حضرت حافظ نبی بخش صاحب رضی اللہ عنہ

حضرت حافظ نبی بخش صاحبؓ کے حالات زندگی کا ایک حصہ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 30؍اکتوبر 1996ء میں شامل اشاعت ہے۔ حضرت حافظ صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ مَیں کمزوری نظر کی شکایت لے کر حضرت حکیم نورالدین صاحبؓ کی خدمت میں علاج کیلئے حاضر ہوا تو آپؓ نے فرمایا شاید موتیا اُترے گا۔ میں بہت پریشان ہوا۔ پھر ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ اور ڈاکٹر محمدحسین صاحب سے بھی معائنہ کرایا۔ سب نے یہی کہا کہ موتیا اُترے گا۔ میں بہت پریشانی میں حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آنکھوں کے دکھنے کا عرض کیا۔ آپؑ نے اسی وقت الحمد پڑھ کر آنکھوں پر پھونک دی اور دست مبارک پھیر کر فرمایا کہ میں دعا کروں گا۔ پھر اس کے بعد نہ موتیا اترا اور نہ ہی وہ کم نظری رہی۔
حضرت حافظ صاحبؓ کی شادی محترمہ عظیم بی بی صاحبہ سے ہوئی تھی۔ آپ کا ایک لڑکا جو قادیان میں زیر تعلیم تھا، 1906ء میں وفات پا گیا۔ اس وفات کے کچھ عرصہ بعد حضرت مسیح موعودؑ نے آپؓ سے فرمایا کہ آپؓ نے اپنے بچے کی وفات پر بڑا صبر کیا ہے، مَیں نعم البدل کے واسطے دعا کروں گا۔
چنانچہ حضورؑ کی دعاؤں سے حضرت حکیم فضل الرحمان صاحبؓ کی صورت میں وہ نعم البدل عطا ہوا جنہیں سالہا سال افریقہ میں تبلیغ اسلام کی توفیق ملی۔ جب حضرت حکیم صاحبؓ پہلی بار افریقہ گئے تو آپؓ کی والدہ کی وفات ہوگئی۔ وفات سے پہلے بعض عزیزوں نے مشورہ دیا کہ حضورؓ سے عرض کر کے حکیم صاحبؓ کو واپس بلا لیا جائے لیکن آپؓ کی والدہ نے سختی سے روکا اور فرمایا کہ میرا بیٹا دین کی خاطر گیا ہو ا ہے مجھے گھبرانے کی کیا ضرورت ہے۔
حضرت حکیم فضل الرحمان صاحبؓ اپنی والدہ کی وفات کے کچھ عرصہ بعد واپس آئے اور پھر دوبارہ افریقہ بھجوادیئے گئے۔ اس جدائی کے دوران آپؓ کے والد حضرت حافظ نبی بخش صاحبؓ بیمار ہوئے تو حضرت مصلح موعودؓ نے ازراہ شفقت حضرت حکیم صاحبؓ کو بذریعہ جہاز واپس آنے کی اجازت عطا فرمائی لیکن آپؓ افریقہ میں مخالفین کے ساتھ ایک مقدمہ میں مصروف تھے۔ چنانچہ واپسی میں تاخیر ہوتی گئی۔ اگرچہ حضرت حافظ نبی بخش صاحبؓ جذبہ پدری سے مجبور ہو کر بار بار آپؓ کے بارہ میں پوچھتے تھے لیکن اس بات کے شدید مخالف تھے کہ ان کی طرف سے اس بارہ میں حضورؓ کی خدمت میں عرض کیا جائے۔ آخر اسی انتظار کی حالت میں اُن کی وفات ہوگئی۔
– … ٭ … ٭ … ٭ … –
محترم عبدالحمید چوہدری صاحب ایک ایمان افروز واقعہ بیان کرتے ہیں جو حضرت حافظ نبی بخش صاحبؓ کے نواسے نے بیان کیا ہے۔
حضرت حکیم فضل الرحمن صاحبؓ سات سال سے نائیجیریا میں خدمت اسلام میں مصروف تھے۔ ایک روز آپؓ کی اہلیہ نے آپؓ کے والد محترم حضرت حافظ نبی بخش صاحبؓ سے کہا: میاں جی! اب تو سنا ہے مبلغین کی تبدیلیاں ہو رہی ہیں۔ پرانے مبلغین واپس آ رہے ہیں اور نئے بھجوائے جا رہے ہیں اب موقع ہے حضرت صاحب سے عرض کریں کہ اُنہیں (حکیم صاحب کو) گئے ہوئے سات سال ہو گئے ہیں، ان کی واپسی کا حق بنتا ہے وغیرہ۔
یہ سن کر حضرت حافظ صاحبؓ کے ہونٹ کانپنے لگے گویا کچھ کہنا چاہتے ہیں مگر کہہ نہیں پاتے۔ آخر کافی دیر کے بعد انہوں نے اپنے جذبات پر قابو پایا اور فرمانے لگے ’’بیٹی! مَیں تمہارے دکھ کو سمجھتا ہوں، تمہارا یہ حق ہے۔ مگر تم میرے دکھ اور مجبوری کو نہیں سمجھتیں، فضل الرحمان اب میرا بیٹا نہیں رہا۔ میں اسے خلیفۃ المسیح کی خدمت میں پیش کرکے اپنے حقوق پدری سے دستبردار ہو چکا ہوں۔ اب میرا کوئی حق نہیں ہے کہ میں حضور کے سامنے درخواست کروں کہ میرا بیٹا واپس بلا دیں۔ شریعت تمہیں اس مطالبہ کا حق دیتی ہے۔ تم فضل الرحمان کی بیوی ہو۔ تم حضرت صاحب کے پاس جاؤ اور اپنا حق مانگو، مجھے بار بار تنگ نہ کرو‘‘۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں