حاصل مطالعہ

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، روزنامہ الفضل انٹرنیشنل 23؍جون 2025ء)

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ13؍فروری2014ء میں پاکستان کے چند قومی اخبارات سے تین اقتباسات منقول ہیں جن کا خلاصہ ہدیۂ قارئین ہے (مرسلہ:مکرم علیم احمد نعیم صاحب):

محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب

٭…محترم ڈاکٹر صفدر محمود لکھتے ہیں کہ کئی دانشور زندگی کی بےثباتی کا تمسخر اُڑاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تصوّر ہماری پسماندگی کا ذمہ دار ہے کیونکہ زندگی کو اہمیت دیے بغیر ہم ترقی نہیں کرسکتے۔ جبکہ مجھے ڈاکٹر عبدالسلام صاحب سے ملنے کا دو تین بار اتفاق ہوا۔ وہ یقین رکھتے تھے کہ زندگی اذان سے نماز تک کا وقفہ ہی ہے۔ اس کے باوجود انہوں نے اس محدود وقفے میں اعلیٰ درجے کی تحقیق کی اور اعلیٰ ترین اعزاز حاصل کیا۔ ہم جانتے ہیں کہ دنیا میں نبیوں اور اولیائے کرام سے لے کر سائنس دانوں، مفکروں اور عظیم سیاسی راہنماؤں تک نے بنی نوع انسان کی زندگیوں کے نقشے بدل دینے کے کارنامے بھی اسی مختصر زندگی میں سرانجام دیے ہیں۔

گراموفون

٭… محترمہ کشور ناہید لکھتی ہیں کہ ہر نئی دریافت پر مذہبی علماء کا ردّعمل نہایت مخالفانہ ہوتا ہے لیکن پھر وہ اُس کو اپنی زندگی کا حصہ بنالیتے ہیں۔ خواہ یہ لاؤڈسپیکر اور ٹیلی ویژن کی ایجاد ہو، چاند پر پہنچنے کا اعلان ہو۔ کچھ ایسا ہی حال آجکل پاکستان کے ایک حصے میں پولیو کے قطرے پلانے سے متعلق ہے کیونکہ ان قطروں کو حرام اور مردانہ جرثوموں کے لیے خطرناک قرار دیا جاچکا ہے۔ چنانچہ بعض تو پولیو قطرے پلانے والی خواتین کا قتل بھی ثواب سمجھ کر کرتے ہیں۔
٭…جناب جاوید چودھری اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ ایک روز افلاطون نے اپنے استاد سقراط کو بتانا چاہا کہ اُن کا نوکر بازار میں اُن کے بارے میں ہرزہ سرائی کر رہا تھا۔ سقراط نے افلاطون کو ہاتھ کے اشارے سے روکا اور پھر کہا کہ کسی کو ایسی بات بتانے سے پہلے تین باتیں خود سوچو۔ پہلی یہ کہ جو بتانے جارہے ہو کیا وہ سچ ہے؟ دوسری یہ کہ کیا یہ بات احسن یعنی اچھی ہے؟ اور تیسری یہ کہ اُس بات سے سننے والے کو کوئی فائدہ حاصل ہوگا؟ اگر ان تینوں سوالوں کا جواب ہاں میں ہو تو وہ بات بتادو ورنہ اسے نہ بتانا ہی بہتر ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں