بورکینا فاسو میں احمدیت کا آغاز
بورکینافاسو کا مطلب ہے’’عزت دار لوگوں کی سرزمین‘‘۔ اس ملک کا پرانا نام اپروولٹا تھا۔ یہاں 1951ء میں احمدیت کا پودا لگا جسے غانا کی جماعت کی کوششیں پروان چڑھاتی رہیں اور بہت سے تعلیم یافتہ افراد بھی احمدیت میں داخل ہوئے اور سرکاری طور پر جماعت رجسٹرڈ بھی ہوگئی۔ 1990ء میں مکرم محمد ادریس شاہد صاحب کو یہاں جانے کا ارشاد ہوا۔ اس حوالہ سے آپ کا ایک مضمون روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 16؍جون 2003ء میں شامل اشاعت ہے۔
مضمون نگار لکھتے ہیں کہ جب مجھے بورکینافاسو جانے کا حکم ملا تو مَیں آئیوری کوسٹ میں فرانسیسی زبان سیکھ رہا تھا۔ ویزا لے کر بورکینافاسو کے دارالحکومت واگادوگو کے ایئرپورٹ پر اُترا تو چھ سات احباب استقبال کیلئے آئے ہوئے تھے۔ ایک مکان پہلے سے کرایہ پر لیا جاچکا تھا جس میں ایک پلنگ اور ایک پیڈسٹل فین موجود تھا۔
ہمارے ایک معلّم کی نئی شادی ہوئی تھی اور وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ یہیں مقیم تھے۔ مَیں نے پلنگ اور پنکھا اُنہیں دیدیا اور خود دوسرے کمرہ میں چٹائی بچھالی۔ معلّم صاحب چند لکڑیاں اور کیل لائے جن کو ترتیب دے کر ایک میز بنالی اور اُس پر چادر ڈال لی۔ ہمسایوں سے ایک کرسی اور دو بنچ عاریۃً لے کر دفتر کا آغاز کردیا۔
شہر بھر میں چند گھر احمدی تھے اور باقی احمدیت کے نام سے بھی بے خبر تھے۔ ہمارے پاس دو پرانے موٹر سائیکل تھے جو اتنے کمزور تھے کہ چھوٹی موٹی چڑھائی پر بھی جواب دے جاتے۔ تاہم ہماری ہمت جوان تھی اس لئے پہلے تبلیغی سفر کا آغاز کیاتو پانچ سو کلومیٹر سے زائد سفر کیا اور اللہ تعالیٰ نے تین صد سے زائد پھل عطا کئے۔
بورکینافاسو کا پہلا جلسہ سالانہ 8،9 مارچ 1990ء میں منعقد ہوا جس میں پچاس مخلصین نے شرکت کی۔ اس موقع پر بورکینافاسو میں پہلی دفعہ لوائے احمدیت بھی لہرایا گیا۔ آہستہ آہستہ دفتر اور مشن ہاؤس میں ضرورت کی ہر چیز آگئی۔ پہلے ہم ڈرائینگ روم میں نماز جمعہ پڑھتے تھے۔ جب تعداد میں اضافہ ہوا تو برآمدہ اور صحن میں جمعہ ہونے لگا۔ کچھ عرصہ بعد سارے صحن میں لوہے کی چادر کی چھت ڈال دی۔
آغاز میں ہی مختلف ممالک کے سفراء اور بورکینافاسو کے وزراء سے ملاقات کے لئے درخواستیں دیں لیکن کوئی مثبت جواب نہ ملا۔ تاہم Mossi قبیلہ کے بادشاہ کے ساتھ ابتداء میں ہی ملاقات ہوئی۔ اس بادشاہ کا دبدبہ اور پروٹوکول قوانین بہت سخت تھے۔ ملاقاتی کو جوتا اور ٹوپی پہننے کی اجازت نہ تھی اور سلام کرنے کے آداب میں بادشاہ کے سامنے سجدہ ریز ہونا لازمی تھا۔ البتہ میرا طریق اپنے وفد کے ہمراہ یہ تھا کہ جوتا باہر اتار جاتا۔ ٹوپی پہنے رکھتا۔ بادشاہ سے ہاتھ ملاکر سلام کرتا اور پھر اُس کے سامنے صف پر بیٹھ جاتا۔ خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے وہ وقت بھی دکھایا کہ پھر بادشاہ اپنے ہاتھ سے اس عاجز کے لئے کرسی اٹھاکر لایا اور پینے کے لئے مشروب بھی پیش کیا۔
اس علاقہ میں یہ خصوصیت تھی کہ لوگ بات کو غور سے سنتے اور خوب سوال کرتے۔ پھر باہم مشورہ کرتے اور احمدیت کی قبولیت کا فیصلہ کرتے۔ ایک گاؤں میں چند نوجوانوں نے ہمیں مدعو کیا تو رات گئے تک سوال ہوتے رہے۔ جب بیعت کا ذکر ہوا تو وہاں کے امام نے انکار کردیا۔ اس پر نوجوانوں نے کہا کہ ہم تو بیعت کررہے ہیں اور اگر تم بیعت نہیں کروگے تو ہمارے امام بھی نہیں رہ سکتے۔ یہ سن کر امام صاحب فوراً بیعت فارم کی طرف لپکے اور دوسروں کو بھی بیعت کرنے کی تلقین کرنے لگے۔
دعوت الی اللہ بڑھتی رہی اور نئی جماعتیں قائم ہوتی رہیں۔ 1998ء تک ملک بھر میں سات مزید مراکز قائم ہوچکے تھے۔وزیر صحت اور وزیراعظم سے ہسپتال کھولنے سے متعلق رابطہ جاری تھا۔ جونہی فرانسیسی بولنے والے ڈاکٹر محمود بھنو صاحب آف ماریشس نے وقف کیا، اُن کا تقرر بورکینافاسو میں ہوگیا۔ جماعت اور وزارت صحت کے درمیان ایک معاہدہ بھی طے پایا جس کے تحت ہمیں بعض رعایتیں دی گئیں۔ مثلاً وہاں ہومیوپیتھی کا علاج ممنوع تھا لیکن ہمیں اس کی اجازت ملی۔
تبلیغ میں کامیابیوں کے ساتھ ساتھ مخالفت بھی پروان چڑھتی گئی۔ ہمارے مخالفین کے پاس ایک حربہ یہ آیاکہ ہمارا بیعت فارم چھپواکر تقسیم کیا اور بتایا کہ جو وفد یہ فارم لے کر آئے ، اُس کی بات نہ سنی جائے۔ نتیجہ برعکس ہوا کہ لوگوں نے بیعت فارم پڑھنے کے بعد ازخود تحقیق شروع کردی اور کئی دیہات میں آنے کی دعوت ملی۔