آسٹریلیا کے قدیم باشندے
(مطبوعہ رسالہ ’’انصارالدین‘‘ یوکے ستمبرواکتوبر2024ء)
آثار قدیمہ سے معلوم ہو تا ہے کہ آسٹریلیا میں انسان کم از کم پینسٹھ ہزار سال پہلے موجود تھا۔سوال یہ ہے کہ یہ لوگ کہاں سے آئے تھے؟ ایک نظریہ یہ ہے کہ ان لوگوں کے آباؤ اجداد ستر ہزار سال پہلے افریقہ سے نکلے۔ تاہم یہ افریقہ کے سیاہ فام لوگوں سے مختلف نظر آتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جینیاتی اعتبار سے ان کا نیگرو نسل کے لوگوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بہرحال یہ ایشیا سے ہوتے ہوئے بالآخر آسٹریلیا پہنچے۔ سمندروں اور دریاؤں کو یہ لوگ قدیم طرز کی کشتیوں میں بیٹھ کر پار کرتے تھے یا اس وقت پیدل عبور کرتے جب پانی کی سطح پایاب ہوتی۔ آسٹریلیا کے ان قدیم با شندوں اور پاپوانیوگنی (جو شمال میں واقع ہے) کے لوگوں کے مابین جینیاتی اور ثقافتی اشتراک پایا جاتا ہے۔ چنانچہ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ آسٹریلیا کے لوگ پاپوانیوگنی سے ہوتے ہوئے یہاں پہنچے تھے۔
یہ لوگ ہزاروں سال سے آسٹریلیا کے مختلف علاقوں میں آباد ہیں اور الگ الگ قوموں یا قبائل میں بٹے ہو ئے ہیں۔ ان کی زبانیں، ثقافتیں، عقائد اور رسوم و رواج مختلف ہیں۔ ایک شناخت نہ ہونے کے باعث ہی ان سب کا کبھی بھی کوئی ایک نام نہیں رکھا گیا۔ برطانیہ نے 1788ء میں آسٹریلیا کو اپنی نوآبادی بنانا شروع کیا اور ان قدیم باشندوں کو پہلی مرتبہ Australians Aboriginal کا نام دیا۔ یہ لاطینی زبان کا لفظ ہے جو اگر بڑے A کے ساتھ لکھا جائے تو اس سے مراد آسٹریلیا کے اوّلین اور قدیم باشندےہیں (اور اگر چھوٹے a سے لکھا ہو تو اس سے مراد کسی بھی ملک کے اصل باشندے ہیں۔) تاہم آسٹریلیا کے قدیم با شندوں کو یہ نام پسند نہیں ہے۔ بلکہ لفظ آسٹریلیا بھی قدیم لوگ استعمال نہیں کرتے تھے۔ وہ اپنے خطے کو صرف زمین کہا کرتے تھے۔ چنانچہ آسٹریلیا کے Midwestern حصہ میں وہ اپنی زمین کو عموماً اُتھورو (uthuru) کہتے ہیں جبکہ Murchison کے علاقے میں بارنا barna کہا جاتا ہے۔ اسی طرح دیگر بہت سے نام ہیں۔ یہاں یہ بھی قابل ذکر ہے کہ آسٹریلیا نام رومی سلطنت کے زمانے سے چلا آرہا ہے۔ یہ لا طینی زبان کے لفظ Australis سے مشتق ہے جس کے معنی جنوبی کے ہیں۔
قدیم باشندے ان نئے ناموں کو اس لیے ناپسند کرتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ نیا نام دینے کا مطلب یہ ہے کہ یورپ کے لوگوں کی یہاں آمد سے پہلے گویا ان کی کوئی تاریخ نہیں تھی ۔حالانکہ یورپ کے لوگوں کی نسبت آسٹریلیا کے ان لوگوں کی تاریخ بہت زیادہ پرانی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب ان کے لیے آسٹریلیا کے قدیم یا اوّلین با شندوں جیسے الفاظ استعمال کیے جانے لگے ہیں ۔
جہاں تک ان کی تعداد کا تعلق ہے تو اس وقت یہ 7 لا کھ 45 ہزار کے قریب ہیں۔ آسٹریلیا کی مجموعی آبادی 2کروڑ 42 لا کھ سے زائد ہے۔ اس لحاظ سے قدیم باشندوں کی تعداد مجموعی آبادی کا تین فیصد بنتی ہے۔ اگرچہ خود ان کا دعویٰ ہے کہ ہم پانچ فیصد ہیں۔
برطانوی استعمار کی آمد و اثرات
آسٹریلیا کے قدیم با شندے یورپی استعمار سے جس قدر بھی ناخوش ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی آمد سے ہی دنیا کو یہ علم ہوا کہ اس دوردراز علا قے میں بھی انسان بستے ہیں۔ برطانوی لوگوں کی آسٹریلیا میں آمد سے پہلے ایک ڈچ ملاح 1451ء میں یہاں آیا تھا۔ اسی طرح 1606ء میں سپین کاملاح Luis Vaez de Torres وہ پہلا یورپین ہے جو اُس آبنائے سے گزرا ہے جس کو آج اسی کے نام پرآبنائےٹورس کہتے ہیں۔ یہ شمال مشرقی آسٹریلیا اور پاپوانیوگنی کے درمیان ایک مشہور آبی گزرگاہ ہے۔ یہاں274 جزیرے موجود ہیں جن کے اصل اور قدیم با شندوں کو ٹورس سٹرئٹ آئی لینڈر کہا جا تا ہے۔ 1623ء میں ایک ڈچ ملاح نے ایک بحری سفر کیا جس کا مقصد ان مختلف علا قوں کا کھوج لگا نا ہی تھا۔ یہ آسٹریلیا کے قدیم لوگوں کے ساتھ پہلا رابطہ ہے جو ریکارڈ ہوا ہے۔ اور یہ آرنہیم ( Arnhem) میں ہوا ہے جو آسٹریلیا کے شمالی علاقے کے شمال میں ایک وسیع جنگلی علا قہ ہے جہاں دریا اور آبشاریں پائی جا تی ہیں۔ اب اسی علاقے میں آسٹریلیا کا ایک مشہور نیشل پارک بنایا گیا ہے۔ 1770ء میں کیپٹن جیمز کک نے آبنائے ٹورس میں واقع ایک جزیرے پر برطانوی پرچم لہرا کر سارے مشرقی ساحل پر قبضے کا دعویٰ کردیا۔ برطانیہ نے آسٹریلیا کو1788ء میں اپنی نوآبادی بنانا شروع کیا جب کیپٹن آرتھر فلپس اپنے بحری جہازوں کے بیڑے کے ساتھ وہاں پہنچا۔ اس کے ہمراہ ایک ہزار لوگ تھے جن میں سے تین چوتھائی لوگ سزایافتہ مجرم مرد و خواتین تھے جن کو برطانوی حکومت نے ایک نئی کالونی کی تلاش میں بھیجا تھا۔ آرتھر نے سڈنی میں برطانوی پرچم لہرا دیا۔ سڈنی آسٹریلیا کے جنوب مشرقی حصہ میں ساحل پر ایک آبادی تھی۔ اس وقت آسٹریلیا میں قدیم باشندوں کی آبادی کے متعلق اندازہ ہے کہ ساڑھے سات لاکھ سے کچھ زیادہ تھی۔ یورپ کے سفید فام لوگوں کی آمد آسٹریلیا کے اصل اور قدیم باشندوں کے لیے تباہ کن ثابت ہوئی۔ یہ لوگ اپنے ہمراہ تپ دق، چیچک اور خسرہ جیسی مہلک بیماریاں بھی لے کر آئے جن کے خلاف مقامی باشندوں میں قوّت مدافعت موجود نہیں تھی۔چنانچہ یہ بیماریاں ان لو گوں میں بھی پھیل گئیں۔ایک سال کے اندر اندر وہاں چیچک جیسی مہلک بیماری پھوٹ پڑی جس سے سڈنی کے علا قے میں قدیم باشندوں کی پچاس سے نوے فیصد آبادی موت کا شکار ہوگئی۔ اسی طرح برطانوی لوگوں نے پانی کے ذخائر اور زرخیز زمینوں پر قبضہ شروع کردیا اور مقامی لو گوں کو ان کے اپنے علاقوں سے نکال کر دوسرے علاقوں کی طرف دھکیلنا شروع کیا جس کے نتیجے میں یہ لوگ بھوک اور ننگ کا شکار ہوگئے اور ہزارہا اموات ہوئیں۔ بات یہ ہے کہ برطانوی لوگ شروع سے مقامی لوگوں کے متعلق یہ گہرا تاثر رکھتے تھے کہ یہ وحشی اور جنگلی لوگ ہیں۔ جیمز کک نے ان کو دیکھا تو اسے معلوم ہوا کہ ان لوگوں کا نہ تو کوئی لباس ہے، نہ رہنے کے لیے کوئی مستقل ٹھکانہ ہے، نہ کوئی حکومت ہے، نہ مذہب ہے، نہ یہ زراعت کرتے ہیں، نہ تجارت میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ جب ان کو بھوک لگتی ہے توجا نوروں کی طرح صرف کھانے کی تلاش کرتے ہیں۔ اس تاثر کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ برطانوی استعمار نے ان قدیم لوگوں کو اس قابل بھی نہ سمجھا کہ ان کے ساتھ کوئی معاہدہ کیا جا ئے۔
قدیم باشندوں نے نوآبادکاروں کے خلاف مزاحمت بھی کی جو عموماً گوریلا جنگ کی شکل میں ہوتی تھی۔ ان کے چھوٹے چھوٹے گروہ مسلح غیرملکیوں پر تیزی کے ساتھ حملہ کرکے بھاگ جاتے۔ اس وقت کے اخبارات و رسائل ان لوگوں کو خطرناک اور غدار قرار دیتے۔ یہاں تک کہ ان کے خلا ف مارشل لاء بھی نا فذ کر دیا گیا۔
1830ء میں ایک ملین ایکڑ زمین جزیرہ Van Diemen’s Land (جس کا دوسرا موجودہ نام تسمانیہ ہے جو آسٹریلیا کے جنوب مشرق میں ایک جزیرہ ہے) میں نوآباد کاروں کو دے دی گئی جو قدیم باشندوں کے لیے صدیوں سے ایک عمدہ شکارگاہ تھی۔ گورنرآرتھر نے جزیرہ کے قدیم باشندوں کو مشرق کی طرف دھکیلنے کی ناکام کوشش کی جس کے نتیجے میں ایک خون ریز جنگ شروع ہوئی جو آسٹریلیا کی تاریخ میں ہونے والی جنگوں میں سے ایک بدترین جنگ تھی اور اس کو ’’سیاہ جنگ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ جنگ جو بڑی حد تک ایک گوریلا جنگ تھی 1820ء سے 1832ء تک جاری رہی۔ اس میں چھ سو سے لے کر نو سو تک قدیم با شندے اور دو صد سے زائد یورپین ہلاک ہوئے۔آج یہ کوئی بڑی تعداد نہیں لگتی لیکن اس کی اہمیت یہ ہے کہ اس جنگ کے نتیجے میں جزیرہ تسمانیہ میں قدیم باشندوں کا نام و نشان قریباً مٹ گیا اور یہاں برطانیہ کا تسلّط پوری طرح سے قائم ہوگیا۔ آج بہت سے مؤرخ اس جنگ کو نسل کشی قرار دیتے ہیں۔
یورپ کے لوگ 1788ء میں آسٹریلیا پہنچے تھے۔ ان لوگوں نے آسٹریلیا کے اصل باشندوں کو غلام بنانا شروع کیا۔ چنانچہ غلامی تب سے اب تک کسی نہ کسی شکل میں آسٹریلیا میں موجود ہے۔ ان نوآبادکاروں نے باقاعدہ بہت سے اصل باشندوں کا قتل عام کیا۔ یہ ذکر گزر چکا ہے کہ بہت سے لوگ ان متعدی بیماریوں کا شکار ہو کر مرگئے جو یورپ کے لوگ اپنے ہمراہ لائے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ 1920ء تک ان کی تعداد صرف ساٹھ ہزار رہ گئی تھی۔ یہ ایک قابل ذکر بات ہے کہ 1980ء کی دہائی تک ان قدیم باشندوں کا ایک ایسا گروہ موجود تھا جو جھاڑیوں میں حیوانوں کی طرح زندگی گزارتے تھے اور ان کا متمدّن زندگی سے کوئی بھی تعلق نہ تھا۔
قدیم با شندوں کےمذہبی تصورات
آسٹریلیا کے اوّلین باشندوں میں خواب دیکھنا ایک منفرد مذہبی عقیدہ ہے۔ تاہم لفظ خواب کا مفہوم ان کے نزدیک اس لفظ کے عام مفہوم سے بہت مختلف ہے۔ ان کے نزدیک خواب سے مراد کئی امور ہیں۔ اس سے مراد ایک ایسی کائنات کا تصور ہے جو تبدیل نہیں ہورہی اس لیے وقت کی حدود سے ماورا ہے۔ تاہم یہ از خود نہیں ہے بلکہ اس کو تاریکی میں سے خدا نے پیدا کیا ہے۔ تاریکی کو اور خدا کو کس نے پیدا کیا ہے؟ یہ کوئی نہیں جا نتا۔ یہ ایک قابل ذکر بات ہے کہ تخلیق کا ئنات کی کہانی آسٹریلیا کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک بنیادی طور پر ایک ہی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ خدا نے روشنی کو بنایا اور تمام مخلوقات کے لیے ایک دائمی قانون وضع کیا۔ اس نے روحوں اور ہمارے ان آباؤ اجداد کو وجود بخشا جو خود تخلیق کار تھے۔ چونکہ کائنات اور قانون کبھی تبدیل نہیں ہوتے اس لیے یہ وقت سے ماورا ہیں جیسے خواب میں ہم وقت کی قید سے آزاد ہوتے ہیں۔
ایک معنوں میں خواب انسانی یادداشت سے بھی پہلے کا تخلیق کا دَور ہے جب ایسے وجود اس براعظم کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے تھے جو تمام نباتات، حیوانات اور انسانوں کو تخلیق کر رہے تھے۔ انسانی معاشروں کو قائم کر رہے تھے۔ انہیں زبانیں، قانون اور رسوم و رواج سکھا رہے تھے۔ ان میں سے بہت سے ایسے لوگ تھے جو بیک وقت انسانی اور حیوانی خواص کے حامل تھے۔ ان لوگوں نے ایک بے آب و گیاہ سرزمین کو نہایت سرسبز اور شاندار بنا دیا جس کی آج ہم سب تعریفیں کرتے ہیں۔
ان کے جسم اگرچہ اس مشقت کے نتیجے میں مر گئے لیکن ان کی روحیں آج بھی کرۂ ارض کے مظاہر میں باقی ہیں۔ آسٹریلیا کے قدیم باشندے یقین رکھتے ہیں کہ یہ زندگی عطا کرنے والے اور زندگی کو قائم رکھنے والے وجود آج بھی اہم مقامات پر موجود ہیں اور ہم پر نگران ہیں اگرچہ ہمارے کاموں میں وہ براہ راست مداخلت نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہماری ثقافت کی بنیاد دراصل ایک قسم کے معاہدے پر ہے کہ ہم اپنے آباؤاجداد کے احکامات کی پیروی کریں گے تاکہ روحانی سلطنت سے ملنے والا فیض نہ صرف جاری رہے بلکہ بڑھتا چلا جائے۔ زمین کی زرخیزی اور دیگر سب استعدادیں اسی فیض کا نتیجہ ہیں۔ ہماری قوت حیات کا آخری سبب ان ہی وجودوں کا مرہون منت ہے۔ مذہبی اجتماعات اور رسومات میں ان ہی وجودوں سے دعا مانگی جا تی ہے کہ وہ زمین کی زرخیزی کو بحال رکھیں، موسموں کے رنگ قائم رہیں اور ہمیں صحت و عافیت کے ساتھ رکھیں۔ تخلیق کی یہ کہانیاں خوابوں کی کہانیاں کہلاتی ہیں جو مختلف قومیں مختلف رنگ میں بیان کرتی ہیں۔ یہ کہانیاں بچوں کو ان کی تہذیب و ثقافت سکھانے کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔ دنیا کے تمام مذاہب مادی کائنات کی تشریح کرتے ہیں اور ہمارے طرز عمل کو ریگولیٹ کرتے ہیں۔ قدیم باشندوں کے مذہب میں ان دونوں امور کو یکجا کردیا گیا ہے جس کی بنیاد اس مفروضے پر ہے کہ زندگی اور اس کے سب مظاہر ایک یکساں روحانیت رکھتے ہیں۔ (The Biggest Estate on Earth page 123)
قدیم باشندوں کے تصوّرِ خواب کے متعلق مذکورہ بالا معلومات کسی قدر مبہم ہیں۔ اس سلسلے میں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ معلومات بالعموم مغربی مصنفین کی بیان کردہ ہیں۔ سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ میں آسٹریلیا کے دو صاحب علم رہنماؤں سے براہ راست معلومات حاصل کیں۔ ان اصحاب کی رائے یہ تھی کہ ان کے عقائد کو غلط سمجھا گیا ہے اور غلط طریق پر دنیا کے سامنے پیش کیا گیا ہے۔ صحیح تصور کیا ہے؟ اس بابت جو کچھ انہوں نے بتایا اس کا خلاصہ حضورؒ نے اپنی کتاب ’’الہام، عقل، علم اور سچائی‘‘ میں درج کیا ہے۔ آپؒ تحریر فرما تے ہیں: ’’ان کے نزدیک خدا خوابوں کے ذریعے اپنے بندوں سے ہم کلام ہوتا ہے۔ خوابوں کے ذریعے انہیں اپنی زندگی کے بہت سے واقعات پر قبل از وقت اطلاع دی جا تی ہے۔ ان کے ہاں مذہبی رہنماؤں کا باقاعدہ ایک درجہ بدرجہ نظام موجود ہے جو تعبیرالرؤیا کا علم رکھنے والوں پر مشتمل ہوتا ہے۔… خواب دیکھنے والے کو اکثر یہ علم نہیں ہوتا کہ اس کے خواب میں کیا پیغام مضمر ہے لیکن تعبیر کرنے والا اس پیغام کو سمجھ لیتا ہے اور بالعموم اس کی تعبیر درست نکلتی ہے۔‘‘ ( صفحہ 195 ۔ اردو ترجمہ )
عصرِ حاضر میں ان قدیم باشندوں کا مذہب عیسائیت ہے اور ان کی اکثریت کیتھولک اور انگلیکنز پر مشتمل ہے۔ بہت سے مقامی مذاہب بھی ہیں جو آسٹریلیا کی دیومالائی روایات سے وابستہ ہیں۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم سب اپنے خوابوں کے ذریعے زمین سے وابستہ ہیں۔ استعماری طاقتوں یعنی برطانوی لوگوں نے اس براعظم پر آباد ہونے کے لیے اس زمین کے ساتھ ہمارے تعلق کو تباہ و برباد کرنے کی کوشش کی ہے، مگر آج بھی ہمارے بہت سے گروہ زمین کے ساتھ وابستہ رہ کر اس کی دیکھ بھال کررہے ہیں۔ یہ لوگ خانہ بدوشوں کی طرح ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو تے رہتے ہیں۔ ان کا انحصار قدرتی ذرائع کی دستیابی اور عدم دستیابی پر ہوتا ہے۔ صحراؤں کے رہنے والے چھوٹے چھوٹے گروہوں میں رہتے ہیں اور جلد جلد ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ جبکہ دریاؤں اور ساحلی علاقوں میں بسنے والے نسبتاً دیر تک ایک جگہ قیام کرتے ہیں۔
قدیم باشندے اور عیسائیت
سفید فام حکومتی کارندوں کی نسبت عیسائی مشنریوں کا رویہ مقامی باشندوں کے ساتھ قدرے بہتر تھا۔ مشنریوں کے ہاتھ میں نہ صرف یہ کہ بندوقیں نہیں تھیں بلکہ وہ ان باشندوں کے ساتھ دوستانہ طریق سے ملتے تھے۔ ان کو تحائف دیا کرتے تھے جن میں کپڑے، تمبا کو، خوراک، آئینے اور اس طرح کی دیگر ضروری اور نادر اشیا ہوتی تھیں۔ مقامی باشندے خوراک اور تمباکو کے بدلے جنسی تعلقات کی پیش کش کرتے تھے۔ بالعموم عیسائی مشنریز اس پیش کش کو قبول نہ کرتے جو مقامی باشندوں کے لیے ایک حیران کن بات تھی۔ البتہ وہ انہیں چرچ کی عبادت میں شامل ہونے کا کہتے پھر انہیں کھانا دیتے۔ اسی طرح پادری ان سے محنت مزدوری کروا کر ان کو کسی رنگ میں اس کا معاوضہ دیتے۔ بہت سی جگہوں پر پادریوں کو بھی فوری طور پر خوش آمدید نہیں کہا گیا بلکہ ان کے خلاف بھی مزاحمت کی گئی۔ تاہم انہوں نے آہستہ آہستہ مقامی باشندوں کا اعتماد حاصل کیا۔ مقامی باشندے ابتدا میں ان سے خوف زدہ رہتے تھے اور ان کے قریب آنے سے بھی ڈرتے تھے۔ مشنریز ان کے لیے کھانا اور دیگر چیزیں درختوں سے لٹکا دیتے تھے۔ وہ رات کی تاریکی میں خاموشی سے آکر چیزیں اُ ٹھا کر لے جا تے۔ رفتہ رفتہ وہ مشنریوں سے مانوس ہوئے تو انہوں نے مقامی باشندوں کو خدا، فرشتوں اور نیک لوگوں کے متعلق بتایا نیز ان کے معجزات بیان کیے تو مقامی باشندوں نے اس کو اسی قسم کی روحانیت سے تعبیر کیا جو وہ اپنے آباؤاجداد کی طرف منسوب کرتے تھے۔ انہوں نے سمجھا کہ مشنریز روحانی لوگ ہیں۔ پھر جب انہوں نے جدید ادویات کے ذریعہ مقامی باشندوں کی بیماریوں کا علاج شروع کیا تو ان کا اعتقاد اَور بھی بڑھ گیا۔ اسی طرح مشنریز نے ہر قسم کے مشکل حا لات میں ثابت قدمی دکھائی، سخت گرمی کا مقابلہ کیا، جنگلوں اور بیابانوں میں بےخوف ہوکر رہے۔ موذی جانوروں اور کیڑے مکوڑوں کا بھی مقابلہ کیا۔ پادریوں کی ان کوششوں اور قربانیوں کی وجہ سے مقامی با شندوں کا تاثر ان کے متعلق عموماً اچھا تھا۔
مشنریز نے بچوں پر بہت توجہ دی۔ اس سلسلے میں ان کی حکمت عملی کا بنیادی حصہ یہ تھا کہ بچوں کو والدین سے الگ کرکے ہوسٹلز وغیرہ میں رکھا جائے۔ والدین بسااوقات بخوشی اس پر راضی ہوجاتے تھے کیونکہ اس طرح بچوں کی تمام بنیادی ضروریات بآسانی پوری ہوجاتی تھیں۔ مشن کے ان ہوسٹلز میں بچے بہت مصروف اور منظم زندگی گزارتے تھے۔ ان کے لیے چوبیس گھنٹے کا پروگرام ہوتا تھا۔ ان کو اپنے والدین اور دیگر رشتہ داروں سے ملنے کے بہت کم مواقع دیے جاتے تھے۔ اس طرح وہ اپنے قبائلی رسوم و رواج سے بےخبر اور دور ہوتے جاتے تھے۔ یہ بچے بالغ ہوکر بالعموم چرچ کے جاری کردہ مختلف اقتصادی منصوبوں مثلاً کاشت کاری وغیرہ پر کام کرکے کچھ آمد پیدا کرتے تھے۔ ان میں سے بعض چرچ سے نکل کر عام دنیوی کاموں میں بھی مصروف ہوجاتے جس کو مشنریز پسند نہیں کرتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ نگرانی کے بغیر یہ اپنے پرانے طرز زندگی کی طرف لَوٹ جائیں گے۔ یہ کشمکش ان بچوں کے ذہنوں میں بھی رہتی اور اس کے نتیجے میں یہ نفسیاتی اور ذہنی مسائل سے بھی دوچار رہتے۔
تنگ نظر مشنریز جو اکثریت میں تھے قدیم باشندوں کو بالکل بےدین سمجھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ لو گ خدا کے تصور اور روحانیت سے بالکل عاری ہیں اس لیے ان کو عیسائیت کی تعلیم دینے کی اشد ضرورت ہے۔ کشادہ ذہن رکھنے والے مشنریز کو عیسائیت اور قدیم باشندوں کی روایات میں کچھ اشتراک دکھائی دیتا تھا، لہٰذا انہوں نے دونوں کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی۔ قدیمی باشندے اپنے آباؤاجداد کی مافوق الفطرت قوتوں پر یقین رکھتے تھے۔ اس تصور کی مدد سے ان کو بتایا گیا کہ کس طرح حضرت مریم کے بطن سے بغیر کسی جنسی تعلق کے مسیح پیدا ہوئے۔ ان مشنریز نے قدیم روایات کو جبر کے ذریعے ختم کرنے یا دبانے کی بجائے ان کو تسلیم کیا اور ان کے سامنے عیسائیت کے اصول پیش کیے اور انہیں کہا کہ یہ بہتر روحانیت پیدا کرنے کا ذریعہ ہے۔ اناجیل کے مقامی زبان میں تراجم کیے گئے۔ جادوٹونا مقامی باشندوں میں عام تھا۔ اس کی مخالفت کی گئی۔ تعددِ ازدواج (جس میں بڑی عمر کے لوگ عورتوں کو مال مویشی سمجھ کراستعمال کرتے تھے) کے خلاف مہمیں چلائی گئیں۔ انہیں ایک عورت کے ساتھ شادی کرنے نیز شادی کے سلسلے میں قبائلی حدودو قیود سے نکلنے پر مائل کیا گیا۔ مشنریز کی کوششوں سے قدیم باشندوں کے رسوم و رواج میں تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ اور اس نوعیت کی کوششیں دیرپا بھی ثابت ہوئیں۔ مثلاً ورورا (Worora) قبیلہ میں ایک رسم مُردے کی تدفین سے تعلق رکھتی تھی۔ وہ یہ تھی کہ مُردے کو جس پلیٹ فارم پر رکھا جاتا اس پلیٹ فارم کے نیچے ایک پتھر قبیلے کے ہر مرد کے لیے رکھنا ضروری تھا۔ مُردے کے جسم سے رطوبت خارج ہوکر اگر کسی پتھر پر گرتی تھی تو جس شخص نے وہ پتھر رکھا ہوتا تھا اس کو مُردے کا قاتل سمجھا جاتا تھا۔ اس رسم کے خلاف خود قبیلے کے وہ افراد اٹھ کھڑے ہوئے جو عیسائی مشنریز کے زیر اثر اپنے رسوم و رواج سے بدظن ہوکر عیسائیت کی طرف مائل ہوچکے تھے۔
تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مقامی باشندوں نے بہت کم عیسائیت کو قبول کیا ہے۔ مثلاً پادری جی سیل 1954ءکے باتھرسٹ آئی لینڈ مشن کے متعلق افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ تیس سال کی کوششوں کے باوجود ہم ایک بھی بالغ انسان کو عیسائی نہیں بناسکے۔ (Aboriginal Australians p.164)
دنیا کے جن دیگر خطوں میں پادریوں کو کامیابی ملی اس کا باعث یہ ہوتا تھا کہ قبیلے کے چیف کی حمایت پہلے انہیں حاصل ہوجاتی تھی۔آسٹریلیا میں ایسا نہیں ہوا۔ ان کے ہاں کوئی ایک بادشاہ یا چیف نہیں تھا، نہ آج ہوتا ہے۔ یہ لوگ اپنی روایات کے ایک مضبوط نظام میں بندھے ہوئے تھے۔ بہرحال یہاں صرف بچوں نے عیسائیت قبول کی ہے۔ اور یہ وہ مذکورہ بالا بچے تھے جو مشنز کے ہوسٹلز میں رہتے تھے اور ان کے بہت سے مفادات چرچ سے وابستہ تھے۔
مسروقہ نسلیں
1910ء سے لے کر 1970ء کے دوران قدیم باشندوں کے بہت سے بچوں کوحکومتی ایجنسیوں نے اور چرچ نے جبراً ان کے ماں باپ سے الگ کرکے رکھنے کی پا لیسی پر عمل در آمد کیا۔ان بچوں میں سے اکثر وہ تھے جو مقامی عورتوں پرسفید فام لوگوں کے جنسی حملوں کے نتیجے میں پیدا ہوئے تھے۔ اس پالیسی کی بنیاد اس مفروضہ پر تھی کہ قدیم باشندے اب معدوم ہو رہے ہیں اور یہ لوگ اپنے بچوں کی صحیح پرورش نہیں کر رہے لہٰذا ان کو ریاست اپنی تحویل میں لے کر بہتر انسان بنا سکتی ہے۔ اس پالیسی کا مقصد یہ بھی بیان کیا گیا کہ اصل باشندے اور یورپ کے نووارد لوگ باہم مل جل جائیں۔ انہیں بہت سے سفید فام لوگوں نے اپنے گھریلو ملازمین کی طرح رکھا جہاں یہ بچے ناقابل بیان مظالم کا شکار ہوئے۔ ان پر تشدد کیا جا تا اور انہیں جنسی استحصال کا نشانہ بنا یا جاتا۔ ان بچوں کو ’’مسروق نسلیں‘‘ کہا جا تا ہے اور ان پر پڑنے والے بداثرات آج تک باقی ہیں۔ اب بھی تیرہ ہزار سے زائد لوگ ایسے ہیں جو مسروقہ نسل یا ان کی اولاد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اور آج بھی بہت سے بچے اپنے گم شدہ رشتے داروں کو تلا ش کرتے رہتے ہیں۔ اکثر صوبوں میں باہمی رابطہ کروانے کے لیے باقاعدہ دفاتر موجود ہیں جن میں اس کام کے ماہرین ہوتے ہیں۔ 13 فروری 2008ء کو آسٹریلین پارلیمنٹ کے اجلاس میں وزیراعظم کیون رڈ نے قدیم با شندوں اور خصوصاً ان مسروقہ نسلوں سے ماضی میں ہونے والے ان جرائم پر معافی مانگی تھی۔
قدیم باشندوں کا معاشرتی نظام
خاندان وہ قوت ہے جس نے ان قدیمی معا شروں کو باندھ رکھا ہے۔ یہ خاندانی نظام مختلف جگہوں پراتنی مختلف صورتوں میں قائم ہے کہ ان سب کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح لفظ رشتہ دار کے بھی متعدد معنی ہیں۔ اکثر جگہوں پر خاندانی نظام کے تابع بعض رشتہ دار اکٹھے رہتے ہیں۔ مثلا ایک جنس سے تعلق رکھنے والے سب بچے اکٹھے رہتے ہیں۔ یعنی خواتین اپنی بہنوں کے ساتھ رہتی ہیں اور مرد اپنے بھائیوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ خاندانی نظام یہ قوانین بھی دیتا ہے کہ کون کس سے شادی کرسکتا ہے یا نہیں کرسکتا ہے۔ مثلاً بعض نظاموں میں بہن بھائی، ساس اور داماد کے مابین شادی کو برا سمجھا جاتا ہے۔ ٹورس سٹرئٹ آئی لینڈرزمیں قبیلہ ان لوگوں پرمشتمل ہوتا ہے جو ایک مرد جدامجد کی اولاد ہوتے ہیں اور اس قبیلہ کے لوگ اپنے قبیلہ کی عورتوں سے نہیں بلکہ دوسرے قبیلہ کی عورتوں سے شادی کرتے ہیں۔ ہر قبیلہ کا اس کے علاقے کی نسبت سے نام ہوتا ہے۔ قبائل میں باہمی رقابتیں بھی ہوتی ہیں لیکن ان میں سے کم ایسی ہوتی ہیں جن میں واقعی لڑائی وغیرہ ہو ۔
قدیم باشندوں میں شادی محض ایک جنسی تعلق کا نام نہیں ہے۔ یہ تعلق افراد، خاندان اور گروہوں کے مابین ذمہ داریوں کی تقسیم اور ان کو نبھانے کا نام ہے۔ آسٹریلیا کے موجودہ قوانین کے مطابق تعدد ازدواج کی اجازت نہیں ہے۔ قانون کے مطابق شادی ایک مرد اور ایک عورت کے باہمی تعلق کا نام ہے۔ اس کی دوسری کوئی شکل نہیں ہے۔ میرج ایکٹ 1961ءکے مطابق شادی کی کم از کم عمر 18 سال ہے۔
آج بھی آسٹریلیا کی آبادی کی اکثریت ساحلی علاقوں پر آباد ہے۔ قدیم زمانے میں تو آسٹریلیا کا وسطی حصہ صحراؤں یا جھاڑیوں کے جنگل کے سوا کچھ نہ تھا۔ ساحلوں پر رہنے والے لوگ مچھلی پکڑتے تھے ۔اور شکار کے موسم میں جھاڑیوں اور جنگلوں میں جا کربھی اپنا رزق تلاش کرتے تھے۔ یہ لوگ زیادہ تر بہت متنوع نباتاتی غذا کھاتے ہیں جس میں پھل، خشک میوہ جات، جڑیں، سبزیاں، گھاس، بیج، سب کچھ شامل ہے ۔اسی طرح متعدد اقسام کا گوشت بھی کھایا جاتا ہے جس میں کینگرو، کچھوے، سانپ، چھپکلیاں، مچھلی، شل فیش وغیرہ شامل ہیں۔ قدیم باشندوں کا سب سے بڑا قبیلہ ویرادجوری (Wiradjuri) کہلاتا ہے۔ ان کی نصف سے زائد آبادی اب شہروں کے مضافات میں رہتی ہے اور بہت زبوں حالی کا شکار ہے۔ ایک بہت بڑی تعداد مویشیوں کے فارمز پر کام کرتی ہے۔ بہت سے لوگ ابھی تک اپنی زمینوں پر کام کرتے ہیں اور قدیم طریق پر شکار کرتے ہیں۔
وفات کے موقع پر رشتہ دار اور دوست تعزیت کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں۔ تدفین کے علاوہ اس موقع پر اپنے عقائد وغیرہ کا بھی اظہار کیا جاتا ہے۔ تعزیت کے لیے جانے کا یہ سلسلہ دنوں، مہینوں یہاں تک کہ سالوں بھی جاری رہتا ہے۔ ایک عجیب اور منفرد رواج یہ ہے کہ بالعموم کسی مُردے کا نام نہیں لیا جاتا بلکہ اسے مُردہ کہہ کر ہی یاد کرلیا جا تا ہے اور لفظ مُردہ منفی نہیں بلکہ مثبت مفہوم رکھتا ہے۔
موجودہ معاشرتی اوراقتصادی حالا ت
ہم پڑھ چکے ہیں کہ قدیم با شندے پینسٹھ ہزار سال سے آسٹریلیا میں آباد ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آج ان کی شناخت کا کیا ذریعہ ہے؟ کس بنیاد پر کسی کو قدیم باشندہ قرار دیا جاتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ یقینی طور پر اس کا تعین کرنا بہت آسان نہیں ہے۔ عدالتیں یہ جا ئزہ لیتی ہیں کہ یہ لوگ اور ان کے آباؤاجداد کب سے اس زمین پر آباد ہیں اور ان کے رسوم و رواج کیا ہیں۔ ڈی این اے کے ذریعے بھی یقینی تصدیق ہونا ضروری نہیں ہے۔ اس سے ایک حد تک ہی مدد ملتی ہے۔ بہرحال موجودہ اعدادوشمار کے مطابق ان کی تعداد سات لاکھ پنتالیس ہزار ہے اور اس تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو ان کی زیادہ اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت ہے۔ دوسرے یہ کہ زیادہ لوگ اب خود کو قدیم باشندوں کے طور پر شناخت کروا رہے ہیں۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ قدیم با شندوں کی بھاری اکثریت کا تعلق ملی جلی نسل کے ساتھ ہے۔ خالص قدیم لوگ اب معدوم کے قریب ہیں۔ ان کی تعداد قریبا پانچ ہزار ہے۔ مَردوں کی اوسط عمر قریبا پچپن سال اور عورتوں کی اکسٹھ سال سے زائد ہے جو آسٹریلیا کے دیگر باشندوں کی نسبت قریباً آٹھ سال کم ہے۔ تاہم اب ان کی اوسط عمر سال بہ سال بڑھ رہی ہے۔
قدیم با شندے کریول (creole) بولتے ہیں جو آسٹریلیا میں بولی جانے والی عام انگریزی زبان ہے۔ کریول دراصل بات چیت کا ایک نظام ہے جو پجن (pidgin ) بھی کہلا تا ہے۔ زبان کی یہ شکل ان قوموں کے باہمی اختلاط سے پیدا ہوتی ہے جن کے درمیان کوئی مشترک زبان نہیں ہوتی۔ مثلاً شمالی آسٹریلیا میں کریول انگریزی اور قدیم مقامی زبانوں کے ملنے سے پیدا ہو ئی ہے۔ کریول کے علا وہ آسٹریلیا کے قدیم با شندے کئی قسم کی ابرجنل انگریزی بولتے ہیں۔ ابرجنل انگریزی میں کئی معروف الفاظ بالکل مختلف معنوں میں استعمال ہوتے ہیں۔ مثلا ً deadly کے معنے مثبت بلکہ شاندار کے ہوتے ہیں۔ اسی طرح گرینی grannies کے معنے نانی کے نہیں بلکہ نواسے نواسیوں اور پوتے پوتیوں کے ہوتے ہیں۔ اسی طرح ابرجنل انگریزی میں آوازیں اور فقرات بنانے کے اصول روایتی مقامی زبانوں سے لیے گئے ہیں۔ آسٹریلیا میں قدیم باشندوں کی اکثریت ابرجنل انگریزی کی مختلف شکلیں اپنی مادری زبان کے طور پر بولتے ہیں ۔ تاہم دُوردارز کے علا قوں میں یہ دوسری یا تیسری زبان کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ ذرائع ابلاغ کے اعتبار سے قدیم باشندے جدید تقاضوں کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔ ان کے اخبارات سیاسی، ثقافتی، سماجی سرگرمیوں اور کھیلوں وغیرہ کے متعلق آگاہی دینے میں بڑا اہم کردار ادا کر تے ہیں۔ قابل ذکر اخبارات میں Koori Mail, the National Indigenous Time, Torres News, وغیرہ شامل ہیں۔ اسی طرح ریڈیو پروگرام بھی ابلاغ کا اچھا ذریعہ ہیں۔ National Indigenous Television (NITV) بھی قدیم با شندوں کی ثقافت، زبانوں کو زندہ رکھنے کے ساتھ ساتھ تعلیم اور تفریح فراہم کرنے میں ایک اچھا کردار ادا کر رہا ہے۔
جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے کہ آسٹریلیا کےقدیم باشندے مختلف قبائل اور مختلف قوموں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کےرسوم و رواج بھی الگ الگ ہیں۔ اس لیے ماضی میں بھی اور آج بھی ان کا کوئی ایک لیڈر نہیں ہے۔ یہاں تک کہ ایک قبیلہ کا بھی کوئی لیڈر یا بادشاہ یا چیف نہیں ہوتا۔البتہ جسمانی، ذہنی صلاحیتوں کی بنیاد پر نیز علم کی سطح کے لحاظ سے بعض بڑی عمر کے لوگوں کو ایک عزت و احترام حاصل ہوتا ہے اور ان کی بات دوسروں سے زیادہ سنی جاتی ہے۔
قدیم باشندوں کی سب سے زیادہ تعداد 265700 نیوساؤتھ ویلز اور 221400 کوئینز لینڈ میں رہتی ہے۔ان دونوں صوبوں میں ان کی مجموعی تعداد کل آبادی کا نصف ہے۔ ان کی سب سے کم آبادی 7500 کیپیٹل ٹیریٹری میں ہے۔ مجموعی طور پر ان کی آبادی آسٹریلیا کی کل آبادی کا تین فیصد ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ 2019ء کی ایک رپورٹ کے مطابق آسٹریلیا کے جیلوں میں کل بالغ قیدیوں کی تعداد کا اٹھائیس فیصد قدیم با شندوں اور ٹورس سٹرئیٹ آئی لینڈرز پر مشتمل ہے۔ یہ امر بھی قدیم باشندوں کی زبوں حالی کو ظاہر کرتا ہے۔
اب ان میں بہت سے لوگ جدید تعلیم کی اہمیت کو سمجھنے لگے ہیں۔ چنانچہ نوجوان اب بارہ سال کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد یونیورسٹی کی تعلیم یا پیشہ وارانہ تعلیم حاصل کر تے ہیں۔ چنانچہ 2011ء میں یونیورسٹی جانے والوں کی تعداد %14.1 تھی جبکہ 2016ء میں یہ تعداد بڑھ کر %16.2 ہوگئی ہے۔ 2015ء میں 1204 ڈاکٹرز تھے اور 310 طلبہ میڈیکل کی تعلیم حاصل کر رہےتھے۔
عیسائی مشنریز نے 1940ء میں آسٹریلیا کے بعض علاقوں میں تعلیم کے لیے مادری زبان کے ساتھ ساتھ انگریزی کا استعمال شروع کیا تھا۔بعض جگہوں پر صرف ایک زبان میں تعلیم دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تاہم اب بھی اکثر جگہوں پر دونوں زبانوں میں تعلیم دی جا تی ہے۔
قدیم باشندے اب کئی قسم کے کاروبار کرتے ہیں جن میں کان کنی، تعمیر، سیاحت، میڈیا اور ریٹیل وغیرہ شامل ہیں۔ چھوٹے کاروبار بھی ہیں جن میں کھانا فراہم کرنا، فوٹوگرافی، گھاس کاٹنا، فیشن، آرٹس اور بعض مصنوعات کو تیار کرنا شامل ہیں۔ ان کی ہفتہ وار مجموعی اوسط آمد 2011ء میں 397؍ ڈالر تھی جو 2016ء میں بڑھ کر 441؍ ڈالر ہوگئی ۔ باوجود اس اضافہ کے ابروجنلز کی آمد آسٹریلیا کے دیگر باشندوں کی نسبت کم ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ان کی آمد عام آسٹریلینز کی آمد کا قریبا پینتیس فیصد ہے۔
قدیم با شندے اور حقوق انسانی
نومبر 1828ء میں گورنر نے قدیم باشندوں کے خلاف مارشل لاء لگا دیا اور فوج کو اختیار دے دیا گیا کہ جو باشندہ بھی ان علاقوں میں پایا جائے جہاں برطانوی پوری طرح قدم جما چکے ہیں اس کو دیکھتے ہی گولی ماردی جائے۔ اس طرح قدیم باشندوں کے تمام انسانی حقوق عملاً معطّل کردیے گئے۔ یہ استحصال بہت دیر تک جاری رہا بلکہ بڑھتا ہی چلاگیا۔ 1901ء میں ان کو ووٹ کے حق سے، پوسٹ آفس اور فوج میں نوکری، پنشن اور زچگی کے دوران رخصت کے حق سے محروم کردیا گیا۔ 1911ء میں برطانوی استعمار نے قدیم باشندوں کی حفاظت کے نام پر ایک ایکٹ بنایا جس کے ذریعے درحقیقت ان کے بہت سے بنیادی انسانی حقوق ضبط کرلیے گئے۔ اس کا مقصد ان لوگوں پر پوری طرح قابو پانا تھا۔ چنانچہ اس قانون کے مطابق ان کی آزادنہ حرکت اور اپنی مرضی سے محنت مزدوری کرنے پر پابندی لگادی گئی۔ والدین سے بچوں کی ملکیت کا حق چھین لیا گیا۔ اسی طرح ذاتی جا ئیداد رکھنے کے حق سے انہیں محروم کردیا گیا۔ خلاصہ یہ کہ حقوق انسانی کی پامالی سے آسٹریلیا میں برطانوی استعمار کی تاریخ داغدار ہے۔
قدیم باشندوں کے حقوق کی خاطر ایک سو سال سے زائد عرصہ سے باقاعدہ اجتماعی اور منظم کوششیں کی جارہی ہیں۔ 1924ء میں Fred Maynard نے Australian Aboriginal Progressive Association ( AAPA) کی بنیاد رکھی۔ اس تنظیم نے قدیم باشندوں کے حقوق کے لیے بہت کام کیا۔ جلسے، جلوس اور اجلاسات منعقد کیے گئے۔ اخبارت میں کوریج، خطوط لکھنے کی مہمات وغیرہ چلائی جاتی رہیں۔ سیاہ فام لوگوں کے حقوق کے لیے ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں قائم تنظیم سے مل کر بھی کام کیا گیا۔ ان تمام کوششوں کا ایک ہدف قدیم باشندوں کے لیے ملکیتِ زمین کا حق حاصل کرنا تھا۔ والدین سے ان کے بچے چھین لینے کا سلسلہ ختم کرنا اور قدیم باشندوں کی منفرد ثقافتی شناخت کا دفاع کرنا تھا۔ ان کوششوں سے کئی منفی اور کچھ مثبت نتائج سامنے آئے۔ مثلاً 1927ء میں مغربی آسٹریلیا کی حکومت نے پرتھ (Perth) شہر کے مرکزی حصہ کو قدیم باشندوں کے لیے ایک ممنوعہ علاقہ قرار دے دیا۔ 1931ء میں شمالی علاقے میں ارن ھیم لینڈ (Arnhem Land) کو قدیم باشندوں کے لیے مخصوص اور محفوظ علا قہ قرار دے دیا گیا۔
1950ء قدیم باشندوں کی تحریک برائے شہری حقوق کے لیے ایک اہم سال ہے۔ یہ وہ سال ہے جب سے قدیم با شندوں کے حقوق کی تحریک میں آسٹریلیا کے عام لوگ بھی شامل ہوگئے۔ دونوں مل کر ان قوانین کی تنسیخ کے لیے کوشش کرنے لگے جن کی وجہ سے قدیم باشندے اپنے حقوق سے محروم تھے۔
1927ء میں ایک ریفرنڈم ہوا جس کا مقصد وفاقی آئین کی ان شقوں میں ترمیم کرنا تھا جو قدیم باشندوں کے ساتھ امتیازی سلوک سے متعلق تھیں۔ چنانچہ ریفرنڈم میں اکانوے فیصد لوگوں نے تبدیلی کے حق میں ووٹ دیا۔ اس کے نتیجے میں قدیم باشندوں کو بھی اس مردم شماری میں نیز قانون سازی کے عمل میں شامل کرلیا گیا ۔ تاہم اس کے یہ معنے نہیں تھے کہ قدیم باشندوں کو قانون سازی کے عمل میں ووٹ کا حق دے دیا گیا۔ بلکہ اس سے مراد یہ تھی کہ حکومت آسٹریلیا کے دیگر لوگوں کی طرح ان قدیم با شندوں کے متعلق بھی قانون بنائے گی۔ اس کا پس منظر یہ تھا کہ 1901ء کا آئین یہ کہتا تھا کہ برطانوی حکومت ہی قدیم با شندوں کے متعلق قانون بنائے گی۔ ریفرنڈم نے دولت مشترکہ کی حکومت کو قدیم باشندوں کے لیے قانون وضع کر نے سے روک دیا۔ قدیم باشندوں کے حقوق کے لیے کی جانے والی کوششوں کی تاریخ میں اس کو ایک بہت بڑی کامیابی تصور کیا جاتا ہے۔ جہاں تک عام انتخابات میں ووٹ کے حق کا سوال ہے تو 1962ء میں الیکٹورل ایکٹ میں تبدیلی کرکے پہلی مرتبہ قدیم با شندوں کو ووٹ کا حق دیا گیا۔ تاہم تب بھی ان کے لیے ووٹ دینا لازمی نہیں تھا۔ ووٹرز لسٹ میں قدیم باشندوں کی لازمی رجسٹریشن 1984ء میں شروع ہوئی ہے۔
قانونی طور پر قدیم باشندوں کو اب بنیادی انسانی حقوق حاصل ہیں۔ وہ ایک عام باشندے کی طرح تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ملازمت اختیار کرسکتے ہیں۔ شادی کرسکتے ہیں۔ تاہم ان کے بہت سے مسائل عملاً جوں کے توں موجود ہیں۔ بےروزگاری کی شرح بہت زیادہ ہے۔ بہت بڑی تعداد غربت کا شکار ہے۔ پچھتر فیصد سے زائد قدیم باشندے اب شہروں یا ان کے مضافات میں رہتے ہیں مگر کئی پہلوؤں سے وہ زبوں حالی کا شکار ہیں۔
2008ء میں آسٹریلیا کی حکومت نے یہ وعدہ کیا کہ وہ قدیم باشندوں اور آسٹریلیا کے دیگر افراد کے درمیان اوسط عمر، بچوں کی شرح اموات، تعلیم اور روزگار کے اعتبار سے جو فاصلہ اور فرق ہے اسے ختم کر دے گی۔ تاہم عملا ًایسا نہیں ہوا۔ گزشتہ سال حکومت نے یہ تسلیم کیا کہ ان میں سے اکثر اہداف حاصل نہیں کیے جا سکے۔ اور وزیراعظم سکا ٹ موریسن نے اس امر کوقوم کے لیے ایک قابل شرم حقیقت قرار دیا۔ ( بی بی سی نیوز مورخہ 7 جو لا ئی21ء)
اکتوبر 2023ء میں آسٹریلیا میں ایک ریفرنڈم کروایا گیا کہ کیا قدیم باشندوں کو مزید سیاسی حقوق دینے کے لیے آئین میں تبدیلی کی جائے۔ بھاری اکثریت نے مخالفت میں ووٹ دیا جس کے بعد یہ تجویز مسترد کردی گئی۔
……………………………
اس مضمون کو لکھنے میں مندرجہ ذیل کتب سے استفادہ کیا گیا ہے :
الہام، عقل، علم اور سچائی از حضرت مرزا طاہر احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ
The little red, yellow, black book (Fourth Edition)
Aboriginal Australians by Broome (Fifth Edition)
The Biggest Estate on Earth by Bill Gammage