حضرت حافظ صالح محمد الٰہ دین صاحب

حضرت حافظ صالح محمد الٰہ دین صاحب (صدر، صدر انجمن احمدیہ قادیان) 20؍مارچ 2011ء کو امرتسر میں وفات پاگئے۔ آپ کا ذکرخیر قبل ازیں 19؍جون 2015ء اور 11؍ستمبر 2015ء کے شماروں کے کالم‘‘الفضل ڈائجسٹ’’میں شائع ہوچکا ہے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطبہ جمعہ میں آپ کا ذکرخیر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ تقریباً چار سال سے یہ قادیان کی انجمن احمدیہ کے صدر تھے اور اس سے پہلے کافی عرصہ ممبر انجمن احمدیہ بھی رہے ہیں۔عثمانیہ یونیورسٹی سے انہوں نے فزکس میںM.Sc.کی تھی۔ پھر امریکہ سے اسٹرانومی، ایسٹروفزکس میںPh.D. کی۔ 1963ء میں شکاگو کی آبزرویٹری یونیورسٹی سےPh.D. کی۔ علمی لحاظ سے ان کے قریباً پچاس مضامین اور ریسرچ پیپر بین الاقوامی رسالوں میں شائع ہوئے جن پر کئی ایوارڈز بھی ان کو ملے۔ ہندوستان کا مشہور ایوارڈ Meghnad Saha ایوارڈ فارتھیوریٹیکل سائنس 1981ء میں آپ کو دیا گیا۔بے شمار ایوارڈ ان کو ملے لیکن عاجزی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی۔
سورج اور چاند گرہن کے علاوہ Dynamics of Galaxiesآپ کے پسندیدہ مضمون تھے جن کو قرآن اور احادیث کے حوالہ سے صداقت حضرت مسیح موعودؑ کے لیے استعمال کرتے اور اس بارہ میں آپ مختلف ممالک کے سالانہ جلسوں میں تقریریں بھی کرتے رہے۔ 1994-95ء میں اس نشان پر صدسالہ پروگرام کے تحت کئی جماعتی رسائل میں آپ کے مضامین شائع ہوئے۔ 2009ء میں’’ہستی باری تعالیٰ فلکیات کی روشنی میں‘‘کے موضوع پر آپ نے بڑی پُر مغز، بڑی علمی تقریرکی۔ اپنے سائنسی مضامین کاہمیشہ قرآنی آیات سے استدلال کیا کرتے تھے اور اس میں اِن کو بڑا ملکہ تھا اور اس طرف ان کا طبعی میلان بھی تھا۔ مختلف یونیورسٹیز کے ریسرچ سکالر اور ریسرچ فیلو بھی تھے۔ یہ لمبی فہرست ہے۔ Great Minds of the 21st Century, American Biographical Institute Raleigh U.S.A. نے آپ کو 2003ء میں ایوارڈ بھی دیا۔
آپ کی تاریخی دینی خدمات بھی کافی ہیں۔آپ نے کئی کتب مثلاً ’’امام مہدی کی صداقت کے دو عظیم نشان۔ چاند اور سورج گرہن‘‘، ’’صداقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ازروئے نشان سورج چاند گرہن‘‘، ’’نشانات سورج گرہن اور چاند گرہن‘‘،’’ہمارا خدا‘‘۔ اسی طرح انگریزی میں بھی کئی کتب تحریر کیں۔ مثلاً:
“Dynamics of Coliding Galaxies”,
“The Dynamics of Stallers System”,
“The Goal of the Man and the Way to Reach it”,
“Views of Scientists on the Existance of God”.
تعلق باللہ بھی بڑا تھا۔ ان کی اہلیہ نے بتایا کہ پاکستان آئے تو کراچی ائیرپورٹ پر کسٹم والوں نے الیکٹرونک کی بعض جائز چیزیں روک لیں، بڑی پریشانی کا سامنا تھا۔ تھوڑی دیر بعد مَیں نے دیکھا تو صالح الٰہ دین صاحب غائب تھے۔ مَیں پریشان ہوئی کہ کہاں چلے گئے ہیں۔ کچھ دیر بعد واپس آئے تو کہنے لگے مَیں نے سوچا کہ اس صورتِ حال میں خدا ہی ہے جو مدد کر سکتا ہے۔ چنانچہ مَیں دو رکعت نفل ادا کرنے چلا گیا۔ چلو اب چلیں اور اب ہمیں چیزیں مل جائیں گی۔ چنانچہ بڑے اعتماد سے کسٹم والوں کے پاس گئے۔ اس عرصہ میں کسٹم کا عملہ تبدیل ہو چکا تھا۔ انہوں نے معذرت بھی کی اور ان کی چیزیں بھی ان کو دے دیں۔
ڈاکٹر نصرت جہاں اِن کی اہلیہ کی بہن ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ جب مَیں قادیان گئی تو مَیں نے دیکھا کہ اپنی بیماری کی وجہ سے مسجد نہیں جا سکتے تھے۔ اس کا بہت اُن کو دُکھ تھا۔
قرآنِ شریف سے ان کو بڑا تعلق تھا، اور قرآنِ شریف خود بڑی ہمت کر کے انہوں نے گھر پہ ہی حفظ کیا ہے۔ پھر ان کی والدہ نے جب اِن کا شوق دیکھا تو اِن کے لیے قرآن حفظ کرانے کے لیے ایک معلم رکھا گیا۔ خلافت کی کامل اطاعت تھی اور بڑی جانثاری کا جذبہ تھا۔ درویشانِ قادیان سے بہت عقیدت رکھتے تھے۔ بے نفس، بے ضرر، تہجد گزار، قرآنِ کریم کی آیات زیرِ لب تلاوت کرتے رہتے۔ مسجد اقصیٰ میں جلسہ سالانہ کے ایام میں تہجد کی امامت بھی کرواتے تھے۔ ہمیشہ دینی مجالس میں بیٹھنا پسند کیا۔ دنیا سے کوئی سروکار نہیں تھا۔
ایک مربی صاحب نے لکھا ہے کہ ایک دفعہ اپنے کسی رشتہ دارکی شادی میں شامل ہونے کے لیے گئے تو جب نکاح کا اعلان ہونے لگا تو اِن کے دنیاوی مقام اور خاندانی بزرگی کی وجہ سے بھی انہوں نے کہہ دیا کہ نکاح آپ پڑھائیں۔ اس پر بڑے سخت ناراض ہوئے کہ تم لوگ مربیوں کا احترام نہیں کرتے، یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ مربی یہاں موجود ہے اور مَیں نکاح پڑھاؤں۔ آئندہ اگر ایسی بات کی تومَیں تمہاری شادی میں شامل نہیں ہوں گا۔
2008ء کو جب جوبلی کے جلسے پر عہدِ خلافت کیا تو اس کے بعد سے ان کی حالت ہی اَور ہو گئی تھی۔ ہر وقت تبلیغ کے لیے کوشاں رہتے۔ اپنا ای میل ایڈریس بنوایا اور اپنے نئے اور پرانے جاننے والوں اور سائنسدانوں سے دوبارہ contact کیے۔ انہیں قادیان آنے کی دعوت بھی دیتے رہے۔ ضعیفی کی حالت میں بھی کمزوری کے باوجود دہلی میں سائنسدانوں کی میٹنگ میں صرف اس غرض سے تشریف لے گئے کہ اُن سے رابطے ہوں گے۔ اُن کو جماعت کا لٹریچر دیا اور کئی پروفیسر صاحبان سے گھر ملنے گئے اور اُن کو قادیان آنے کی دعوت دی۔
2008ء میں جب یو این او کی جانب سے انٹرنیشنل ایئر آف اسٹرانومی منایا گیا تو بنگلور گئے اور وہاں اُن لوگوں کے سامنے قرآنِ مجید اور سائنس کے موضوع پر ضعیفی کے باوجود بڑی لمبی اور نہایت عالمانہ تقریرکی۔ اور اس کے بعد پھر کئی پروفیسر صاحبان سے رابطے کیے۔
سورج گرہن پر ہمیشہ مزید سے مزید تحقیق میں لگے رہتے تھے۔ کمپیوٹرچلانا نہیں آتا تھا دوسروں سے مدد لیا کرتے تھے اور انجمن کے کاموں کے بعد جب وقت میسر ہوتا تو خود کارکن کے پاس آجاتے اور پھر نئے نئے ٹاپکس (Topics)پر تحقیق کرتے۔ کہتے تھے کہ ہمیں نوجوانوں کی ایک ٹیم بنانی چاہئے جو ہر ماہ شہر سے باہر کھلے دیہات میں جاکر نیا چاند تلاش کرے اور ایک Database بنائے جس میں ہر ماہ کا چاند کب دیکھا گیا اس کو نوٹ کرے کیونکہ یہ چیز سائنس ہمیں نہیں بتا سکتی کہ چاند آنکھوں سے کب نظر آئے گا۔ اور اس ریکارڈ کو اگر ہم محفوظ رکھیں تو کئی اعتراضات کے جوابات نکلیں گے۔ اُن کی اپنی ایک سوچ تھی جس پر وہ غور کیا کرتے تھے۔ کہتے تھے کہ آنکھوں سے چاند کا مشاہدہ کرنا بہت ضروری ہے۔ مسلمانوں نے جس قدر حساب میں ترقی کی اس کی وجہ چاند کا مشاہدہ ہی تھا۔ قرآنِ مجید میں بھی اللہ تعالیٰ نے چاند کی گردش کے متعلق فرمایا ہے کہ

لِتَعلَمُوا عَدَدَالسِّنِینَ وَالحِسَابً (یونس:6)۔

تو کہتے چاند کو ضرور آنکھوں سے دیکھنا چاہئے۔ راتوں کو اکثر ستاروں کا مشاہدہ کرتے اور کہتے کہ فرانس کا ایک بڑا سائنس دان (ہنری پوائن کئیر) بھی یہی کہتا تھا کہ ستاروں سے صرف وہی روشنی نہیں آتی جو ہماری آنکھوں کو منورکرتی ہے بلکہ اِن سے ایک ایسی روشنی بھی آتی ہے جو ہمارے دماغوں کو منور کرتی ہے۔ چنانچہ آپ قرآنِ مجید کے حکم کے مطابق ہمیشہ زمین و آسمان کی پیدائش پر غور کرنے والے اولوالالباب میں سے تھے۔
آپ کے دادا احمدی ہوئے تھے اور اُن کا بھی احمدی ہونے کا واقعہ عجیب ہے۔ کہتے ہیں کہ مَیں کاروباری آدمی تھا، دنیا دار آدمی تھا۔ دین سے کوئی رغبت نہیں تھی۔ ایک دن ’’ریویو آف ریلیجنز‘‘ رسالہ میرے پاس آیا اور اس پر ساتھ یہ بھی تھا کہ اس کے لیے اشتہار دیں تو اس پر مَیں نے ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ کا اشتہار بھی دیکھا۔ وہ کتاب مَیں نے منگوا کر پڑھی اور پھر یوں ہوا جیسے سارے اندھیرے چھٹ گئے۔ اس کے بعد میرے پر ایسا انقلاب آیا ہے کہ مَیں روزے بھی رکھنے لگ گیا۔ نفلی روزے بھی رکھنے لگ گیا۔ نمازوں اور تہجد کی طرف بھی توجہ پیدا ہو گئی۔ حضرت مصلح موعودؓ نے بھی اُن کے بارے میں ایک خواب دیکھی تھی اور اُس کی یہ تعبیر کی تھی کہ یہ احمدیت قبول کریں گے اور عظیم الشان روحانی فیض اور خدمت کی توفیق پائیں گے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے بیعت کرلی۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اُن کا ذکر کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا ہے کہ ’’متواتر سلسلہ کی خدمت میں اُن کا نمبر غالباً سب سے بڑھا ہوا ہے۔ اِن کی مالی حالت مَیں جانتا ہوں ایسی اعلیٰ نہیں جیسی کہ لوگ اُن کی امداد کو دیکھ کر سمجھ لیتے ہیں۔ لیکن ان کو خدا تعالیٰ نے نہایت پاکیزہ دل دیا ہے۔ اور مجھے ان کی ذات پر خصوصاً اس لیے فخر ہے کہ اِن کے سلسلہ میں داخل ہونے کے وقت اللہ تعالیٰ نے مجھے اُن کے اخلاص کے متعلق پہلے سے اطلاع دی تھی حالانکہ مَیں نے اُن کو دیکھا بھی نہ تھا۔ میں دیکھتا ہوں کہ وہ سلسلہ کے درد میں اس قدر گداز ہیں کہ مجھے اُن کی قربانی کو دیکھ کر رشک آتا ہے اور میں اُن کو خدا کی نعمتوں میں سے ایک نعمت سمجھتا ہوں۔ کاش کہ ہماری جماعت کے دوسرے دوست اورخصوصاً تاجر پیشہ اصحاب اُن کے نمونہ پر چلیں اور اُن کے رنگ میں اخلاص دکھائیں۔‘‘ (الفضل29؍جنوری 1926ء)
مولوی محمد اسماعیل صاحب یادگیری کہتے ہیں کہ مَیں نے اندازہ لگایا ہے کہ اُن کی مالی قربانی اتنی ہوتی تھی کہ سولہ آنے کا ایک روپیہ تھا۔ چودہ آنے یہ خدمتِ دین پر خرچ کرتے اور صرف دو آنے اپنی ضروریات کے لیے رکھتے تھے۔ اسی طرح حضرت مصلح موعودؓ نے اُن کے بارہ میں ایک دفعہ یہ بھی فرمایا تھا کہ تبلیغِ احمدیت کے متعلق اُن کا جوش ایسا ہے جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے صحابہ مولوی برہان الدین صاحب وغیرہ میں تھا۔ اور خدا کی راہ میں خرچ کرنے کا جوش اس طرح ہے جیسے سیٹھ عبدالرحمن صاحبؓ میں تھا۔ …حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے پاس اللہ تعالیٰ نے سیٹھ عبدالرحمن اللہ رکّھا کی شکل میں اپنے فرشتے بھجوائے تھے اور میرے پاس آپ کی شکل میں فرشتے بھجوائے ہیں۔ (تابعین اصحاب احمدجلد نہم)
حضرت حافظ صالح محمد الٰہ دین صاحب کی سادگی اور عاجزی کا ایک واقعہ ان کے بیٹے نے یہ لکھا ہے کہ ایک دفعہ یہ دہلی کے سٹیشن پر کھڑے تھے اور سرخ قمیص پہنی ہوئی تھی اور جو قُلی،مزدور سامان اٹھانے والے ہوتے ہیں، اُن کی بھی سرخ قمیصیں ہوتی ہیں۔ تو ایک فیملی آئی۔ انہوں نے سمجھا یہ قُلی ہے۔ انہوں نے کہا یہ ہمارا سامان اٹھاؤ اور وہاں پہنچا دو۔ انہوں نے بغیر کچھ کہے اُن کا سامان اٹھایا اور لے گئے۔ سامان اتار کے جب اُس شخص نے مزدوری دینی چاہی تو کہنے لگے کہ آپ نے سامان پہنچانے کا کہا تھا مَیں نے آپ کی مدد کر دی ہے۔ اس کی کوئی اجرت نہیں ہے۔ وہ صاحب اس بات پربڑے شرمندہ ہوئے۔
یہاں بھی جلسہ پر 2003ء میں جب آئے ہیں اور کچھ اُن کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں تھی، ائیر پورٹ پر کچھ ٹرانسپورٹ کا انتظام صحیح نہیں تھا۔ بڑی دیر انتظار کرنا پڑا۔ پھر رہائش کا انتظام بھی ایسا نہیں تھا لیکن بغیر کسی شکوے کے انہوں نے جماعتی نظام کے تحت وہ دن گزارے۔اللہ تعالیٰ ان کو غریقِ رحمت کرے، ان کے بچوں کو بھی نیکیوں پر قائم رکھے۔ ان کی اہلیہ ان سے پہلے ہی وفات پا چکی ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں