جلسہ سالانہ برطانیہ 2007ء کے موقع پر حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا افتتاحی خطاب

ہم احمدی خوش قسمت ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے دین کی نصرت کے لئے جو مسیح و مہدی بھیجنا تھا ہم اس کے ماننے والے اور اس کی تصدیق کرنے والے ہیں۔ مگر یہ تصدیق اس وقت فائدہ مند ہوگی اور ہم اسی وقت اس کے بیعت کنندگان میں سے شمار ہوں گے جب اس تعلیم پر عمل کرنے والے اور ان نصائح کو سن کر اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے والے ہوں گے۔
سو سال پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا تھا کہ ہندوستان اور پنجاب میں تکفیر کے فتووں کے باوجود میرے ماننے والوں کی تعداد چار لاکھ تک ہوچکی ہے اور آج سوسال بعد ہم دیکھتے ہیں کہ مسیح موعود کے ماننے والے پنجاب اور ہندوستان نہیں بلکہ دنیا کے 185سے زائد ممالک میں پھیل چکے ہیں۔اور آپ کے ماننے والوں کی تعداد لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں میں پہنچ چکی ہے۔
آج بہت سارے سربراہان اور علماء جہاد کی بابت اب وہی باتیں کر رہے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کی تھیں اور اس طرح کے سینکڑوں حوالے ہیں جو اخباروں میں آتے ہیں ، جواس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسلام کی اشاعت کے لئے جو طریق اپنانے کے لئے فرمایا تھا وہی صحیح طریق تھا اور اسلام کی تعلیم کے مطابق تھا۔
ہر احمدی جو آپؑ کے سلسلۂ بیعت میں داخل ہے اسے کوشش کرنی چاہئے کہ اپنے اندر ایسی پاک تبدیلیاں پیدا کرے جو حقیقی مسلمان کے لئے ضروری ہیں ، جس کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی اس تقریر میں ہمیں نصیحت فرمائی۔
[حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی جلسہ سالانہ 1907ء کے موقع پر بیان فرمودہ تقریر کے حوالہ سے احباب جماعت کو اہم نصائح]
جلسہ سالانہ برطانیہ 2007ء کے موقع پر امیرالمومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا افتتاحی خطاب

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جلسہ سالانہ 1907ء میں جو تقریر فرمائی تھی، آج میں نے آپ کے سامنے پیش کرنے کے لئے اس کو لیا ہے۔ اس صورت میں مکمل تقریر تو نہیں بیان کروں گا، نہ بیان ہوسکتی ہے۔ یہ کوشش کروں گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس میں جو بعض مضامین بیان فرمائے تھے خلاصۃً ان کے کچھ نکات پیش کروں جو آج بھی وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔ بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ آنحضرت ﷺ کے روحانی فرزند اور عاشق صادق، مسیح موعود اور مہدی موعود جو اس زمانے کے حکم اور عدل ہیں ان کی بیان فرمودہ قرآن، اسلام اور آنحضرت ﷺ کی لائی ہوئی تعلیم کی تشریح اور تفصیل ہی اب تاقیامت سیدھا راستہ دکھانے والی اور ایک مومن بندے کا آنحضرت ﷺ کے ساتھ حقیقی تعلق جوڑنے والی، قرآن کریم کی تعلیم کا فہم و ادراک بخشنے والی اور خداتعالیٰ سے بندے کا ذاتی تعلق جوڑنے والی اور خدا کی پہچان کروانے والی ہے۔ اور یہ سب کچھ آپ کی اپنی ذاتی حیثیت سے نہیں ہے بلکہ یہ انعام آپؑ کو اس عشق و محبت کی وجہ سے ملا ہے جو آپؑ کو آنحضرت ﷺ سے تھا۔
آپؑ فرماتے ہیں :
’’ہم جب انصاف کی نظر سے دیکھتے ہیں تو تمام سلسلۂ نبوت میں سے اعلیٰ درجہ کا جوانمرد نبی اور زندہ نبی اور خدا کا اعلیٰ درجہ کا پیارا نبی صرف ایک مرد کو جانتے ہیں یعنی وہی نبیوں کا سردار، رسولوں کا فخر، تمام مرسلوں کا سرتاج، جس کا نام محمد مصطفی و احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے جس کے زیرِ سایہ دس دن چلنے سے وہ روشنی ملتی ہے جو پہلے اس سے ہزار برس تک نہیں مل سکتی تھی…۔ سو آخری وصیت یہی ہے کہ ہر ایک روشنی ہم نے رسول نبی اُمّی کی پیروی سے پائی ہے اور جو شخص پیروی کرے گا وہ بھی پائے گا اور ایسی قبولیت اُس کو ملے گی کہ کوئی بات اُس کے آگے اَنہونی نہیں رہے گی۔ زندہ خدا جو لوگوں سے پوشیدہ ہے اس کا خدا ہوگا اور جھوٹے خدا سب اس کے پیروں کے نیچے کچلے اور روندے جائیں گے۔ وہ ہرایک جگہ مبارک ہوگا اور الٰہی قوتیں اس کے ساتھ ہوں گی‘‘۔
(سراج منیر، روحانی خزائن جلد 12، صفحہ 82-83۔ مطبوعہ لندن)
پس یہ ہے آنحضرت ﷺ کے مقام اور آپ کی ذات کی پہچان اور خدا تعالیٰ کی پہچان جس کا ادراک اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو عطا فرمایا۔ یہ روشنی آپ نے آنحضرت ﷺ کے ذریعہ سے پائی اور آگے پھیلائی تاکہ پاک دل اور صحیح فطرت لوگ بھی اس سے منور ہوں۔
بعثت مسیح موعودؑ کی غرض
آپ ایک جگہ فرماتے ہیں :
’’یہ عاجز تو محض اس غرض کے لئے بھیجا گیا ہے کہ تا یہ پیغام خلق اللہ کو پہنچا دے کہ دنیا کے تمام مذاہبِ موجودہ میں سے وہ مذہب حق پر اور خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق ہے جو قرآن کریم لایا ہے اور دارالنجات میں داخل ہونے کے لئے دروازہ

لَآ اِلٰہَ اِلَّااللہ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ

ہے‘‘۔
(حجۃالاسلام، روحانی خزائن جلد 6، صفحہ 52-53۔ مطبوعہ لندن)
پس آپ ہی ہیں جنہیں اس زمانہ میں آنحضرت ﷺ کی حقیقی پہچان کروانے اور اللہ تعالیٰ کی توحید کو قائم کرنے کے لئے دنیا میں بھیجا گیا ہے۔ خدا تعالیٰ کی تائیدات آپ کے ساتھ ہیں اور کوئی نہیں جو آپ سے بڑھ کر یہ کام سر انجام دے سکے۔
پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بعثت کا مقصد اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد ثانی کا ذکر کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں کہ:
’’ایسا ہی یہ عاجز بھی اسی کام کے لئے بھیجا گیا ہے کہ تا قرآن شریف کے احکام بہ وضاحت بیان کر دیوے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہ مسیح موسیٰ کو دیا گیا تھا اور یہ مسیح مثیلِ موسیٰ کو عطا کیا گیا۔ سو یہ تمام مشابہت تو ثابت ہے اور مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ مسیح کے ہاتھ سے زندہ ہونے والے مر گئے مگر جو شخص میرے ہاتھ سے جام پیئے گا جو مجھے دیا گیا ہے وہ ہر گز نہیں مرے گا۔ وہ زندگی بخش باتیں جو مَیں کہتا ہوں اور وہ حکمت جو میرے مُنہ سے نکلتی ہے اگر کوئی اَور بھی اس کی مانند کہہ سکتا ہے تو سمجھو کہ مَیں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں آیا۔ لیکن اگر یہ حکمت اور معرفت جو مُردہ دلوں کے لئے آب حیات کا حکم رکھتی ہے دوسری جگہ سے نہیں مل سکتی تو تمہارے پاس اس جرم کا کوئی عذر نہیں کہ تم نے اس سر چشمہ سے انکار کیا جو آسمان پر کھولا گیا۔ زمین پر اس کو کوئی بند نہیں کر سکتا۔ سو تم مقابلہ کے لئے جلدی نہ کرو اور دیدہ ودانستہ اس الزام کے نیچے اپنے تئیں داخل نہ کروجو خدا ئے تعالیٰ فرماتا ہے

لَاتَقْفُ مَالَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اُوْلٰٓئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْؤلًا (بنی اسرائیل:47)

بدظنی اور بدگمانی میں حد سے زیادہ مت بڑھو، ایسانہ ہو کہ تم اپنی باتوں سے پکڑے جاؤ اور پھر اس دکھ کے مقام میں تمہیں یہ کہنا پڑے کہ

مَالَنَا لَانَرٰی رِجَالًاکُنَّا نَعُدُّھُمْ مِنَ الْاَشْرَار‘‘ (صٓ:62)۔

ہمیں کیا ہوا کہ ہم ان لوگوں کو نہیں دیکھ رہے جنہیں ہم دنیا میں شریروں میں شمار کیا کرتے تھے۔‘‘
(ازالہ اوہام۔ روحانی خزائن جلد نمبر 3صفحہ 103-104۔ مطبوعہ لندن)
مسلمانوں کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں کہ:
’’اے مسلمانو! اگر تم سچے دل سے حضرت خدا وند تعالیٰ اوراس کے مقدس رسول علیہ السلام پر ایمان رکھتے ہو اور نصرت الٰہی کے منتظر ہوتو یقینا سمجھو کہ نصرت کا وقت آگیا۔ اور یہ کاروبار انسان کی طرف سے نہیں اور نہ کسی انسانی منصوبہ نے اس کی بنا ڈالی۔ بلکہ یہ وہی صبح صادق ظہور پذیر ہوگئی ہے جس کی پاک نوشتوں میں پہلے سے خبر دی گئی تھی۔ خدائے تعالیٰ نے بڑی ضرورت کے وقت تمہیں یاد کیا۔ قریب تھا کہ تم کسی مہلک گڑھے میں جاپڑتے مگر اُس کے باشفقت ہاتھ نے جلدی سے تمہیں اٹھا لیا۔ سو شکر کرو اور خوشی سے اچھلو جو آج تمہاری تازگی کا دن آگیا۔ خدا تعالیٰ اپنے دین کے باغ کو جس کی راستبازوں کے خونوں سے آبپاشی ہوئی تھی، کبھی ضائع کرنا نہیں چاہتا۔ وہ ہرگز یہ نہیں چاہتا کہ غیرقوموں کے مذاہب کی طرح اسلام بھی ایک پرانے قصوں کا ذخیرہ ہو جس میں موجودہ برکت کچھ بھی نہ ہو۔ وہ ظلمت کے کامل غلبہ کے وقت اپنی طرف سے نور پہنچاتا ہے۔ کیا اندھیری رات کے بعد نئے چاند کے چڑھنے کی انتظار نہیں ہوتی۔ کیا تم سلخ کی رات کو جو ظلمت کی آخری رات ہے‘‘ یعنی قمری مہینہ کی آخری رات ہے ’’دیکھ کر حکم نہیں کرتے کہ کل نیا چاند نکلنے والا ہے۔ افسوس کہ تم اس دنیا کے ظاہری قانونِ قدرت کو تو خوب سمجھتے ہو مگر اس روحانی قانونِ فطرت سے جو اسی کا ہم شکل ہے بکلّی بے خبر ہو ‘‘۔
(ازالۂ اوہام۔ روحانی خزائن جلد 3 ، صفحہ 104-105 )
پس آپ کا یہ دعویٰ کوئی معمولی دعویٰ نہیں ہے۔ خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرکے ایک چیلنج دیا جارہا ہے کہ جو میرے ہاتھ سے جام پیے گا جو مجھے دیا گیا ہے وہ ہر گز نہیں مرے گا اور حکمت کی باتیں جو میرے منہ سے نکلیں ،اگر کوئی اور کہہ سکے تو سمجھو کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں آیا۔ یہ اتنی بڑی باتیں ہیں اور اتنا بڑا وعدہ ہے کہ اس کے بغیر چارہ نہیں کہ ہم اس کو مانیں اور تسلیم کریں کہ آپ ہی وہ ہیں جن کو اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے مبعوث فرمانا تھا۔
پس ہم احمدی خوش قسمت ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے دین کی نصرت کے لئے جو مسیح و مہدی بھیجنا تھا ہم اس کے ماننے والے اور اس کی تصدیق کرنے والے ہیں۔ مگر یہ تصدیق اس وقت فائدہ مند ہوگی اور ہم اسی وقت اس کے بیعت کنندگان میں سے شمار ہوں گے جب اس تعلیم پر عمل کرنے والے اور ان نصائح کو سن کر اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے والے ہوں گے۔ تبھی ہم اس مسیح و مہدی کے ساتھ حقیقی تعلق جوڑنے والے کہلاسکیں گے، جب ہم اس کی خواہشات کی تعمیل کرنے والے ہوں گے۔ اپنے اندر وہ تبدیلیاں پیدا کرنے والے ہوں گے جو وہ ہم میں پیدا کرنا چاہتا ہے۔
آپ کیا چاہتے ہیں ؟ اس کا بیان آپ نے اپنی تقریر میں فرمایا تھا۔ اس کومَیں کچھ حد تک بیان کروں گا۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ ہر احمدی کو ان باتوں کو حرزجان بنانے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ اس عہد کو پورا کرنے والا بن سکے جو ہم نے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ سے باندھا ہے۔ یہی ہے جس سے ہم دین و دنیا کی نعماء کے وارث ٹھہریں گے۔ ان انعاموں کو حاصل کرنے والے ہوں گے جن کا اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے ذریعہ امّت محمدیہ سے وعدہ فرمایا ہے۔ یہ پاک تبدیلیاں ہی ہمیں خدا تعالیٰ کا قرب دلانے والی بنیں گی۔
جماعت کی روزافزوں ترقی اور اللہ تعالیٰ کی شکرگزاری
آپ؈ نے اپنی تقریر کی ابتدا میں سب سے پہلے تو ہمیں اس طرف توجہ دلائی کہ اللہ تعالیٰ کا اس بات پر شکر کریں کہ اس نے ہمیں راہ ہدایت دکھاتے ہوئے جماعت میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی۔
پھر آپؑ نے یہ اعلان فرمایا کہ خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت میرے ساتھ ہے اور اس کی دلیل میری جماعت کی روزافزوں ترقی ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں :
’’ دیکھو اوّل اللہ جلّشانہٗ کا شکر ہے کہ آپ صاحبوں کے دلوں کو اس نے ہدایت دی اور باوجود اس بات کے کہ ہزاروں مولوی ہندوستان اور پنجاب کے تکذیب میں لگے رہے اور ہمیں دجال اور کافر کہتے رہے، آپ کو ہمارے سلسلہ میں داخل ہونے کا موقع دیا۔ یہ بھی اللہ جلّشانہٗ کا بڑا معجزہ ہے کہ باوجود اس قدر تکذیب اور تکفیر کے اور ہمارے مخالفوں کی دن رات کی سرتوڑ کوششوں کے یہ جماعت بڑھتی جاتی ہے۔ میرے خیال میں اس وقت ہماری جماعت چار لاکھ سے بھی زیادہ ہوگی‘‘۔ یہ حضرت مسیح موعودؑ اپنے زمانہ کی بات کر رہے ہیں 1907ء کی۔ ’’اور یہ بڑا معجزہ ہے کہ ہمارے مخالف دن رات کوشش کر رہے ہیں اور جانکاہی سے طرح طرح کے منصوبے سوچ رہے ہیں اور سلسلہ کو بند کرنے کے لئے پورا زور لگارہے ہیں مگر خدا ہماری جماعت کو بڑھاتا جاتا ہے۔ جانتے ہو کہ اس میں کیا حکمت ہے؟ حکمت اس میں یہ ہے کہ اللہ جلّشانہٗ جس کو مبعوث کرتا ہے اور جو واقعی طور پر خدا کی طرف سے ہوتا ہے، وہ روزبروز ترقی کرتا اور بڑھتا ہے اور اس کا سلسلہ دن بدن رونق پکڑتا جاتا ہے۔ اس کے روکنے والا دن بدن تباہ اور ذلیل ہوتا جاتا ہے اور اس کے مخالف اور مکذّب آخرکار بڑی حسرت سے مرتے ہیں۔ جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ ہماری مخالفت کرنے والے اور ہمارے سلسلہ کو روکنے والے بیسیوں مرچکے ہیں۔ خدا تعالیٰ کے ارادے کو جو درحقیقت اس کی طرف سے ہے، کوئی بھی روک نہیں سکتا اور خواہ کوئی کتنی ہی کوششیں کرے اور ہزاروں منصوبے سوچے، مگر جس سلسلہ کو خدا شروع کرتا ہے اور جس کو وہ بڑھانا چاہتا ہے اس کو کوئی نہیں روک سکتا کیونکہ اگر ان کوششوں سے وہ سلسلہ رُک جائے تو ماننا پڑے گا کہ روکنے والا خدا پر غالب آگیا۔ حالانکہ خدا پر کوئی غالب نہیں آسکتا‘‘۔
(ملفوظات جلد پنجم۔ صفحہ 374۔ جدید ایڈیشن)
اگر غور کریں تو یقینا اس بات سے دل شکرگزاری کے جذبات سے بھر جاتے ہیں کہ اس نے ایسے حالات میں زمانہ کے امام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی جب مخالفت کا ایک بازار گرم تھا اور آج تک ہے۔ آپ میں سے بہت سے جو میرے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں ، پاکستان ہندوستان سے آنے والے وہ لوگ ہیں جن کے باپ دادا نے احمدیت قبول کی اور آنحضرت اکے مسیح و مہدی کو آپؐ کا سلام پہنچایا۔ بعض کو اس زمانہ میں قبول احمدیت کی وجہ سے بڑے بڑے ابتلاؤں سے گزرنا پڑا۔ پس آج سو سال بعد جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد پر آپ اللہ جلّشانہ‘کی شکر گزاری کر رہے ہوں تو اپنے بزرگوں کو، اپنے باپ دادا کو بھی اپنی دعاؤں میں یا د رکھیں جنہوں نے زمانے کے امام کو مان کر آپ کے لئے بھی آسان راہیں پیدا کیں کہ پیدائشی طور پر اس جماعت میں شامل ہونے کی توفیق ملی جن کو اللہ تعالیٰ نے آخرین میں پیدا کیا لیکن اوّلین سے ملانے کا اعزاز بخشا، وہ اوّلین جن کی اکثریت سے خدا تعالیٰ راضی ہوا اور وہ اس سے راضی ہوئے۔
پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ کہنا کہ دلوں کی ہدایت کی وجہ سے اللہ کے شکر گزار بنو ان بزرگوں کی اولادوں پر بہت بڑی ذمہ داری ڈالتا ہے جن کی قربانیوں کے پھل آپ آج کھارہے ہیں۔ پھر وہ لوگ جو آج تک احمدیت میں شامل ہو رہے ہیں ،وہ بھی اپنے گھر بار، عزیز رشتے داروں کو اور بہت بڑی اکثریت اپنے آراموں اور آسائشوں کو چھوڑ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہو رہے ہیں۔مالی نقصان برداشت کر نے پڑرہے ہیں ، جسمانی تکلیفیں برداشت کر نی پڑرہی ہیں۔ کئی ہیں جن کو ان کے عزیزوں نے، اُن عزیزوں نے جواُنہیں ہر وقت اپنے سینے سے لگائے رکھنے والے تھے، احمدیت قبول کرنے کی وجہ سے اتنی بے دردی سے مارا اور زدوکوب کیا کہ ان کی ہڈیاں تک توڑدیں۔ ہر روز مجھے خطوں میں کئی ایسے واقعات ملتے ہیں لیکن وہ ہڈیاں تڑواکر بھی ہنسی خوشی بیٹھے ہیں کہ یہ تکلیفیں تو اللہ تعالیٰ کی راہ میں برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ ان کے عزیزوں نے عورتوں بچیوں تک پر ایسے ظلم کئے جن کو سن کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں لیکن ان کے پائے ثبات میں لغزش نہیں آئی کہ جن پہلوں کے ساتھ ملانے کی خدا تعالیٰ نے ہمیں خوشخبری دی ہے ان کو تو اونٹوں سے باندھ کر ان کی ٹانگیں تک چیری گئی تھیں۔ احمدی ہونے کی پاداش میں کئی احمدیوں کو شہید کیا گیااور آج تک کیا جارہا ہے لیکن حق کو دیکھ کر پھرحق سے پھرنا صرف اس لئے کہ تکلیفوں میں سے گزرنا پڑے گا، صرف اس لئے کہ جان سے ہاتھ دھونے پڑیں گے ،ایک مومن کی شان نہیں۔ اللہ تعالیٰ جس کو ہدایت دے اس کو کوئی گمراہ نہیں کرسکتا۔
پس یہ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں ہدایت دی اور وہ جو اپنے زعم میں دینی علم جاننے والے تھے، ان کو توفیق نہ ملی اور وہ تکذیب میں بڑھتے گئے اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے آج بھی ان کی سنت پر عمل کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تکذیب و تکفیر میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہر راستے پر کھڑے ہو کر اور ہر ذریعہ استعمال کر کے مسیح موعود کو ماننے والوں کو اپنے ایمانوں سے ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سعید فطرت اور نیک طبع لوگ جو اس پیغام کو سننا چاہتے ہیں ، ان کو مختلف حیلوں سے اس پیغام کو سننے سے دور رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں ،تکفیر کے فتوے لگاکر دنیا کو ورغلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن کیا نتیجہ نکل رہا ہے؟ آج سے سو سال پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا تھا کہ ہندوستان اور پنجاب میں تکفیر کے فتووں کے باوجود میرے ماننے والوں کی تعداد چار لاکھ تک ہوچکی ہے اور آج سوسال بعد ہم دیکھتے ہیں کہ مسیح موعود کے ماننے والے پنجاب اور ہندوستان نہیں بلکہ دنیا کے 185سے زائدممالک میں پھیل چکے ہیں۔اور آپ کے ماننے والوں کی تعداد لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں میں پہنچ چکی ہے۔ آج ہمارے سامنے مختلف ممالک سے آئے ہوئے یہ خوش قسمت لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سرسبز شاخوں کے پھل ہیں جن میں انڈونیشیا سے بھی آئے ہوئے ہیں ، جزائر سے بھی آئے ہوئے ہیں ، افریقہ سے بھی آئے ہوئے ہیں ، امریکہ سے بھی آئے ہوئے ہیں ، یورپ سے بھی آئے ہوئے ہیں۔یہ سب لوگ زبان حال سے یہ گواہی دے رہے ہیں کہ اے مسیح َمحمدی اور خاتم الانبیاء کے عاشق صادق تُو سچا ہے اور یقینا سچا ہے اور یہ تکذیب و تکفیر کے فتوے لگانے والے جھوٹے ہیں اور یقینا جھوٹے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سچائی کا یہ معجزہ ہم ہر روز پوری شان سے پورا ہوتا دیکھ رہے ہیں۔خداتعالیٰ کی تائیدات کے نظارے ہم ہر روز بڑی شان سے پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی سچائی کی دلیل دیتے ہوئے جو یہ فرمایا ہے کہ ’’اللہ جلّشانہٗ جس کو مبعوث کر تا ہے اور جو واقعی طور پر خدا کی طرف سے ہوتا ہے وہ روز بروز ترقی کرتا اور بڑھتا ہے اور اس کا سلسلہ دن بدن رونق پکڑتاہے‘‘ اس دلیل کو ہم روزِروشن کی طرح ہر روز مشاہدہ کررہے ہیں اور آپ کی مخالفت کرنے والوں ، آپ کی جماعت کو نیست ونابود کرنے کے دعوے کرنے والوں کے انجام بھی ہمارے سامنے ہیں۔
پس کیا کبھی کوئی احمدی ان تائیدات کو دیکھ کر پھر بھی حق سے منہ پھیر سکتا ہے؟ کیا کبھی کوئی احمدی غالب خداکو اپنے ساتھ کھڑا دیکھ کر پھر دنیا کے خوف سے اس سے منہ موڑ سکتا ہے؟ نہیں اور کبھی نہیں۔ آج ہر احمدی جو واحد و یگانہ اور سب قدرتوں کے مالک خدا کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپ کی جماعت کے حق میں تائیدات ابھرتی دیکھ رہا ہے، وہ ہر روز اپنے دل کو اس یقین پر قائم پاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کسی دنیاوی شخص یا کسی دنیاوی حکومت کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہیں جس کی سر سبز شاخیں آج دنیا کے کونے کونے میں پھیل رہی ہیں۔ یہ نظارے ایسے ہیں جو ایک احمدی کو شکر گزاری میں بڑھاتے چلے جاتے ہیں۔ پس ایک احمدی کی ذمہ داری ہے کہ شکرگزاری اور ایمانوں میں مضبوطی کے ان جذبات کو اپنی نسلوں میں بھی راسخ کرتے چلے جائیں کہ اپنے ایمان میں مضبوطی تمہارے لئے آئندہ ترقیات لانے والی اور تمہیں بہترین انجام کی طرف پہنچانے والی ہو گی۔ اس لئے ہمیشہ اس سے چمٹے رہنا۔ یہ نصیحت ہراحمدی کواپنی نسلوں کو کرتے چلے جانا چاہئے۔
عظیم الشان پیشگوئی اور اس کا ظہور
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ یہ بھی ایک معجزہ ہے اور میری سچائی کا ثبوت ہے کہ ان لوگوں کی بابت جو ہزاروں لاکھوں ہمارے پاس آتے رہتے ہیں اللہ جلّشانہٗ نے براہینِ احمدیہ میں پہلے خبر دے رکھی تھی اور یہ کتاب بہت سے ممالک میں بھجوائی جاچکی ہے۔آپ نے فرمایا کہ لوگوں کے آنے کی پیشگوئی کوئی معمولی پیشگوئی نہیں ہے بلکہ بڑی عظیم الشان پیشگوئی ہے اور اس پیشگوئی کے الفاظ، جو عربی میں تھی، یہ ہیں کہ :

’’یَاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۔ یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۔ یَنْصُرُکَ اللہُ مِنْ عِنْدِہٖ۔ یَرْفَعُ اللہُ ذِکْرَکَ وَ یُتِمُّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکَ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ۔ اِذَا جَآء نَصْرُاللہِ وَالْفَتْحُ وَانْتَھیٰ أَمْرُالزَّمَانِ اِلَیْنَا۔ أَلَیْسَ ھٰذَا بِالْحَقِّ۔ وَمَاکَانَ اللہُ لِیَتْرُکَکَ حَتَّی یَمِیْزَ الْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ۔ فَحَانَ اَنْ تُعَانَ وَ تُعْرَفَ بَیْنَ النَّاسِ۔ اِنِّیْ نَاصِرُکَ۔ اِنِّی اُحَافِظُکَ۔ اِنِّی جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا‘‘۔

(ملفوظات جلد پنجم۔ صفحہ 375۔ جدید ایڈیشن)
آپؑ فرماتے ہیں : ’’یہ اس کی عبارت ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ اس وقت تُو اکیلا ہے مگر وہ زمانہ تجھ پر آنے والا ہے کہ تو تنہا نہیں رہے گا۔ فوج در فوج لوگ دُور دراز ملکوں سے تیرے پاس آئیں گے‘‘۔ (ایضاً)
پھر آپ فرماتے ہیں کہ:
’’ خدافرماتا ہے

وَلَاتُصَعِّرْ لِخَلْقِ اللہِ وَلَاتَسْئَمْ مِّنَ النَّاسِ

یعنی کثرت سے مخلوق تیرے پاس آئے گی۔ اس کثرت کو دیکھ کر گھبرا نہ جانا اور ان کے ساتھ کج خُلقی سے پیش نہ آنا۔اس وقت جب کہ یہ الہام براہینِ احمدیہ میں شائع کئے گئے تھے قادیان ایک غیر مشہور قصبہ تھااور ایک جنگل کی طرح پڑا ہواتھا، کوئی اسے جانتا بھی نہ تھااور اتنے لوگ جو یہاں بیٹھے ہیں کون کہہ سکتا ہے کہ اس وقت بھی اس کی یہی شہرت تھی‘‘۔ (ایضاً)
آپ فرماتے ہیں : ’’ بلکہ تم میں سے تقریباً سب کے سب ہی اس گاؤں سے ناواقف تھے۔ اب بتلاؤکہ خداکے ارادہ کے بغیر آج سے پچیس چھبیس برس پیشتراپنی تنہائی اور گمنامی کے زمانہ میں کوئی کس طرح دعویٰ کر سکتا ہے کہ مجھ پر ایک زمانہ آنے والا ہے جبکہ ہزار ہا لوگ میرے پاس آئیں گے اور طرح طرح کے تحفے اور تحائف میرے لئے لاویں گے اور میں دنیا بھر میں عزت کے ساتھ مشہور کیا جاؤں گا۔ دیکھو جتنے انبیاء آج سے پہلے گزر چکے ہیں ان کے بہت سے معجزات تو نہیں ہوا کرتے تھے بلکہ بعض کے پاس توصرف ایک ہی معجزہ ہوتا تھا اور جس معجزہ کا میں نے بیان کیا ہے یہ ایک ایسا عظیم الشان معجزہ ہے جوہر ایک پہلو سے ثابت ہے اور اگر کوئی نِرا ہٹ دھرم اور ضدی نہ ہوگیا ہو تو اسے میرا دعویٰ بہر صورت ماننا پڑتا ہے ‘‘۔
(ملفوظات جلد پنجم۔ صفحہ 375-376۔ جدید ایڈیشن)
یہ وہ عظیم الشان پیشگوئی ہے جس کے بارے میں آپ نے چیلنج کیا کہ اگر دنیا سمجھتی ہے کہ یہ لوگوں کا آنا اتفاقی بات ہے تو پھر اس کی نظیر بتاویں۔ کوئی ایک مثال دیدیں کہ ایک شخص گمنامی کی حالت میں ہو اور اس وقت اس نے پیشگوئی کی ہو کہ میرے پاس فوج درفوج لوگ آویں گے اور خداکی طرف سے ہر طرف سے مدد دیا جاؤں گا اور پھر اس طرح وہ پیشگوئی پوری بھی ہو گئی ہو۔
پس آج ہم سب جو اس جلسے میں موجود ہیں اس پیشگوئی کی صداقت کا نشان ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کا نشان کیا ہے؟ دنیا کے ہر ملک سے آنے والا ہراحمدی جو اس وقت یہاں موجود ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کا نشان ہے؟ اور اس بات پر گواہی دے رہا ہے کہ مسیح ومہدی جو آنے والا تھا آگیا ہے اور سچا ہے اور خداکی طرف سے آیا ہے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خود فرمایا ہے کہ میرے پاس تو یہی نشان کافی ہے کہ اتنے آدمی جو یہاں آتے ہیں ان میں سے ہر ایک آدمی ایک ایک نشان ہے اور خداتعالیٰ نے ان سب کی پہلے سے خبر دے رکھی ہے اور یہ سب نصرتیں اور تائیدیں ہیں جو ہمارے شاملِ حال ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی سے ان کا ہمارے ساتھ وعدہ کر رکھا ہے۔
جیسا کہ مَیں نے کہا آج دنیا کے مختلف ممالک کے احمدی جو یہاں بیٹھے ہیں ، یہ کس لئے جمع ہوئے ہیں؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قوتِ قدسی کی وجہ سے اس جلسے کے لئے اکٹھے ہوئے ہیں جہاں آپؑ کا ذکر چلتا ہے، جہاں اسلام کا ذکر چلتا ہے، جہاں رسولِ خدا ﷺ کا ذکر چلتا ہے، جہاں اللہ تعالیٰ کی باتیں ہوتی ہیں۔اور پھر اس لئے بھی یہاں جمع ہوئے ہیں، ویسے تو بہت سارے دیگر ممالک میں بھی جلسے ہوتے ہیں، لیکن اکثریت یہاں اس لئے آتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نمائندہ کی موجودگی میں یہ جلسہ ہو رہا ہے اس لئے اس میں شامل ہوں۔ قادیان کی وہ بستی جس کو آج سے سو سال پہلے کوئی جانتا نہ تھا ایک دنیا کی توجہ کا مرکز بنی ہو ئی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مخالفین نے خود اس بستی کو اتنا شہرہ دیدیا ہے کہ دنیا خود جان رہی ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام، حضرت مرزا غلام احمد قادیانی کون ہیں اور آپ کا دعویٰ کیا ہے؟ افریقہ کے ریگزاروں میں رہنے والے ہیں یا افریقہ کے دور دراز جنگلوں میں بسنے والے ہیں یا یورپ اور امریکہ میں رہنے والے ہیں یا مشرق بعیداور دوسرے ممالک کے رہنے والے ہیں، کبھی یہ تصوّر ہی نہیں کرسکتے تھے کہ پنجاب کے چھوٹے سے قصبے قادیان کا نام ان تک پہنچ سکتا ہے۔ اور پھر صرف نام نہیں سننا اور صرف نام نہیں پہنچنا بلکہ اللہ تعالیٰ کے اس پیارے کی وجہ سے اس بستی کے لئے بھی ان کے دل سے محبت اورپیار کے جذبات اٹھیں گے، وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ اگر یہ دنیاوی کوشش سے ہو تا تو ہزار کوششوں کے باوجود کبھی کامیابی نہ ہوتی۔
پس یہ خدا کا وہ وعدہ پورا ہوا ہے جو اس نے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام سے کیا تھا۔ صرف ماننے کی حد تک نہیں بلکہ دنیا بھر میں بسنے والے احمدی خواہ وہ جنگلوں میں بستے ہوں یا یورپ اور امریکہ کے رنگا رنگ شہروں میں بسنے والے ہوں ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے دل میں پیدا ہوئے ہوئے نیک جذبات اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپ کے خلیفہ اور آپ کی جماعت سے محبت کی وجہ سے مالی قربانیوں میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر اس پیشگوئی کے مطابق مال پیش کرتے ہیں اور اس بات کی بالکل پروا کئے بغیر کرتے چلے جا رہے ہیں کہ اس سے ان کے مال میں کمی آئے گی یا نہیں آئے گی۔ آج اتنا خرچ کر کے یہاں آنے والے ایسے بہت سے لوگ ہیں جن کی مالی وسعت شاید انہیں اتنا خرچ کرنے کی جرأت نہ دلاتی لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی محبت کی وجہ سے اور آپ کی خلافت کی محبت کی وجہ سے آپ کے جذبات آپ لوگوں کو یہاں کھینچ کر لائے ہیں۔
پس کیا آپ میں سے ہر ایک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کا نشان نہیں ہے جس کی پیشگوئی اللہ تعالیٰ سے اطلاع پاکر آپؑ نے پہلے ہی کر دی تھی۔ اس پیشگوئی میں آئندہ ہمیشہ کے لئے خلیفۂ وقت کو بھی نصیحت ہے کہ یہ سلسلہ تو اب رہتی دنیا تک جاری رہنا ہے اس لئے اس محبت سے سرشار جذبہ سے جو لوگ آئیں گے، اُن کو دیکھ کر گھبرانا نہیں بلکہ ان کو ویسی ہی محبت لوٹانی ہے جس محبت سے وہ آئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مجھے بھی توفیق دے کہ آپ کی محبتوں کا جواب محبت سے دے سکوں بلکہ اس سے بڑھ کر حضرت مسیح موعود؈ کے پیاروں سے محبت کرنے والا اور ان کا پیار لوٹانے والا بنوں جتنی محبت ان کو خلافت سے ہے۔
شریروں کی شرارتوں سے حفاظت کا وعدہ
پھر آپ نے فرمایا کہ یہ جوتکفیر اور تکذیب کے فتوے لگ رہے ہیں جن کا پہلے بھی ذکر ہوچکا ہے یا ہر مذہب والے کی طرف سے آپؑ کی اور آپ کی جماعت کی مخالفت کا جو بازار گرم ہے اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی فرمادیا تھاکہ یہ ہو گا لیکن فکر نہ کرو۔ یہ فتوے، یہ دشمنیاں تجھے کچھ بھی نقصان نہیں پہنچاسکیں گی۔ یہ اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے وعدہ ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں :
’’اور پھر عجیب بات یہ ہے کہ ان کی مخالفت اور دشمنی کی بابت بھی خدا تعالیٰ نے پہلے ہی سے اطلاع دی تھی … (کہ)

یَعْصِمُکَ اللّٰہُ مِنْ عِنْدِہٖ وَ اِنْ لَمْ یَعْصِمْکَ النَّاسُ

یعنی اللہ تعالیٰ تیری حفاظت کرے گااور شریروں کی شرارتوں اور دشمنوں کے منصوبوں سے وہ خود تجھے محفوظ رکھے گا۔اوراگر چہ لوگ تیری حفاظت اور مدد نہ کریں گے مگرخداان سب الزاموں اور بہتانوں سے جو شریر لوگ تجھ پر لگائیں گے تیرا معصوم ہونا ثابت کر دے گا۔ اب دیکھو یہ کیسی عظیم الشان پیشگوئی ہے جو پوری ہوئی۔ آخر سچائی کی جستجو کرنے والے کو ماننا ہی پڑے گااور جو بے ایمان ہے اس کا ہم کیا کریں۔کیونکہ جو سچا ہی نہیں اس کا مذہب بھی کچھ نہیں۔ کتنا بڑا معجزہ ہے کہ یہ سب مخالف پورا زور لگا لیں اور جو کچھ کر سکیں کریں مگر ہم اپنے وعدوں کو پورا کریں گے‘‘۔
(ملفوظات جلد پنجم۔ صفحہ 377۔ جدید ایڈیشن)
مخالفین کے الزامات سے بریت
آپؑ کی زندگی میں آپ پر مختلف مقدمات قائم کر نے کی کوشش کی گئی، استہزاء کر نے کی کوشش کی گئی، نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی، حکومتِ وقت کو جھوٹی شکایات لگاکر آپؑ کو مختلف جرائم میں ملوث کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن خدا کا وعدہ پورا ہوا، آپؑ کا ہر الزام سے بری ہونا اور آپؑ کی معصومیت ثابت ہونا، ایک روشن نشان بن گیا۔ پس یہ چیزیں ہیں جو ہر احمدی کو ایمان میں بڑھانے والی ہیں۔
آج بھی ہر راستے پر بیٹھ کر مخالفین یہ کوشش کر رہے ہیں اورحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف جو دریدہ دہنیاں کررہے ہیں ان کی یہ غلط بیانیاں اور آپ پہ جو جھوٹے الزامات لگائے جاتے ہیں یہی بہت سی سعید فطرتوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حلقۂ بیعت میں لانے والے بن رہے ہیں۔ ہم آپؑ کی جماعت کے خلاف کی گئی مخالفین کی تدبیریں ہر لمحہ ناکام و نامراد ہوتی دیکھ رہے ہیں۔
پس آج بھی اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق ان غلط الزاموں سے آپ کی حفاظت فرمارہا ہے۔آپ پر الزام تھا کہ کیونکہ انگریزوں کا لگایا ہوا پودا ہے اس لئے انگریزوں کی خوشنودی کی خاطر جہاد کو غلط قرار دے رہے ہیں اور انگریزوں نے آپ کو جہاد کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے کھڑا کیا ہے تاکہ عیسائیت کے خلاف مقابلہ کے لئے اسلام کھڑا نہ ہو۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی سچائی ثابت کرنے کے لئے جس طرح اس جری اللہ نے تمام مذاہب کو دعوتِ حق دی ہے اور اسلام کا پیغام پہنچایا ہے اس کے قریب بھی کوئی نہیں پھٹک سکتا، نہ کوئی اب تک پھٹک سکا ہے۔ ہاں آپ نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت اور آنحضرت ﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق یہ اعلان فرمایا کہ جہاد اب تلوار کا نہیں ہے بلکہ قلم کا ہے، دلائل کا ہے، براہین کا ہے۔ اب یہ تبلیغی جہاد کرو۔اسلام کی خوبصوت تعلیم اپنے اوپر لاگو کرو،نہ کہ تلواریں اٹھاکرقتل و غارت گری کرو اور خودکش حملوں کے ذریعہ سے بلاتفریق ہر ایک کی جان سے کھیلو۔
اب سے تلوار کے جہاد کا خاتمہ ہے
دیکھیں اس الزام میں بھی کس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کوبری فرمایا کہ خود مسلمان ملکوں کے سربراہ و علماء اور جو پڑھے لکھے مسلمان ہیں وہ جہاد کی وہی تعریف کر رہے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمائی تھی۔ آپؑ ایک موقع پر جہاد کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’دیکھو میں ایک حکم لے کرآپ لوگوں کے پاس آیا ہوں۔ وہ یہ ہے کہ اب سے تلوار کے جہاد کا خاتمہ ہے۔مگر اپنے نفسوں کے پاک کرنے کا جہاد باقی ہے۔ اور یہ بات مَیں نے اپنی طرف سے نہیں کہی بلکہ خدا کا یہی ارادہ ہے…۔ سو مَیں حکم دیتا ہو ں کہ جو میری فوج میں داخل ہیں وہ اِن خیالات کے مقام سے پیچھے ہٹ جائیں۔دلوں کو پاک کریں اور اپنے انسانی رحم کو ترقی دیں اور درد مندوں کے ہمدرد بنیں۔زمین پر صلح پھیلاویں کہ اِس سے اُن کا دین پھیلے گا‘‘۔
(گورنمنٹ انگریزی اور جہاد، روحانی خزائن جلد 17، صفحہ 15)
پھر آپؑ نے فرمایا کہ:
’’ اے عالَمِ اسلام کے عالمو اور مولویو! میری بات سنو! مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ اب جہاد کا وقت نہیں ہے۔… آئندہ مذہبی جنگوں سے جو تلوار اور کشت وخون کے ساتھ ہوتی ہیں ، باز آجاؤ‘‘۔
(گورنمنٹ انگریزی اور جہاد، روحانی خزائن جلد 17، صفحہ 8-9)
اس پر آپؑ کے خلاف کفر کے فتووں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا کہ انگریزوں نے اس کام کے لئے کھڑا کیا ہے۔ لیکن آج کیا ہو رہا ہے!۔ جیسا کہ میں نے کہا بہت سارے سربراہان اور علماء جہاد کی بابت اب وہی باتیں کر رہے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کی تھیں اور اس طرح کے سینکڑوں حوالے ہیں جو اخباروں میں آتے ہیں ، جواس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسلام کی اشاعت کے لئے جو طریق اپنانے کے لئے فرمایا تھا وہی صحیح طریق تھا اور اسلام کی تعلیم کے مطابق تھا اور آج خود بھی اسی کی نقل کر رہے ہیں۔
مسئلہ جہاد سے متعلق حضرت مسیح موعودؑ کی بیان فرمودہ تشریح کے حق میں تائیدی بیانات
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تو یہ بات سچ کہی تھی، اللہ تعالیٰ سے علم پا کر کہی تھی، اسلام کی خوبیوں کے بیان میں کہی تھی۔لیکن آج یہ لوگ جو یہ باتیں کر رہے ہیں یہ ڈر کر کررہے ہیں۔ ان میں سے کچھ اقتباس آپ کو سنا دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تائیدونصرت کے نظارے اور ہر الزام سے بری ہونے کے نظارے آپؑ کے حق میں دکھا رہا ہے۔
نوائے وقت کے ایک منجھے ہوئے لکھنے والے ایم۔ ایم۔ حسن صاحب ہیں ، وہ ’’فریضہ جہاد کے متعلق غلط فہمیاں ‘‘ کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں :
’’علماء کی اصطلاح میں جہاد کی سب سے اعلیٰ قسم خود اپنے نفس کے ساتھ جہاد کرنا ہے۔اور اسی کا نام جہادِ اکبر ہے۔ حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ حضورؐ نے صحابہ سے جو ابھی ابھی لڑائی کے میدان سے واپس لوٹے تھے یہ فرمایا ’’تمہارا آنا مبارک ہو۔ تم چھوٹے جہاد (غزوہ) سے بڑے جہادکی طرف آئے ہو کیونکہ بڑا جہاد بندہ کا اپنے ہوائے نفس سے لڑنا ہے…۔ حکم ِ الٰہی ہے ’’اور تم اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں مگر زیادتی نہ کروکہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘۔
اب دنیا کی طرف سے ان پر دباؤ پڑ رہا ہے تو اب ان کو اسلام کی صحیح تعلیم بھی یاد آرہی ہے۔
پھر کہتے ہیں کہ ’’یعنی تمہاری جنگ نہ تواپنے مادی اغراض کے لئے ہو‘‘ اللہ تعالیٰ کہتا ہے ’’نہ ان لوگوں پر ہاتھ اٹھاؤ جو دین حق کی راہ میں مزاحمت نہیں کرتے اور نہ لڑائی میں جاہلیت کے طریقے استعمال کرو۔ عورتوں ، بچوں اور بوڑھوں اور زخمیوں پر دست درازی نہ کرنا۔ دشمن کے مقتولوں کا مُثلہ کرنا، کھیتوں اور مویشیوں کو خواہ مخواہ برباد کرنا، اور دوسرے تمام وحشیانہ اور ظالمانہ افعال ہیں اور ’حد سے گزرنے‘ کی تعریف میں آتے ہیں ‘‘۔
(نوائے وقت مؤرخہ 29؍اکتوبر 2002ء۔ ادارتی صفحہ)
اور اس کے باوجود نام نہاد علماء کا ایک طبقہ یہ کرتاچلاجارہا ہے۔
پھر مولانا فضل الرحمن صاحب دہلی میں جاکر یہ بیان دیتے ہیں جو بڑی جلی سرخیوں کے ساتھ شائع ہواکہ: ’’میں ان تمام لوگوں کی نمائندگی کرتاہوں جو مذاکرات پر یقین رکھتے ہیں اور جہاد کے نام پر معصوم افراد کے قتل کو ذریعہ نہیں بناتے…۔ جہاد وہ نہیں جو ہندوستان یا مغربی میڈیا کہتا ہے۔اسلام کا نظریہ ہے کہ جہادِ اکبر کسی دوسرے کے خلاف نہیں بلکہ اپنے نفس کے خلاف ہوتا ہے۔ برائی، ناانصافی، عدم مساوات،ناخواندگی اور جہالت کے خلاف ہوتا ہے۔ تمام مسلمانوں کو اس جہاد پر توجہ دینی چاہیے‘‘۔
(نوائے وقت، مؤرخہ 22؍جولائی 2003ء۔ صفحہ 1، 8)
پھر سعودی عرب کے شہزادہ عبداللہ، جو اس وقت شہزادے تھے کہتے ہیں کہ:
’’اسلام رواداری کا، درمیانی راستے کا مذہب ہے۔ نفرت کی تجارت کرنے اور اختلاف کو فروغ دینے والوں کی اسلام میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ شہزادہ عبداللہ نے کہا کہ اسلامی معاشرے میں جو لوگ رہتے ہیں وہ اگر مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں تو پھرہمیں انہیں تسلیم کر لینا چاہئے۔ہمیں ان کی نیتوں کو ٹٹولنے کی کوشش نہیں کر نا چاہئے اور نہ ان کے سینے چیر کر دیکھنا چاہئیں کہ وہ کیسے مسلمان ہیں ‘‘۔
(نوائے وقت، مؤرخہ 20؍اکتوبر 2003ء، صفحہ 15)
اب انہوں نے اگر سینے چیر کر دیکھے ہیں تو صرف احمدیوں کے سینے چیرکر دیکھے ہیں اور کہتے ہیں کہ کلمہ تو تم پڑھتے ہو لیکن مسلمان نہیں ہو۔ ان کے عمل اور ان کے جو یہ قول جو ہیں یہ صاف ظاہر کر رہے ہیں کہ یہ کسی سے خوفزدہ ہو کر بلکہ صاف الفاظ میں یہ کہ مغرب سے خوفزدہ ہو کر بیان کچھ اور کرتے ہیں اور عمل کچھ اور ہیں۔
پھر مفتی اعظم سعودی عرب شیخ عبدالعزیز کا انتباہ ہے کہ:
’’ اسلام کی غلط تشریح کرنے والوں کو نظر اندازکر دیں۔ انہوں نے کہا کہ انتہا پسند یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں لڑرہے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ لوگ جہاد کے نعرے لگاکر نوجوانوں کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ جہاد نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کرنے والے کسی بھی صورت دین کی کوئی خدمات نہیں کر رہے‘‘۔
(نوائے وقت، مؤرخہ 24؍اگست 2003ء، صفحہ 3)
پھر ایک مولانا احمد لاٹ صاحب ہیں ، وہ لکھتے ہیں کہ ’’بعض عناصر پروپیگنڈا کر کے لوگوں کو دعوت و تبلیغ کے نبیوں والے مشن سے روک رہے ہیں حالانکہ اسلامی انقلاب لانے کے لئے جہاد سے افضل کام دعوت و تبلیغ ہے کیونکہ جذبہ جہاد بھی توکل کے بغیر پیدا نہیں ہوتااور توکّل کا پیدا ہونا دعوت کے بغیر ممکن نہیں‘‘۔
(روزنامہ جنگ لاہور، 21؍نومبر 2004ء صفحہ 2)
اللہ تعالیٰ کی نصرت اور تائیدات
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اسی تقریر میں فرماتے ہیں کہ ’’یاد رکھو کہ ایک مفتری اور کذّاب کا کام کبھی نہیں چلتا اور اس کو خدا تعالیٰ کی طرف سے مدد اور نصرت کبھی نصیب نہیں ہوتی۔ کیونکہ اگر مفتری کا کام بھی اسی طرح سے دن بدن ترقی کرتا جاوے تو پھر اس طرح سے تو خدا کے وجود میں بھی شک پڑجاوے اور خدا کی خدائی میں اندھیر پڑجاوے۔ جب سے دنیا پیدا ہوئی عادت اللہ اسی طرح سے ہے کہ ایک جہان ان کی مخالفت پر کمر بستہ ہو جاتا ہے اور جس طرح سے کوئی مسافر چلتا ہے تو کتّے اس کے اردگرد جمع ہو کر بھونکتے اور شور مچاتے ہیں اسی طرح سے جو خدا کی طرف سے مامور ہو کر آتا ہے وہ چونکہ ان لوگوں میں سے نہیں ہوتا اس لئے دوسرے لوگ کُتّوں کی طرح اس پر پڑتے ہیں اور مخالفت کا شور مچاتے اور دکھ دینے کی کوششیں کرتے ہیں لیکن آخر خدا تعالیٰ ایک نظر میں ان سب کوہلاک کر دیتا ہے‘‘۔
(ملفوظات جلد پنجم۔ صفحہ 378۔ جدید ایڈیشن)
زبانی اسلام کافی نہیں
اللہ تعالیٰ کی اپنے حق میں تائیدات کے اظہار کے بعد آپؑ ہمیں صحیح مسلمان بننے کی توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’ اب یہ بھی سن لو کہ وہ بڑا ہی خوش قسمت انسان ہے جو اسلام جیسے پاک مذہب میں داخل ہے لیکن صرف زبان سے اسلام، اسلام کہنے سے کچھ نہیں بنتا جب تک کہ سچّے دل سے انسان اس پر کاربند نہ ہو جاوے۔اکثر لوگ اس قسم کے بھی ہوتے ہیں جن کی نسبت قرآن شریف میں لکھا ہے

وَاِذَا لَقُوْا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْا اٰمَنّا، وَاِذا خَلَوْا اِلٰی شَیٰطِیْنِھِمْ قَالُوْا اِنَّا مَعَکُمْ اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَھْزِء وْنَ (البقرۃ:15)

یعنی جب وہ مسلمانوں کے پاس جاتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں اور جب وہ دوسروں کے پاس جاتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں اور یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کو قرآنِ شریف میں منافق کہا گیا ہے۔ اس لئے جب تک کوئی شخص پورے طور پرقرآنِ مجید پر عمل نہیں کرتا تب تک وہ پورا پورا اسلام میں بھی داخل نہیں ہوتا۔ قرآنِ مجید ایک ایسی پاک کتاب ہے جو اُس وقت دنیا میں آئی تھی جب بڑے بڑے فساد پھیلے ہوئے تھے اور بہت سی اعتقادی اور عملی غلطیاں رائج ہو گئی تھیں اور تقریباً سب کے سب لوگ بداعمالیوں اور بدعقیدگیوں میں گرفتار تھے۔ اسی کی طرف اللہ جلّشانہٗ قرآنِ مجید میں اشارہ فرماتا ہے

ظَھَرَالْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الروم:42)

یعنی تمام لوگ کیا اہلِ کتاب اور کیا دوسرے، سب کے سب بدعقیدگیوں میں مبتلا تھے اور دنیا میں فسادِ عظیم برپا تھا۔ غرض ایسے زمانہ میں خدا تعالیٰ نے تمام عقائد باطلہ کی تردید کے لئے قرآنِ مجید جیسی کامل کتاب ہماری ہدایت کے لئے بھیجی جس میں کل مذاہبِ باطلہ کا ردّ موجود ہے‘‘۔
(ملفوظات جلد پنجم۔ صفحہ 378-379۔ جدید ایڈیشن)
اس میں تو کوئی شک نہیں کہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تائیدات اورنصرت شامل حال ہے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک پاک جماعت دینے کا وعدہ کیا تھا اور دی ہے۔ پس ہر احمدی جو آپؑ کے سلسلۂ بیعت میں داخل ہے اسے کوشش کرنی چاہئے کہ اپنے اندر ایسی پاک تبدیلیاں پیدا کرے جو حقیقی مسلمان کے لئے ضروری ہیں اور جس کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی اس تقریر میں ہمیں نصیحت فرمائی۔ نبوت کے زمانے سے دوری کی وجہ سے بہت سی فکریں اور خوف سر اٹھاتے ہیں لیکن آج جب ہم خلافتِ احمدیہ کے سوویں سال میں سے گزر رہے ہیں ، ہمیں یہ جائزے لینے چاہئیں کہ کیا ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی توقعات پر پورا اترنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہمارا اسلام صرف نام کا تو اسلام نہیں ؟ ہمارا احمدی مسلمان کہلانا صرف نام کا احمدی مسلمان کہلانا تو نہیں۔
پس اس بات کو ہمیشہ ہر احمدی کو اپنے پیشِ نظر رکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہم سے یہ توقع کر رہے ہیں جیساکہ آپ نے فرمایا کہ ’’جب تک کوئی شخص پورے طور پر قرآنِ مجید پرعمل نہیں کرتا تب تک وہ پورا پورا اسلام میں بھی داخل نہیں ہوتا‘‘۔ (ایضاً)
پس قرآنِ کریم کو پڑھنا، اسے سمجھنا، اس پر عمل کرنا، خداتعالیٰ سے تعلق جوڑنے کے لئے انتہائی ضروری اور اہم ہے۔ اس کی طرف ہر احمدی کو فکر کے ساتھ توجہ کرنی چاہئے، تبھی ہم دنیا کے فسادوں سے بچ سکیں گے کیونکہ یہ قرآنِ کریم ہی ہے جس نے پہلے زمانے میں بھی دنیا کو فساد سے پاک کیا اور آج بھی دنیا کے ہر قسم کے فسادوں سے، چاہے وہ روحانی ہوں یامادی ہوں ، بچانے کا ذریعہ قرآنِ کریم ہی ہے اور اس کی تعلیم کو دنیا میں رائج کرنے کے لئے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام مبعوث ہوئے۔
پس حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہو کر ہمیں اپنے عملوں کو اس تعلیم کے مطابق ڈھالنے کی حتّی المقدور کوشش کرنی چاہئے۔ اور یہی چیز ہمارے اندر انقلاب پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا کے فسادوں سے پاک کرنے کا ذریعہ بنے گی۔ پس آج ہر احمدی کی ذمہ داری ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں شامل ہو کر یہ عہد کرتا ہے کہ ہاں آج ہم نے آنحضرت ﷺ پر لائی گئی اس تعلیم کے ذریعہ سے دنیا کو فتنہ و فساد سے پاک کرنا ہے، اپنے آپ پر اس تعلیم کو لاگو کر کے دنیا میں ایک انقلاب پیدا کرنا ہے۔ اور یہ ذمہ داری ہے کہ پھر انقلاب پیدا کرنے کے لئے کھڑا ہو جائے اور تمام دنیا کو آنحضرت ﷺ کے جھنڈے تلے لانے کے لئے اور اپنے نفس کی صفائی کے لئے پہلے سے بڑھ کر کوشش کرے۔
پھر آپؑ نے فرمایا یہ پاک تبدیلی اور قرآنی تعلیم کو تم اپنے اوپر لاگو کرنے والے تب بن سکو گے، خدا تعالیٰ کی ذات پر کامل یقین تب ہو گا جب تم ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے اس اعلان کو اپنے پیشِ نظر رکھو گے کہ

نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْد (قٓ:17)

ہم انسان سے اس کی رگ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں۔ اور

وَھُوَ مَعَکُم اَیْنَ مَا کُنْتُمْ (الحدید:5)

اور تم جہاں بھی جاؤ وہ تمہارے ساتھ رہتا ہے۔ پس جب اس یقین پر قائم ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے بلکہ شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے اور اس کے فرشتے ہمارے ہر عمل کو دیکھ رہے ہیں اور لکھ رہے ہیں اس لئے زبانی دعوے کبھی کام نہیں آئیں گے بلکہ اس سوچ کے ساتھ اپنے ہر عمل کو درست رکھنا ہو گا کہ خداکی ہر آن ہم پر نظر ہے اور ہر جگہ وہ ہمارے ساتھ ہے۔ اگر یہ احساس پیدا ہو جائے اور اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا فہم وادراک حاصل ہو جائے تو ایک انسان سے پھر کبھی ایسے اعمال سر زد ہو ہی نہیں سکتے جو خدا تعالیٰ کی دی گئی تعلیم کے خلاف ہوں۔ اور جب یہ احساس ہو گا کہ میرا ہر عمل خدا تعالیٰ کی نظر کے سامنے ہے تو پھر ہر قدم پاک تبدیلیوں کی طرف بڑھنے والا قدم ہو گا اور ہر کام میں خدا تعالیٰ مقدم ہو گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’یاد رکھو کہ صرف زبانی باتوں سے کچھ نہیں ہوتا جب تک عملی حالت درست نہ ہو۔ جو شخص حقیقی طور پر خدا کو ہی اپنا ربّ اور مالک یوم الدین سمجھتا ہے ممکن ہی نہیں کہ وہ چوری، بدکاری، قماربازی یا دیگر افعالِ شنیعہ کا مرتکب ہو سکے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہ سب چیزیں ہلاک کردینے والی ہیں اور ان پر عملدرآمد کرنا خدا تعا لیٰ کے حکم کی صریح نافرمانی ہے۔ غرض انسان جب تک عملی طور پر ثابت نہ کر دیوے کہ وہ حقیقت میں خدا پر سچا اور پکا ایمان رکھتا ہے تب تک وہ فیوض اور برکات حاصل نہیں ہو سکتے جو مقرّبوں کو ملا کرتے ہیں۔ وہ فیوض جو مقربانِ الٰہی اور اہل اللہ پر ہوتے ہیں وہ صرف اسی واسطے ہوتے ہیں کہ ان کی ایمانی اور عملی حالتیں نہایت اعلیٰ درجہ کی ہوتی ہیں اور انہوں نے خدا تعالیٰ کو ہر ایک چیز پر مقدم کیا ہوا ہوتا ہے‘‘۔(ملفوظات جلد پنجم۔ صفحہ 383۔ جدید ایڈیشن)
فرمایا جب ایسی حالت ہو گی تو پھر ایسے شخص کی خداتعالیٰ تائیدونصرت کرتا ہے اور غیبی طور پر اس کی مدد کرتا ہے اور ہر ایک میدان میں اسے فتح نصیب کرتا ہے۔
پھر آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے لئے، اللہ تعالیٰ کو حاصل کرنے کے لئے کوشش بھی ضروری ہے۔ اور جو کوشش کرتا ہے، مجاہدات کرتاہے اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق ضرور اس کا ہو جاتاہے۔ آپؑ فرماتے ہیں :
’’جو محنت کرتا ہے اور خدا کے عشق اور محبت میں محو ہو جاتا ہے وہ دوسروں سے ممتاز اور خدا کا منظورِنظر ہوجاتاہے اور اللہ تعالیٰ ایسے شخص کی خود دستگیری کرتا ہے جیسے فرمایا

وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت:70)

یعنی جو لوگ ہماری خاطر مجاہدات کرتے ہیں آخر ہم ان کو اپنا راستہ دکھا دیتے ہیں۔‘‘
(ملفوظات جلد پنجم۔ صفحہ 380۔ جدید ایڈیشن)
پس جیسا کہ پہلے بھی بیان ہو چکا ہے جن کو خدا تعالیٰ اپنا راستہ دکھا دیتا ہے وہ خدا کے ہوجاتے ہیں اور خدا ان کا ہوجاتا ہے اور ہر شر سے انہیں بچاتا ہے اور ہر آن ان کی حفاظت کرتا ہے۔
پس ایسے واحدویگانہ اور سب وفاداروں سے زیادہ اپنے دوستوں سے وفا کرنے والے خدا سے تعلق جوڑنے اور اس کی توحید کو قائم کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آئے تھے اور اس کا حصول ایک احمدی کی آخری منزل ہے جو اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بیعت کرنے کے بعد اپنے عہد بیعت میں کیا ہے کہ یہی اس کی زندگی کا مقصد ہے اور یہی آخری منزل ہے اور ہونی چاہئے تاکہ دنیا میں جو ظَھَرَالْفَسَادُ کی حالت ہے وہ امن و سلامتی میں بدل سکے اور تمام دنیا میں خدائے واحدویگانہ کی طرف جھکنے والے نظر آئیں۔
پس ان دنوں میں جبکہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے یہ موقعہ عطا فرمایا ہے کہ ایک روحانی ماحول میں کچھ دن گزاریں ، خدا تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ اسلام اور احمدیت کے غلبے کے لئے دعائیں کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہماری زندگیوں میں اپنے آخری دین اور اپنے آخری رسول ﷺ کا جھنڈا دنیا میں لہراتا ہوا دکھائے اور ہم ان تمام وعدوں کو اپنی آنکھوں سے پورا ہوتا ہوا دیکھیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اللہ تعالیٰ نے فرمائے اور جن کے پورا ہونے کے بارے میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ لیکن یہ نہ ہو کہ ہم اپنی کوتاہیوں اور کمزوریوں کی وجہ سے ان برکات سے دور ہو جائیں۔ پس دعاؤں ، دعاؤں اور دعاؤں سے ان برکات کو سمیٹنے کی کوشش کریں، ان دنوں میں بھی کریں اور ہمیشہ کرتے چلے جائیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
اب دعا کرلیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں