جماعت احمدیہ کی خدمتِ قرآن

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 3؍دسمبر 1999ء میں افریقہ میں جماعت احمدیہ کی خدمتِ قرآن کا تذکرہ کرتے ہوئے مکرم پروفیسر ڈاکٹر پرویز پروازی صاحب رقمطراز ہیں کہ

پروفیسر پرویز پروازی صاحب

دو سویڈش پروفیسروں ایواایور روسالاندر اور ڈیوڈ ویسٹرلنڈ نے ایک کتاب مرتب کی ہے جس میں بارہ مستشرقین کے مضامین شامل ہیں۔ اس کتاب میں جماعت احمدیہ کا ذکر کرتے ہوئے روسالاندر لکھتی ہیں:-
’’مشرقی افریقہ میں قرآن مجید کے سواحیلی زبان میں تین ترجمے ہوئے جن میں سے ایک ترجمہ جماعت احمدیہ کی جانب سے کیا گیا‘‘۔
جان ہون وک اپنے مضمون میں لکھتے ہیں:-
’’نائیجیریا، گھانا اور سیرالیون میں 1930ء سے جماعت احمدیہ کا اثرونفوذ شروع ہوچکا تھا جس کی بنیاد انڈیا میں رکھی گئی تھی۔ اس فرقے والے تعلیم اور انگریزی زبان پر بہت زور دیتے تھے اس لئے شاید حکمران بھی یہ سمجھتے تھے کہ یہ فرقہ اسلامی اثرات کو تنگ نظری سے آزاد کرنا چاہتا ہے‘‘۔
ایک مضمون نگار یستولا کنزا لکھتے ہیں:-
’’مشرقی افریقہ میں اسلام کے مستحکم ہونے اور ترقی کرنے کی اہم ترین وجہ یہ ہوئی کہ قرآن کے سواحیلی زبان میں تفسیری تراجم ہوئے۔ تین مکمل ترجمے چھپے۔ جی ڈیل صاحب کا ترجمہ (1923ء) ایم احمد احمدی کا ترجمہ (1953ء) اور اے اے الفارسی کا ترجمہ (1969ء)۔ مصنّفین نے نہ صرف ترجمہ کیا بلکہ طویل تفسیری تعارفیے اور متن کی تشریحات لکھیں۔ ایسا عظیم الشان کام بڑے لمبے عرصہ پر محیط ہوتا ہے اور اسے بڑے عالمانہ انداز میں بڑی احتیاط کے ساتھ تکمیل تک پہنچایا گیا … سواحیلی میں دوسرے ترجمہ کا کام شیخ مبارک احمد احمدی نے اپنے ذمہ لیا۔ آپ نے اس کی ابتدا ٹبورا کے مقام مینازینی پر یکم رمضان المبارک بمطابق 15؍نومبر 1936ء کو کی … 1942ء تک اس ترجمہ کا مسودہ تیار ہوچکا تھا … متن پر تفسیر کا کام 1949ء تک جاری رہا اور بالآخر 1953ء میں اسے شائع کردیا گیا۔ اس ترجمہ کی تیاری میں احمدی صاحب کو بہت سے افریقی احمدیوں کا تعاون حاصل رہا جن کا اصل کام یہ تھا کہ وہ سواحیلی زبان کی صحت کا خیال رکھیں۔ جن لوگوں کی زبان کی قابلیت کام آئی ان میں ایک سعیدی کامبی تھے جو ٹبورا کے احمدیہ مسلم سکول میں استاد تھے۔ دوسرے اوجی جی کے کالوتا امری عبیدی تھے جو تنزانیہ کے ادیب، شاعر اور سیاست دان تھے۔ …آپ نے 1954ء سے 1956ء تک ربوہ میں رہ کر اپنی دینی تعلیم کی تکمیل کی تھی۔ کالوتا امری عبیدی (24-64ء) او جی جی میں پیدا ہوئے تھے جہاں کی پرانی نسل کو اب بھی اُن کی شاعرانہ صلاحیتیں اور سیاسی وابستگیاں یاد ہیں۔ آپ تانگانیکا افریقن نیشنل یونین کے ممبر تھے اور بعد میں دارالسلام کے پہلے افریقن میئر بنے مگر ان کی مکمل وابستگی جماعت احمدیہ کے ساتھ تھی‘‘۔
فُٹ نوٹ میں لکھا ہے کہ اس ترجمہ کی اشاعت ایسٹ افریقہ احمدیہ مسلم مشن کی جانب سے ہوئی اور اس وقت اس کے دس ہزار نسخے شائع کئے گئے۔ 1971ء میں دوسری اشاعت پر پانچ ہزار نسخے اور 1981ء میں تیسری اشاعت پر دس ہزار نسخے شائع کئے گئے۔ آخری نسخہ میں ایک فرہنگ بھی شامل ہے جسے ربوہ پاکستان کے شیخ محمد منور نے مرتب کیا ہے۔
اسی مضمون میں لکھا ہے کہ جماعت احمدیہ کی ہمیشہ سے یہی پالیسی رہی کہ سواحیلی زبان کو اسلامی تعلیمات کے فروغ میں استعمال کیا جائے۔ یہ بات بعض دیگر مسلم راہنماؤں کو ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی کیونکہ وہ اس قرآنی تعلیم کو عربی سے وابستہ سمجھتے اور اسے حفظ کرلینے کو ہی کافی جانتے تھے۔ احمدیوں کے نزدیک یہ ضروری تھا کہ قرآن حفظ کرلینے والوں کو علم ہو کہ جو کچھ انہوں نے عربی میں رَٹ رکھا ہے، اس کا مطلب کیا ہے۔ دیگر تراجم کے بارہ میں جماعت احمدیہ کی رائے ہے کہ ایسے تراجم جو عربی سے نابلد افراد نے کئے ہیں وہ غلطیوں کا پلندہ ہیں اور وہ تراجم جو متعصب افراد نے کئے ہیں اُن کا مقصد اسلام کی توہین کرنا ہے۔
’’تیسرا ترجمہ الفارسی نے کیا اور ابوالاعلیٰ مودودی سے دیباچہ لکھوایا جو جماعت احمدیہ کے سخت معاند تھے‘‘۔ الفارسی نے احمدیہ ترجمہ پر بہت اعتراضات کئے ’’مشہور احمدی عالم شیخ امری عبیدی نے الفارسی کے اعتراضات کا تحریری جواب دیا جس میں نہ صرف انہوں نے ترجمہ کے استناد کا دفاع کیا بلکہ یہ بھی بتایا کہ الفارسی حسد کے مارے ہوئے ہیں‘‘۔اپنے سواحیلی ترجمہ پر اعتراض کے باوجود جماعت احمدیہ نے مشرقی افریقہ کی دیگر زبانوں ’’لوگاندا‘‘ اور ’’کی کویو‘‘ میں تراجم جاری رکھے جو بالترتیب 1984ء اور 1988ء میں شائع ہوئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں