جلسہ سالانہ سپین 2005ء کے موقع پر سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا اختتامی خطاب

آپ سب جانتے ہیں کہ یہ جو صوبہ ہے،یہ علاقہ جس میں ہماری مسجد ہے، یہ یورپ میں مسلمانوں کی پہچان تھا۔آج آپ لوگ جو یہاں سپین میں اکٹھے ہوئے ہوئے ہیں، آپ کو یہاں آنے کا موقع ملا ہے۔ آپ کا کام ہے کہ اس کھوئی ہوئی میراث کو دوبارہ حاصل کر کے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں تلے لے آئیں۔
پہلے آنے والوں کے ساتھ یہ وعدہ نہیں تھا کہ اُن کی عظمت ہمیشہ قائم رہے گی بلکہ دین سے دُور چلے جانے کی خبر تھی لیکن مسیح محمدی کی جماعت کے لئے تا قیامت قائم رہنے، بڑھنے، پھولنے اور پھلنے کی خبر ہے اور یقینا اس جماعت نے دنیا پر غالب آنا ہے، انشاء اللہ تعالیٰ۔لیکن لوہے کی تلوار چلا کر نہیں، بندوقوں اور توپ کے گولے چلا کر نہیں، بلکہ پیار اور محبت کے تیر چلا کر، اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کر کے، اپنی عبادتوں کے معیار بلند کر کے، اپنی راتوں کو اُس کے حضور جھکتے ہوئے گڑ گڑاتے ہوئے دعائیں کرتے ہوئے گزار کر۔ ہر انسان کا حق ادا کرتے ہوئے چاہے وہ احمدی ہے، چاہے وہ مسلمان ہے، چاہے وہ عیسائی ہے یا کسی مذہب کا ہے۔ ہر احمدی کا فرض ہے کہ ہر انسان کا حق ادا کرے۔ یاد رکھیں یہ ہتھیار ایسے ہیں جن کا کوئی طاقت مقابلہ نہیں کر سکتی۔ پس دعائیں کرتے ہوئے یہاں رہنے والے احمدی اس طرف توجہ دیں اور احمدیت کے پیغام کو اس ملک کے کونے کونے میں پہنچانے کی کوشش کریں۔
ہر احمدی مرد اور عورت جو یہاں رہتا ہے کوشش کرے کہ احمدیت کی تبلیغ کے کام کو سنجیدگی سے لے اور سنجیدگی سے انجام دے۔
[قرآن مجید،احادیث نبویہ اور ارشادات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالہ سے باہمی محبت اور اخوت اور دعوت الیٰ اللہ کی طرف خصوصی توجہ دینے کی تاکیدی نصائح۔]
الٰہی وعدوں کے مطابق اس مسجد پیدروآباد نے انشاء اللہ تعالیٰ رہتی دنیا تک قائم رہنا ہے۔ ایک وقت آئے گا کہ یہاں اس ملک میں بڑی بڑی عظیم الشان اَور مسجدیں بھی جماعت احمدیہ کو بنانے کی توفیق ملے گی۔ لیکن یہ جو دعاؤں کے ساتھ عاجزانہ ابتدا ہوئی ہے اس کو تاریخ احمدیت کبھی نہیں بھلا سکے گی۔
مسجد بشارت سپین میں جلسہ سالانہ سپین کے موقع پر 8؍جنوری 2005ء کو
سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکااختتامی خطاب

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

آپ لوگ جو حضرت مسیح موعود سے بیعت کا دعویٰ کرتے ہیں، یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم ہی ہیں جنہوں نے حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کو صحیح طور پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سمجھا ہے۔ ہم ہیں جنہوں نے اب اس تعلیم کو اپنی زندگیوں پر بھی لاگو کرنا ہے اور دنیا کو بھی اس کے حسن اور خوبصورتی سے آگاہ کرنا ہے۔ دنیا کو بھی بتانا ہے کہ اے دنیا والو! سن لو کہ اگر تم اپنی بقا چاہتے ہو، اپنی دنیا و آخرت سنوارنا چاہتے ہو، اس دنیا کو بھی جنت بنانا چاہتے ہو اور مرنے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق ہمیشہ کی جنّتوں کے وارث بننا چاہتے ہو تو آؤ اور اس زمانے کے امام کو پہچانو، مسیح الزمان کو پہچانو اور اس کو مانو۔ تمہاری بچت اب مسیح محمدی کے ماننے میں ہی ہے۔ یہاں جب آپ یہ دعویٰ کر کے اُٹھیں گے اور لوگوں کو بتائیں گے تو بہت سے سوال لوگ آپ سے کریں گے۔آپ کے عمل کو دیکھا جائے گا کہ یہ عمل کیسے ہیں؟ کیا یہ ہمیں وہ اسلام دکھانا چاہتے ہیں یا ہم سے منوانا چاہتے ہیں جس کے بارے میں یہ تاثر دنیا میں پیدا ہو گیا ہے کہ اب سوائے ظلم اور تشدد کے کچھ نہیں، یا کچھ اَور۔
یہ قوم ایسی ہے کہ ان کے جو آباؤ اجداد تھے اُن میں بہت سے مسلمان تھے۔ اس علاقے میں شاید اکثریت مسلمانوں کی ہی ہو۔ یہ لوگ کہیں گے کہ پہلے بھی مسلمان آئے تھے اور ہمارے آباؤ اجداد کو مسلمان بنا کر پھر ظلم کی گود میں ڈال کر چلے گئے۔ تم بھی یہی کام دوبارہ دہرانا چاہتے ہو۔ آپ سب جانتے ہیں کہ یہ ملک ایسا ہے جہاں تقریباً چھ سات سو سال تک مسلمان حکومت کرتے رہے اور عموماً بڑا لمبا عرصہ بڑے عدل و انصاف سے حکومت کی۔ علم کو فروغ دیا اور ایسی یونیورسٹیاں بنائیں جو ایک لمبے عرصے تک یورپ کے لئے علم حاصل کرنے اور پھیلانے کا ذریعہ بنی رہیں۔ رعایا کے لئے علاج کی سہولتوں کے لئے ہسپتال بنائے گئے جن کا مسلمان حکومتوں سے پہلے تصور بھی نہیں تھا۔ اُس زمانے میں ان کے آنے سے پہلے رعایا تو پِسی ہوئی تھی، مجبور تھی، غلاموں کی طرح زندگی گزار رہی تھی۔ تو بہر حال مسلمانوں نے لمبا عرصہ حکومت کے تقاضوں کوپورا کرتے ہوئے حکومت کی۔ آپ سب جانتے ہیںکہ یہ جوصوبہ ہے، یہ علاقہ جس میں ہماری مسجد ہے، یہ یورپ میں مسلمانوں کی پہچان تھا۔ قرطبہ کی مسجد آج بھی مسلمانوں کی شان و شوکت کا اظہار کرتی نظر آتی ہے لیکن آج اُس کے بیچ میں ایک چرچ بھی قائم ہے۔ پھر غرناطہ اور دوسری جگہ میں عمارات یا اُن کے آثار نظر آتے ہیں۔ مسلمانوں کی بدقسمتی کہ ایک لمبا عرصہ حکومت کرنے کے بعد پھر یہ ملک عیسائیت کی گود میں چلا گیابلکہ مَیں کہتا ہوں کہ مسلمانوں نے خود پھینک دیا۔ جن لوگوں نے عدل و انصاف کرنے کے لئے، غلامی سے نجات حاصل کرنے کے لئے مسلمانوں کو بلایا تھا، اُنہیں پھر اُنہی ظلموں میں پسنے کے لئے چھوڑ دیا گیا ۔ اور پھر ایک اکثریت جو مسلمان ہو چکی تھی اُن کو بھی ظلم کے ایک سیاہ دور میں پھینک دیا گیا۔ مسلمان حکومتیں بھی مسلمانوں کی مدد نہ کر سکیں اور بعض جگہوں پرمسلمانوں کے خون کی ندیاں بہائی گئیں ۔
آپ نے کبھی سوچا ہے کہ یہ آفتیں اور ذلّت مسلمانوں پر کیوں نازل ہوئیں؟ اس لئے کہ جس مقصد کے لئے مسلمان سپین میں داخل ہوئے تھے بعد کے بادشاہوں نے اُس مقصد کو بھلا دیا۔ آپس کی لڑائیاں اور پھوٹ اور سازشیں اور حکومت کی ہوس نے اُن کو اندھا کر دیا۔ دنیا داری زیادہ غالب آ گئی۔ جس سے یہ بادشاہ خود بھی برباد ہو گئے اور مسلمان رعایا کا بھی خون کروایا۔ یقینایہ الٰہی احکامات سے غفلت اور شرک تھا جس کی اللہ تعالیٰ نے اتنی سخت سزا دی۔ ابن خلدون اس بارے میں لکھتے ہیں کہ مسلمانوں پر یہ آفتیں صرف اس وجہ سے نازل ہوئیں کہ انہوں نے قرآنِ مجید سے کوئی تعلق نہ رکھا تھا۔ ارشاداتِ نبوی کو پسِ پشت ڈال دیا تھا۔ اللہ کا خوف دلوں سے جاتا رہا تھا۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ اُن میں خود غرضی آ گئی۔ ہمدردی اور اخوت اسلامی جاتی رہی۔ اولوالامر کی اطاعت سے سبکدوش ہو گئے ۔ عیسائیوں کے دوست اور ہوا خواہ بن گئے اور باہم لڑ جھگڑ کر عیسائیوں کی بڑھتی ہوئی قوت کو مدد پہنچائی۔(ماخوذ از تاریخ ابن خلدون جلد 5 حصہ اول صفحہ 431 ’’مشرقی اندلس پر نکنک قبضہ‘‘ ۔ مترجم ۔ علامہ حکیم احمد حسین الٰہ آبادی۔ دار الاشاعت کراچی 2003ء)
تو ظاہر ہے جب اللہ تعالیٰ کے نام پر حکومت کا دعویٰ کرنے والے یا کوئی بھی کام کرنے والے اللہ تعالیٰ کے واضح حکموں کی خلاف ورزی کریں گے تو اللہ تعالیٰ تو اپنے نام کی بڑی غیرت رکھتا ہے۔ یقیناپھر یہی انجام ہونا تھا ۔لیکن آپ جیسا کہ میں نے کہا آج مسیح محمدی کی تعلیم پر عمل کرنے کا دعویٰ کرنے والے جو احمدی ہیں ، جن کو اللہ تعالیٰ نے یہاں آ کر آباد ہونے کی توفیق عطا فرمائی جو گزشتہ تیس سال میں یہاں کے جو حالات بدلے وہ آپ جانتے ہیں۔تو ہمیں اُن حکومتوں کا بھی شکرگزار ہونا چاہئے کہ باوجود عیسائی حکومتیں ہونے کے انہوں نے مذہبی آزادی دی۔ مسلمانوں کو مسلمان کے طور پر رہنے کا حق دیا اور یہ یقینا آجکل کے دَور کی حکومتوں کی شرافت ہے اور ہمیں اس بات پر ان کا شکر گزار ہونا چاہئے۔
آج آپ لوگ جو یہاں سپین میں اکٹھے ہوئے ہوئے ہیں، آپ کو یہاں آنے کا موقع ملا ہے۔ آپ کا کام ہے کہ اس کھوئی ہوئی میراث کو دوبارہ حاصل کر کے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں تلے لے آئیں۔ پہلے آنے والوں کے ساتھ یہ وعدہ نہیں تھا کہ اُن کی عظمت ہمیشہ قائم رہے گی بلکہ دین سے دور چلے جانے کی خبر تھی لیکن مسیح محمدی کی جماعت کے لئے تا قیامت قائم رہنے، بڑھنے، پھولنے اور پھلنے کی خبر ہے اور یقینا اس جماعت نے دنیا پر غالب آنا ہے، انشاء اللہ تعالیٰ۔لیکن لوہے کی تلوار چلا کر نہیں، بندوقوں اور توپ کے گولے چلا کر نہیں، بلکہ پیار اور محبت کے تیر چلا کر، اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کر کے، اپنی عبادتوں کے معیار بلند کر کے، اپنی راتوں کو اُس کے حضور جھکتے ہوئے گڑ گڑاتے ہوئے دعائیں کرتے ہوئے گزار کر۔ ہر انسان کا حق ادا کرتے ہوئے چاہے وہ احمدی ہے، چاہے وہ مسلمان ہے، چاہے وہ عیسائی ہے یا کسی مذہب کا ہے۔ ہر احمدی کا فرض ہے کہ ہر انسان کا حق ادا کرے۔ یاد رکھیں یہ ہتھیار ایسے ہیں جن کا کوئی طاقت مقابلہ نہیں کر سکتی۔ پس دعائیں کرتے ہوئے یہاں رہنے والے احمدی اس طرف توجہ دیں اور احمدیت کے پیغام کو اس ملک کے کونے کونے میں پہنچانے کی کوشش کریں۔ اسلام کی خوبصورت تعلیم کا حسن لوگوں کے سامنے پیش کریں۔ جہاں آپ دنیا کمانے کے لئے کوئی کام یا کاروبار کر رہے ہیں، وہاں اس خوبصورت تعلیم کی خوشبو بھی ساتھ بکھیرتے چلے جائیں۔ اس صوبے میں تو اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جن کے آباؤ اجداد مسلمان تھے اور خوف اور ڈر سے عیسائی ہو گئے۔ اور یہ خوف اور ڈر کئی نسلیں گزرنے کے بعد بھی ابھی تک قائم ہے۔ حکمت سے، طریقے سے ان کو یہ پیغام پہنچاتے رہیں اور مسلسل صبر اور دعا کے ساتھ یہ کام کرتے رہیں۔ آپ جتنی بھی کوشش کر لیںوہ معمولی کوشش ہی ہوگی اور اس زمانے میںیہ معمولی کوششیں ہی ہیں جنہوں نے یہ انقلاب لانا ہے۔ کیونکہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق یہ وہی زمانہ ہے جس میں تمام دنیا کے نیک فطرت لوگوں نے احمدیت یعنی حقیقی اسلام میں شامل ہونا ہے۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کے وعدے ہیں جنہوں نے یقینا پورا ہونا ہے۔ آپ کو تو اللہ تعالیٰ اس کام میں حصہ دار بنا کر ثواب پہنچانا چاہتا ہے۔ دنیا و آخرت آپ کی سنوارنا چاہتا ہے۔ باوجود اس کے کہ مسلمانوں کے خلاف دنیا میں محاذ قائم ہوئے ہوئے ہیں، باوجود اس کے کہ آج مسلمان کو دنیا میں ہر جگہ برا سمجھا جاتا ہے، باوجود اس کے کہ آج مغربی ممالک میں ہر شخص اور مغربی ممالک کی ہر حکومت ہر مسلمان کو شک کی نظر سے دیکھتی ہے۔ پھر بھی مسلمانوں کے امن پسند حصے کو لوگ دیکھنا اور سننا چاہتے ہیں، پسند کرتے ہیں۔ اور آج جماعت احمدیہ ہی ہے جو اسلام کی امن پسندی کی، محبت اور پیار کی خوبصورت تصویر دنیا کے سامنے پیش کرتی ہے۔ پس کوشش کریں، ہر احمدی مرد اور عورت جو یہاں رہتا ہے کوشش کرے کہ احمدیت کی تبلیغ کے کام کو سنجیدگی سے لے اور سنجیدگی سے انجام دے، برکت تو اللہ تعالیٰ نے ڈالنی ہے، نیک نیتی سے کئے گئے کام اور دعاؤں کو اللہ تعالیٰ ضرور پھل لگاتا ہے۔ عمومی طور پر یہاں کے جن لوگوں سے میرا واسطہ پڑا ہے، ان لوگوں میں بڑی شرافت ہے، حوصلے سے بات سننی بھی آتی ہے اور دلیل کی بات سنتے بھی ہیں۔ تو ان کی یہ نیک فطرت اور شرافت جو ہے یہ تقاضا کرتی ہے کہ ان تک اسلام کا صحیح پیغام پہنچے۔ دلوں کو بدلنا اللہ تعالیٰ کا کام ہے ۔ آپ کا کام ہے پیغام پہنچانا، دعائیں کرنا اور محنت سے کوشش کر کے یہ پیغام مسلسل صبر سے پہنچاتے چلے جانا۔
اس علاقے میں جماعت احمدیہ کو مسجد بنانے کا موقع ملنا بھی الٰہی تقدیر کے ماتحت ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے جب اس مسجد کی بنیاد رکھی تھی تو فرمایا تھا کہ اس جگہ کا انتخاب نہ کرم الٰہی ظفر صاحب نے کیا ہے نہ مَیں نے، بلکہ اس جگہ کا انتخاب خدا تعالیٰ نے خود کیا ہے اور اپنا گھر بنانے کے لئے اس خطّہ زمین کو چنا ہے ۔
(ماخوذ از دورہ مغرب 1400ھ صفحہ 545)
اللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا ہو گا اور اس سرزمین پر انشاء اللہ تعالیٰ ایک دن اسلام اور احمدیت کا سورج طلوع ہونے کا دن چڑھے گا۔ اللہ تعالیٰ نے الہاماً بھی آپ کو خوشخبری دی تھی۔ پس یہ جگہ جہاں ہماری مسجد ہے اور جہاں ہم آج جلسہ کر رہے ہیں، یہ اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت سے عطا ہوئی ہے۔ اس لئے کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایک ٹیلہ پر مسجد بنا دی ہے جس کی اس ملک کے رہنے والوں کو بھی خبر نہیں ہے، وہ نہیں جانتے کہ یہاں کوئی مسجد بھی ہے کہ نہیں۔ انشاء اللہ تعالیٰ اس جگہ کو لوگ جانیں گے۔یہاں سے پینتیس چھتیس کلو میٹر کے فاصلے پر (شاید اتنا ہی ہے) مسجد قرطبہ تو ہے جو اپنی عظمتِ رفتہ کے نشان دکھا رہی ہے، جس میں اس وقت ایک گرجا بھی بنا ہوا ہے لیکن الٰہی وعدوں کے مطابق اس مسجد پیدروآباد نے انشاء اللہ تعالیٰ رہتی دنیا تک قائم رہنا ہے۔ ایک وقت آئے گا کہ یہاں اس ملک میں بڑی بڑی عظیم الشان اَور مسجدیں بھی جماعت احمدیہ کو بنانے کی توفیق ملے گی۔ لیکن یہ جو دعاؤں کے ساتھ عاجزانہ ابتدا ہوئی ہے اس کو تاریخ احمدیت کبھی نہیں بھلا سکے گی۔
آج آپ لوگ بھی یہاں تھوڑے ہیں لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا دعوتِ الی اللہ کا حق ادا کرنے کی کوشش کریں تو آپ لوگوں کا نام بھی تاریخ کا حصہ بننے والا ہے۔ یہ ابتدائی لوگ ہی ہوتے ہیں جو تاریخ کا حصہ بنتے ہیں۔ ایک تاریخ تو ایک احمدی مجاہد اور شہید بھی مَیں کہوں گا، مولانا کرم الٰہی صاحب ظفرنے اپنی زندگی یہاں گزار کر بنائی تھی۔ جنہوں نے خود بھی اور اُن کے بیوی بچوں نے بھی قربانی کی اور بہت قربانی کی لیکن اُس وقت حالات ایسے نہیں تھے جو آج ہیں۔ حکومت کا تعاون ایسا نہیں تھا جو آج ہے۔ لوگوں کا خوف اور ڈر اُس حد تک کم نہیں ہوا تھا جس طرح آج ہے بلکہ ہر ایک خوفزدہ تھا۔ لیکن اُس شخص نے اُن نامساعد حالات میں بھی کوشش کی اور کرتے رہے۔اب تو جیسا کہ مَیں نے کہا، حالات بھی بہت بہتر ہیں اور تعداد بھی آپ کی سینکڑوں میں ہے۔ اگر آپ وہ عزم پیدا کر لیں تو یقینا پھر پھل لگیں گے۔ اور آج بھی جیسا کہ مَیں نے کہا،جو اس کام میں جُت جائیں گے تاریخ کا حصہ بن جائیں گے۔ بہر حال یہ خدائی تقدیر ہے اس نے پورا ہونا ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے تاریخ کا حصہ بننے کاموقع دیا ہے، فائدہ اُٹھا لیں ورنہ خدا نے تو اپنی قدرت دکھانی ہے۔وہ کسی اور کو اس خدمت کا موقع عطا فرما دے گا۔ لیکن پھر آپ لوگ خود بھی افسوس کریں گے اور آپ کی نسلیں بھی افسوس کریں گی کہ ہمارے باپ دادا کو تاریخ کا حصہ بننے کا موقع ملا تھا، اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے کا موقع ملا تھا، لیکن انہوں نے فائدہ نہیں اُٹھایا اور محروم رہے۔ پس اس موقع سے فائدہ اُٹھائیں۔ اللہ تعالیٰ کی اس بشارت سے فائدہ اُٹھائیں کہ وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلاً مِّمَّنْ دَعَآ اِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ(سورۃ حٰمٓ سجدۃ:34)۔ اور بات کہنے میں اس سے بہتر کون ہو سکتا ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک اعمال بجا لائے اور کہے کہ مَیں یقینا کامل فرمانبرداروں میں سے ہوں۔
یہ خوشخبری اُن لوگوں کے لئے ہے جو دعوتِ الی اللہ کرتے ہیں۔ یہ تعریفی کلمات خدا تعالیٰ کے اُن لوگوں کے لئے ہیں جو اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔ نیک عمل کرتے ہیں، فرمانبرداری اختیار کرتے ہیں۔ لیکن یہ ارشاد، یہ پیغام اُن لوگوں کے لئے بھی ہے جو ایک طرف تو ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں اور تجدیدِ بیعت کر کے یہ عہد کر رہے ہوتے ہیں کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے اور دوسری طرف ابھی تک دعوتِ الی اللہ کے کام میں اپنے آپ کو جھونکا ہی نہیں، اُس میں شامل ہی نہیں ہوئے۔ تو فرمایا کہ سن لو !اللہ کے نزدیک وہی سب سے بہتر ہے، وہی زیادہ اجر پانے والا ہے جو اللہ تعالیٰ کے پیغام کو بھی دنیا تک پہنچائے۔ دنیا میں اعلان کرے کہ دنیا و آخرت سنوارنی ہے اور دنیا و آخرت سنوارنے کا اگر سامان کرنا ہے تو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جاؤ۔
پس اس پیغام کے ساتھ ساتھ فرمایا کہ اپنے اعمال بھی درست کرو۔اللہ تعالیٰ کے جو حکم ہیں، جتنے احکام ہیں، اُن کی پابندی کرو تو تب ہی تم اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہترین وجود کہلا سکتے ہو۔ بہترین وجود بننے کے لئے، اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ بننے کے لئے ایک تو دعوت الی اللہ کرنی ہو گی، دوسرے اپنے اعمال درست کرنے ہوں گے۔ دعوتِ الی اللہ کی ترغیب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف طریقوں سے اپنے صحابہ کو دی ہے اور دیا کرتے تھے تا کہ اُن میں زیادہ سے زیادہ اس کا شوق پیدا ہو اور وہ زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کریں اور کرنے والے بنیں۔
حضرت سہل ؓبن سعدبیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ کو مخاطب کرکے فرمایا:بخدا! تیرے ذریعہ ایک آدمی کا ہدایت پا جانا تیرے لئے اعلیٰ درجہ کے سرخ اونٹوں کے مل جانے سے زیادہ بہتر ہے۔ (صحیح بخاری کتاب الجہاد والسیر باب دعاء النبی ﷺ الی الاسلام والنبوۃ… حدیث نمبر 2942)
اب یہاںبہت سے لوگ اپنی معاشی حالت بہتر کرنے آتے ہیں۔ کسی مادی چیز کو دیکھ کر بہت متاثر ہو جاتے ہیں۔ لمبی لمبی کاریں ہیں، اعلیٰ قسم کی کاریں ہیں۔بعض لوگوں میں روپے پیسے کی فراوانی ہے۔اس قسم کی چیزیںاور اسstatus کی تلاش اور معاشی حالت کی بہتری کے لئے انسان ہر زمانے میں کوشش کرتا رہا ہے اور یہی انسانی نفسیات جانتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم سمجھتے ہو کہ سرخ اونٹ جو اُس زمانے میں امارت کی نشانی سمجھا جاتا تھا اور پھر جس کے پاس سو اونٹ ہوں، اُس کے امیر ہونے کا تو کوئی حساب ہی نہیں ہوتا تھا۔ اگر یہ سمجھتے ہو کہ یہ سو سرخ اونٹ تمہارے مقام کو بلند کرنے والے ہیں، تمہارے امیر ہونے کی نشانی ہیں تو سنو کہ یہ تمہاری غلط فہمی ہے۔ ان سو سرخ اونٹوں کی اس کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں کہ کوئی انسان تمہارے ذریعہ سے ہدایت پا جائے اور پھر اس کے نتیجہ میں نیکیوں پر قائم ہو جائے۔ اللہ کے نزدیک تمہارا مقام اس ہدایت کے دینے سے بلند ہو گا۔ وہ سرخ اونٹوں سے یا امیر بننے سے یا پیسہ آنے سے بلند نہیں ہو گا۔ اور ایک مومن کی تو یہی تڑپ ہونی چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی ہر وقت تلاش میں رہے۔
پھر ایک روایت میں آتا ہے، حضرت ابوھریرۃ ؓبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کسی نیک کام اور ہدایت کی طرف بلاتاہے اُس کو اتنا ہی ثواب ملتا ہے جتنا ثواب اُس بات پر عمل کرنے والے کو ملتا ہے اور ان کے ثواب میں سے کچھ بھی کم نہیں ہوتا۔ اور جو شخص کسی کو گمراہی اور برائی کی طرف بلاتا ہے اُس کو بھی اُسی قدر گناہ ہوتا ہے جس قدر کہ اُس برائی کے کرنے والے کو ہوتا ہے اور اُس کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں آتی۔ (صحیح مسلم کتاب العلم باب مَنْ سَنَّ سُنَّۃً حَسَنَۃً … حدیث نمبر 6804)
پس یہ دعوتِ الی اللہ آپ کی نیکیوں میں اضافے کا بھی باعث بنتی رہے گی اور یہی چیز ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضل کو سمیٹنے والی ہے اور اس سے آپ کے اموال و نفوس میں بے انتہا برکت پیدا ہو گی۔ پس اللہ اور رسول کے ارشادات پر عمل کرتے ہوئے جہاں جہاں بھی آپ ہیں، وہاں حکمت اور دانائی کے ساتھ لوگوں کو اسلام کی خوبصورت تعلیم کی دعوت دیتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ کی بندگی اختیار کرنے کی دعوت دیں۔ جن علاقوں میں مسلمان زیادہ تھے اور پھر وہ جیسا کہ میں نے کہا کسی خوف کے مارے عیسائی ہو گئے اور ایک لمبا عرصہ جبر کے تحت عیسائیت میں رہے اب اُن کو آزادی ہے۔ حکومت کی طرف سے کوئی پابندی نہیں ہے۔ اُن کو سمجھائیں کہ تمہارے آباؤ اجداد نے کسی جبر کے تحت اسلام قبول نہیں کیا تھابلکہ اُس کی خوبصورت تعلیم کو دیکھ کر اسلام قبول کیا تھا۔ تمہارے آباؤ اجدادمیں سے پیدائشی مسلمان بھی تھے۔ جبر سے اُنہیں عیسائی بنایا گیااور اب بھی بہت سے خاندان ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہمارے آباؤ اجداد ظاہراً عیسائی ہو گئے تھے لیکن دل سے مسلمان تھے اور انہوں نے راز کی صورت میں اپنی نسلوں کے سینوں میں یہ بات رکھی ہے۔ تو اُنہیں بتائیں کہ یہ خوبصورت تعلیم ہے۔ بہر حال مستقل مزاجی سے یہ کام کرنا ہو گا۔ رابطے بڑھانے ہوں گے۔ اپنے نمونے ظاہر کرنے ہوں گے۔ دعاؤں پر زور دینا ہو گا۔ توپھر اللہ تعالیٰ راستے بھی کھولے گا اور کامیابیاں بھی دے گا، انشاء اللہ تعالیٰ۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دعوتِ الی اللہ کے طریق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :
’’چاہئے کہ جب کلام کرے تو سوچ کر اور مختصر کام کی بات کرے۔ بہت بحثیں کرنے سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔ پس چھوٹا سا چٹکلہ کسی وقت چھوڑ دیا جو سیدھا کان کے اندر چلا جائے۔ پھر کبھی اتفاق ہوا تو پھر سہی۔ غرض آہستہ آہستہ پیغامِ حق پہنچاتا رہے اور تھکے نہیں۔ کیونکہ آجکل خدا کی محبت اور اُس کے ساتھ تعلق کو لوگ دیوانگی سمجھتے ہیں۔ اگر صحابہؓ اس زمانہ میں ہوتے تو لوگ اُنہیں سودائی کہتے اور وہ اُنہیں کافر کہتے۔ دن رات بیہودہ باتوں اور طرح طرح کی غفلتوں اور دنیاوی فکروں سے دل سخت ہو جاتا ہے۔ بات کا اثر دیر سے ہوتا ہے۔‘‘ (یہ مثال بیان فرمائی ہے) ’’ایک شخص علیگڑھی غالباً تحصیلدار تھا۔ میں نے اُسے کچھ نصیحت کی۔ وہ مجھ سے ٹھٹھّا کرنے لگا۔‘‘( ہنسی کرنے لگاتو) ’’مَیں نے دل میں کہا مَیں بھی تمہارا پیچھا نہیں چھوڑنے کا۔ آخر باتیں کرتے کرتے اُس پر وہ وقت آ گیا کہ وہ یا تو مجھ پر تمسخر کر رہا تھا‘‘ (مذاق اڑا رہا تھا) ’’یا چیخیں مار مار کر رونے لگا‘‘۔ تو فرمایا کہ ’’بعض وقت سعید آدمی ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے شقی ہے۔‘‘ (یعنی بدنصیب آدمی لگ رہا ہوتا ہے، بد بخت لگ رہا ہوتا ہے لیکن حقیقت میں وہ سعید فطرت ہوتا ہے) تو فرمایا کہ ’’یاد رکھو ہر قفل کے لئے ایک کلید ہے۔‘‘ (ہر تالے کے لئے ایک چابی ہے) ’’بات کے لئے بھی ایک چابی ہے۔ وہ مناسب طرز ہے۔ جس طرح دواؤں کی نسبت مَیں نے ابھی کہا ہے کہ کوئی کسی کے لئے مفید اور کوئی کسی کے لئے مفید ہے۔ ایسے ہی ہر ایک بات ایک خاص پیرائے میں خاص شخص کے لئے مفید ہو سکتی ہے۔ یہ نہیں کہ سب سے یکساں بات کی جائے۔ بیان کرنے والے کو چاہئے کہ کسی کے برا کہنے کو برا نہ منائے بلکہ اپنا کام کئے جائے اور تھکے نہیں۔ امراء کا مزاج بہت نازک ہوتا ہے اور وہ دنیا سے غافل بھی ہوتے ہیں۔ بہت باتیں سن بھی نہیں سکتے۔ اُنہیں کسی موقعہ پر کسی پیرائے میں نہایت نرمی سے نصیحت کرنا چاہئے۔ ‘‘
(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 441۔ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
تو ماحول کے مطابق، طبیعت کے مطابق بات کی جائے لیکن اس کے لئے بہر حال پہلے رابطے اور تعلقات بنانے ہوں گے۔ اگرجا کے ایک دم تبلیغ کرنا شروع ہو جائیں تو پہلے دن کوئی بات نہیں سنا کرتا۔ اور ظاہر ہے اسی کی بات کا بھی اثر ہوتا ہے جو اپنے اندر نیک خیالات رکھتا ہو، نیکیوں پر عمل کرنے والا ہو۔ تو یہ چیزیں بھی اپنے اندر پیدا کرنی ہوں گی اور یہی اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اور اس سے اثر بھی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتا ہے کہ

یَاَیُّھَا اَّلذِیْنَ آمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ۔ کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ۔(سورۃ الصف: 3۔4)

کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو، تم کیوں وہ کہتے ہو جو کرتے نہیں۔اللہ کے نزدیک یہ بہت بڑا گناہ ہے کہ تم وہ کہو جو کرتے نہیں۔ تو جب آپ تبلیغ کر رہے ہوں، دوسرے کو خدا کی طرف بلا رہے ہوں، اللہ تعالیٰ کے حکموں کی تفصیل بتا رہے ہوں، عبادت کے طریقے بتا رہے ہوں، اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے حق ادا کرنے کی تفصیل بتا رہے ہوں، لیکن ایک لمبے عرصے کے تعلق اور رابطے کے بعد زیرِ تبلیغ شخص جو بھی ہے وہ آپ کے عمل کو دیکھے تو اُس کابالکل الٹ نظر آئے تو ایسی تبلیغ کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تو یہ گناہ ہے۔ اس لئے اپنے اندر بھی پاک تبدیلیاں پیدا کرنی ہوں گی۔ خود بھی اعمالِ صالحہ بجا لانے ہوں گے۔ خود بھی کامل فرمانبرداری کے نمونے دکھانے ہوں گے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’ اسلام کی حفاظت اور سچائی کے ظاہر کرنے کے لئے سب سے اوّل تو وہ پہلو ہے کہ تم سچے مسلمانوں کا نمونہ بن کر دکھاؤ۔ اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ اُس کی خوبیوں اور کمالات کو دنیا میں پھیلاؤ‘‘۔ (ملفوظات جلد 4 صفحہ 615۔ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
تو یہ سچے نمونے پہلے قائم کرنے ہوں گے۔اب یہ سچے نمونے کیا ہیں؟ قرآنِ کریم ان نمونوں کے ارشادات سے بھرا پڑا ہے جس میں اللہ کے حقوق ادا کرنے کی بھی تفصیل ہے اور بندوں کے حقوق ادا کرنے کی بھی تفصیل ہے۔ پس عملِ صالح کرنے والے اور سچے مسلمان کا نمونہ بننے والے لوگ وہی ہیں جو اللہ کے حقوق ادا کرنے کے ساتھ ساتھ بندوں کے حقوق بھی ادا کرتے ہیں۔ ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔
ایک روایت میں آتا ہے، حضرت عامرؓ کہتے ہیں کہ میں نے نعمانؓ بن بشیر کو یہ کہتے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تُو مومنوں کو اُن کے آپس کے رحم، محبت اور شفقت کرنے میں ایک جسم کی طرح دیکھے گا۔ جب جسم کا ایک عضو بھی بیمار ہوتا ہے تو اُس کا سارا جسم اُس کے لئے بے خوابی اور بخار میں مبتلا رہتا ہے۔
(صحیح بخاری کتاب الادب باب رحمۃ الناس والبہائم حدیث نمبر 6011)
پس یہ نمونہ جماعت میں ہر جگہ نظر آنا چاہئے۔ آپس میں رحم، محبت اور شفقت کو رواج دیں۔ کوئی برادری نہیں ہے، کوئی قریبی عزیز نہیں، کوئی رشتہ داری نہیں جس سے جتھا بنایا ہوا ظاہر ہو بلکہ ایک رشتہ ہونا چاہئے اور وہ احمدیت کا رشتہ ہے۔ اور اس ناطے سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق ایک جسم ہو کر رہیں۔ ایک کو تکلیف ہو تو پورے جسم کو تکلیف ہونی چاہئے۔ اگر کوئی رنجشیں ہیں بھی تو اُن کو بھلا دیں۔ اس طرح کرنے سے آپ کے ذاتی معاملات میںبھی برکت پڑے گی اور جماعتی طور پر بھی آپ دیکھیں گے کہ پہلے سے بڑھ کر مضبوطی پیدا ہو گئی ہے اور برکت پڑ رہی ہے۔
ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ وہ اُس پر ظلم نہیں کرتا اور نہ ہی اُسے یکا و تنہا چھوڑتا ہے۔ جو شخص اپنے بھائی کی حاجت روی میں لگا رہتا ہے، اللہ تعالیٰ اُس کی حاجات پوری کرتا جاتا ہے۔ اور جس نے کسی مسلمان کی کوئی تکلیف دور کی، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کے مصائب میں سے ایک مصیبت اُس سے کم کر دے گا۔ اور جو کسی مسلمان کی ستّاری کرتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اُس کی ستّاری فرمائے گا۔
(صحیح بخاری کتاب المظالم والغصب باب لا یظلم المسلم المسلم ولا یسلمہ حدیث نمبر 2442)
پس ہر احمدی کا فرض ہے کہ بجائے اس کے کہ ایک دوسرے کے نقائص تلاش کرتے جائیں، ایک دوسرے کی ضرورتوں کو پسِ پشت ڈال کر صرف اپنی ضرورت کا ہی خیال رکھا جائے، کسی کو مشکل میں گرفتار دیکھ کر بجائے اُس کی مدد کے لئے آگے بڑھنے کے اُس کو مزید تنگ کرنے کی کوشش کی جائے، تو یہ وہ نمونے نہیں جو سچے مسلمان کے نمونے ہیں۔یہ حضرت مسیح موعودؑ کے ماننے والوں کے نمونے نہیں ہیں۔ پس اگر اس حدیث کے مطابق ایک دوسرے کا خیال رکھتے رہے، مشکل میں کام آتے رہے، ستّاری کرتے رہے تو ترقیات کے دروازے کھلے ہیں۔ حسد اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور تکلیف پہنچانے کی وجہ سے ہی یہاں پہلے مسلمانوں کا زوال ہوا تھا۔ تاریخ پڑھ لیں کہ اس حسد کی وجہ سے اور ایک دوسرے کو تکلیف پہنچانے کی وجہ سے، ہر معاملہ میں دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کی وجہ سے یہ زوال تھا۔ اب خدا نہیں چاہتا کہ وہ تاریخ دوبارہ دہرائی جائے۔ اس لئے اب جو ایسی حرکتیں کرے گا وہ خود ہی کاٹا جائے گا۔
پس ہر احمدی استغفار کرتے ہوئے اپنی مصیبت کو کم کرنے کے لئے، خدا تعالیٰ سے ستاری چاہنے کے لئے ایک دوسرے سے نیک سلوک کرے۔ آپس کی رنجشوں کو دور کر دیں۔ بدظنیوں کو دور کریں۔ ذرا ذرا سی بات پر بدظنیاں پیدا ہو جاتی ہیں کہ فلاں نے یہ کہا، فلاں نے وہ کہا، چھوٹی سی بات ہوتی ہے۔ فلاں کے بچوں کو سفر میں ساتھ جانے کی اجازت مل گئی، میرے یا فلاں کے بچوں کو نہیں ملی۔ تو یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں۔ ان کو کبھی ذہن میں نہیں لانا چاہئے۔ اور یہ بدظنیاں جو ہیں یہ بھی جماعت میں بگاڑ پیدا کرتی ہیں۔ خود آدمی کے اپنے اندر بگاڑ پیدا کرتی ہیں۔ اُس کی روحانی حالت میں کمی کرتی ہیں۔ اور گھروں میں جب باتیں ہو رہی ہوں تو بچوں کی بھی ویسی سوچ ہو جاتی ہے۔ بچے بھی اُس طرح ہی سوچنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس لئے بدظنیوں سے بچیں۔ آپس میں محبت اور پیار پیدا کریں۔ کامل فرمانبردار بنتے ہوئے، نیک اعمال بجا لاتے ہوئے ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے ہوئے اُس کے پیغام کو دنیا میں پھیلائیں تاکہ اُس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ٹھہریں۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :
’’خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ تمہیں ایک ایسی جماعت بنا وے کہ تم تمام دنیا کے لئے نیکی اور راستبازی کا نمونہ ٹھہرو۔ سو اپنے درمیان سے ایسے شخص کو جلد نکالو جو بدی اور شرارت اور فتنہ انگیزی اور بدنفسی کا نمونہ ہے۔ جو شخص ہماری جماعت میں غربت اور نیکی اور پرہیز گاری اور حِلم اور نرم زبانی اور نیک مزاجی اور نیک چلنی کے ساتھ نہیں رہ سکتا وہ جلد ہم سے جدا ہو جائے، کیونکہ ہمارا خدا نہیں چاہتا کہ ایسا شخص ہم میں رہے اور یقینا وہ بدبختی میں مرے گا کیونکہ اُس نے نیک راہ کو اختیار نہ کیا۔ سو تم ہوشیار ہو جاؤ اور واقعی نیک دل اور غریب مزاج اور راستباز بن جاؤ۔ تم پنجوقتہ نماز اور اخلاقی حالت سے شناخت کئے جاؤ گے اور جس میں بدی کا بیج ہے وہ اس نصیحت پر قائم نہیں رہ سکے گا‘‘۔ فرمایا کہ’’ ابھی مَیں نے چند ایسے آدمیوں کی شکایت سنی تھی کہ وہ پنجوقت نماز میں حاضر نہیں ہوتے تھے اور بعض ایسے تھے کہ اُن کی مجلسوں میں ٹھٹھے اور ہنسی اور حقہ نوشی اور فضول گوئی کا شغل رہتا تھا۔ اور بعض کی نسبت شک کیا گیا تھا کہ وہ پرہیز گاری کے پاک اصول پر قائم نہیں ہیں۔ اس لئے میں نے بلا توقّف ان سب کو یہاں سے نکال دیا ہے۔‘‘ (تو یہ جو جماعت سے اخراج ہے یہ اُس زمانے سے چل رہا ہے) ’’ تا دوسروں کے ٹھوکر کھانے کا موجب نہ ہوں۔ اگرچہ شرعی طور پر ان پر کچھ ثابت نہ ہوا لیکن اس کارروائی کے لئے اس قدر کافی تھا کہ شکّی طور پر ان کی نسبت شکایت ہوئی۔ مَیں خیال کرتا ہوں کہ اگر وہ راستبازی میں ایک روشن نمونہ دکھاتے تو ممکن نہ تھا کہ کوئی شخص اُن کے حق میں بول سکتا۔‘‘ (یعنی اُن کے خلاف کوئی ایسی بات کرتا۔تو جو سزا حاصل کرنے والے یہ کہتے ہیںاور شور مچاتے ہیں کہ بغیر ثابت کئے ہم پر کیوں بعض پابندیاں لگا دی گئی ہیں؟ اُن کے لئے یہ ارشاد کافی ہے۔) فرمایا کہ :’’مَیں یہ بھی ظاہر کرنا چاہتا ہوں کہ یہ لوگ درحقیقت اُن لوگوں میں سے نہ تھے جنہوں نے راستبازی کی تلاش میں ہماری ہمسائیگی اختیار کی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ایک کھیت جو محنت سے تیار کیا جاتا اور پکایا جاتا ہے اُس کے ساتھ خراب بوٹیاں بھی پیدا ہو جاتی ہیں جو کاٹنے اور جلانے کے لائق ہوتی ہیں۔ ایسا ہی قانونِ قدرت چلا آیا ہے جس سے ہماری جماعت باہر نہیںہو سکتی۔ اور مَیں جانتا ہوں کہ وہ لوگ جو حقیقی طور پر میری جماعت میں داخل ہیں اُن کے دل خدا تعالیٰ نے ایسے رکھے ہیں کہ وہ طبعاً بدی سے متنفر اور نیکی سے پیار کرتے ہیں۔ اور مَیں امید رکھتا ہوں کہ وہ اپنی زندگی کا بہت اچھا نمونہ لوگوں کے لئے ظاہر کریں گے‘‘۔
(اشتہار 29مئی 1898ء مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 221-222 اشتہار نمبر 191’’اپنی جماعت کو متنبہ کرنے کے لئے ایک ضروری اشتہار۔ مطبوعہ ربوہ ۔مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ 48۔49مطبوعہ لندن)
پھر آپ نے فرمایا کہ:
’’اس جماعت کو تیار کرنے سے غرض یہی ہے کہ زبان، کان، آنکھ اور ہر ایک عضو میں تقویٰ سرایت کر جاوے۔ تقویٰ کا نور اس کے اندر اور باہر ہو۔ اخلاقِ حسنہ کا اعلیٰ نمونہ ہو۔ اور بے جا غصّہ اور غضب وغیرہ بالکل نہ ہو۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ جماعت کے اکثر لوگوں میں غصّہ کا نقص اب تک موجود ہے۔ تھوڑی تھوڑی سی بات پر کینہ اور بُغض پیدا ہو جاتا ہے اور آپس میں لڑ جھگڑ پڑتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا جماعت میں سے کچھ حصہ نہیں ہوتا۔ اور مَیں نہیں سمجھ سکتا کہ اس میں کیا دقّت پیش آتی ہے کہ اگر کوئی گالی دے تو دوسرا چُپ کر رہے اور اس کا جواب نہ دے۔ ہر ایک جماعت کی اصلاح اوّل اخلاق سے شروع ہوا کرتی ہے۔ چاہیے کہ ابتدا میں صبر سے تربیت میں ترقی کرے اور سب سے عمدہ ترکیب یہ ہے کہ اگر کوئی بدگوئی کرے تو اس کے لیے درد دل سے دعا کرے۔‘‘ (اگر کوئی بری بات کہتا ہے تو اس کے لئے دردِ دل سے دعا کرے) ’’کہ اﷲ تعالیٰ اس کی اصلاح کر دیوے۔ اور دل میں کینہ کو ہرگز نہ بڑھاوے:۔‘‘ فرمایا ’’خدا تعالیٰ ہرگز پسند نہیں کرتا کہ حلم اور صبر اور عفو جو کہ عمدہ صفات ہیں ان کی جگہ درندگی ہو۔ اگر تم ان صفاتِ حسنہ میں ترقی کروگے تو بہت جلد خدا تک پہنچ جائو گے۔ لیکن مجھے افسوس ہے کہ جماعت کا ایک حصہ ابھی تک ان اخلاق میں کمزور ہے۔ ان باتوں سے صرف شماتتِ اعداء ہی نہیں ہے‘‘ (یعنی دشمنوں کو ہنسی ٹھٹھّا کا موقع ہی نہیں صرف ملتا) ’’بلکہ ایسے لوگ خود بھی قرب کے مقام سے گرائے جاتے ہیں‘‘۔وہ اللہ تعالیٰ کا قرب نہیں پا سکتے ۔
(ملفوظات جلد 4 صفحہ 99ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
اللہ تعالیٰ سب کو توفیق دے کہ وہ ان نصائح پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگیوں کو ڈھالیں اورجن لوگوں نے اس جلسہ میں جو پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشش کی وہ ان کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنا لیں تا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں کے وارث بھی ٹھہریں اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بھی ہوں۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
اب دعا کر لیتے ہیں۔ (حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے انتظامیہ سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا:) کتنی حاضری ہے آپ کی؟ گزشتہ سال کتنی تھی؟ اس میں سے دو سو سے زائد تو شاید باہر سے آئے ہوئے ہیں۔ بہرحال 440 حاضری ہے۔ اچھا۔ دعا کر لیں (دعا)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں