حضرت حافظ قدرت اللہ خان صاحبؓ اور حضرت قمرالنساء بیگم صاحبہؓ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 19؍اپریل2008ء میں مکرم غلام مصباح بلوچ صاحب کے قلم سے حضرت حافظ قدرت اللہ خانصاحب شاہجہانپوریؓ کی سیرۃ و سوانح پر مشتمل ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
حضرت حافظ قدرت اللہ خانصاحبؓ شاہ جہان پور کے رہنے والے تھے۔ پولیس میں سب انسپکٹر کے عہدہ پر متعین تھے مگر چونکہ بہت نیک طبیعت تھے اور افسران بالا کے ناجائز مطالبات پورا نہیں کرسکتے تھے اس لئے ملازمت سے استعفیٰ دیدیا۔ شاہجہانپور میں آپ حضرت حافظ مختار احمد صاحبؓ کے زیرتبلیغ تھے جو آپ کو کتابیں بھی دیتے تھے۔ کتابیں پڑھ کر آپ آبدیدہ ہوکر فرماتے کہ میں غریب آدمی ہوں، روپیہ پیسہ سے سلسلہ کی خدمت نہیں کر سکتا دل چاہتا ہے کہ اگر کوئی میرے بچوں کو خرید لے تو میں وہ روپیہ حضرت صاحب کی خدمت میں بھیج دوں اور حضور اسے اشاعت اسلام میں خرچ کرلیں۔ پھر 1900ء میں آپ مع اہل و عیال ہجرت کرکے قادیان آگئے اور بیعت کرکے سلسلہ کی خدمت میں مصروف ہوگئے۔ حضورؑ نے آپ کو لنگرخانہ کے لیے قریبی دیہات سے ایندھن خرید کر لانے کے لیے مقرر فرمایا۔ آپؓ کا نام حضورؑ نے ’’حقیقۃ الوحی‘‘ میں ایک پیشگوئی کے گواہان میں بھی شامل فرمایا ہے جس میں پہلے بارش اور پھر زلزلہ آنے کی خبر دی گئی تھی۔ سخت زلزلہ والی پیشگوئی مورخہ 28 فروری 1907ء کے قبل از وقت سننے کے گواہوں میں حضورؑ نے آپ کا نام ’’قدرت اللہ خان مہاجر‘‘ درج فرمایا ہے۔
1906ء میں جب حضورؑ نے الٰہی بشارات کے تحت نظام وصیت کی بنیاد رکھی تو آپؓ اس کے اوّلین لبیک کہنے والوں میں سے تھے۔ آپؓ نے 19؍اپریل 1909ء کو قادیان میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئے۔
آپؓ کی اہلیہ حضرت قمر النساء بیگم صاحبہ ایک مخلص اور نیک سیرت خاتون تھیں، قادیان آنے کے بعد حضرت اماں جان نے از راہ شفقت ان کو’’ الدّار‘‘ میں جگہ دی جہاںان کو خدمت کی توفیق ملی۔ اُن کے سپرد حضرت اقدسؑ اور حضرت اماں جانؓ کے لیے کھانا تیار کرنا اور وقت مقررہ پر دودھ یا سردائی وغیرہ تیار کرکے دینا تھا۔ اس وجہ سے علی العموم آپ حضرت اماں جان ہی کے پاس رہا کرتی تھیں، اس دوران آپ کو یہ شرف بھی حاصل ہوا کہ آپ نے حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کو اپنا دودھ پلایا۔ اور ان کے بیٹے حضرت احمد اللہ خان صاحبؓ نے بھی کئی بار حضرت امّاں جان کا شیرمبارک پیا۔
آپؓ کے ایک بیٹے حضرت ڈاکٹر عبدالمجید خان صاحبؓ (وفات 9؍اکتوبر 1975ء۔ بہشتی مقبرہ ربوہ) بیان کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ اکثر تحریر کا کام چل پھر کر کرتے، بعض اوقات حضورؑدرمیان میں یا دوات کے نزدیک جاکر ٹھہر جاتے جس طرح کہ کسی کی کوئی بات سن رہے ہیں اور میں نے اکثر اس طرح دیکھا۔ اُس وقت میری عمر غالباً 12 سال کی تھی۔
آپؓ کے ایک بیٹے حضرت حافظ عبدالجلیل خان صاحبؓ (وفات یکم دسمبر 1970ء) فرماتے ہیں کہ حضرت خلیفۃالمسیح الاول جب 1912ء میں لاہور تشریف لائے تو آپؓ کے دریافت فرمانے پر کہ کیا یہاں کوئی حافظ قرآن بھی ہیں؟ مجھے بلایا گیا۔ جب میں حاضر ہوا تو حضورؓ مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور میری پیٹھ پر ہاتھ پھیر کر فرمایا خدا تمہیں برکت دے گا، پھر فرمایا نماز پڑھاؤ۔ چنانچہ تین دن حضورؓ نے میرے پیچھے نمازیں پڑھیں، ان ایام میں مجھے بیس پارے یاد تھے بعد ازاں میں نے سارا قرآن یاد کر لیا۔ حضورؓ نے واپس قادیان جاکر میری والدہ سے بھی میرا ذکر کرکے خوشی کا اظہار فرمایا۔
11؍ اکتوبر 1905ء کو حضور علیہ السلام نے ایک رؤیا میں دیکھا کہ :’’قدرت اللہ کی بیوی روپوں کی ایک ڈھیری میرے پیش کرتی ہے اس میں ایک لکڑی بھی ہے۔‘‘ (بدر 13 ؍اکتوبر 1905ء صفحہ 2 )
حضرت قمرالنساء بیگم صاحبہؓ بھی ابتدائی موصیہ تھیں۔ وصیت نمبر130 تھا۔ آپؓ نے 11جنوری 1926ء کو 72 سال کی عمر میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئیں۔ آپؓ بروقت نماز کی ادائیگی اور نماز تہجد کی پابند تھیں۔ دوسروں کے دکھ سکھ میں شریک ہونا اور صدقہ و خیرات کرنا عادت تھی۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے جنازہ پڑھایا اور نعش کو کندھا دیا۔ آپؓ کے چار بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔ ایک بیٹی حضرت شیخ غلام احمد صاحب واعظ کی اہلیہ بنیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں