بعض صحابہؓ کرام کا ذکرِ خیر

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 12؍ جولائی 1997ء میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعض اصحاب کی سیرۃ کے بارے میں ایک مضمون ماہنامہ ’’تحریک جدید‘‘ کی ایک پرانی اشاعت سے منقول ہے۔
٭ حضرت حافظ حامد علی صاحبؓ موضع تھہ غلام نبی گورداسپور کے باشندے تھے جو قادیان سے چھ میل کے فاصلہ پر ہے۔ آپؓ کا رنگ گندم گوں، جسم دبلا پتلا، قد میانہ تھا۔ داڑھی گھنی نہ تھی۔ بشرہ پر متانت کے ساتھ تعلق باللہ کے آثار نمایاں تھے۔ آپؓ کے والدین بھی اصحابِ احمدؑ میں شامل تھے۔ آپؓ کو اس بات پر فخر تھا کہ آپؓ اس وقت سے احمدی ہیں جب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام ابھی دنیا کی نظروں سے پوشیدہ تھے۔
حضور علیہ السلام کا کوئی سفر ایسا نہ تھا کہ حضرت حافظ صاحبؓ قادیان میں موجود ہوں اور سفر میں شامل نہ ہوں بلکہ سفر کا انتظام آپؓ ہی کے سپرد ہوتا تھا۔ حضورؑ جب شادی کے لئے دہلی تشریف لے گئے تو باراتیوں میں آپؓ بھی شامل تھے اور تمام انتظامات آپؓ کے ہی سپرد تھے۔ جب حضورؑ چلہ کشی کیلئے ہوشیارپور تشریف لے گئے تو آپؓ بھی ہمراہ تھے۔ آپؓ کے نزدیک حضورؑ کی صداقت کی دلیل خود حضورِ اقدسؑ کی ذات تھی۔ آپؓ حضورؑ کے جاں نثار خادم تھے۔ حضورؑ نے آپؓ کی تعریف میں فرمایا تھا: ’’جیسی خدمت شیخ حامد علی نے کی ہے وہ میری خدمت کسی دوسرے نے نہیں کی اور یہ میرے ساتھ ہمیشہ رہا ہے۔ جنت میں بھی میرے ساتھ اسی طرح ہوگا‘‘۔
٭ حضرت چودھری نصراللہ خانصاحبؓ کا تعلق ڈسکہ ضلع سیالکوٹ سے تھا۔ وکالت کا امتحان پاس کرنے سے پہلے ڈسکہ میں بطور مختار پریکٹس کرتے تھے اور امتحان پاس کرنے کے بعد سیالکوٹ میں وکالت کی پریکٹس شروع کی۔ آپ نہایت قابل وکیل اور میونسپلٹی کے نائب صدر بھی تھے۔ 1904ء میں جب ابھی احمدی نہیں تھے تو کرم دین والے مقدمہ میں حضرت مسیح موعودؑ کی طرف سے بطور وکیل صفائی پیش ہوئے ۔ پھر جلد ہی بیعت کی توفیق پائی اور میونسپلٹی سے بھی استعفیٰ دے دیا تاکہ خدمت دین کیلئے زیادہ وقت میسر آسکے۔ 1914ء میں آپؓ کو مجلس معتمدین صدر انجمن احمدیہ کا رکن مقرر کیا گیا۔ آپؓ نے مشیرِ قانونی اور افسر بہشتی مقبرہ کے علاوہ صدر مجلس معتمدین اور ناظر اعلیٰ کے طور پر بھی خدمات کی توفیق پائی۔ آپؓ یہ دینی خدمات بلامعاوضہ بجالاتے تھے لیکن اس کے باوجود کام کو نہایت ذمہ داری اور انہماک سے انجام دیتے تھے۔ آپؓ نہایت کم گو اور خشوع و خضوع سے عبادات بجالانے والے تھے۔ 2؍ستمبر 1926ء کو آپ ؓ کی وفات ہوئی۔
٭ حضرت نواب محمد عبداللّہ خانصاحبؓ ابن حضرت نواب محمد علی خانصاحبؓ آف مالیرکوٹلہ یکم جنوری 1896ء کو پیدا ہوئے۔ ابھی 3 برس کے نہیںہوئے تھے کہ آپکی والدہ وفات پاگئیں۔ چھ سال کی عمر میں اپنے والد محترم کے ہمراہ قادیان آگئے اور پھر قریباً ساڑھے چھ سال تک آپؓ کو حضرت مسیح موعودؑ کے قرب میںرہنے کا موقعہ میسر رہا۔ رجحان بچپن سے ہی مذہبی تھا۔ جب آپؓ میٹرک پاس کرکے مزید تعلیم کیلئے لاہور گئے تو احمدیہ ہاسٹل لاہور کا قیام آپکی ہی توجہ اور کوششوں سے عمل میں آیا۔ آپؓ کو حضرت مسیح موعودؑ کی دامادی کا شرف حاصل تھا۔
حضرت نواب صاحبؓ نے قادیان سے ہجرت کے نامساعد حالات میں بطور ناظر اعلیٰ خدمات انجام دینے کی توفیق پائی۔ آپؓ اللہ تعالیٰ کے نہایت شکرگزار بندے تھے۔ مہمان نواز، غریب نواز اور سادہ انسان تھے۔ آپؓ کی وفات 18؍ستمبر 1961ء کو 66 سال کی عمر میں لاہور میں ہوئی۔
٭ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ کو حضرت مسیح موعودؑ کا نسبتی بھائی ہونے کا فخر حاصل ہے۔ آپؓ 18؍ جولائی 1881ء کو پیدا ہوئے۔ 1900ء میں F.Sc کے امتحان میں وظیفہ لیا اور میڈیکل کالج میں داخل ہوئے۔ آپؓ کے بارے میں حضورؑ کو الہاماً بتایا گیا ’’اسسٹنٹ سرجن‘‘۔ آپؓ نے میڈیکل کے فائنل امتحان میں پنجاب بھر میں اول پوزیشن حاصل کی۔ پہلے دہلی میں ملازمت شروع کی اور 1907ء میں میو ہسپتال لاہور اور اسکے بعد کئی دیگر شہروں میں متعین رہے۔ آپؓ نے ایک مکان دارالعلوم قادیان میں بنوایا جس میں ریٹائرڈ ہونے کے بعد آپؓ کا قیام رہا۔ ایک اندرونِ شہر مکان تھا جو آپؓ نے سلسلہ کے لئے وقف کردیا تھا۔ آپؓ کو حضرت اقدسؑ سے عشق تھا اور حضورؑ کو بھی آپؓ سے بہت تعلق تھا چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ نے آپؓ کے لئے حضرت اقدسؑ کے ’’منظورِ نظر‘‘ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ 1906ء میں جب صدر انجمن احمدیہ کا قیام عمل میں آیا تو آپؓ کو بھی حضرت اقدسؑ نے ممبر مقرر کیا۔ 1924ء میں جب حضرت مصلح موعودؓ نے لندن کا سفر اختیار فرمایا تو حضرت میر صاحبؓ کو ناظر اعلیٰ مقرر فرمایا۔
حضرت میر صاحبؓ نہ صرف ایک ماہر سرجن اور ہمدرد ڈاکٹر تھے بلکہ دینی علوم پر بھی آپؓ کی گہری نظر تھی۔ صاحبِ رؤیا وکشوف تھے۔ آپؓ کو اللہ تعالیٰ نے آپؓ کی وفات کے بارہ میں پہلے سے بتا دیا تھا کہ آپؓ کی وفات 66 سال کی عمر میں ماہ جولائی میں جمعہ کے دن ہوگی۔ چنانچہ 18؍ جولائی 1947ء کو بروز جمعہ آپؓ کی وفات ہوئی۔
٭ حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے برادر نسبتی تھے۔ 1890ء میں لدھیانہ میں پیدا ہوئے جہاں حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ ملازم تھے۔ 1910ء میں مولوی فاضل کا امتحان پاس کرنے کے بعد بطور مدرس مدرسہ احمدیہ، استاذ الجامعہ، قاضی سلسلہ، ناظر اصلاح و ارشاد، ناظر مال، ناظر ضیافت، ممبر صدر انجمن احمدیہ، صدر مجلس ارشاد اور افسر جلسہ سالانہ خدمات انجام دینے کی توفیق پائی۔ آپؓ کو اللہ تعالیٰ نے اعلیٰ درجہ کی انتظامی صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ آپؓ نہایت محنتی اور وقت کے پابند انسان تھے۔ قادرالکلام مقرر تھے اور طرز تحریر بھی بہت مؤثر اور دلنشیں تھا۔ اہم موضوعات پر آپؓ کی قریباً 20 تصانیف شائع شدہ ہیں۔ لباس نہایت سادہ ہوتا لیکن چہرہ بارعب اور چال باوقار تھی۔ 17؍ مارچ 1944ء کو آپؓ کی وفات ہوئی۔
حضرت مصلح موعودؓ نے آپؓ کا ذکرِ خیر کرتے ہوئے فرمایا ’’میر محمد اسحاق صاحب خدمات سلسلہ کے لحاظ سے غیرمعمولی وجود تھے۔ درحقیقت میرے بعد علمی لحاظ سے جماعت کا فکر اگر کسی کو تھا تو ان کو …نظر آ رہا ہے کہ اس نقصان کو پر کرنا آسان نہیں۔‘‘

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں