں آپؐ کے تبرک پر کسی کو ترجیح نہیں دوں گا۔ چنانچہ آپؐ نے گلاس بچے کو دے دیا۔
ایک حدیث میں ہے کہ اگر کوئی دو بچیوں کی اچھی تربیت کرکے ان کی شادی کرے تو وہ اپنے اس فعل کے ذریعے جنت کا وارث ہوجاتا ہے۔
اولاد کی تربیت کا ایک بہترین ذریعہ دعا ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ بچوں کو مارنا شرک میں داخل ہے۔ گویا بدمزاج مارنے والا ہدایت اور ربوبیت میں اپنے تئیں حصہ دار بنانا چاہتا ہے۔ جس طرح اور جس قدر سزا دی جاتی ہے کاش! دعا میں لگ جائیں اور بچوں کے لیے خاص سوز دل سے دعا کرنے کو اپنا دستور بنالیں۔ اس لیے کہ والدین کی دعا کو بچوں کے حق میں خاص قبول بخشا گیا ہے۔
حضور علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا کہ جب تک اولاد کی خواہش اس غرض سے نہ ہو کہ وہ دیندار اور متقی ہو اور خداتعالیٰ کی فرمانبردار ہوکر اُس کے دین کی خادم بنے، بالکل فضول بلکہ معصیت اور گناہ ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص یہ کہے کہ مَیں صالح اور خداترس اور خادم دین اولاد کی خواہش کرتا ہوں تو اس کا کہنا بھی نرا ایک دعویٰ ہی ہوگا جب تک کہ وہ خود اپنی حالت میں ایک اصلاح نہ کرے۔
ایک بار حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ حضرت داؤد علیہ السلام کا قول ہے کہ مَیں بچہ تھا، جوان ہوا اور اب بوڑھا ہوگیا۔ مَیں نے متقی کو کبھی ایسی حالت میں نہیں دیکھا کہ اسے رزق کی مار ہو اور نہ اس کی اولاد کو ٹکڑے مانگتے دیکھا۔ اللہ تعالیٰ تو کئی پشت تک رعایت رکھتا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں