جلسہ سالانہ یوکے 2005ء میں سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا مستورات سے خطاب

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا مستورات سے خطاب
برموقع جلسہ سالانہ یو۔کے 30 ؍جولائی 2005ء بروز ہفتہ بمقام رشمورایرینا۔ لندن

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
اِعْلَمُوٓا اَنَّمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّلَھْوٌ وَّ زِیْنَۃٌ وَّتَفَاخُرٌ بَیْنَکُمْ وَتَکَاثُرٌ فِی الْاَمْوَالِ وَالْا َوْلَادِ۔ کَمَثَلِ غَیْثٍ اَعْجَبَ الْکُفَّارَ نَبَاتُہٗ ثُمَّ یَھِیْجُ فَتَرٰہُ مُصْفَرًّا ثُمَّ یَکُوْنُ حُطَامًا۔ وَفِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ شَدِیْدٌ وَّمَغْفِرَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَان۔ وَمَاالْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْر۔ سَابِقُوٓا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنَ رَّبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُھَا کَعَرْضِ السَّمَآءِ وَالْا َرْضِ اُعِدَّتْ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرُسُلِہٖ۔ ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآء ۔ وَاللّٰہِ ذُوْالْفَضْلِ الْعَظِیْمِ- (الحدید:22-21)

اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی پاک کتاب قرآن کریم میں مختلف طریقوں سے مختلف پیرایوں سے توجہ دلائی ہے کہ اپنی زندگی کے مقصد کو سمجھو اور میری طرف آؤ۔ اور اس زمانے میں اس مقصد کی طرف ہمیں حضرتِ اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے توجہ دلائی ہے۔ پس ہم پر خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے ہمیں مسیح محمدیؐ کی جماعت میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کی راہوں کو پانے کی طرف توجہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر غور کرنے والے اور ان پر عمل کرنے والے ہوں اور اپنی زندگی کے مقصد کو سمجھنے والے ہوں۔
یہ جو آیات تلاوت کی گئی ہیں (جو پہلے ان میں سے چار آیات تلاوت کی گئی تھیں ان میں سے دو میں نے تلاوت کی ہیں)۔ آپ ترجمہ ان کا سن چکے ہیں دوبارہ میں پیش کردیتا ہوں۔
فرمایا کہ جان لو کہ دنیا کی زندگی محض کھیل کود اور نفس کی خواہشات کو پورا کرنے کا ایسا ذریعہ ہے جو اعلیٰ مقصد سے غافل کردے اور سج دھج اور باہم ایک دوسرے پر فخر کرنا ہے اور اموال اور اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرنا ہے۔ یہ زندگی اس بارش کی مثال کی طرح ہے جس کی روئیدگی کفار کے دلوں کو لبھاتی ہے۔ پس وہ تیزی سے بڑھتی ہے۔ پھر توُ اسے زردہوتا ہوا دیکھتا ہے، پھر وہ ریزہ ریزہ ہوجاتی ہے ۔اور آخرت میں سخت عذاب مقدر ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ کی طرف سے مغفرت اور رضوان بھی۔ جبکہ دنیا کی زندگی تومحض دھوکے کا ایک عارضی سامان ہے۔
اور اگلی آیت میں فرمایا کہ اپنے رب کی مغفرت کی طرف ایک دوسرے سے آگے بڑھو اور اس جنت کی طرف بھی جس کی وسعت آسمان اور زمین کی وسعت کی طرح ہے جو ان لوگوں کے لئے تیار کی گئی ہے جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہیں۔ یہ اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ عظیم فضل والا ہے۔
یعنی فرمایا تم سمجھتے ہو کہ اس دنیا میں صرف اس لئے آئے ہو کہ اس دنیا کے جو سامان ہیں اس دنیا کی جو چکاچوند ہے دنیاوی معاملات میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی جو دو ڑلگی ہوئی ہے اس فکر میں ہی زندگی گزارنی ہے۔ یہ فکر ہے کہ میرا گھر فلاں رشتہ دار سے اچھا ہو، میرا گھر زیادہ اچھا سجا ہوا ہو، میرے گھر میں فلاں فلاں چیز بھی ہو، میری کار اعلیٰ قسم کی اور نئی ہو، میرے پاس زیور فلاں عورت کے زیور سے زیادہ اچھا ہو۔ فرمایا کہ جان لو کہ تمہاری زندگی کا مقصد یہ نہیں ہے۔ بلکہ اس کی مثال دے کر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ دنیا کی ہوا و ہوس اور کھیل کود میں بسر کرنے والی زندگی اس طرح ہی ہے جس طرح کہ سبزہ ،جب بارش پڑتی ہے تو اس کو پانی ملتا ہے تو وہ اور زیادہ خوب صورت اور سرسبز ہو جاتا ہے۔ اپنے ماحول میں دیکھیں بارش کے دنوں میں درختوں کا فصلوں پودوں کا رنگ کتنا خوب صورت لگتا ہے۔ ہر ایک چیز میں ایک خوبصورتی اور چمک ہوتی ہے۔ نکھرا ہوا سبز رنگ ہوتا ہے۔ اور ایسی خوبصورتی ہوتی ہے کہ دل چاہتا ہے کہ انسان دیکھتا رہے۔ لیکن پھر آہستہ آہستہ ایک وقت آتا ہے کہ اپنی عمر کو پہنچتے ہوئے رنگ بدلنے لگتی ہے۔ مثلاً فصلیں ہیں جب فصل اپنی عمر کو پہنچتی ہے تو اس کا رنگ زرد ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ اور جب زمیندار فصل سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے کہ اب مجھے فائدہ ہوگا ۔کٹائی کا وقت قریب آگیا تو اس وقت اس پر تیز گرم ہوایا آندھی ، طوفان یا اس طرح کی کوئی چیز آجائے تو وہیں وہ سب کچھ بکھر جاتا ہے اور کسی کام کا نہیں رہتا۔ تو فرمایا کہ جو لوگ اس دنیا کے سامان کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں اور آخرت کی ان کو کوئی فکر نہیں، خدا تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کی بھی ان کو کوئی فکر نہیں ہے، اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی ان کو کوئی فکر نہیں ہے ان لوگوں کا انجام بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ مرنے کے بعد ان کے اعمال کی کھیتی ان کو کوئی فائدہ نہیں دیتی ۔ نیک اعمال نہ کرنے کی وجہ سے اور دنیاداری میں پڑے رہنے کی وجہ سے حقوق اللہ اور حقوق العباد ادانہ کرنے کی وجہ سے سب کچھ ریزہ ریزہ ہوکر ضائع ہوجاتا ہے۔ دنیا داری کے دھندے اور دنیا میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی خواہش، اپنی اولاد پر ناز، اپنی دولت کے گھمنڈ کی وجہ سے ایسے لوگوں کونہ صرف یہ کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل نہیں ہوتی بلکہ عذاب ملتا ہے۔ اب بڑے کاروباری لوگوں کو دیکھ لیں جب کاروبار تباہ ہوتے ہیں تو ان کا کچھ بھی نہیں رہتا اور اللہ تعالیٰ کی طرف نہ جھکنے کی وجہ سے اتنا اثر ہوتا ہے کہ دماغوں پر اثر ہوجاتا ہے۔ بعضوں کے بچے جن پر فخر ہوتا ہے وہ فوت ہوجاتے ہیں، اولادیں ضائع ہوجاتی ہیں۔ جوان اولادیں ہوتی ہیں ان کا اتنا صدمہ اور غم ہوتا ہے کہ وہ پاگل ہوجاتے ہیں۔ تو یہ چیزیں کچھ بھی دینے والی نہیں ہیں۔ دنیا داری کے دھندے اور دنیا میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی خواہش، اپنی اولاد پر ناز اور اپنی دولت کے گھمنڈ کی وجہ سے ان لوگوں کو نہ صرف یہ کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل نہیں ہوتی بلکہ عذاب ملتا ہے جیسا میں نے کہا بلکہ جھلسا دینے والی گرم ہوائیں ملتی ہیں اور قسم قسم کے مختلف عذاب ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں ذکر فرمایا ہے۔ مختلف جگہوں پر ان عذابوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے لوگوں کی کفار سے مثال دی ہے کہ ان کی مثال تو ایسے ہوجاتی ہے۔
لیکن نیک اعمال بجا لانے والوں کے لئے اللہ کا خوف دل میں رکھنے والوں کے لئے اس کی رضا کے طلبگاروں کے لئے اس کی مغفرت اور رحمت اور اس کی رضا کی چادر حاصل کرنے والوں کے لئے اللہ تعالیٰ پھر یہ چیزیں عطا فرماتا ہے اور اپنے سائے میں لے لیتا ہے ۔ہر گرمی سے انسان کو محفوظ رکھتا ہے اور ہر تپش سے مومن کی بچت ہوتی ہے۔ اور نہ صرف بچت ہوتی ہے بلکہ اس مغفرت کی وجہ سے جو اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں رکھ کر زندگی گزارنے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے ٹھنڈی ہوائیں ہیں ہمیشہ رہنے والے سبزے ہیں۔ آنکھوں کو تازہ کرنے والے نظارے ہیں، جنت کی مختلف نعمتیں ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ تعالیٰ کی رضا ہے۔ اس لئے فرمایا کہ اے مومنو! کسی دھوکے میں نہ رہنا۔ شیطان نے تو یہ قسم کھائی ہوئی ہے کہ میں تمہیں دنیا کے گند اور اس کی چکا چوند میں ہر وقت ڈبونے کی کوشش کروں گا اس کی ظاہری خوب صورتی کے نظارے دکھائوں گا۔ اس کی زینتیں تم پر اس طرح ظاہر کروں گا کہ تم بے قرار ہوکر اس کی طرف دوڑتے چلے جاؤگے۔ لیکن یاد رکھو کہ یہ صرف اورصرف شیطان کے دھوکے ہیں ۔یہ زندگی کا عارضی سامان ہے جو تمہیں اس دنیا میں بھی خدا سے دور لے جانے والا ہے اور نتیجۃً اگلے جہان میں بھی اُن دائمی جنتوں سے محروم کرنے والا ہے جن کا خدا تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے۔
پس ایک احمدی کو خواہ وہ عورت ہو یا مرد اس طرز پر سوچنا چاہیے اس طرح سے اپنی زندگی کا جائزہ لینا چاہیے کہ کیا میں اپنی زندگی کے مقصد کو پورا کر رہا ہوں۔مَیں جو یہ دعویٰ کرتا ہوں یا کرتی ہوںکہ میں نے آنحضرت ؐ کی پیشگوئیوں کے مطابق اس زمانے کے امام کو مانا ہے میں جو ان خوش قسمتوں میں شامل ہوگئی ہوں جن کے بارے میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ

وَآخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ (الجمعۃ:4)

یعنی اور ان کے سوا وہ دوسری قوم میں بھی اسے بھیجے گا جو ابھی تک ان سے ملی نہیں۔ اس ضمن میں حضرت مسیح موعود؈ فرماتے ہیں کہ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح آنحضرتﷺ نے ایک بگڑی ہوئی قوم کو سیدھے راستہ پر چلادیا تھا جو دین سے بہت دور جاپڑے تھے، اندھیرے میں پڑے ہوئے تھے ۔ انہیں خداتعالیٰ کی ایسی پہچان کروادی جو ایک نشان کے طور پر ہے اور ان میں عظیم الشان پاک تبدیلیاں پیدا کردیں، یہ خلاصہ ہے حضرت مسیح موعود ؑ کا جو میں اپنے الفاظ میں پیش کر رہا ہوں۔ پھر آگے حضرت مسیح موعود ؑ کے الفاظ میں ہی بیان کرتا ہوں۔
آپ نے فرمایا کہ:’’ ایک گروہ اور ہے جو آخری زمانہ میں ظاہر ہوگا۔ وہ بھی اول تاریکی اور گمراہی میں ہونگے اور علم اور حکمت اور یقین سے دور ہونگے تب ان کو بھی خدا صحابہ ؓ کے رنگ میں لائے گا یعنی جو کچھ صحابہ ؓ نے دیکھا وہ ان کو بھی دکھایا جائے گا‘‘۔
پس ہر ایک اپنا جائزہ لے کہ کیا جس مقصد کے لئے ہم نے حضرت مسیح موعود ؑ کو مانا ہے، آپ کی بیعت میں شامل ہوئے ہیں اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے ہمارے قدم بڑھ رہے ہیں یا ہم وہیں کھڑے ہیں۔ صحابہ ؓ نے اپنے اندر کس طرح تبدیلیاں پیدا کیں اور صحابیات نے اپنے اندر کس طرح پاک تبدیلیاں پیدا کیں۔ دنیا کے کھیل کود کو کس طرح انہوں نے ٹھکرادیا ۔کس طرح عبادتوں کے معیار قائم کئے۔ کس طرح مالی قربانیوں کے معیار انہوں نے قائم کئے۔ ایسی ایسی صحابیات بھی تھیں جو ساری ساری رات عبادتیں کرتی تھیں اور دن کو روزے رکھتی تھیں آخر ان کے خاوندوں کی شکایت پر آنحضرتﷺ نے ان کو تسلسل سے اتنی زیادہ عبادتیں کرنے سے منع فرمایا۔ ان کے خاوندوں کو ان سے یہ شکوہ نہیں تھا کہ وہ دنیاداری میں پڑی ہوئی ہیں، روز نئے نئے مطالبے ہو رہے ہیں۔ بلکہ ان کے خاوندوں کو اگر کوئی شکوہ تھا تو یہ کہ یہ اپنی عبادتوں میں ضرورت سے زیادہ پڑی ہوئی ہیں اور خاوند اور بچوں کے حقوق صحیح طور پر ادانہیں کر رہیں۔ تو اسلام جو بڑا سمویا ہوا مذہب ہے نہ افراط ہے نہ تفریط ہے۔ یہ تو وہ مذہب ہے جو ہر ایک کے حقوق قائم کرنے کے نہ صرف دعوٰی کرتا ہے بلکہ اس نے حقوق قائم بھی کئے ہیں۔ اللہ کے حقوق بھی قائم کئے ہیں اور بندوں کے حقوق بھی قائم کئے ہیں اور جیسا کہ میں نے کہا اس کے ماننے والوں نے خواہ وہ عورتیں تھی یا مرد ،عبادتوں کے بھی اعلیٰ معیار قائم کئے اور ایک دوسرے کے حقوق اداکرنے کے بھی اعلیٰ معیار قائم کئے۔ ان عورتوں نے اپنے خاوندوں کے حقوق بھی ادا کئے اور بچوں کے حقوق بھی ادا کئے اور نہ صرف ادا کئے بلکہ جیسا کہ میں نے کہا ان کے اعلیٰ معیار قائم کئے۔
پس ان نمونوں پر آج کی احمدی عورت کو بھی غور کرنا ہوگا تب ہی وہ پہلوں سے ملنے والی کہلا سکتی ہیں۔ آج آپ ہی ہیں جنہوں نے اپنے اندر پاک تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ اپنے خاوندوں اور بچوں کی طرف بھی توجہ دینی ہے اور ان کو بھی یہ توجہ دلانی ہے کہ اس مسیح پاک کی جماعت میں شامل ہوکر تم بھی اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرو اور پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی طرف قدم بڑھاؤ جس سے وہ مقام حاصل ہو جو پہلوں کو اپنے اندر پاک تبدیلیاں کر کے حاصل ہوا تھا۔ اپنی نسلوں کے ذہنوں میں بھی یہ بات راسخ کرنی ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ کی بیعت میں شامل ہونے کے مقصد کو تم تب ہی ادا کر سکتے ہو جب دنیا کے کھیل کود تمہاری زندگی کا مقصد نہ ہو۔
پس اس لحاظ سے احمدی عورت کا مقام اور ذمہ داری انتہائی اہم ہے کیونکہ احمدیت کی آئندہ نسل کی پرورش آپ کی گود میں ہورہی ہے یا ہونے والی ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس مقام کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ تاکہ آپ اور آپ کی نسلیں اس طر زعمل کی مصداق نہ بنیں جو کھیل کود میں مصروف ہو کر نبی کو اکیلا چھوڑنے والے ہوں۔ بلکہ ہر وقت اس سودے اور تجارت کی تلاش میں رہیں کہ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ اس کھیل کود، خواہشات اور تمہاری خواہشات کے مقابلہ میں بہت اچھا ہے۔ بلکہ یہی ہے جس سے تم اس دنیا میں بھی جنت حاصل کرنے والے ہوگے اور آئندہ زندگی میں بھی۔ پس یہ سوچ ہے جو ہر احمدی کو رکھنی چاہئے اور احمدی عورتوں کو خاص طور پر میں زور دے کر اس لئے کہہ رہا ہوں کہ جیسا کہ مَیں نے کہا آپ صرف اپنی ذمہ دار ہی نہیں بلکہ آپ آئندہ نسلوں کی بھی ذمہ دار ہیں۔ خاوندوں کے گھروں کی نگران ہونے کی حیثیت سے آپ صرف اپنی زینتوں کو چھپانے والی اور ان کی حفاظت کرنے کی ذمہ دار نہیں ہیں بلکہ مستقبل کے جو باپ اور مائیں بننے والے ہیں انہوں نے بھی وہی رنگ اختیار کرنا ہے جو آپ نے اختیار کیا ہوا ہے، جس کے مطابق آپ اپنی زندگی بسر کر رہی ہیں۔ اس لئے آپ اگلی نسلوں کی زینتوں کی بھی ذمہ دار ہیں۔ اس لئے ہمیشہ یاد رکھیں کہ آپ کی زینت اور آپ کا فخر ظاہری سج دھج اور مال و متاع یا اولاد نہ ہو جیسا کہ آیت میں ذکر ہے بلکہ آپ اپنے مقام کو سمجھتے ہوئے اس زینت کو اختیار کریں جس کو اللہ نے مومنوں کے لئے پسند کیا ہے اور جس کا ذکر قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

یٰبَنِیٓ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰتِکُمْ وَرِیْشًا۔ وَلِبَاسُ التَّقْوٰی ذٰلِکَ خَیْرٌ۔ذٰلِکَ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰہِ لَعَلَّھُمْ یَذَّکَّرُوْنَ (سورۃ الاعراف: 27)

کہ اے بنی آدم! یقینا ہم نے تم پر لباس اتارا ہے جو تمہاری کمزوریوں کو ڈھانپتا ہے اور زینت کے طور پر ہے اور ہاں تقویٰ کا لباس جو سب سے بہتر ہے یہ اللہ کی آیات میں سے کچھ ہیں تاکہ وہ نصیحت پکڑیں۔
دیکھیں فرمایا کہ سب سے بہتر لباس تقویٰ کا ہے جس سے تمہاری زینت بڑھتی ہے۔ اس لئے پہلی بات تو یہ ہے کہ اپنے ذہن سے یہ بات نکال دو کہ یہ دنیا کی چکا چوند یہ مال ومتاع تمہاری زینت ہیں۔ یہ تمہاری زینت نہیں ہیں، نہ ہی تمہارے لئے فخر کا مقام ہے۔ یہ سب عارضی چیزیں ہیں، دھوکے ہیں۔ اگر کسی آفت کی وجہ سے ضائع ہو جائیں تو یہ دنیا جس کی تمہارے نزدیک بہت وقعت ہے یہی تمہارے لئے جہنم بن جاتی ہے جیسا کہ مَیں پہلے کہہ آیا ہوں۔ پس اپنے مقصد ِ پیدائش کو پہچانتے ہوئے اس چیز سے اپنے آپ کو سجائوجو تمہارے ہمیشہ کام آئے اور وہ ہے تقویٰ۔ اللہ تعالیٰ کا خوف، اس سے پیار، اس سے محبت۔ اور یہی چیز ہے جو تمہاری خوبصورتی کو اور بڑھائے گی۔
اب دیکھیں لباس کا مقصد، مثلاً عورتیں اچھی قسم کے جوڑے پہنتی ہیں اور لباس کی بڑی دلدادہ ہوتی ہیں۔ جنہیں توفیق ہو کپڑے سلوانے کے لئے بڑی محنت کرتی ہیں بڑے بڑے اچھے درزیوں کے پاس جاتی ہیں کہ وہ اچھے اور نئے ڈیزائن کے کپڑے سلوائیں اور پھر ہر کوئی اپنی توفیق کے مطابق نئے اعلیٰ اور عمدہ کپڑے سلوانے کی کوشش کرتا ہے۔ الاّماشاء اللہ۔ بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو سادگی سے زندگی گزارنے والے ہوں۔ کپڑے سلوانے میں عموماً بڑا تردّد کیا جاتا ہے۔ یہ سب اس لئے ہوتا ہے کہ ایک تو جوبنیادی مقصد ہے، جو ہونا چاہیے وہ یہی ہے کہ کپڑے اس لئے پہنے جاتے ہیں کہ اپنے تن کو ڈھانپا جائے اور ایک احمدی کی حیثیت سے تو چاہے وہ امیر عورت ہو یا غریب ہو، زیادہ خرچ کرنے والا ہو یاکم خرچ کرنے والا ہو، اس کا کم از کم ایک بہت بڑا مقصد یہی ہوتا ہے۔ اور جیسا کہ مَیں نے کہا کہ ننگ کو ڈھانپا جائے اور دوسرا یہ بھی ساتھ ہے کہ فیشن بھی کیا جائے ایسے ڈیزائن بھی پہنے جائیں جو اس ننگ کو ڈھانپنے کے ساتھ ساتھ فیشن ایبل بھی ہوں۔ لیکن اس کے علاوہ کچھ اور لوگ بھی ہوتے ہیں جن کا مقصد صرف دنیا کو مرعوب کرنا اور فیشن کرنا ہوتا ہے وہ اس بنیادی مقصد کی طرف کم توجہ دیتے ہیں۔ اس لئے یورپ میں دیکھ لیں کہ اس مقصد کو بھلانے کی وجہ سے کہ ننگ کو ڈھانپنا ہے اس کی بجائے یہاں آپ کوعجیب عجیب قسم کے بے ڈھنگے اور ننگے لباس نظر آتے ہیں۔ اور پھر ان ننگے لباس کے اشتہاروں وغیرہ کی فلم بھی اخباروں میں ٹی وی وغیرہ پر آتی ہے۔ تو بہرحال جن لوگوں میں کچھ شرافت ہے ان کا بنیادی مقصد یہی ہوتا ہے کہ اپنے ننگ کو چھپایا جائے اور پھر ٹھیک ہے ظاہری طور پر فیشن بھی تھوڑا بہت کرلیا جائے لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا ایک احمدی عورت کابنیادی مقصد یہی ہے اور یہی ہونا چاہئے کہ ننگ کو ڈھانپا جائے۔ عورت کی یہ فطرت ہے، جس طبقہ میں اور جس سوچ کی بھی ہو، ایک بات یہ ہے کہ اپنے ماحول میں دوسروں سے نمایاں نظر آنے کی خواہش ہوتی ہے۔ احمدی معاشرے میں اس نمایاںہونے کے اظہار کا اپنا طریق ہے۔ شاید یہاں ایک آدھ مثال کہیں ملتی ہو جہاں حیا کو زینت نہ سمجھا جاتا ہو لیکن عموماً احمدی لڑکی اور احمدی عورت اپنے لباس میں حیا کے پہلو کو مدِ نظر رکھتی ہے ۔جبکہ مغرب میں جیسا کہ میں نے کہا یہاں معاشرے میں حیا کا تصورہی اٹھ گیا ہے اس لئے یہاں ان قوموں میں جو لباس ہے یہ یا تو موسم کی سختی سے بچنے کے لئے پہنتے ہیں یا فیشن کے لئے۔ اللہ تعالیٰ ہی ان لوگوں کو عقل دے اور خدا کا خوف ان میں پیدا ہو۔
بہر حال ہم جب بات کرتے ہیں احمدی معاشرہ کی عورت کی کرتے ہیں۔ لیکن اس معاشرے میں رہنے کی وجہ سے خطرہ ہے کہ کہیں اِکّا دُکّا کوئی احمدی لڑکی ان سے متاثر نہ ہوجائے۔ بہر حال مَیں ذکر کر رہا تھا کہ یہ خطرہ ہے کہ اس معاشرے کا اثر کہیں احمدیوں پر بھی نہ پڑ جائے۔ عموماً اب تک تو اللہ تعالیٰ نے محفوظ رکھا ہوا ہے شاید اِکّا دُکّا کوئی مثال ہواس کے علاوہ۔ لیکن یہ جو فکر ہے یہ مجھے اس لئے پیدا ہو رہی ہے کہ اس کی طرف پہلا قدم ہمیں اٹھتا ہوا نظر آرہا ہے۔ کیونکہ اس معاشرے میں آتے ہی جو پردے کی اہمیت ہے وہ نہیں رہی۔ وہ اہمیت پردے کو نہیں دی جاتی جس کا اسلام ہمیں حکم دیتا ہے۔ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ احمدی عورت کو پردے کا خیال از خود رکھنا چاہیے۔ خود اس کے دل میں احساس پیدا ہونا چاہئے کہ ہم نے پردہ کرنا ہے، نہ یہ کہ اسے یاد کروایا جائے۔ احمدی عورت کو تو پردے کے معیار پرایسا قائم ہونا چاہیے کہ اس کا ایک نشان نظر آئے اور یہ پردے کے معیار جو ہیں ہر جگہ ایک ہونے چاہئیں۔ یہ نہیں کہ جلسہ پر یا اجلاسوں پر یا مسجد میں آئیں تو حجاب اور پردے میں ہوں، بازاروں میں پھر رہی ہوں تو بالکل اور شکل نظر آتی ہو۔ احمدی عورت نے اگر پردہ کرنا ہے تو اس لئے کرنا ہے کہ خدا تعالیٰ کا حکم ہے اور معاشرے کی بدنظر سے اپنے آپ کو بچانا ہے اس لئے اپنے معیاروں کو بالکل ایک رکھیں ،دوہرے معیار نہ بنائیں۔ اور یہاں کی پڑھی لکھی لڑکیاں یہاں کی پرورش پانے والی لڑکیاں ان میں ایک خوبی بہرحال ہے کہ ان میں ایک سچائی ہے، صداقت ہے، ان کو اپنا سچائی کا معیار بہر حال قائم رکھنا چاہئے۔ یہاں نوجوان نسل میں ایک خوبی ہے کہ انہیں برداشت نہیں کہ دوہرے معیار ہوں اس لئے اس معاملے میں بھی اپنے اندر یہ خوبی قائم رکھیں کہ دوہرے معیار نہ ہوں۔ اپنے لباس کو ایسا رکھیں جو ایک حیا والا لباس ہو۔ دوسرے جو پردے کی عمر کو پہنچ گئی ہیں وہ اپنے لباس کی خاص طور پر احتیاط کریں اور کوٹ اور حجاب وغیرہ کے ساتھ اور پردے کے ساتھ رہنے کی کوشش کریں۔ غیروں سے پردے کا حکم اللہ تعالیٰ نے ہر جگہ دیا ہوا ہے۔ یہ کہیں نہیں لکھا کہ خاوندوں کے دوستوں یا بھائیوں کے دوستوں سے اگر وہ گھر میں آجائیں تو پردہ چھوڑنے کی اجازت ہے۔ یا بازار میں جانا ہے تو پردہ چھوڑنے کی اجازت ہے یا تفریح کے لئے پھرنا ہے تو پردہ چھوڑنے کی اجازت ہے۔ حیادار لباس بہرحال ہونا چاہئے اور جو پردے کی عمر میں ہے ان کو ایسا لباس پہنناچاہئے جس سے احمدی عورت پر یہ انگلی نہ اٹھے کہ یہ بے پردہ عورت ہے۔ کام پر اگر مجبوری ہے تو تب بھی پورا ڈھکا ہوا لباس ہونا چاہیے اور حجاب ہونا چاہئے۔ تو پردہ جس طرح جماعتی فنکشن پر ہونا ضروری ہے عام زندگی میں بھی اتنا ہی ضروری ہے۔
بہر حال عورت کی زینت کی بات ہو رہی ہے اور لباسِ تقوٰی کی بات ہورہی تھی کہ زینت جو ہے وہ تقوٰی کے لباس میں ہی ہے یعنی اس کا ہر فعل خدا تعالیٰ کے خوف اور اس کے احکامات پر عمل کرنے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہو۔ یہ نہ ہو کہ اپنی نفسانی خواہشات کو ترجیح دیتے ہوئے عمل ہو رہے ہوں۔ پس اگر ہر احمدی عورت اس سوچ کے ساتھ اپنی زندگی گزار رہی ہوگی اور لباس تقوٰی کے لئے اس سے بڑھ کر تردّد کر رہی ہوگی جتنا کہ آپ اپنے ظاہری لباس کے لئے کرتی ہیں تو یہ لباس تقویٰ آپ کی چھوٹی موٹی روحانی اور اخلاقی بُرائیوں کو چھپانے والا ہوگا اور اللہ تعالیٰ کی مغفرت کی نظر آپ پر ہوگی۔ اس وجہ سے کہ اللہ کا خوف ہے تقویٰ کو اپنا لباس بنانے کی کوشش کرتی ہیں خدا تعالیٰ کمزوریوں کو دور کرنے کی بھی توفیق دیتا ہے اور دے گا اور ایمان میں ترقی کرنے کی بھی توفیق دے گا۔ کیونکہ اس توجہ کی وجہ سے جو آپ اپنے آپ کو لباس تقویٰ میں سمیٹنے کے لئے کریں گی آپ کو خدا تعالیٰ کے آگے جھکنے کے بھی مواقع ملیں گے۔ اور اللہ تعالیٰ اپنے آگے نیک نیتی سے جھکنے والوں کی دعائوں کو قبول بھی کرتا ہے، ان کو ضائع نہیں کرتا ۔پھر اس سے مزید نیکیوں کی توفیق ملتی چلی جائے گی۔ وہ ایسے جھکنے والوں کی طرف اپنی مغفرت کی چادر پھیلاتا ہے اور جب انسان اللہ تعالیٰ کی مغفرت کی چادر تلے آجائے تو پھر انہیں راستوں پر چلتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے راستے ہیں۔
پس ان تلاوت کی ہوئی آیات میںسے دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اپنے ربّ کی مغفرت حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے سے آگے بڑھو۔ اس دوڑ میں آپ سب شامل ہوں اور اللہ تعالیٰ کی جنتوں کی وارث بنیں۔ یہ دنیا نیک اعمال کرکے ہی ملتی ہے، پاک زندگیاں بنانے سے ہی ملتی ہے۔استغفارکرتے ہوئے خدا تعالیٰ کے حضور جھکنے سے ملتی ہے۔ اپنی نسلوں کی پاک تربیت کرنے سے ملتی ہے، اپنے معاشرے کے حقوق ادا کرنے سے ملتی ہے۔ پس اللہ کے اس فضل کو سمیٹیں۔ ایک دوسرے سے بڑھ کر اس فضل کو سمیٹنے والی بنیں ،نہ کہ اپنی دولت، اپنی امارت، اپنی اولاد، اپنے خاندان پر فخر کرنے والی ہوں کیونکہ یہ سب تکبر کی قسمیں ہیں اور اللہ تعالیٰ نے بڑا واضح فرمادیا ہے کہ مَیں تکبر کرنے والے اور بڑھ بڑھ کر اپنی دنیاوی چیزوں پر فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔
ان عورتوں کو بھی آج یہ عہد کرنا چاہئے جو اپنے لڑکوں کے ذریعہ سے اپنی بہوئوں پر ظلم کرواتی ہیں اور ان کی زندگی اجیرن کی ہوئی ہے۔ یہ زندگی چند روزہ ہے اس میں تقوٰی پہ چلتے ہوئے بجائے اس کے کہ اس زندگی کو جنت بنائیں اپنے لئے بھی اور اپنے بیٹوں کے لئے بھی اور ان کی اولاد کے لئے بھی ان لغویات میں پڑ کر کہ بیٹا ہاتھ سے نہ چلا جائے سب کی زندگی جہنم بنا رہی ہوتی ہیں۔
اسی طرح بعض بہوئیں ہیں، اپنے خاوندوں کے ذریعہ سے اپنی ساسوں کے حقوق تلف کر رہی ہوتی ہیں۔ پس خدا کے لئے خدا کا خوف دل میں قائم کرتے ہوئے اپنے دلوں کے تکبر کو ختم کریں اور اپنے آپ کو تقویٰ کے لباس سے مزیّن کریں۔ اپنی اولادوں پر بھی رحم کریں اور ان کی نسلوں پر بھی رحم کریں۔ اگر مائوں کو یہ خیال ہے کہ یہ ہمارے بیٹے ہیں اس لئے ہم جس طرح چاہیں ان کے ذریعہ سے اپنی بہوؤں پر ظلم کر والیں تو پھر آپ ان مائوں میں شمار نہیں ہوسکتیں جن کے پائوں کے نیچے جنت ہے۔ کیونکہ آپ نے وہ تعلیم آگے پھیلائی ہے جو اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے خلاف ہے۔ یہ جاگ آپ نے لگائی ہے۔جو ہوسکتا ہے کہ آگے آپ کی بہوئوں اور بیٹیوں میں بھی چلے اور بیٹوں میں بھی چلے۔ جب ان کو موقعہ ملے گا وہ بھی یہی سلوک اپنے بچوں سے کریں گے، اپنی بہوؤں سے کریں گے۔ تو خدا تعالیٰ کے حکموں کے خلاف چلنے سے جنّتیں نہیں ملا کرتیں۔ جو قانونِ قدرت ہے وہ تو اسی طرح نتیجے نکالے گا جس طرح کہ ایسے عملوں کے نتیجے نکلنے چاہئیں۔ پس یہ چیزیں بھی نفس کی خواہشات کے زمرہ میں آتی ہیں۔ ایک دوسرے سے ساس بہو کے سلوک اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق نہیں تو یہ بھی نفس کی خواہشات ہیں اور پھراس کے نتیجہ میں جیسا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ بڑے خوفناک نتائج سامنے آئیں گے۔ پس اگر عذاب سے بچنا ہے اور اللہ تعالیٰ کی مغفرت کی چادرکے نیچے آنا ہے تو تمام نفسانی خواہشات کو ختم کرنا ہوگا، جلانا ہوگا، تباہ کرنا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
پس یہ ایک دو مثالیں ہیں جو مَیں نے دی ہیں لیکن قرآنِ کریم ان حکموں سے بھرا پڑا ہے جو نیکیوں کو قائم رکھنے کے لئے ہمیں دیئے گئے ہیں۔ حضرت مسیح موعود؈ نے تو ایک جگہ فرمایا ہے کہ ان کی تعداد سات سو تک ہے۔ پس اپنے آپ کو اور اپنی اولادوں کو جنت کے راستوں کی طرف چلانے کے لئے ان تمام حکموں پر چلنے کی کوشش کرنی ہوگی اور حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد بھی ادا کرنے ہوںگے۔
آنحضرت ؐ نے فرمایا ہے کہ تم اپنے بارے میں چھ باتوں کی ضمانت دو مَیں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ وہ چھ باتیں کیا ہیں جن کی آپ نے ہم سے ضمانت مانگی ہے۔
فرمایا کہ پہلی بات یہ ہے کہ گفتگو کرو تو سچ بولو۔ اب دیکھیں ہر کوئی اپنا جائزہ لے کہ کیا ہر معاملہ میں سچ بات کہتی ہیں۔ کئی باتیں ایسی آجاتی ہیں جہاں اس بات کا لحاظ نہیں رکھا جاتا۔ عورتیں عورتوں کو نیچا دکھانے کے لئے اپنے پاس سے بعض باتیں گھڑ کے مشہور کردیتی ہیں۔ میں نہیں کہتا کہ مرد اس سے پاک ہیں لیکن جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں عورت کی گود میں تربیت پانے والے بچے بھی اسی طرح تربیت پائیں گے جیسی کہ ماں کی ہے۔
آنحضرت ؐ تو اس حد تک فرماتے تھے کہ اگر تم اپنے بچے کو چیز دینے کے لئے بلائو اور پھر نہ دو تو تم نے جھوٹ بولا ہے۔ یعنی کہ مذاق میں بھی ایسی بات نہیں کرنی، ٹالنے کے لئے بھی ایسی بات نہیں کرنی۔ پھر آپؐ نے فرمایا کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات لوگوں میں بیان کرتا پھرے۔ تو دیکھیں اس باریکی سے جاکر اگر اپنا جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ کس حد تک ہمارے سے بے احتیاطیاں ہوجاتی ہیں۔ کس حد تک احتیاط کی ضرورت ہے ۔کس حد تک پھونک پھونک کرقدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ بچہ اپنے ماں باپ کے زیر اثر رہ کر اور خاص طور پر ایک عمر تک ماں کے زیر اثر رہ کر وہی کچھ سیکھتا ہے جو ماں کا عمل ہو چاہے آپ اس کو وہ باتیں کہہ رہی ہوں یا نہ کہہ رہی ہوں ۔غیر محسوس طریقہ پر یا لا شعوری طور پر وہ چیزیں سیکھ رہا ہوتا ہے یا اثر قبول کر رہا ہوتا ہے۔
پھر دوسری بات جوآپ ؐ نے جنّت میں جانے کی ضمانت کے طور پر فرمائی وہ یہ ہے ۔ فرمایا جب تم وعدہ کرو تو وفا کرو، اُسے پورا کرو۔ پس مومن کا وعدہ ایسا ہی ہے جیسا کہ اُس نے وہ کام کرکے دکھادیا ہو اور کام کر دیا ہو ۔پھر فرمایا جب تمہارے پاس امانت رکھی جائے تو امانت رکھوانے والا اسے مانگے تو اسے دے دیا کرو پھر ٹال مٹول سے کام نہ لیا کرو۔ یہ امانت کا مضمون بھی بہت وسیع مضمون ہے اس وقت تو اس کی تفصیل نہیں بتائی جا سکتی لیکن بہر حال میں صرف اتنا بتا دیتا ہوں کہ احمدیت کی آئندہ نسلیں جو آپ کی گودوں میں پل رہی ہیں اور خاص طور پر واقفین نو، یہ آپ کے پاس جماعت کی امانت ہے۔ پس ان امانتوں کو بھی آپ نے اس طرح جماعت کو لوٹانا ہے جس طرح جماعت نے آپ سے توقع کی ہے، جس طرح خلیفۂ وقت نے آپ سے توقع کی ہے۔
پھر فرمایا کہ تیسری چیز جنت میں جانے کی ضمانت کے طور پر یہ ہے کہ اپنے فروج کی حفاظت کرو۔ حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد کان ناک منہ وغیرہ بھی ہیں۔ اس لئے ایک احمدی عورت کے کان لغویات سننے سے ہر وقت محفوظ رہنے چاہئیں۔ ایک احمدی عورت کو ہر اس نظارے کو دیکھنے سے اپنی آنکھ محفوظ رکھنی چاہئے جس سے دوسری عورت، احمدی ہو یا غیر ہو، اس کے عیب اسے نظر آتے ہوں کیونکہ ایک دوسرے کے عیب تلاش کرنے کا بعضوں کو بڑا شوق ہوتا ہے۔ ہر احمدی عورت کے منہ سے کبھی کوئی ایسا کلمہ نہ نکلے جو دوسرے کے لئے تکلیف کا باعث ہو ۔ پس اگر اس بات پر عمل کرنے لگ جائیں تو کبھی معاشرے میں جھگڑے نہ ہوں۔ ساس بہو، نند بھابھی میں آپس میں محبت اور پیار نظر آتا ہو تو سب ایک دوسرے کا خیال رکھنے والے ہوں گے۔
پھر پانچویں بات آپ نے یہ بتائی فرمایا کہ غضِ بصر سے کام لینے والے ہوں۔ اور یہ غضِ بصر سے کام لینا ہی ہے جس پر اگر عمل کیا جائے مردوں کی طرف سے بھی اور عورتوں کی طرف سے بھی تو پردے کی طرف توجہ پیدا ہو سکتی ہے جس کا میں پہلے تفصیل سے ذکر کر آیا ہوں۔
اور چھٹی بات آپ نے یہ بیان فرمائی کہ اپنے ہاتھوں کو ظلم سے روکے رکھو۔ (الجامع الصغیر۔ باب حرف التاء۔ حدیث نمبر 3350)
ہاتھوں کو ظلم سے روکنے کا صرف یہ مطلب نہیں ہے کہ کسی سے لڑائی نہیں کرنی بلکہ اس زمانہ میں ایک دوسرے کے خلاف خطوط لکھ کر یا کمپیوٹر وغیرہ کے ذریعہ باتیں پھیلا کر ایک دوسرے کو بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے یہ بھی اسی زمرہ میں آتا ہے۔ گو کہ اس میں مرد زیادہ نظر آتے ہیں لیکن بعض دفعہ عورتیں یہ ظلم کرواتی ہیں، مردوں کی مدد گار بن رہی ہوتی ہیں یا مردوں کو اکسا رہی ہوتی ہیں۔ بعض دفعہ کئی ایسے معاملات آجاتے ہیں، میرے پاس بھی آئے ہیں ،کہ جن میں ماں نے بچے کو کہا کہ اس طرح اپنی سابقہ بیوی کے بارہ میں لکھ کر مختلف لوگوں کو بھیجو، بدنام کرنے کی کوشش کرو۔ ای میل کر دیتے ہیں، انٹرنیٹ پر دے دیتے ہیں یا ویسے خط لکھ دیتے ہیں تاکہ اس کا کہیں رشتہ نہ ہو ۔تو یہ انتہائی گھٹیا حرکتیں ہوتی ہیں۔ ہمیشہ ہر احمدی کو ان سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کا جماعت پر بہت فضل ہے کہ کہیں کہیں اکّا دُکّا ایسے واقعات نظر آتے ہیں جو غیروں میں تو بہت زیادہ ہیں لیکن یہ اکّا دُکّا واقعات بھی جوہیں،مَیں ہمیشہ کہا کرتا ہوں دل میں بے چینی پیدا کرنے والے ہوتے ہیں کہ یہ بُرائیاں کہیں بڑھ نہ جائیں۔ پس ہر احمدی عورت یہ جہاد کرے کہ اس نے ان بُرائیوں کو بڑھنے نہیں دینا۔ بلکہ نہ صرف بڑھنے نہیں دینا بلکہ نیکیوں میں آگے بڑھنے کی کوشش کرنی ہے۔ ان بُرائیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے تاکہ کہیں بھی وہ جماعت کے کسی طبقہ میں کبھی نظر نہ آئیں۔ اور جب یہ عمل کر رہی ہوں گی تو آپ میں سے ہر ایک اللہ کے رسول ؐ کے وعدوںکے مطابق جنت کی وارث بن رہی ہوگی۔ جنت میں جانے کی ضمانت حاصل کرنے والی ہوگی اور نہ صرف خود جنت کی وارث بن رہی ہوگی بلکہ اپنی نسلوں کو بھی جنت کی ضمانت دے رہی ہوگی۔ کیونکہ ان پاک گودوں میں پلنے والے بچے بھی یقینا نیکی اور پاکیزگی کے ماحول میں پرورش پاتے ہوئے آگے اپنی جنت بنانے والے ہوںگے۔ اور یوں سلسلہ در سلسلہ آپ اللہ کے رسول ؐ کی جنت میں جانے کی ضمانت حاصل کرتی چلی جائیں گی۔ کیونکہ یہ نسلیں اس دعا سے فیض پانے والی اور وہ دعا کرنے والی نسلیں ہوںگی جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں سکھائی ہے کہ فرمایا

رَبِّ اَوْزِعْنِیْ اَنْ اَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیٓ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰہ وَاَصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرِّیَّتِیْ۔اِنِّی تُبْتُ اِلَیْکَ وَاِنِّی مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ- (الاحقاف:16)

’’اے میرے رب مجھے توفیق عطا کر کہ میں تیری اس نعمت کا شکریہ ادا کرسکوں جو تونے مجھ پر اور میرے والدین پر کیں اور ایسے نیک اعمال بجا لائوں جس سے تو راضی ہو اور میرے لئے میری ذریّت کی بھی اصلاح کر دے یقینا میں تیری ہی طرف رجوع کرتا ہوں اور بلا شبہ میں فرماںبرداروں میں سے ہوں۔لیکن آپ کو اپنے آپ کو اس دعا کا وارث بنانے کے لئے اور اپنی نسلوں کو بھی اس دعا کا فیض حاصل کرنے والا بنانے کے لئے تاکہ وہ بھی اللہ کے فضلوں کے وارث ہوں اور فرماںبرداروں میں شامل ہوں دعاؤں کے ساتھ نیک اعمال بھی بجا لانے ہوں گے جو اللہ کی رضا حاصل کرنے والے ہوں۔ ان دعاؤں کے ساتھ جب نیک عمل ہو رہے ہوں گے تو یہ اگلی نسل کی اصلاح کے بھی باعث بنا رہے ہوں گے۔ اللہ تعالی ٰسب کو اسی طرح زندگیاں گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔
حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں کہ:’’ دنیا سے اور اس کی زینت سے بہت دل مت لگاؤ۔قومی فخر مت کرو۔ کسی عورت سے ٹھٹھا ہنسی مت کرو۔ خاوندوں سے وہ تقاضے نہ کرو جو ان کی حیثیت سے باہر ہیں۔ کوشش کروکہ تا معصوم اور پاک دامن ہونے کی حالت میں قبروں میں داخل ہو۔ خداتعالیٰ کے فرائض نماز زکوٰۃ وغیرہ میں سُستی مت کرو۔ اپنے خاوندوں کی دل و جان سے مطیع رہو۔ بہت سا حصہ ان کی عزت کا تمہارے ہاتھ میں ہے۔ سو تم اپنی ذمہ واری کو ایسی عمدگی سے ادا کرو کہ خدا کے نزدیک صالحات قانتات میں گنی جاؤ۔ اسراف نہ کرواور خاوندوں کے مالوں کو بے جا طور پر خرچ نہ کرو۔ خیانت نہ کرو۔ چوری نہ کرو۔ گلہ نہ کرو۔ ایک عورت دوسری عورت یا مرد پر بہتان نہ لگاوے‘‘۔ (کشتی ٔ نوح ۔روحانی خزائن جلد 19صفحہ81)
پس یہ ہیں وہ توقعات جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک احمدی عورت سے رکھی ہیں اور یہ ہے وہ تعلیم جو حضرت مسیح موعود؈نے ایک احمدی عورت کو دی ہے۔ پس آپ میں سے ہر ایک جو یہاں بیٹھی ہے یا دنیا کے کسی کونے میں موجو د ہے۔ ہر احمدی عورت جو ہے وہ اپنا جائزہ لے کہ وہ کہا ں تک حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی توقعات پر پورا تر رہی ہے۔ کہاں تک وہ اس عہد بیعت کو نبھا رہی ہے جو آپ نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے کیا ہے۔ ﷲ کرے کہ ہر احمدی عورت ان توقعات اور تعلیمات پر پورا اُترنے والی ہو۔ ﷲ تعالیٰ ہر احمدی میں وہ روح پیدا کردے اور جن میں وہ روح ہے ان میں وہ ہمیشہ قائم رکھے کہ وہ اس بنیادی تعلیم پر عمل کرنے والے ہوں جو ﷲ اور اس کے رسول ﷺ نے ہمیں دی اور جس کو نئے سرے سے آج حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے ہم میں جاری کیا۔ خدا کرے کہ آپ کی زینتیں اور آپ کے فخر دنیاوی سازوسامان اور لہوولعب نہ ہوں بلکہ خدا تعالیٰ کی رضا ہو، ﷲ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا ہو، ﷲ تعالیٰ کا پیار حاصل کرنا ہو، آپ کا اوڑھنا بچھونا، اٹھنا بیٹھنا صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی ذات کے لئے ہو ۔آپ کا تعلق کسی خاص وقت اور کسی خاص دور کے لئے جماعت کے ساتھ نہ ہو۔ آپ کا خلافت احمدیہ کے ساتھ تعلق اور پیار کا رشتہ عارضی اور وقتی نہ ہو بلکہ مستقل ہو، ہمیشہ رہنے والا ہو، اپنی نسلوں میں جاری کرنے والا ہو۔ اور آپ کے خدا تعا لیٰ کی خاطر اس تعلق کی وجہ سے آپ کی گودوں میں پرورش پانے والی مائیں اور آپ کی گودوں میں پرورش پانے والے مستقبل کے باپ جماعت احمدیہ کو ہمیشہ ملتے رہیں جن کی گودوں اور تربیت سے وہ بچے پروان چڑھیں جو جماعت اور خلافت احمدیہ پر جان نچھاور کرنے والے ہوں۔ آپ کی گودوں سے وہ بچے پل کر جوان ہوں جن کی زندگیوں کا مقصد حضرت مسیح موعود؈ کے مشن کو آگے بڑھانا ہو اور حضرت محمد ﷺکاجھنڈاتمام دنیا پر گاڑنا ہواور خداتعالیٰ کی رضا حاصل کرناہو۔ اللہ کرے کہ ہم میں سے ہر ایک اس سوچ اور عمل کے ساتھ زندگی گزارنے والا ہو ۔ اور جب خدا کے حضور حاضر ہوں تو خدا کی پیار کی نظر ہم پر پڑے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں کہے کہ اے میری بندیو اور اے میرے بندو! تمہارے عمل سے میں خوش ہوا۔تم جو پاک تربیت یافتہ نسل پیچھے چھوڑ آئے ہو اس سے میں خوش ہوا، اب جاؤ جنت کے جس دروازہ سے تم جنت میں داخل ہونا چاہتے ہو، ہو جاؤ اور میری رضا کے پھل کھاؤ۔ خدا کرے کہ ایسا ہی ہو۔ خدا کرے کہ ایسا ہی ہو۔ اے میرے خدا رحم اور فضل کرنے والے خدا یہ سب عمل جو تیری رضا حاصل کرنے والے ہیں تیرے فضل کے بغیر نہیں ہو سکتے۔ پس تو ہمیشہ ہم پر فضل کی نظر رکھنا اور ہمیں ان راہوں پر چلانا جو تیری رضا کی راہیں ہوں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے۔ آمین

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں