حضرت امام ابن تیمیہؒ

آپؒ کا نام احمد، کنیت ابوالعباس، لقب تقی الدین اور عرف ابن تیمیہ تھا۔ آپؒ 1263ء میں دمشق کے علاقہ حران میں شہاب الدین کے ہاں پیدا ہوئے جو بہت بڑے عالم اور محقق تھے۔ ابھی آپؒ چھ برس کے تھے کہ تاتاریوں نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ اس تباہ کاری سے حران بھی محفوظ نہ رہ سکا اور آپؒ کے والد اپنے کنبہ کو لے کر دمشق میں پناہ گزین ہوئے۔ چنانچہ امام ابن تیمیہؒ کی باقاعدہ تعلیم کا آغاز دمشق میں ہی ہوا۔ آپؒ بچپن سے بہت ذہین واقع ہوئے تھے۔ ضعیف اور صحیح احادیث کی خوب نشاندہی فرماتے۔ جامع مسجد میں نماز جمعہ کے بعد قرآن کریم کا درس دیتے۔ بیس سال کی عمر میں باقاعدہ فتویٰ دینے لگ گئے۔ اکتیس سال کی عمر میں حج کے لئے روانہ ہوئے۔
حضرت امام تیمیہؒ تلوار کے دھنی تھے۔ کئی بار تاتاریوں کو مسلمانوں پر ظلم سے روکنے کیلئے آپؒ نے تلوار اٹھائی۔ کئی بار مسلمانوں کی دادرسی کے لئے آپؒ کو تاتاریوں کے امیر قتلو خان کے دربار میں جانا پڑا۔ ایک بار اُس نے بطور تمسخر کہا کہ آپ نے آنے کی زحمت کیوں اٹھائی، مجھے بلا لیا ہوتا۔ آپؒ نے بلاتوقف فرمایا کہ حضرت موسیٰؑ بھی فرعون کے دربار میں خود جایا کرتے تھے۔
جب آپؒ نے بدعات کا ردّ کیا تو آپؒ کے خلاف علماء کی ایک جماعت نے طوفانِ بدتمیزی برپا کردیا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ آپؒ خدا کے مجسم ہونے کے قائل ہیں۔ سلطان مصر کے دربار میں آپؒ کا علماء سے مباحثہ کروایا گیا اور علماء کے اکسانے پر آپؒ کو آپ کے دو بھائیوں سمیت قید میں ڈال دیا گیا۔ ڈیڑھ سال بعد آپؒ کو قید سے نجات ملی تو آپؒ نے پھر درس و تدریس کا سلسلہ شروع کردیا۔ اس پر علماء نے آپؒ کے خلاف مسلح جلوس نکالے اور حکومت نے آپؒ کو دوبارہ قید میں ڈال دیا۔ پھر آپؒ نے قیدخانہ میں ہی اصلاحات کا کام شروع کردیا۔ چنانچہ آپ کو اسکندریہ منتقل کرکے ایک برج میں قید کردیا گیا، قتل کرنے اور سمندر میں غرق کرنے کی دھمکی بھی دی گئی۔
709ھ میں سلطان ناصر مصر آیا تو اُس نے آپؒ کی رہائی کا حکم دیا۔ آپؒ کا ایک مخالف لکھتا ہے ’’میں نے ابن تیمیہ سے بڑھ کر فراخ دل، خطا بخش اور بردبار نہیں دیکھا۔ ہم نے آپ کی ایذادہی میں کوئی دریغ نہ کیا لیکن جب آپ کو اختیار ملا تو آپ نے ہمیں معاف کردیا‘‘۔
713ھ میں جب سلطان تاتاریوں کی سرکوبی کے لئے شام روانہ ہوئے تو امام تیمیہؒ بھی اپنے مجاہدین کے ساتھ شام تشریف لے گئے۔ عوام نے وہاں آپؒ کا استقبال کیا لیکن علماء نے بعض مسائل میں اختلاف کی وجہ سے آپؒ کو قید کروادیا اور آپؒ چھ ماہ قیدخانہ میں رہے۔ 726ھ میں آپؒ نے قبروں کی زیارت کی بدعت کے خلاف فتویٰ دیا تو آپؒ کو پھر قید کردیا گیا۔ جب حکام کو پتہ چلا کہ امام نے قیدخانہ میں تصنیف کا کام شروع کردیا ہے تو آپؒ سے قلم و دوات چھین لئے گئے۔ اس پر آپؒ کوئلہ سے تحریریں لکھ کر باہر بھجواتے رہے اور سارا وقت عبادت اور قرآن کریم کی تلاوت میں گزارنے لگے۔ فقہ میں آپؒ حنبلی مسلک کے پیرو تھے۔
10؍ربیع الاول 1328ء کو 65 سال کی عمر میں آپؓ کی وفات ہوئی۔ اس وقت بھی آپؒ قرآن کریم کی تلاوت فرما رہے تھے۔ پہلی نماز جنازہ قلعہ میں ہوئی دوسری جامع مسجد دمشق میں اور تیسری شہر سے باہر۔ متعدد شہروں میں نماز جنازہ غائب بھی ادا کی گئی۔ روایت ہے کہ جنازہ کے ساتھ پانچ لاکھ افراد تھے۔
آپؒ کی پانچ سو چھوٹی چھوٹی کتب بیان کی جاتی ہیں۔ آپؒ کا ایک قول ہے: ’’دنیا میں ایک بہشت ہے جو شخص اس بہشت میں نہیں آتا اسے بہشت آخری حصہ میں نہیں مل سکتا۔ مگر میرے دشمن کیا کریں گے، میرا بہشت میرے سینے میں ہے جہاں جاؤں یہ مجھ سے جدا نہیں ہو سکتا‘‘۔
ایک مرتبہ فرمایا: ’’قید میری خلوت ہے، قتل میری شہادت ہے اور جلاوطنی میری سیاحت‘‘۔
شیخ الاسلام حضرت امام ابن تیمیہؒ کا ذکر خیر مکرم وارث احمد فراز صاحب کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 9؍جنوری 1999ء میں شامل اشاعت ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں