ایک مؤرخ تھا جو تاریخ کا حصہ بنا

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 4 جون 2010ء میں مکرمہ ارشاد عرشی ملک صاحبہ کا ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں محترم مولانا دوست محمد شاہد صاحب کے حوالہ سے یادوں کو پیش کیا گیا ہے۔
دُنیا کی بے ثباتی کے بارے میں حضرت مسیح موعودؑ نے کیا خوب فرمایا تھا:

اے حُبِ جاہ والو یہ رہنے کی جا نہیں
اس میں تو پہلے لوگوں سے کوئی رہا نہیں

بے شک یہ دنیا چل چلاؤ ہے ۔ایک سجا ہوا با رونق میلہ ہے۔ لیکن صدیوں کے بعد کوئی ایسا بھی آ جاتا ہے،جو صدیوں تک کے لئے اس دھرتی پر اپنے قدموں کے نشان چھوڑ جاتا ہے،جو اس دنیا کی بے ثباتی اور اس کی حقیقت کو پا جاتا ہے اور اپنے لئے اس میں سے صرف وہ چیزیں اختیار کرتا ہے جوفانی نہیں ہوتیں۔
میری اس شکستہ اور ناقص تحریر سے محترم مولانا صاحب کو تو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا، ہاں ان کی شفقتوں کا تذکرہ میرے لئے فخر و انبساط کا باعث ضرور ہو سکتا ہے ؎

اک مؤرخ تھا جو اب تاریخ کا حصہّ بنا
سرسری نظروں میں گو ماضی کا وہ قصہّ بنا
پر ہمیں تاریخ کے اسلوب یوں سمجھا گیا
آنے والے ہر مورّخ کا وہ مدرسہ بنا

محترم مولاناصاحب ایک سچے اور حقیقی مورّخ تھے یعنی وہ سر تا پا ایک مورّخ تھے۔ اس بات کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب 2003ء میں مَیں نے اپنا دوسرا شعری مجموعہ ’’ پُل صراط پر ایک قدم ‘‘ ان کی خدمت میں ارسال کیا۔ اس مجموعے کے شروع میں مَیں نے اپنے والد چودھری عطا محمد صاحب مرحوم کے بارہ میں کچھ یادیں تحریر کی تھیں، ان کو پڑھ کر مولانا صاحب نے مجھ سے میرے والد صاحب کے بارہ میں مزید تفصیلات بھی طلب فرمائیں۔اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ مولانا صاحب ہر چھوٹے سے چھوٹے واقعہ کو بھی ایک تاریخی نکتہ نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ 2005ء میں میرا تیسرا شعری مجموعہ ’’فریادِ درد ‘‘ شائع ہوا۔ حسب معمول مولاناصاحب کو بھجوایا تو آپ نے حسب عادت مطالعے کے فوراً بعد خط لکھا کہ ’’آپ کے تازہ شعری کلام کو دیکھتے ہی سیدنا حضرت مسیح موعودؑ کی بصیرت افروز کتاب ’’البلاغ‘‘ میری چشمِ تصور کے سامنے جلوہ گر ہوگئی۔ اس کتاب کا دوسرا نام حضرتِ اقدس نے ’’فریادِ درد ‘‘ رقم فرمایا ہے‘‘۔ پھر بعض نظموں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’آپ نے خدا اور مصطفیٰؐ دونوں کے سلام کو اس وجد آفریں شان سے نظم کیا ہے کہ آپ کے قلمِ اعجاز رقم اور وارداتِ قلبی،دونوں کو بے ساختہ داد ِ تحسین دینی پڑتی ہے۔ حضرت مصلح موعودؓنے10 جولائی 1931ء کو قادیان میں ایک پُر معارف خطبہِ جمعہ کے دوران امامِ عصر کی طرزِ اور اسلوبِ نگارش سے کلامِ نظم و نثر کو مرصع کرنے کی پُر زور تلقین کی اور فرمایا کہ ’’خدا کے ماموروں کی برکت سے ادبی دنیا کا نقشہ بھی بدل جاتا ہے ۔ چنانچہ آنحضرتؐ سے قبل زمانہ جاہلیت کی نظموںاور مسلمان شعراء کے اشعار میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ لہٰذا احمدی سخن وروں اور انشاء پردازوں کا فرض ہے کہ وہ ہمیشہ حضرت مسیح موعودؑ کی طرزِ تحریر کی تقلید کریں تا حضورِ اقدس کے علمی اور ادبی انقلاب کو بھی دنیا تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائے‘‘۔ آپ قابلِ مبارکباد ہیں کہ آپ کا کلام حضرت مسیح زماں و مہدیِ موعود کے منفرد و ممتاز محاوروں، استعاروں اور عدیم المثال بدائع اور صنائع کا عکسِ جمیل ہے۔…۔‘‘
محترم مولوی صاحب ہر تحریر کا بغور مطالعہ کرتے چاہے وہ شاعری ہو یا نثر، اپنی رائے سے ضرور نوازتے بیش قیمت مشورے بھی دیتے۔ وہ ان چند بڑے لوگوں میں سے تھے جو کرسی کی وجہ سے بڑے نہیں ہوتے بلکہ حقیقتاً بڑے ہوتے ہیں اور ان کی بڑائی کی نشانی یہی ہوتی ہے کہ وہ چھوٹوں کو بھی نظرانداز نہیں کرتے۔ آپ کی شخصیت میں ایک ایسی Originality تھی جو دیکھنے والوں کا دل موہ لیتی تھی۔ وہ سادہ سُچا اور جوش و جذبہ سے بھرا ہوا انداز، وہ لہک لہک کر شعر پڑھنا، قرآن کریم کی آیات قراء ت کے ساتھ پڑھنا، اپنے مقصد کے ساتھ اُن کی لگن ،تاریخی ریکارڈ کو درست رکھنے کا جنون ، وہ اپنی قسم کا ایک منفرد وجود تھے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں