بغیر انجن کی گاڑی میں سوار ہونا

ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ اپریل2008ء میں چند خوبصورت روایات شامل اشاعت ہیں۔
٭ حضرت عبد المحی صاحب عربؓ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ حضرت مسیح موعودؑ سے سوال کیا تھا کہ حضور کوئی شخص نماز پڑھتا ہے، روزہ رکھتا ہے، حج کرتا ہے، قرآن شریف پڑھتا، شعار اسلام کا پابند ہے مگر آپ کو نہیں مانتا تو اس میں کیا حرج ہے اور اس کے اسلام میں کیا فرق ہے۔ حضورؑ نے فرمایا کہ کوئی شخص ریل گاڑی میں سوار ہوجہاں گاڑی بھی ہے، لائن بھی ہے، اسٹیشن بھی ہے۔ وہ شخص اس کے اندر بیٹھ گیا مگر اس گاڑی کے آگے انجن کوئی نہیں تو وہ شخص کیونکر منزل مقصود کو پہنچے گا۔ پس مجھے خدا تعالیٰ نے اس زمانہ میں اسلام کی گاڑی کے واسطے بطور انجن کے امام بنایا ہے۔
٭ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ کی وفات پر گجرات میں ایک اہل حدیث مولوی نے احمدیوں کو کہا اب تم لوگ قابو آئے کیونکہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ ہر نبوت کے بعد خلافت ہے اور تم میں خلافت نہیں ہوگی، تم لوگ انگریزی دان ہو اس لئے خلافت کی طرف تم نہیں جاؤ گے۔ لیکن جب حضرت خلیفہ اوّل کے بارہ میں اطلاع آئی تو وہ کہنے لگا کہ نورالدین بڑا پڑھا لکھا آدمی تھا اِس لئے اُس نے جماعت میں خلافت قائم کر دی، اگر اس کے بعد خلافت رہی تو پھر دیکھیں گے۔ جب حضرت خلیفہ اوّل فوت ہوئے تو کہنے لگا اُس وقت اور بات تھی اب کوئی خلیفہ بنے گا تو دیکھیں گے۔ جب اُس کو بتایا گیا کہ جماعت نے میرے ہاتھ پر بیعت کر لی ہے۔ تو کہنے لگا یارو تم بڑے عجیب ہو، تمہارا کوئی پتہ نہیں لگتا۔
٭ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ حضرت خلیفہ اوّلؓ مستعمل لفافوں سے ہی بہت سے کام لے لیا کرتے تھے اور انہی پر رقعہ جات وغیرہ لکھ دیا کرتے تھے۔ اِس زمانہ کے نو تعلیم یافتہ لوگ تو اسے شاید خِسَّت کہیں مگر قومی کاموں کے لئے ایسا کرنا ضروری ہے۔ یہ خِسَّت نہیں بلکہ درد دلی پر دلالت کرنے والی بات ہے۔ یہ خدائی روپیہ ہے کیونکہ ثواب کے لئے دیا جاتا ہے اس لئے اپنے روپیہ سے بہت زیادہ حفاظت اس کی کرنی چاہئے اور ہر شعبہ میں کفایت سے کام لینا چاہئے مگر اس طرح نہیں کہ مہمان کو تکلیف پہنچے بلکہ ایسے طریق پر کہ خرچ کم سے کم ہو اور مہمان کو زیادہ سے زیادہ مل سکے۔
٭ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ہم نے طالب علمی کے زمانہ میں صرف سات لڑکوں نے رسالہ (تشحیذالاذہان) جاری کر دیا تھا۔ تین روپے ماہوار مجھے جیب خرچ ملا کرتا تھا اس میں سے ایک روپیہ میں رسالہ کے لئے چندہ دیا کرتا تھا۔ ہم نے اوّل سہ ماہی رسالہ جاری کیا۔ ہم آپ ہی اس کے چپڑاسی، آپ ہی کلرک اور آپ ہی ایڈیٹر تھے۔ تین ماہ میں اکیس روپیہ چندہ جمع ہوجاتا تھا اور ہم رسالہ شائع کردیتے۔ ایک سال کے اندر اندر اس کے اتنے خریدار ہوگئے کہ اسے ماہوار کردیا گیا۔ پس طالب علم چاہیں تو کام کرسکتے ہیں بشرطیکہ دوسروں پر توکل کرنا چھوڑ دیں اور اپنی ذات پر توکل کریں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں