حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب رضی اللہ عنہ

ہفت روزہ ’’بدر‘‘ 5؍اکتوبر 1995ء میں ایک مضمون محترم چودھری مبارک علی صاحب درویش قادیان کا شائع ہوا ہے جس میں وہ حضرت اقدسؑ کے بعض اصحاب کے بارے میں ذاتی مشاہدہ پر مبنی یادداشت بیان کرتے ہیں۔
حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب رضی اللہ عنہ المعروف حضرت بھائی جی کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ حضرت بھائی جی ؓ پر فالج کے حملہ کے بعد سے نگہداشت کے لئے میرا قیام ان کے ساتھ رہا تو آپؓ کے توکل علی اللہ کے نظارے دیکھے۔ آپؓ فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ میرا کفیل رہا ہے اور جب پیسوں کی ضرورت ہو تو ایک دو دن پہلے بتا دیا کرو۔ چنانچہ کئی مرتبہ کسی ضرورت کا ذکر ہوتا تو اگلے روز صبح فرماتے میرے تکئے کے نیچے سے رقم لے لو …۔
مضمون نگار مزید بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنی کچھ جدی اراضی کے حصول کے لئے ایک مقدمہ کے سلسلہ میں دعا کی درخواست کی تو حضرت بھائی جیؓ نے اگلے روز بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ اراضی مل جائے گی لیکن چند روز بعد مقدمہ کا فیصلہ میرے خلاف ہوگیا۔ آپؓ کو اس فیصلہ کی اطلاع ملی تو آپؓ ناشتہ کر رہے تھے، رک گئے اور نہایت جلال سے فرمایا میرے خدا نے تو آج تک جھوٹا وعدہ میرے ساتھ نہیں کیا۔… چنانچہ آپؓ کی وفات کے کئی سال بعد متعلقہ محکمہ نے اطلاع دی کہ ساری اراضی واگذار کی جاتی ہے۔
حضرت بھائی جیؓ نے ایک باراس سوال کے جواب میں کہ’ لاہوری جماعت میں کئی بڑے علماء کے شامل ہونے کی کیا وجہ تھی؟‘ فرمایا کہ ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دفعہ مجھے افسر جلسہ سالانہ مقرر فرمایا اور یہ پابندی لگادی کہ چاول میری اجازت کے بغیر نہ پکائے جائیں۔ چنانچہ جب مولوی محمد علی صاحب نے باورچی سے چاول تیار کرنے کو کہا تو اس نے اس پابندی کا ذکر کیا۔ اس پر مولوی صاحب نے شدید ناراضگی سے کہا کہ جو لنگر کی روٹیوں پر پل رہے ہیں حضرت صاحب نے اب ان کو افسر مقرر کردیا ہے۔ جب مجھے اس بات کا علم ہوا تو میرا دل بھر آیا اور میں مسجد میں جاکر سجدہ میں روتا رہا کہ یا اللہ تو جانتا ہے کہ میں لنگر کی روٹیاں کھانے نہیں آیا، بلکہ تیرے مسیح کی محبت میں سب کچھ چھوڑ آیا ہوں‘‘۔ یہ واقعہ سناتے ہوئے آپؓ کا چہرہ متغیّر ہوگیا اور آپؓ نے فرمایا ’’ان لوگوں کو تکبّر لے ڈوبا‘‘۔
مضمون نگار حضرت بھائی عبدالرحمٰن صاحبؓ کا بھی ذکر کرتے ہیں جو حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے عاشق صادق تھے اور جب کبھی بھی ذکر حبیبؑ کے موضوع پر ان کی تقریر ہوتی تو جذبات ان کے ہاتھ سے نکل جاتے اور وہ زار و قطار رونا شروع کر دیتے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں