جمیکا اور بہاماس میں دعوت الی اللہ

مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ کے سہ ماہی رسالہ ’’مجاہد‘‘ برائے بہار 2010ء میں شائع ہونے والے Mr. Micah Tahir کے ایک مضمون میں جمیکا اور بہاماس کے اپنے سفر کا احوال بیان کیا ہے۔
جمیکا کی سب سے بڑی انڈسٹری ٹورازم (Tourism) ہے لیکن دارالحکومت کنگسٹن میں اس حوالہ سے کوئی خاص چیز نہیں ملتی۔ مَیں جب جمیکا میں موجودہ دَور کے پہلے احمدی مکرم محمد عبدالسلام صاحب کے گھرپہنچا تو یہ معلوم کرکے حیرت ہوئی کہ اُن کی اہلیہ ایک عیسائی تھیں۔ 1996ء میں مکرم اظہر حنیف صاحب مبلغ سلسلہ، جماعت احمدیہ کو منظم کرنے کی خاطر جمیکا پہنچے تو اُس وقت مکرم عبدالسلام صاحب قائمقام صدر جماعت تھے۔ 1997ء میں آپ جلسہ سالانہ امریکہ میں شامل ہوئے اور حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ سے ملاقات کی سعادت حاصل کی۔ حضورؒ نے فرمایا کہ آپ بارش کا پہلا قطرہ ہیں، اللہ جمیکا پر ان قطروں کی فراوانی سے بارش برسائے۔
مضمون نگار لکھتے ہیں کہ جمیکا میں میرے قیام کے دوران ہم پرانے احمدیوں کا کھوج لگانے میں مصروف رہے کیونکہ مکرم عبدالسلام صاحب کی سب سے بڑی خواہش مزید احمدی بھائیوں کی قربت کی تلاش ہے۔ جمیکا میں احمدیت ایک سو سال قبل حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کے ذریعہ پہنچی تھی لیکن پھر لمبا جمود طاری رہا اور اب دوبارہ کچھ حرکت دکھائی دی ہے۔
مکرم محمد عبدالسلام صاحب نے ایک مسلمان گھرانہ میں آنکھ کھولی لیکن جمیکا میں موجود تمام مذاہب کو قریب سے دیکھا اور پھر اسلام کو ہی اپنی آئندہ زندگی کے لئے منتخب کیا چنانچہ اسلامی کونسل آف جمیکا کی مذہبی تقریبات میں شامل ہونے لگے۔ کونسل نے آپ کا انتخاب کرکے آپ کو چند ماہ کے لئے پاکستان میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے بھجوایا۔ وہاں قیام کے دوران آپ نے مختلف مسلمان فرقوں سے متعلق معلومات حاصل کیں۔ آپ کو احمدیت کے بارہ میں بھی علم ہوا اور مسیح کی آمد ثانی سے متعلق جماعت کے نظریات میں دلچسپی بھی پیدا ہوئی لیکن تفصیل جاننے سے قبل ہی آپ کو واپس جمیکا آنا پڑا۔ اور واپس جمیکا پہنچنے کے بعد آپ نے تحقیق کی اور احمدیت قبول کرلی۔
مضمون نگار بہاماس کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ اس جزیرہ میں عیسائی مذہب کے مختلف فرقوں کے افراد کی اکثریت ہے۔ یہاں مسلمان اور یہودی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جزیرہ پر نوجوانوں کی اکثریت ہے اور ان کی اکثریت عیسائیت سے تھک چکی ہے اور کسی دوسرے مذہب کی منتظر ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جزیرہ کا ہر باشندہ دوسرے باشندہ کو جانتا ہے۔ مجھے سرِراہ ایک شخص ملا جس سے تفصیلی بات چیت ہوئی۔ اچانک بارش کا طوفان شروع ہوگیا اور مجھے واپس ہوٹل آنا پڑا۔ ہوٹل کے کمرہ میں مَیں نے حضرت مفتی محمد صادق صاحب ؓ کے بارہ میں سوچنا شروع کیا کہ اس جزیرہ پر وہ تن تنہا پہنچ کر وہ کیسی کیسی مشقّت اٹھاتے رہے تھے حتّٰی کہ جیل بھی جانا پڑا۔ جبکہ میرے پاس تو لٹریچر اور پمفلٹس سے بھرا ہوا ایک بڑا سوٹ کیس بھی موجود تھا۔
اگلی صبح میری ملاقات ایک امیر دکاندار سے ہوئی جو اس جزیرہ پر جائداد کی خریدوفروخت کا کاروبار بھی کرتا رہا تھا۔ اُس کے ساتھ تفصیلی گفتگو ہوئی تو وہ اتنا متأثر اور خوش تھا کہ بہت سے دوسرے دکانداروں سے بھی میرا تعارف کروایا۔ پھر جس کسی سے بھی میری بات چیت ہوئی وہ بہت خوش ہوا اور ہر ایک کا رویّہ بہت مثبت رہا۔ جس کو بھی لٹریچر دیا گیا اُس نے وہ خوشی سے قبول کیا اور اسلام کے بارہ میں مزید معلومات حاصل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ مجھے احساس ہوا کہ بہاماس کے باسی اسلام کی سچی تعلیم کے شدّت سے منتظر ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں