بچے – موٹاپا – کمپیوٹر – معاشرتی رویے …….. – جدید تحقیق کی روشنی میں

بچے – موٹاپا – کمپیوٹر – معاشرتی رویے …….. – جدید تحقیق کی روشنی میں
(شیخ فضل عمر)

بچوں کی صحت کے حوالے سے دنیابھر میں پائی جانے والی تشویش کمپیوٹر یا ٹی وی کے استعمال اور ناقص غذاؤں کے نتیجے میں‌موٹاپے سمیت دیگر معاشرتی رویوں کے گرد گھومتی ہے- اس حوالے جدید تحقیق کی روشنی میں چند رپورٹس پیش ہیں جو والدین کے لئے راہنمائی کا ذریعہ بن سکتی ہیں-
٭ برطانیہ میں کی جانے والی ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ اکثر بچے اپنی پیدائش کے وقت ہی موٹاپے کا شکار ہوتے ہیں اور اُنہیں بعد میں موٹا نہیں کیا جاتا اس لئے ہر موٹے بچے کے معاملے میں والدین کو موردِالزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ اس تحقیق کے دوران پانچ ہزار جڑواں بچوں کا جائزہ لیا گیا جس کے نتائج کے مطابق 77فیصد بچوں میں فربہ پن کی وجہ جینیاتی پائی گئی جبکہ 23 فیصد بچوں کے بارے میں معلوم ہوا کہ اُن میں موٹاپے کی وجہ ماحولیاتی تھی یعنی موٹا کرنے والی غذا کا استعمال اور ورزش میں کمی کا رجحان وغیرہ۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ برطانیہ میں بچوں کی ایک تہائی تعداد وزن کی زیادتی کا شکار ہے اور اگر حالات میں تبدیلی نہ لائی گئی تو اندازہ ہے کہ 2050ء تک یہ تعداد دو تہائی ہوجائے گی۔ رپورٹ کے مطابق جو بچے اپنے بچپن میں وزن میں زیادتی کا شکار ہوتے ہیں، امکان ہوتا ہے کہ وہ بلوغت میں بھی وزن میں زیادتی سے متأثر ہوں گے۔ لیکن خطرناک امر یہ ہے کہ ایسے افراد میں ذیابیطس، دل کی بیماریاں اور کینسر جیسی بیماریاں بھی دوسروں کی نسبت زیادہ پائی گئی ہیں۔
٭ ایک رپورٹ میں ماہرین نے بتایا ہے کہ رات کو آرام دہ نیند سے لطف حاصل کرنے والے بچوں میں موٹاپے کا رجحان اُن بچوں کی نسبت کم ہوتا ہے جنہیں رات کو اچھی نیند میسر نہیں آتی۔ چنانچہ اعدادوشمار کے مطابق ہر ایک گھنٹے کی اچھی نیند کی زیادتی سے موٹاپے کے شکار ہونے کا خدشہ نو فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔ ماہرین نے اس مطالعاتی تحقیق کے دوران مشاہدہ کیا کہ نیند کی کمی کا شکار ہونے والے بچوں میں موٹا ہونے کی شرح ایسے بچوں کی نسبت 92 فیصد تک زیادہ تھی جنہوں نے اپنی نیند پوری کی تھی۔ محققین نے اس دوران ماہرین کی طرف سے شائع کی جانے والی ایسے سترہ تحقیقی رپورٹوں کو بھی پیش نظر رکھا جن میں بچپن کے موٹاپے سے نیند کے دورانیے کا تعلق واضح کیا گیا تھا۔ بعض محققین کا خیال ہے کہ پانچ سال کی عمر تک کے بچوں کے سونے کا دورانیہ روزانہ گیارہ گھنٹے یا اُس سے بھی زیادہ ہوسکتا ہے جبکہ پانچ سے دس برس کی عمر کے بچوں کو روزانہ دس گھنٹے یا اُس سے زیادہ کی نیند کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ دس سال سے بڑی عمر کے بچوں کے لئے نو گھنٹے کی نیند بھی کافی ہوسکتی ہے۔
٭ گزشتہ ہفتے برطانوی ماہرین کے مرتب کردہ ایک تحقیقی مطالعے میں کہا گیا ہے کہ اگر آپ اپنے بچے کو موٹاپے سے بچانا چاہتے ہیں تو اُس کی خوراک میں نمک کم کردیں اور میٹھے سافٹ ڈرنکس کا استعمال بھی بہت کم کردیں۔ کیونکہ ان دونوں چیزوں کے زیادہ استعمال سے بچے موٹاپے کا شکار ہوجاتے ہیں اور بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ اُن میں دل کی بیماریوں کے امکانات میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔
٭ آسٹریلوی طبی ماہرین نے واضح کیا ہے کہ بچوں میں موٹاپے کا گہرا تعلق اُن کے والدین کے رویہ کے ساتھ مربوط ہے۔ ماہرین کے مطابق بچوں پر تحکمانہ لب و لہجہ رکھنے والے بچے موٹاپے کا شکار نہیں ہوتے۔ رپورٹ کے مطابق سڈنی میں ماہرین نے 4983 بچوں کے والدین سے بچوں کے ساتھ تحکمانہ لب و لہجہ رکھنے، نرم رویہ رکھنے یا اُن کی سرگرمیوں (کھانے پینے اور مطالعہ کرنے وغیرہ) سے لاتعلقی کے حوالے سے معلومات حاصل کیں۔ ان بچوں میں 2446 لڑکیاں اور 2537 لڑکے تھے۔ مجموعی طور پر ان میں سے پندرہ فیصد بچے زائد وزن کا شکار تھے۔ ماہرین نے ان بچوں کے والدین کو سوالنامے فراہم کئے جن میں بچوں کی سرگرمیوں کے حوالے سے والدین کے رویئے، گرمجوشی یا ان کے ساتھ زیادہ پیار محبت والا رویہ، تحکمانہ اور آمرانہ رویہ اور بچوں کی سرگرمیوں سے لاتعلقی کے بارے میں معلومات حاصل کی گئیں جن کی روشنی میں ماہرین نے اخذ کیا کہ ایسے بچے جن کے والدین نے ان کے کھانے پینے، سونے اور مطالعہ و کھیل کود کو سختی سے کنٹرول کیا، وہ جسمانی لحاظ سے فِٹ رہتے ہیں۔ جبکہ بچوں کو اُن کی مرضی کے مطابق کام کرنے کی اجازت دینے والے والدین کے بچوں میں موٹاپے کا 59فیصد امکان ہوتا ہے۔
٭ ایک امریکی طبّی جریدے میں شائع ہونے والی مطالعاتی رپورٹ میں ٹیلی ویژن اور کمپیوٹر سکرین کے بچوں کی صحت پر ہونے والے نقصانات بیان کئے گئے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جو بچے دن میں دو گھنٹے سے زیادہ ٹیلی ویژن دیکھتے ہیں یا کمپیوٹر گیمز کھیلتے ہیں، وہ اُن بچوں کی نسبت کم صحتمند ہوتے ہیں جو ایسا نہیں کرتے ۔ اس مطالعے میں 11 سے 15 سال کی عمر کے 2750 بچوں کی مجموعی صحت کا جائزہ لیا گیا جس سے معلوم ہوا کہ بچوں میں سانس لینے کے عمل کی درستگی کا براہ راست تعلق اس بات سے تھا کہ انہوں نے کتنا وقت ٹیلی ویژن یا کمپیوٹر سکرین کے سامنے گزارا۔ یہ جائزہ آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف سڈنی کے وزن کی زیادتی اور موٹاپے سے متعلق مرکز کی ڈاکٹر لوئیس ہارڈی کی قیادت میں مکمل ہوا ہے اور وہ کہتی ہیں کہ جائزے کے نتائج سے ظاہر ہوا ہے کہ بچوں کو سکرین کے سامنے زیادہ سے زیادہ دو گھنٹے گزارنے چاہئیں۔ اگر وہ اس سے زیادہ وقت کے لئے ایسا کریں گے تو ان کی صحت متاثر ہو سکتی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ اپنے بچوں کے کمروں سے ٹیلی ویژن اور کمپیوٹر نکال دیںاور کھانا کھاتے وقت ٹیلی ویژن بند رکھیں۔ اور یہ اصول صرف ٹیلی ویژن پر ہی نہیں بلکہ اُن تمام چیزوں پر بھی لاگو کریں جن میں سکرین کا استعمال ہوتا ہے۔ بلکہ بہتر تو یہ ہوگا کہ بعض اوقات بچوں کو سکرین سے کئی کئی روز تک دُور رکھا جائے۔کیونکہ جو بچے سکرین کے سامنے زیادہ وقت گزارتے ہیں وہ نہ صرف موٹاپے کا شکار ہوجاتے ہیں اور ان کی صحت خراب ہوجاتی ہے بلکہ اس سے اُن کی ہڈیوں کی مناسب نشوونما بھی نہیں ہوپاتی۔
اس سے قبل برطانیہ میں بھی ایک جائزے کے بعد والدین کوخبردار کیا گیا تھا کہ وہ اپنے بچوں کو لاڈ پیار میں غیرصحت مند خوراک کھانے اور کمپیوٹر گیمز کھیلنے کی اجازت دے کر ان کی جانیں خطرے میں نہ ڈالیں۔
٭ امریکہ کے ماہرین غذا نے کہا ہے کہ اوائل عمری میں خالص جوس پینے والے بچے موٹاپے کا شکار نہیں ہوتے۔ حال ہی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی محققین نے دو سے گیارہ سال کی عمر کے 3618 بچوں کا جوس پینے اور ان کے وزن میں اضافے یا موٹاپے میں مبتلا ہونے کے حوالے سے مطالعاتی جائزہ لیا جس کے دوران پتہ چلا کہ تقریباً آدھا کپ روزانہ خالص جوس پینے والے بچے موٹاپے سے محفوظ رہتے ہیں۔ چنانچہ ہدایت کی گئی ہے کہ بچوں کو درکار غذائی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے انہیں اعتدال سے پھلوں کا خالص جوس استعمال کروانا چاہئے جبکہ ان بچوں کو کھانے کے لئے دی جانے والی غذاؤں کو اُن غذاؤں میں موجود توانائی کے حراروں کو مدنظر رکھا جائے جبکہ بچوں کی روزمرہ سرگرمیوں میں کھیل کود اور ورزش کو بھی باقاعدہ بنایا جائے تو ان بچوں کے موٹاپے پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
٭ امریکہ میں کی جانے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ میں بہت موٹے بچوں کے خون میں آئرن کی نمایاں کمی ریکارڈ کی گئی جس کے نتیجے میں بچے کا سیکھنے کا عمل اور روزمرہ اطوار متأثر ہوسکتے ہیں۔ اس بات کا علم پہلی بار ہوا ہے کہ موٹاپے اور خون میں آئرن کی کمی کا ایک باہمی تعلق ہے اور یہ تعلق ایسے چھوٹے بچوں میں بھی دیکھنے میں آیا جن کی عمر صرف ایک سال ہے۔ تحقیق کرنے والوں نے موٹاپے کی بیماری اور خون کی کمی کا شکار ہونے کا الزام بازار میں ملنے والی غیرصحتمند خوراک یعنی Junk Food کو بھی دیا ہے۔ تاہم کہا گیا ہے کہ اس سلسلے میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ شیرخوار بچوں میں موٹاپے کے تعلق کے ضمن میں محققین کا خیال ہے کہ دودھ یا جوس کا زیادہ مقدار میں استعمال اور لمبا عرصہ بوتل کے ذریعے دودھ پلانا، نیز junk food کا استعمال موٹاپے کے اسباب میں سرفہرست ہیں۔ تحقیق کے مطابق خون میں آئرن کی کمی سے ابتدائی عمر میں سیکھنے کا عمل متأثر ہوتا ہے جس کے نتیجے میں سکول میں عمومی کارکردگی اور دماغی مشقوں سے متعلق امور میں بچے کی کارکردگی بھی نمایاں طور پر متأثر ہوتی ہے۔
اس تحقیق کے دوران ایک سے تین سال تک کی عمر کے 1641 بچوں کو زیرمطالعہ رکھا گیا۔ زیادہ وزن والے بچوں کی بیس فیصد تعداد میں آئرن کی کمی پائی گئی جبکہ اس کے مقابلے میں نارمل وزن کے حامل بچوں میں صرف سات فیصد میں آئرن کی کمی نوٹ کی گئی۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ بچے جو سکول سے قبل کسی نرسری یا Day Care میں وقت گزارتے ہیں، اُن میں آئرن کی کمی کا رجحان دیگر بچوں کی نسبت کم دیکھنے میں آیا جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایسے بچوں کو جوس اور سنیکس وغیرہ زیادہ مقدار میں مہیا نہیں کئے جاتے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں