بچے کی ذہنی اور جسمانی صحت میں ماں کا کردار – جدید تحقیق کی روشنی میں

بچے کی ذہنی اور جسمانی صحت میں ماں کا کردار – جدید تحقیق کی روشنی میں
(محمود احمد ملک)

ماں اور بچے کا جسمانی تعلق پیدائش کے بعد بھی دودھ پلانے کی صورت میں جاری رہتا ہے- اور ویسے ماں کے ہاتھ میں بچے کی جسمانی، ذہنی اور اخلاقی صحت کی کنجیاں بھی خداتعالیٰ نے عطا فرمادی ہیں- ایک دلچسپ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ خیال عام ہے کہ پہلی اولاد کو دوسرے بچوں پر فوقیت دینا معاشرتی رواج کا حصہ ہے اور پہلے بچے میں عام طور پر اس کے سوا اور کئی خوبی نہیں ہوتی کہ وہ اتفاقیہ طور پر اپنے دوسرے بہن بھائیوں سے پہلے اس دنیا میں آجاتا ہے۔ تاہم حال ہی میں اس سلسلے میں کئے جانے والے ایک مطالعاتی جائزے سے دلچسپ نتائج سامنے آئے ہیں۔
جریدے لائیو سائنس میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے مطابق ناروے میں 18 اور 19 سال کی عمر کے 25 ہزار نوجوانوں پر کئے جانے والے اس سروے کے نتائج سے ظاہر ہوا ہے کہ اُن بچوں کی ذہانت کا معیار دوسروں کی نسبت زیادہ تھا جو اپنے والدین کی پہلی اولاد تھے۔ ناروے میں ہی ایک لاکھ سے زیادہ لڑکوں پر کئے جانے والے ایک اَور مطالعاتی جائزے کے نتائج جریدے انٹیلی جنس میں شائع ہوئے ہیں۔ اِس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پہلو ٹھی کے لڑکے کا آئی کیو، یعنی ذہانت کی سطح اپنے چھوٹے بھائی کی نسبت 2.3 پوائنٹ زیادہ تھی۔ یہ بات اہم ہے کہ چھوٹے بھائیوں کی ذہانت کی پیمائش اُسی عمر میں کی گئی جس عمر میں بڑے بھائی کی ذہانت کی پیمائش کی گئی تھی۔ یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے شعبہ نفسیات کے ماہر پروفیسر فرینک نے اِن دونوں مطالعاتی جائزوں کو گذشتہ 75 برسوں کے دوران کئے جانے والے اہم ترین جائزوں میں شمار کیا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اس مطالعاتی جائزے سے اس نظریے کو تقویت ملتی ہے کہ کسی ایک بچے کی ذہانت کا براہ راست تعلق والدین کے ساتھ وقت گذارنے سے ہے۔ چونکہ پہلا بچہ، دوسرے بچوں کی نسبت ماں باپ کی زیادہ توجہ حاصل کرتا ہے اور اُن کے ساتھ زیادہ وقت گزارتا ہے، اس لئے اسے سیکھنے کے مواقع زیادہ ملتے ہیں اور اس کی ذہانت کی سطح اپنے دوسرے بہن بھائیوں کے مقابلے میں بڑھ جاتی ہے۔
٭ بچوں کی ہڈیوں کے کمزور اور ٹیڑھے ہونے کا باعث بننے والے مرض سے متعلق شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ میں 1960ء کی دہائی میں اس مرض پر قابو پالیا گیا تھا لیکن اب یہ دوبارہ بچوں میں پیدا ہونے لگا ہے جبکہ غریب ممالک میں اس کے کئی کیسز سامنے آتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ جسم میں وٹامن ڈی کی کمی ہے۔ اس مرض میں بچوں کی ہڈیاں نرم پڑ جاتی ہیں اور اُن کی گروتھ بھی بُری طرح متأثر ہوتی ہے۔ اس کی ایک وجہ ماں کی غذا میں بھی وٹامن ڈی کی کمی ہے۔ کیونکہ غریب ممالک میں عام طور پر ماں بننے والی خواتین اپنی غذا کے صحتمند اور متوازن ہونے کے بارے میں خیال نہیں رکھ سکتیں۔ معلوم ہوا ہے کہ امریکہ میں اس بیماری کا شکار زیادہ تر سیاہ فام گھرانے ہورہے ہیں۔ جس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ ان گھرانوں میں عموماً غذا کے متوازن ہونے کا خیال نہیں رکھا جاتا اور یہ بھی کہ ان کی رنگت کی وجہ سے سورج کی شعاعیں اُن کے جسم میں جذب نہیں ہوپاتیں جس کی بدولت اُن کے دودھ میں وٹامن ڈی کی پچیس فیصد کمی ہوجاتی ہے۔ چنانچہ ایسی ماؤں کو اپنی خوراک میں اضافی وٹامن ڈی لینے کی ہدایت کی گئی ہے۔
٭ اسی طرح ایک اور تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ایسی مائیں جو حمل کے دوران Omega 3 تیل والی مچھلی کھاتی ہیں، اُن کے بچے ذہنی طور پر زیادہ صحتمند ہوتے ہیں۔ یہ تیل ایسی بڑی مچھلیوں میں زیادہ مقدار میں پایا جاتا ہے جو چھوٹی مچھلیاں کھاتی ہیں۔ محققین نے 9 ہزار ماؤں پر تحقیق کرنے کے بعد بتایا ہے کہ جو مائیں اومیگا تھری سے بھرپور خوراک نہیں کھاتیں، اُن کے بچے کے دماغ اور ہاتھ میں ہم آہنگی زیادہ اچھی نہیں ہوتی، چنانچہ نہ وہ اچھے ڈرائیور ہوتے ہیں اور نہ ہی معاشرتی طور پر زیادہ فعال ہوتے ہیں۔ ایسے بچوں کی ذہنی عمر بھی اُن بچوں سے چھ پوائنٹس کم دیکھی گئی ہے جن کی مائیں اومیگاتھری سے بھرپور غذا استعمال کرتی رہی تھیں۔ تحقیقی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر جوزف کا کہنا ہے کہ بچے کے ذہن کو اومیگاتھری کی بہت ضرورت ہوتی ہے لیکن یہ روغنی ایسڈ بچہ خود نہیں بناتا بلکہ اس کا انحصار اپنی ماں کی خوراک پر ہوتا ہے۔ ایک ماہرِ خوراک پیٹرک ہولفورڈ کا کہنا ہے کہ بچوں کو اومیگاتھری روغنی ایسڈ کی سخت ضرورت ہوتی ہے کیونکہ انسان کے ذہن کا ساٹھ فیصد حصہ چکنائی پر مشتمل ہوتاہے۔
٭ اقوام متحدہ کے طبّی ماہرین نے افریقہ کے ملک زیمبیا میں چار ماہ کے بچوں پر کی جانے والی ایک تحقیق میں مشاہدہ کیا ہے کہ ایڈز زدہ ماؤں کے جن بچوں کو ڈر کی وجہ سے چھاتی سے دودھ بہت کم عرصے تک پلایا گیا، اُن میں سے اکثر تین ماہ کے اندر ہلاک ہوگئے بلکہ جو مائیں ایڈز میں مبتلا نہیں بھی تھیں، اُن کے بچے بھی بیماریوں کا مقابلہ نہیں کرپائے۔ ماہرین کے مطابق چھاتی سے دودھ چھڑانے کا عمل بچے کے لئے خطرناک ہے اور یہ کہ بچے کو کم از کم چار سے چھ ماہ اور زیادہ سے زیادہ دو سال تک دودھ پلانے کا عمل جاری رکھنا چاہئے۔ ماہریننے اتفاق کیا ہے کہ ماں کے دودھ میں بچوں کی بیماریوں کے خلاف سب سے زیادہ قوت مدافعت پائی گئی ہے۔
پس آج سائنسی تحقیق نے ثابت کردیا ہے کہ قرآنی ارشاد کے مطابق بچوں کو دو سال کی عمر تک دودھ پلایا جائے تو بچوں اور ماں دونوں کے لئے بہتر ہوتا ھے- چنانچہ کئی سال تک جاری رہنے والی ایک طبی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ دودھ پلانے والی مائیں دل کے دورے، بلڈپریشر اور ذیابیطس کے خطرے سے قریباً مکمل طور پر آزاد ہوسکتی ہیں۔ اس تحقیق میں قریباً ایک لاکھ چالیس ہزار ماؤں کی صحت کا تجزیہ کیا گیا تھا اور جائزے کے مطابق جو مائیں زیادہ لمبے عرصے تک بچوں کو دودھ پلاتی رہیں وہ ان بیماریوں میں مبتلا ہونے کے خطرات سے زیادہ بہتر طور پر محفوظ نظر آئیں۔ یہ تحقیق پروفیسر ایلنوربائیمل نے یونیورسٹی آف پٹس برگ کے سکول آف ہیلتھ سائنس کے تعاون سے مکمل کی ہے اور اُن کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دودھ پلانے سے ماں کے جسم کے اندر موجود قوتِ مدافعت میں بے پناہ اضافہ ہوتا ہے جس سے متعدد اقسام کی بیماریاں لاحق ہونے کے خدشات قریباً ختم ہوجاتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ایک سال تک دودھ پلانے والی خاتون 70فیصد تک، 6ماہ تک دودھ پلانے والی ماں 40 فیصد تک اور صرف ایک ماہ تک دودھ پلانے والی ماں 10فیصد تک دل کے دورے، بلڈپریشر اور ذیابیطس سے محفوظ ہوسکتی ہے۔
٭ اسی حوالے سے رپورٹ بھی اہم ہے کہ بچوں کی فلاح و بہبود کے لئے اقوام متحدہ کے ادارہ یونیسف نے بچوں کی صحت سے متعلق نئے ضابطے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ بوتل سے دودھ پلانے کے رجحان کی ہر سطح پر حوصلہ شکنی ہونی چاہئے۔ خاص طور پر پہلے ایک سال تک بچوں کو بوتل سے دودھ پلانے کا عمل انتہائی خطرے کا حامل ہوتا ہے۔ پہلی دفعہ بننے والی ماؤں کے بچے اس خطرے سے زیادہ دو چار ہوتے ہیں کیونکہ بوتل کی صفائی، دودھ دینے کے شیڈول میں گڑبڑ، بچے کی بھوک اور دودھ تیار کرتے وقت پانی اور خشک دودھ کی مقدار میں کمی بیشی وہ عوامل ہیں جو غلطیوں کی شکل میں بچوں کو شدید بیمار کر سکتے ہیں۔ بچوں کے دودھ کے برانڈ میں تیزی سے تبدیلیاں بھی ان کو بیمار کر سکتی ہیں۔ بعض بچے زیادہ دودھ پینے کے عادی ہو کر موٹاپے کا شکار ہوجاتے ہیں کیونکہ ماؤں کو سمجھ نہیں آتی کہ بچے کا پیٹ بھر چکا ہے۔ یونیسف کی طرف سے جاری ہونے والی تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 13ہزار ماؤں کے انٹرویو کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ 80 فیصد ماؤں کو بوتل کے ذریعے دودھ پلانے کے متعلق جامع معلومات حاصل نہیں ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں