اُمِّ داؤد حضرت سیّدہ صالحہ بیگم صاحبہ

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 6؍نومبر 2023ء)

لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ برائے2013ء نمبر1 میں مکرمہ سیدہ حمیدہ بانو صاحبہ اورمکرمہ فرح کاہلوں صاحبہ کے قلم سے حضرت سیّدہ صالحہ بیگم صاحبہؓ کی سیرت شامل اشاعت ہے۔ آپؓ حضرت امّاں جانؓ کے بھائی حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ کی اہلیہ اوربزرگ صوفی حضرت احمد جان صاحب لدھیانویؓ کی پوتی، حضرت پیر منظور محمد صاحبؓ موجد ’’قاعدہ یسرناالقرآن‘‘ کی بیٹی تھیں۔

حضرت میر محمد اسحٰق صاحب

آپؓ 12؍جنوری 1897ء کو دارالمسیح قادیان میں پیدا ہوئیں تو آپؓ کا نام صالحہ جان رکھا گیا۔شادی اور اپنے بیٹے محترم سید میر داؤد احمد صاحب کی پیدائش کے بعد عرف عام میں چھوٹی ممانی جان یا اُمِّ داؤد کے نام سے پہچانی جاتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو چار بیٹیوں اور تین بیٹوں سے نوازا۔ تینوں بیٹوں کو زندگی وقف کرنے کی توفیق ملی۔

محترم میر داؤد احمد صاحب
محترم میر محمود احمد ناصر صاحب
محترم میر مسعود احمد صاحب حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ کے ہمراہ

آپؓ کی ابتدائی تعلیم حضرت مسیح موعودؑ کے زیر سایہ ہوئی پھر حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ سے شرف شاگردی بھی حاصل رہا۔ حضرت پیرصاحبؓ اپنی اس بیٹی کو قاعدہ پڑھاتے جا تے تھے اور مشہور زمانہ قاعدہ تصنیف کرتے جا تے تھے۔ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ بھی انہی ایّام میں حضرت پیر صاحبؓ سے پڑھا کرتی تھیں۔ 1906ء میں آپؓ کا نکاح بھی حضرت مسیح موعودؑ کے ایک رؤیا کے نتیجہ میں ہوا۔حضور اقدسؑ کے ارشاد پر حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ نے اعلانِ نکاح فرمایا۔ 1911ء میں آپؓ کی شادی کے موقع پر حضرت مصلح موعودؓ نے ایک نظم بھی تحریر فرما ئی ؎

میاں اسحٰق کی شادی ہوئی ہے آج اے لوگو
ہر اک منہ سے یہی آواز آتی ہے مبا رک ہو

حضرت سیّدہ صالحہ صاحبہؓ کوحضرت میر صاحبؓ جیسی جلیل القدر ہستی،علم دوست مُحَدِّث اورجیّد عالم کی رفاقت ملی، جنہوں نے ہمیشہ آپؓ کی مدد اور حوصلہ افزائی کی۔ ازدواجی ذمہ داریوں کی ادا ئیگی کے ساتھ ساتھ آپؓ حصول علم کے پاکیزہ نصب العین کے لیے جان و دل سے کوشاں رہیں۔ اکتساب علم کی خواہش کے علاوہ خزانہ ٔعلم کو بانٹنے اور تقسیم کرنے کا جذبہ قدرت نے آپؓ کی فطرت میں فراوانی سے ودیعت کیا تھا۔حضرت سیّدہ صالحہ صاحبہؓ کو حدیث و قرآن سیکھنے اور سکھانے کا عشق کی حد تک لگاؤ تھا۔
کم گو، متانت و بردباری کا پیکر تھیں لیکن خاموش طبع اور وقار کے باوجود مہذب مزاح کو پسند کرتیں اور لطف اٹھاتی تھیں۔ خدمت خلق کا انمول جذبہ بدرجۂ اتم آپؓ میں موجود تھا۔ مستحقین کی مدد خاموشی سے کرتیں۔ یتیم بچوں کی خدمت کا آپؓ کو خاص خیال رہتا۔ آپؓ کے ہر کام میں سلیقہ، باقاعدگی اور نفاست ہوتی تھی، پابندیٔ وقت ہمیشہ ملحوظ رہتی۔
1914ء کے جلسہ سالانہ میں خواتین نے پہلی بار تقاریر کیں۔ حضرت اُمِّ داؤد صاحبہؓ نے بھی اپنا مضمون سنایا۔ تقاریر کے علاوہ مضامین لکھنے اور عورتوں کی تدریس کا کوئی موقع ہاتھ سے جا نے نہ دیتی تھیں۔ 1922ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے لجنہ اماءاللہ کی بنیاد رکھی تو پہلی چودہ ممبرات میں ساتویں نمبر پر آپؓ کا نام ہے۔ پھر تاحیات لجنہ کی سرگرم اور فعّال عہدیدار رہیں۔ سالہاسال عورتوں کی منتظم جلسہ سالانہ کے طور پر ہزاروں عورتوں کے قیام وطعام کا انتظام آپؓ کے سپرد ہوتا۔ یہ خدمت تاوفات سرانجام دی۔
1924ء کی مجلس شوریٰ کی رپورٹ کے مطابق آپؓ کے پاس 10لڑکیاں اور عورتیں عربی، فارسی، صرف و نحو، قرآن کریم کا ترجمہ و تفسیر اور دیگر کئی مضامین پڑھ رہی تھیں۔ قرآن کریم سیکھنے اور دوسروں کو سکھانے کا بےحدشوق تھا۔ آپؓ کے قرآن مجید کے نسخے میں سادہ صفحات تھے جن پر نوٹس لکھتی رہتیں۔ رمضان میں مسجد اقصیٰ میں قرآن کریم کا درس باقاعدہ بڑی توجہ سے سنتیں اور نوٹس لیتی رہتیں۔بےشمار عورتوں اور بچیوں کو قرآن کریم ناظرہ اور باترجمہ پڑھایا۔
فارسی آپؓ کے والدین کی زبان تھی جو گھر میں بولی جاتی تھی۔ عربی زبان سیکھنے کے لیے آپؓ نے 1928ء میں مولوی کلاس کا امتحان دیا اور اوّل آئیں۔ دینی خدمات کے ساتھ ساتھ ازدواجی ذمہ داریوں کو بحسن وخوبی پورا کیا۔ تربیتِ اولاد کے اہم ترین فرض کو انتہائی کمال تک پہنچایا۔عہدے یا نام کی خواہش کبھی نہیں کی بلکہ درپردہ خاموشی سے خدمت کرکے راحت محسوس کرتی تھیں۔
1945ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی ہدایت کے مطابق لجنہ اماء اللہ مرکزیہ کی تشکیل کی گئی تو آپؓ نائب صدر مقرر ہوئیں اورتاحیات تمام فرائض کماحقہٗ ادا کیے۔
فروری1946ء کا الیکشن مسلمانوں کے لیے بہت اہم تھا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی خواہش تھی کہ ’’قادیان اور قرب و جوار کے دیہات میں کوئی بالغ عورت ایسی نہ ہو جو لکھنا پڑھنا نہ جانتی ہو اور ووٹ دینے سے محروم رہ جائے۔‘‘ اس کام کی نگران آپؓ مقرر ہوئیں۔ آپؓ نے بڑی محنت سے انتہائی کوشش کرکے اس کام کو انجام دیا۔ تھوڑے ہی عرصہ میں ہر عورت کو لکھنا پڑھنا، سو تک گنتی لکھنا اور اپنے دستخط کرنا سکھا دیا گیا۔ 8؍فروری 1946ء کے خطبہ جمعہ میں حضورؓ نے اس کام پر اظہار خوشنودی کرتے ہوئے فرمایا: ’’مردوں کے مقابلے میں عورتوں نے قربانی کا نہایت اعلیٰ نمونہ پیش کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں جو روح ہماری عورتوں نے دکھا ئی ہے اگر وہی روح ہمارے مردوں کے اندر کام کرنے لگ جائے تو ہمارا غلبہ سو سال پہلے آجائے۔ اگر مردوں میں بھی وہی دیوانگی اور وہی جنون پیدا ہوجائے جس کا عورتوں نے اس موقع پر مظاہرہ کیا ہے تو ہماری فتح کا دن بہت ہی قریب آجائے۔‘‘
تقسیم ملک کے بعد قادیان کی مہاجر ممبرات کی صدر حضرت سیّدہ اُمِّ داؤد صاحبہؓ تھیں۔ آپؓ نے ایسا بھرپور کام کیا کہ لجنہ اماءاللہ لاہور میں بھی بیداری کی لہر دوڑگئی۔
31؍مئی1950ء کو حضرت مصلح موعودؓ نے دفتر لجنہ اماءاللہ ربوہ کی عمارت کا سنگ بنیاد رکھا تو حضرت امّ المومنینؓ اور حضرت اُمّ ناصرؓ صدر لجنہ اماءاللہ کے بعد حضرت سیدہ اُمّ داؤدؓ نائب صدر نے اینٹیں رکھیں۔ حضرت سیّدہ امۃالحی صاحبہ حرم حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی یادگار ’’امۃالحی لائبریری‘‘ قائم کرنے کی تجویز بھی آپؓ کی ہی تھی۔
1951ء میں حضرت مصلح موعودؓ کی تحریک پر گردونواح کے علاقہ جات میں تبلیغی وفود بھیجنے کا پروگرام بنایا گیا۔ سیدہ اُمّ داؤد صاحبہؓ نے باوجود پیرانہ سالی اور کمزوریٔ صحت کے کئی وفود کی قیادت کی۔ مارچ 1952ء میں ایک وفد حضرت سیدہ اُمّ متین صاحبہ کی سرکردگی میں محترمہ فاطمہ جناح صاحبہ سے ملا اور اُن کی خدمت میں انگریزی ترجمہ قرآن پیش کیا گیا۔اس وفد میں سیدہ اُمّ داؤد صاحبہؓ بھی شامل تھیں۔


حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی اہلیہ حضرت امّاں جی صغریٰ بیگم صاحبہؓ آپؓ کی پھوپھو جان تھی۔ یہ تعلق بہت ہی گہری محبت لیے ہوئے تھا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے ساتھ بھی عقیدت وارادت درجۂ کمال کو پہنچی ہوئی تھی۔ منصب خلافت کے احترام و اطاعت کا لافانی جذبہ آپؓ کے دل میں موجزن تھا۔ حضرت اُمّ المومنین نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ کے ساتھ بہت محبت تھی۔ بیماری اور ضعیفی میں آپؓ نے حضرت امّاں جانؓ کی بہت خدمت کی اور اس بات کواپنے لیے باعث ِافتخار جانا۔ غرض آپؓ کے محاسن، اقا مت دین کے لیے آپؓ کی مساعی، احیائے دین کے سلسلہ میں آپؓ کی محنت و کوشش یاد رہنے والے کا رنامے ہیں۔
مکرمہ امۃالقیوم ناصرہ صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ قیام پاکستان کے بعد ہم ہجرت کرکے رتن باغ لاہور آگئے تو ایک دن حضرت اُمّ داؤد صاحبہؓ نے ہمیں بلاکر حضرت ابراہیمؑ کی دعائیں پڑھ کر سنائیں۔ نیز فرمایا کہ آج آپ سب نے ربوہ جانا ہے اور سارے راستہ یہ دعائیں پڑھتے ہوئے جانا ہے اور جب ربوہ کی حدود میں داخل ہوں تب بھی پڑھنی ہیں۔ چنانچہ ہم ٹرین میں روانہ ہوئے۔ ایک لمبے سفر کے بعد ٹرین رات کو ایک خالی جگہ ٹھہرگئی۔ کسی خادم نے بتایا کہ ربوہ آگیا ہےآپ سب اُتر آئیں۔ ہم نیچے اترگئے۔ نیچے خالی میدان تھا۔ نہ کوئی کمرہ تھا نہ کوئی روشنی تھی اور نہ ہی کسی اسٹیشن کا نشان تھا۔ ہاں چودھویں کے چاند کی سفید چاندنی چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی۔ گاڑی رخصت ہوئی اور ہم حیران پریشان کھڑے تھے کہ اچانک پیچھے سے حضرت مصلح موعودؓ کی آواز آئی۔ حیرانی سے مُڑکے دیکھا توحضور اقدسؓ خدام کے ساتھ بالکل پاس ہی کھڑے تھے۔ مَیں نے سلام کیا۔ حضورؓ نے پوچھا کہ آپ کا کونسا سامان ہے؟ سامان کیا تھا، تھوڑا بہت بستر وغیرہ تھے۔ میں نے بتایا تو حضورؓ نے خدام کو فرمایا: اٹھا لو۔ پھر ہمیں فرمایا کہ ان کے ساتھ ساتھ چلے جاؤ۔ تھوڑے سے فاصلہ پر ایک دروازے کے سامنے خدام نے سامان رکھ دیا۔ جب ہم اندر داخل ہوئے اور سلام کیا تو کسی جانی پہچانی آواز نے جواب دے کر پوچھا: سفر خیریت سے گزرا؟ چاند کی روشنی میں غور سے دیکھا تو وہی ہنستا مسکراتا ہوا پیارا سا چہرہ حضرت ممانی جانؓ، محترمہ آپا بشریٰ بیگم صاحبہ اور صاحبزادی امۃالنصیر صاحبہ ہمارا استقبال فرما رہی تھیں جن کو ہم اپنے خیال میں لاہور چھوڑ آئے تھے، وہ شاید موٹر میں ہم سے پہلے آگئی تھیں۔ ان کو دیکھ کر بےحد خوشی ہوئی۔ ساتھ چند لڑکیاں جو احمدنگر سے آئی تھیں کھڑی ہوئی تھیں۔انہوں نے دروازے سے ہمارا سامان اٹھالیا۔ آگے آگے حضرت ممانی جان تیز تیز قدم اٹھاکر چلتی ہوئی ہمیں ایک خالی کچی بیرک میں لے گئیں۔ سامان وہاں رکھواکر ہم سب کو فرمایا: آپ لوگ یہاں آرام کریں ابھی کھانا آتا ہے تو بھجواتی ہوں۔ ہم چٹائیوں پر لیٹ گئے۔ کافی رات گئے کھانا آیا۔ آپؓ خود ساتھ آئیں، سب کو کھانا تقسیم کیا اور ہمارے پاس بیٹھی رہیں۔ صبح پتہ چلا کہ یہ کھانا لنگرخانہ سے حضرت مصلح موعودؓ نے خود اپنے مبارک ہاتھوں سے تقسیم فرما کے بھجوایا تھا۔
حضرت ممانی جانؓ رات گئے تک وہاں رہیں اور دوسری صبح پھر تشریف لائیں۔ بڑے پیار سے ہم سب کو جلسہ پر ڈیوٹیاں دینے کی تحریک فرمائی اور فرمایا کہ اب آپ لوگوں نے جلسہ پر آنے والوں کی مہمان نوازی کرنی ہے۔ یہ ربوہ کا پہلا جلسہ سالانہ تھا جو 12؍اپریل 1948ء کو منعقد ہوا تھا۔ کچھ کچے کمرے تھے باقی مہمانوں کے لیے کیمپ نصب کیے گئے تھے۔

اس وقت دفتر لجنہ اماءاللہ کی بنیادیں کھودی گئی تھیں۔ خاکسار آپؓ کے ساتھ معائنہ کے لیے بھی جاتی تھی۔ آپؓ سب کی بہت زیادہ نگرانی فرماتیں۔ بعض اوقات رات کو معائنہ کے لیے چل پڑتیں۔ مَیں آپؓ کی کمزوری کو دیکھتی اور پھر آپؓ کی ہمت کو دیکھتی تو سخت حیران ہوتی کہ نہ جانے آپؓ کے اندر کونسی مقناطیسی قوت تھی جو آپؓ اتنا تیز چلتیں اور مجھے بھاگنا پڑتا۔ آپؓ رات کے اندھیرے میں ان بنیادوں کو پھلانگتی جاتیں۔ مجھے خوف آتا کہ کہیں پاؤں نہ پھسل جائے۔ آپؓ سب کمروں اور کیمپوں میں جاکر پوچھا کرتیں کہ کھانے یا کسی اَور چیز کی ضرورت تو نہیں؟ آپؓ وہیں ایک چھولداری میں رہتیں۔ سخت سردی ہوتی تھی۔ رات گئے تک جاگتیں اور صبح ہم سے پہلے اُٹھی ہوتیں۔ آپؓ کے ساتھ کام کرنے کا کچھ اَور ہی مزا تھا۔ آپؓ کے جذبہ کا دوسروں پر بھی اثر تھا۔ سب شوق اور لگن سے بھاگ بھاگ کر ڈیوٹیاں دیتے تھے۔ جلسہ کے اختتام سے ایک روز پہلے کسی نے شرارت سے کہا کہ ہم اتنے دنوں سے دال کھارہے ہیں آج تو کچھ اَور کھانے کو دل چاہتا ہے۔ ساتھ والی بیرک حضرت ممانی جانؓ کی قیام گاہ تھی۔ درمیان میں دیوار چھوٹی تھی ساری آواز اُدھر سنائی دے رہی تھی۔ آپؓ نے مجھے بلایا اور مسکراتے ہوئے پوچھا: کیا بات ہے؟ مَیں نے عرض کی: لڑکیاں ویسے ہی مذاق کررہی تھیں ہمیں تو دال اچھی لگتی ہے۔ آپؓ نے فرمایا: تم نے اتنے دن بتایا کیوں نہیں۔ کچھ اَور پکوادیتی۔ اچھا یہ اچار اور جام لے جاؤ۔ میرے انکار کے باوجود مجھے دونوں بوتلیں تھمادیں۔ دوسرے دن آپؓ نے سالن پکوا کر بھجوایا اور ساتھ ہی پوچھا: کسی اَور چیز کی ضرورت تو نہیں۔
حضرت ممانی جانؓ بہت زیادہ مستعدی سے ڈیوٹی انجام دیتیں اور ہم سب بھی سارا دن بھاگ بھاگ کر بڑے جوش و جذبہ سے کام کرتے۔ پاؤں زخمی ہوجاتے۔رات کو ہم پاؤں پہ سرسوں کاتیل لگاتے تھے۔ اگلی صبح پھر خوشی خوشی کام کررہے ہوتے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے جلسہ کے بعد ہم سب ڈیوٹی کرنے والوں سے ملاقات کی اور جلسہ کی تقریر میں اس بات پہ خوشی کا اظہار فرمایا کہ جولوگ مہمان تھے، وہی میزبان تھے۔
خاکسار اور آپؓ کی بیٹی آنسہ صاحبہ آپؓ سے قرآن مجید کا ترجمہ اور حدیث شریف پڑھتی تھیں۔ آپؓ کی صحت خراب تھی مگر پھر بھی باقاعدگی سے ہمیں پڑھاتی تھیں۔ ایک مرتبہ مسکراتے ہوئے فرمایا کہ جب مَیں شادی ہوکر آئی تو مَیں نے سوچا کہ اپنے سب کاموں کے لیے ایک ٹائم ٹیبل بنالیتی ہوں تاکہ ہر کام وقت مقررہ پر کروں۔ چنانچہ مَیں نے چارٹ بناکر اپنے کمرہ میں لٹکا دیا۔ایک دن ایک غریب خاتون آئی اور کہنے لگی بی بی میرے کپڑے سی دو۔ میں نے اس سے کہا کہ اچھا مَیں ابھی تمہیں بتاتی ہوں۔ مَیں نے کمرے میں جاکر اپنا چارٹ دیکھا تو اس میں کوئی وقت خالی نہ تھا۔ مَیں نے اس کو آکر کہا کہ میرے پاس کوئی وقت خالی نہیں مَیں تمہارے کپڑے نہیں سی سکتی۔ وہ بےچاری چلی گئی۔ بعد میں مجھے بہت افسوس ہوا کہ یہ مَیں نے اچھا نہیں کیا۔ غریب عورت تھی مجھے اس کے کپڑے سی دینے چاہیے تھے۔ مَیں نے جاکر وہ ٹائم ٹیبل پھاڑ دیا اور سوچا جب مَیں اس کے مطابق ایک نیکی کا کام بھی نہ کرسکوں تو مجھے کیا فائدہ۔ پھر اس کو بلوا کر اس کے کپڑے سی دیے۔
جوا نی میں ہی آپؓ سنگرینی کی بیماری میں مبتلا ہوگئی تھیں اس وجہ سے طبیعت اکثر کمزوررہتی تھی لیکن آپؓ نے اپنی خرابیٔ طبیعت کو اپنے اوپرغالب نہیں آنے دیا اور قوت ارادی کے ساتھ جس انہماک اور جس جانفشانی کا مظا ہرہ کرتیں دیکھنے وا لی ہر آنکھ آپؓ کی بلند ہمتی اور جماعت کے ساتھ محبت و خلوص پر حیران رہ جا تی۔ اس تکلیف سے آپؓ مکمل طور پر صحت یاب کبھی نہیں ہوئیں۔ ایک وقت آیا کہ خوراک کی نالی بند ہوگئی اور آپریشن کروانا پڑا۔انتہائی صبر سے وقت گزارا۔ دعاؤں میں مصروف رہتیں۔ قریباً آٹھ ماہ تک مسلسل بستر علالت پر رہیں اور 8؍ستمبر1953ء کو وفات پاگئیں۔ آپؓ موصیہ تھیں۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ سندھ میں تھے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے جنازہ پڑھایا اور بہشتی مقبرہ کی چاردیواری میں مدفون ہوئیں۔
ملک نذیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں: مَیں ان کے شفقت بھرے سلوک کی وجہ سے ہمیشہ ہی ان کو امی جان کہتا رہا ہوں ۔ جب میں قادیان حصول تعلیم کی غرض سے آیا اور علم کے ابتدائی مراحل طے کرتا ہوا جامعہ میں پہنچا تو جس ذات گرامی نے اپنے موہ لینے والے اخلاق اور حیرت انگیز علمی تفوق سے میرے دل کی گہرائیوں میں احترام کے غیرفانی نقوش چھوڑے وہ حضرت علامہ میر محمد اسحاق صاحبؓ تھے۔مجھے تو اس اعزاز پر بجا ناز ہے کہ مجھے آپ کے ہاں گھر کے فرد کی حیثیت سے نوازا گیا۔ اب بھی جب اس زمانہ کا تصور کرتا ہوں تو تشکّر وامتنان کے جذبات سے میرا روآں روآں ان کے تمام خاندان کے لیے دعاؤں اور عقیدت کے پھول نچھاور کرنے لگتا ہے۔ قادیان میں رمضان المبارک میں حضرت میر صاحبؓ کی ہدایت کے ماتحت مَیں مسجد اقصیٰ کے درس القرآن میں شریک ہوتا اور کاپی میں اس کے نوٹس لیتا۔ واپسی پر جب حضرت میر صاحبؓ کی خدمت میں حاضر ہوتا تو آپؓ مجھے مردانہ میں ایک طرف بٹھاکر پاس خود تشریف فرما ہوتے اور زنانہ کمرے کی کھڑکی کے پاس حضرت امی جانؓ قرآن لے کر بیٹھ جاتیں۔ مجھے فرماتے تم پڑھو۔ امی جان سنتی جاتیں کئی مقامات پر میری اصلاح فرماتیں اور بعض دفعہ تو ایسے عجیب اور اچھوتے نکات بیان فرماتیں کہ روحانی حظ حاصل ہوتا اور بےاختیار مرحبا کے الفاظ نکل جاتے اب تک میرے لوح قلب پر ان کے گہرے مطالعے اور علوم دینیہ کے عبور پر پائیدار نقوش مُرتسِم ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں