جزائرکی سرزمین… انڈونیشیا

ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ ربوہ نومبر 2003ء میں مکرم سید قمر سلیمان احمد صاحب نے اپنے مضمون میں انڈونیشیا کے اپنے سفر کے حوالہ سے دلچسپ حقائق بیان کئے ہیں۔
احمدیہ مرکز جکارتہ سے تقریباً 45؍کلومیٹر دُورParung میں ہے۔ راستہ میں ایک ہوٹل میں کھانے کے لئے رُکے تو بیرے نے 15، 20 پلیٹوں میں مختلف اشیاء سجا دیں۔ یہاں کا رواج ہے کہ ہوٹل میں کسی خاص چیز کا آرڈر نہیں دیا جاتا ۔ بلکہ جو بھی پکا ہو، وہ میز پر رکھ دیتے ہیں۔ جو آپ کھائیں، اس کی ادائیگی کردیں۔ Parung میں جماعت احمدیہ انڈونیشیا کے نظام کا صحیح اندازہ ہوا۔ کئی ایکڑ پر مشتمل یہاں جامعہ احمدیہ ہے۔ ایک بڑی مسجد، دفاتر اور گیسٹ ہاؤس ہے۔ بعض مخلصین نے بھی زمین خرید کر اپنے مکان تعمیر کئے ہیں۔ جلسہ بھی یہیں ہوتا ہے۔ انڈونیشیا میں مربیان کی تعداد قریباً ایک سو ہے جن میں سے تیس پاکستان سے فارغ التحصیل ہیں اوربہترین اردو بولتے ہیں۔
Bandung ایک بڑی اور پرانی جماعت ہے۔ راستہ نہایت خوبصورت تھا۔ پہاڑیوں میں جگہ جگہ ندیاں بہہ رہی تھیں۔ یہاں چاول بہت کاشت ہوتا ہے بلکہ سال میں دوتین فصلیں ہو جاتی ہیں۔ کسی جگہ چاول کٹ رہے تھے تو کسی جگہ لگائے جا رہے تھے اور کہیں فصل لہلہا رہی تھی۔جا بجا کیلے کے خودرو پودے ہیں۔ موسم معتدل اور مرطوب ہے۔ بارش زیادہ ہونے کی وجہ سے سبزہ ہی سبزہ ہے۔ اس کے علاوہ بھی قدرت نے انڈونیشیا کو بیشمار نعمتوں سے نوازا ہے۔تیل پیدا کرنے والے ممالک میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ بانڈونگ میں خوبصورت احمدیہ مسجد سے ملحق مہمان خانہ بھی ہے۔ ویسے یہ شہر ایک آتش فشاں کے نزدیک ہے جو کبھی کبھار ناراض ہو جائے تو آگ برساتا ہے۔ اس کے باوجود لوگ نہایت اطمینان سے رہتے ہیں۔
Garut میں ایک احمدی دوست کا بہت اعلیٰ درجہ کا ہوٹل ہے۔ یہاں بھی آتش فشانی سلسلہ ہونے کی وجہ سے دریا اپنی گذرگاہوں سے گرم ہی آتا ہے۔ ہوٹل میں اس پانی سے ایک سوئمنگ پول بنایا گیا ہے۔ یہاں سے کچھ دُور Wanasigra کی جماعت تقریباً تین ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ یہ سارا گاؤں احمدیوں کا ہے جہاں ایک سکول بھی جماعت کے زیر انتظام ہے جس کے نتائج بہت عمدہ ہیں۔ایک دوست کی دعوت پر ان کے گھر چائے پی۔ ان کے صحن میں ایک چھوٹا سا مچھلیوں کا تالاب تھا۔ جہاں ڈوری سے مچھلی پکڑی گئی۔ انڈونیشیا میں ایسے تالاب بکثرت ہیں جو صحن میں ہوتے ہیں۔ اور حسبِ ضرورت تازہ مچھلی مہیا کرتے ہیں۔
شہر Jogjakarta ایک یونیورسٹی ٹاؤن ہے جس کی سب سے بڑی یونیورسٹی گاجامادا یونیورسٹی میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے لیکچر دیا تھا۔ کچھ احمدی دوست اس میں پڑھاتے ہیں۔ یہاں شام کو بازار میں خاص رواج کھانے کا یہ ہے کہ فٹ پاتھ پر ایسے ریستوران ہیں جہاں زمین پر بیٹھ کر کھانا کھایا جاتا ہے۔ اسے Lesihan کہتے ہیں۔ یہاں سے 40، 45 کلومیٹر کے فاصلہ پر دنیا میں بدھ مت کا سب سے بڑا مندر بوروبدھو ہے۔ ایک ٹیلہ پر اس کی کئی منزلہ عمارت ہے اور سینکڑوں سیڑھیاں چڑھ کر اوپر پہنچا جاتا ہے۔
ایک جماعت Manislor خاصی بڑی ہے جہاں مخالفت کے باوجود احمدیوں میں بڑے جوش اور جذبے کا اظہار تھا۔ ایک خوش آئند بات احمدیوں کے مکانات کی عمدہ تعمیر تھی۔ دراصل جب کسی نے مکان تعمیر کرنا ہو تو سارے احمدی وقار عمل کے لئے ڈیوٹیاں مقرر کر لیتے ہیں۔ اور اس طرح مکان کی تعمیر میں مزدوری کی بچت کی وجہ سے میٹریل اچھی قسم کا استعمال ہوتا ہے۔
انڈونیشیا تیرہ ہزار جزائر پر مشتمل ملک ہے جس کا سمندر سمیت کل رقبہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے برابر ہے۔ جس کا تیسرا حصہ خشکی پر مشتمل ہے۔ بعض جزائر تو اتنے چھوٹے ہیں کہ ان پر آبادی نہیں ہے۔ لیکن پانچ جزائر بڑے ہیں۔ ان میں جاوا (جکارتہ اسی میں ہے) ، سماٹرا، Kalimantan (سابقہ بورنیو) ،سالوویسی (سابقہ Celebes) اور ارین جایا ہیں۔ ملک کی آبادی بائیس کروڑ ہے جس میں سے ساٹھ فیصد جاوا میں رہائش پذیر ہے۔ ان جزائر میں آنے جانے کے لئے یا تو ہوائی جہاز کا استعمال کیا جاتا ہے۔ یا پھر کشتیوں کے ذریعہ جن میں بہت وقت صرف ہوتا ہے۔
تاریخ احمدیت میں پاڈنگ اس لئے اہم ہے کہ ہمارے ابتدائی مبلغ اسی شہر میں آئے تھے، اسی جگہ حضرت مولوی رحمت علی صاحب کا آگ سے محفوظ رہنے کا واقعہ رونما ہوا تھا جسے دیکھ کر بہت سے لوگوں نے احمدیت کی صداقت پر یقین کیا تھا۔ یہاں ہماری مسجد تقریباً ستر سال قبل تعمیر ہوئی تھی جس میں اب توسیع ہورہی ہے۔
1883ء میں ایک عظیم آتش فشاں کراکاتوا (Karakatoe) پھٹا۔ دھماکہ اتنا شدید تھا کہ اس کی آواز تین ہزار میل دور آسٹریلیا میں سنی گئی۔ اور سمندر میں اس سے جو لہریں اٹھیں وہ بحر ہند پار کرکے افریقہ کے ساحل سے ٹکرائیں۔ اس جزیرہ سے زندگی کا صفایا ہو گیا اور سائنسدانوں نے اسے اپنے ایک مشاہداتی مرکز کے طور پر چن لیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بعض آثار نشاندہی کرتے ہیں کہ 535ء میں دنیا میں ایک قیامت برپا ہوئی تھی جس سے تمام زمین متاثر ہوئی اور سلطنت بازنطین کمزور ہوکر اسلام کا غلبہ ہوا۔ بہت عرصہ سے تحقیق جاری تھی کہ اُس تباہی کا مرکز کہاں تھا؟ اب بالآخر یہ تلاش کر لیا گیا جو کراکاتو اتھا۔ چنانچہ اس عظیم آتش فشاں نے دو دفعہ دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ ایک دفعہ آنحضورﷺ کی پیدائش سے کچھ عرصہ قبل اور دوسری دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت سے کچھ عرصہ قبل۔
ایک موٹر بوٹ کے ذریعہ ہم اس جزیرہ کے لئے روانہ ہوئے۔ پچاس کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے لہروں کے اوپر سے اچھلتی ہوئی کشتی نے تقریباً ایک گھنٹے میں ہمیں کراکاتوا پہنچا دیا۔ 1883ء میں اس جزیرہ کا درمیانی حصہ فضا میں اڑگیا تھا اور اس کے کچھ ٹکڑے ارد گرد باقی رہ گئے تھے۔ غوطہ خور یہاں غوطہ زنی کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ نیچے سمندر کا پانی گرم ہے۔ 1927ء میں وہیں سے جہاں پہلے جزیرہ موجود ہوتا تھا، ایک نیا جزیرہ ابھرنا شروع ہوا۔ جو تقریباً پانچ صد فٹ بلند ہو چکا ہے اور روز بروز پھیل رہا ہے۔ اس جزیرے سے دھواں اٹھتا رہتا ہے اور کبھی کبھار یہ آگ بھی اُگلتا ہے۔ بجری نما چھوٹے چھوٹے کنکروں سے بنا ہوا یہ جزیرہ عجیب منظر پیش کرتا ہے۔ جوں جوں اوپر جاتے گئے بعض جگہوں سے دھواں نکلتا نظر آیا۔ یہاںSnorkling بھی ہوتی ہے۔یعنی ایک بڑی سی عینک پہن کر جس کے ساتھ سانس لینے کی ایک ٹیوب لگی ہوتی ہے، پانی میں سر اندر کرکے تیریں تونیچےCoral Reefs یا مونگے کی چٹانیں نہایت خوبصورت رنگوں اور شکلوں میں دکھائی دیں گی۔ اوپر سے وہم بھی نہیں ہوتا کہ سمندر کے اندر خدا نے کس کاریگری سے یہ خوبصورت باغ لگا رکھا ہے۔
انڈونیشیا کے لوگ نہایت محبت کرنے والے، عموماً امن پسند اور مہذب ہیں۔ بات نرم لہجے میں کرتے ہیں اور مہمان نواز ہیں۔ ملک چونکہ نہایت زرخیز اور قدرتی دولت سے مالا مال ہے ۔ اس لئے غربت تو نظر آئی لیکن بھوک نہیں۔ لوگوں کو کچھ نہ کچھ پیٹ بھرنے کے لئے مل ہی جاتا ہے۔ کیلا، ناریل اور دریان وغیرہ خودرَو ہوجاتے ہیں۔ دریان یہاں کا خاص پھل ہے جو بڑے خربوزے کے سائز کا ہوتا ہے۔ سفید رنگ کا گودالذیذ تو ہوتا ہے مگر اتنی شدید بو آتی ہے کہ نئے آدمی کیلئے کھانا بہت مشکل ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں