ایک یادگار اور تاریخ ساز سفر
(مطبوعہ رسالہ ’’انصارالدین‘‘ جنوری فروری 2025ء)
سنا کرتے تھے کہ ہمیشہ اچھے دوست بنانے چاہئیں تا ان کی نیک صحبت کا اچھا اثر ہو اور بہتر رنگ میں تربیت کے مواقع ملتے رہیں ۔ اس کی ایک زندہ مثال برادرم مکرم ملک محمد اکرم صاحب مرحوم (سابق مبلغ سلسلہ برطانیہ) تھے۔آپ جامعہ احمدیہ کی ابتدائی کلاسوں میں تھے کہ کسی طرح آپ سے میرا تعلق قائم ہو گیا۔ لیکن یہ یاد نہیں کہ کیسے ہوا مگر اللہ تعالیٰ نے میری تربیت کے لیے خود ہی ایک مربی کا انتظام فرما دیا۔ یہ دوستی کا ناطہ صرف دوستی تک محدود نہ رہا بلکہ بعدازاں اُس وقت رشتہ داری میں بدل گیا جب آپ کی شادی میری ماموں زاد بہن سے ہوئی۔ مکرم ملک صاحب طویل علالت کے بعد25 ؍اپریل 2019ء کو وفات پاگئے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی مغفرت فرمائے اور آپ کوجنت الفردوس میں اعلیٰ مقامات سے نوازتا چلا جائے۔ آمین
آج جس سفر کا ذکر کرنا مقصود ہے یہ اسی دوستی کا شیریں پھل ہے کہ آج بھی اس کی یاد جسم و روح میں اتر جا تی ہے ۔ نصف صدی سے بھی چند سال قبل کی بات ہے کہ مکرم ملک محمداکرم صاحب کے رشتہ میں چچا مکرم کیپٹن شیر محمد صاحب حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب(خلیفۃالمسیح الرابع ؒ) کے ہمراہ کسی سفر میں شریک تھے۔ دوران سفر مکرم کیپٹن صاحب نے حضرت میاں صاحب سے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ اپنے گاؤں چک 9 گوربخش پورہ میں مسجد کی تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔آپ وعدہ کریں کہ مسجد کی تعمیر مکمل ہونے پر مسجد کا افتتاح کرنے کے لیے تشریف لائیں گے۔ حضرت میاں صاحب نے بھی وعدہ فرمالیا کہ جب مسجد کی تعمیر مکمل ہو جائے تو مجھے اطلاع کر دیں، مَیں آ جاؤں گا۔ مسجد کی تعمیرمیں کتنا عرصہ لگا ہو گایہ کہنا مشکل ہے لیکن ایک روز حضرت میاں صاحب کو پوسٹ کارڈ موصول ہوا جس میں مکرم کیپٹن صاحب نے اپنا تعارف کروایا اور سفر میں کیے گئےوعدے کی یاددہانی کرواتے ہوئے حضرت میاں صاحب کو مسجد کے افتتاح کے لیے دعوت دی ۔ اسی کارڈ میں یہ بھی لکھا تھا کہ میرا بھتیجا ملک محمد اکرم جامعہ کا فارغ التحصیل ہے، گاؤں تک پہنچنے کے لیے باقی راہنمائی وہ کر دے گا ۔ حضرت میاں صاحب نے مکرم ملک محمد اکرم صاحب سے رابطہ کیا اور اپنا وعدہ پورا کرنے کا اظہار فرمایا۔آپؒ نے وقت کاتعین کر لیا تو مکرم اکرم صاحب نے اپنی دوستی نبھاتے ہوئے اور مجھ پر احسان کرتے ہوئے حضرت میاں صاحب سے مجھے بھی ساتھ لے جانے کی اجازت لےلی جو آپؒ نے ازراہِ شفقت مرحمت فرمادی۔ فجزاھم اللہ تعالٰی فی الدنیا والآخرۃ۔
ہم دونوں طے شدہ وقت کے مطابق صبح حضرت میاں صاحب کی کوٹھی واقع محلہ دارالصدر پہنچ گئے۔ آپ نے گاڑی کا تیل پانی چیک کیا ۔ان دنوں آپ کی گاڑی Ford Cortinaفورڈ کورٹینا LH6037ہوا کرتی تھی۔کچھ دیر بعدہم تینوں عازمِ سفر ہوئے ۔
ہمار اپہلا پڑاؤ سرگودھا میں تھا۔ان دنوں پاکستان میں 1970ء کے الیکشن کی تیاریاں زوروں پر تھیں۔حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ؒنے پیپلز پارٹی کے حق میں ووٹنگ کی تحریک کی باگ ڈور حضرت میاں صاحب کے ہاتھ میں دی ہوئی تھی۔ جب ہم سرگودھا پہنچے تو آپؒ ہم دونوں کو مکرم قریشی محمود الحسن صاحب کی دکان پر بٹھا کر خود الیکشن کے سلسلے میں ایک سٹوڈنٹ یونین کے ساتھ تشریف لے گئے۔ ہم دونوں دکان پر بیٹھے بیٹھے اکتاہٹ کا شکار ہو رہے تھے کہ اچانک آپ کو واپس آتے دیکھا تو جسم میں خوشی کی لہر دوڑ گئی لیکن ساتھ ہی دوسرے گروپ والے بھی وہاں آئے ہوئے تھے جو درخواست کرکے آپ کو اپنے ساتھ لے گئے اور ہم پھر قریشی صاحب کی دکان کے خد و خال پر تفصیلی نظر ڈالتے رہے جو میرے لیے خاص طور پر عجوبہ تھی ۔اس دکان کی خاص بات یہ تھی کہ ایک طرف تو ادویات بیچی جاتی تھیں اور دوسری جانب بندوقیں اور کارتوس کا کا روبار تھا۔ ان دونوں کا آپس میں کیا جوڑ تھا آج تک سمجھ نہیں آئی۔ ایک طویل انتظار کے بعدخدا خدا کر کے حضرت میاں صاحب کو واپس آتے دیکھا تو بہت خوشی ہوئی کہ اب آگے کا سفر شروع ہو گا۔
سرگودھا سے ملک وال میں چک 9 کا سفر شروع ہوا تو حضرت میاں صاحب کو یہ فکر بھی دامن گیر تھی کہ سرگودھا میں کافی وقت لگ گیا ہے اور آگے بھی احباب جماعت انتظار کر رہے ہوں گے۔ چنانچہ حضرت میاں صاحب کی ڈرائیونگ کے کمالات اس روز دیکھنے میں آئے ۔آ پ نہ صرف گاڑی تیز چلانے کے ماہر تھے بلکہ پکی سڑک سے اتر کر کچے راستوں پر ڈرائیونگ کرنے میں بھی بہت مہارت رکھتےتھے۔ نہروں کے کنارے پٹریوں پر تیزی سے کار دوڑاتے رہے ۔ آپ کو دیہات کے راستے گویا کہ از بر تھے کہ یہ راستہ فلاں جگہ جا کر نکلے گا اور وہاں سے فلاں سٹرک پر اتنا سفر کر کے پھر کچے راستہ پر اتر کر فلاں پکی سٹرک پر چڑھنا ہو گا ۔ایسی بھول بھلیوں میں کوئی ماہر ہی چل سکتا ہے جو بار بار ان راہوں سے گزرا ہو۔
دورانِ سفر حضرت میاں صاحب مختلف موضوعات پر بات کرتے رہے۔ کبھی خاکسار آپ کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھ جاتا تو کبھی مکرم اکرم صاحب کو یہ اعزاز ملتا رہا۔ گاہے بگاہے لطائف سے بھی نوازتے رہے ۔
ایک نہر کی پٹڑی پر گاڑی رواں تھی کہ اچانک ایک گدھا ہماری کارکے آگے آگے بھاگنے لگا ۔ اب ایک طرف نہر تھی اور دوسری جانب گھنی جھاڑیوں کی وجہ سے اُسے راستہ نہیں مل رہا تھا ۔کچھ دیر یہ شغل چلتا رہا ۔حضرت میاں صاحب نہ صرف خود محظوظ ہو رہے تھے بلکہ دنیا کے مختلف ملکوں میں ڈرائیونگ کے اصولوں پر ایک چٹکلہ بھی سنا دیا۔
کچے پکے راستوں سے ہوتے ہوئے آخر ہم اس علاقہ کے قریب پہنچ گئے جہاں پر مسجد کے افتتاح کی تقریب منعقد ہوناتھی ۔ فصلوں کے درمیان سے ایک راستے پر گاڑی آہستہ آہستہ چلانا پڑی ۔ ایک جگہ ہمیں ایک خادم سائیکل کے ساتھ دکھائی دیا جو ہماری راہنمائی کرنے کے لیے ہمارا منتظر تھا ۔ اس نے اپنی سائیکل آگے لگا لی لیکن اس بےچارے کو بھی کافی دقّت کا سامنا تھا۔ آخر حضرت میاں صاحب نے اسے روکا، اس کی سائیکل اپنی کار کی boot میں ڈالی اور کار میں اُسے ساتھ بٹھا کر اس کے بتائے ہوئے راستے پر گاڑی چلانے لگے ۔
منزل مقصود پر پہنچے تو مکرم کیپٹن شیر محمد صاحب اور علاقہ کے احمدیوں نے حضرت میاں صاحب کا استقبال کیا ۔ منڈی بہاؤالدین کی شاہ تاج شوگر مل سے بھی چند احمدی احباب تقریب کے لیے پہنچے ہوئے تھے۔ حضرت میاں صاحب نے مسجد قبا میں دو رکعات بطور نفل ادا کیں اور بعد ازاں ظہرو عصر نمازیں ادا کیں۔ کھانے کا انتظام بھی مسجد ہی میں تھا۔
کھانے کے بعد حضرت میاں صاحب نے دور و نزدیک سے آئے ہوئے احمدیوں نیز لوکل دیہاتی احباب کو مخاطب ہو کرکہا کہ آپ نے اگر کوئی بات پوچھنی ہے تو پوچھ لیں ۔احباب کی خاموشی دیکھ کر پنجابی میں گویا ہوئے کہ تواہڈے دماغاں وچ کوئی سوال اے تے پچھ لو۔ لیکن خاموشی دیکھ کر آپ نے خود ہی سوال اٹھائے کہ تواہنوں اے خیال وی آندا ہوئے گا جِدا جواب اے بن دا اے (یعنی تمہیں یہ یہ خیال بھی آتا ہوگا تو اس کا جواب یہ ہے۔) اس طرح زیادہ تر پنجابی میں مجلسِ عرفان کرتے رہے۔ خود ہی سوال بناتے اور خود ہی جواب دیتے رہے۔ کسی ایک نے کہا کہ مسجد کا افتتاح بھی کر دیں جس پر آپ نے فرمایا کہ کر تو دیا ہے میں نے آ تے ہی نفل پڑھے ہیں اور نمازوں سے افتتاح ہو گیا ہے ۔
لوگ آپ کی موجودگی سے بہت مستفیض ہوئے ۔ بعد ازاں واپسی کی تیاری شروع کی تو احباب نے ہومیو پیتھی نسخہ جات کی درخواستیں کرنا شروع کر دیں اور کافی دیر تک احباب اپنی مشکلات بتا تے رہے۔ ایک شخص ایسا بھی تھا جو بول نہیں سکتا تھا۔ اس نے لکھ لکھ کر اپنی بیماری بتائی جس پر حضرت میاں صاحب بھی لکھ کر جواب دیتے رہے۔
واپسی کے لیے منڈی بہاؤ الدین کا ر استہ اختیار کیا گیا تاکہ شاہ تاج شوگر مل سے آئے ہوئے احمدی احباب کو لفٹ دے سکیں ۔ کار میں عموماً پانچ لوگ بیٹھ سکتے ہیں لیکن آ پ کی فراخ دلی نے چھوٹی سی کار میں ساتھ آٹھ لوگوں کو ہم سفر بنالیا۔ ملک عطاءالرحمٰن صاحب خاصے لمبے انسان تھے ان کو کافی دقّت سے خود کوسمیٹنا پڑا۔ حضرت میاں صاحب اس طرح کی مہم جوئی پر بہت خوشی محسوس کرتے تھے۔
دوران سفر جماعتی معاملات پر گفتگو ہوتی رہی خاص طور پر ان دنوں شاہ تاج شوگر مل میں مزدوروں نے ہڑتال کا ارادہ کیا تھا مگر حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؓ کے ارشاد پر ہڑتال روک دی گئی تھی ۔اس پر غیر از جماعت کی حیرت کا بھی ذکر ہوا کہ کس طرح ایک آواز پر تمام مزدوروں نے کام پر جانے کا فیصلہ کر لیا تھا ۔
دیگر باتوں کے علاوہ یہ ایک بات خاص طور پر یاد آ رہی ہے کہ ایک مقام پر ہمارےسامنے غروب آفتاب کا منظر تھا۔ یہ دیکھ کر حضرت میاں صاحب نے ہمیں کہا کہ دعا کریں کہ پیپلز پارٹی الیکشن جیت جائے ۔ آ پ کی اس تحریک میں جہاں آپ کی ظاہری کوششوں کا عمل دخل دکھائی دیتا ہے جو اوپر بیان کی گئی ہیں کہ خلیفۂ وقت کے سپرد کیے ہوئے کاموں کو تندہی اور انہماک سے سرانجام دیتے تھے وہاں یہ اس بات کی بھی ہلکی سی جھلک ہے کہ آپ کا دعاؤں کے ساتھ کتنا مضبوط تعلق تھا اور اپنی کوشش کرنے کے بعد مکمل توکّل اللہ تعالیٰ ہی کی ذات پر تھا۔
رات گئے جب ہم ربوہ کی حدود کی طرف بڑھ رہے تھے تو اچانک احمد نگر کے قریب کوئی چیز کار سے ٹکراگئی۔ آپ نے پوچھا کہ آپ میں سے کسی کے پاس چاقو ہے؟ ابھی ہم سوچ ہی رہے تھے کہ خود ہی فرمایا کہ اب تک تو خرگوش مرگیا ہوگا۔
اس وقت ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ آنے والے وقت میں ہونے والے خلیفۂ وقت کی معیت میں ہم کس قدر بابرکت سفر پر روانہ تھے ۔ آپ کی مصروف زندگی کاایک دن ہمارے سامنے کھل کر آیا تھاجبکہ آپ کا ہر دن ہی اسی طرح کی مجاہدانہ زندگی سے مزیّن ہو گا ۔آپ اپنے کیے ہوئے وعدوں کی پاسداری کا خیال کرنے والے تھے،بے تکلف اندازِ گفتگو جسے سنتے جانے کو دل کرتا تھا، قائدانہ صلاحیت کے حامل تھے۔ ایک سفر میں کئی کاموں کی انجام دہی اور ہر چھوٹے بڑے کے مسائل سن کر ان کی داد رسی کرنے والے، پھر اپنے ہم سفروں کے ساتھ خوش گوار ماحول بنائے رکھنے کی انمول خصوصیات کو سمیٹے ہوئے ساتھی تھے۔ ایسے ہی اوصاف کا حامل شخص کسی قوم کا لیڈر بننے کا حق دار ہو سکتا ہے ۔ایسی ہی اَور بہت سی خوبیوں سے پُر شخص کی تربیت اللہ تعالیٰ کی تقدیر بھی کر رہی تھی۔ یہ ہماری خوش بختی تھی کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ کی قربت میں ایک سفر کرنے کی سعادت نصیب میں آئی۔
اللہ کرے کہ جس طرح اس نے غیب سے ہمارے لیے بن مانگے حضور ؒ کے قرب کا سامان خلافت سے قبل اور بعد از خلافت بھی مہیا فرمادیا اسی عنایت کے تابع یہ تمنّا ہے کہ اگلے جہان میں بھی آپ اور آپ کے پیاروں کے قرب سے ہمیں نواز دے (آمین) … کہ ؎
تری قدرت کے آگے روک کیا ہے
This was a very faith inspiring incident, and indeed a great blessing of Allah upon Muhammad Aslam Khalid sahib and our late respected Malik Akram sahib that they were able to enjoy the blessed company of our beloved Hazrat Mirza Tahir Ahmad (RH) before his Khilafat. I thoroughly enjoyed reading about this blessed and pleasant journey